Tuesday, November 29, 2005

وہ پندرہ فٹ گہرے پانی میں کود گیا

نوٹ فرمائیے: واقعہ حقیقی ہے لیکن نام فرضی ہیں ۔ چالیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ جمیل کو اس ادارے کی ملازمت شروع کئے سوا دو سال ہو چکے تھے۔ وہ آفیسرز کلب میں سکواش کھیلنے جاتا تھا ۔ آفیسرز کلب میں ایک سویمنگ پول تھا ۔ نزدیکی کنارے پر پانی 2 فٹ گہرا تھا اور دور والے کنارے کی طرف گہرا ہوتا جاتا تھا حتی کہ آخر میں لمبائی کے 20 فٹ حصّہ میں پانی 15 فٹ گہرا تھا۔ وہاں سپرنگ بورڈ لگے ہوئے تھے ۔ مئی کا مہینہ تھا۔ ایک سینئر آفیسر نے جمیل سے کہا " آپ سویمنگ پول پر نظر نہیں آئے"۔ جمیل نے بتایا کہ اسے تیرنا نہیں آتا۔ آفیسر نے مسکرا کر کہا "پانی میں جاؤ گے تو تیرنا سیکھو گے نا"۔ دوسرے دن جمیل سویمنگ پول پر پہنچ گیا۔ وہ آفیسر بھی آئے اور انہوں نے دو اچھے تیراکوں طلعت اور جمشید کے ذمّہ کیا کہ وہ جمیل کو تیرنا سیکھائیں۔ محنت کر کے ایک ماہ میں جمیل اس قابل ہو گیا کہ چار ساڑھے چار فٹ گہرے پانی میں چند منٹ تیر لیتا۔ ایک دن جمیل سویمنگ پول پر پہنچا تو وہاں اور ابھی کوئی بھی نہیں آیا تھا۔ شاور لے کر آیا تو دیکھا کہ ایک بارہ تیرا سالہ لڑکے نے سپرنگ بورڈ پر سے اچھل کر چھلانگ لگائی اور کوئی 12 فٹ پانی کی تہہ میں پہنچ کر ہاتھ پاؤں مار نے لگا ۔ جمیل کو احساس ہوا کہ لڑکا ڈوب جائے گا ۔ وہ بھاگتا ہوا دوسرے کنارے پر پہنچا دل میں کہا یا اللہ اسے بچا اور 15 فٹ گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ اتفاق سے وہ سیدھا تہہ تک پہنچا ۔ اس نے اپنے پاؤں سے فرش کو دھکا دیا جس سے وہ تیزی سے اوپر کی طرف اٹھا۔ اوپر آتے ہوۓ اس نے لڑکے کو اوپر کی طرف دھکا دیا ۔ جونہی جمیل کا سر پانی سے باہر نکلا اس نے اچھل کر غوطہ لگایا اور دوبارہ لڑکے کو اوپر دھکیلا۔ اس بار کچھ پانی جمیل کی ناک میں گھس گیا۔ جب جمیل کا سر باہر نکلا تھا تو اسے آوازیں سنائی دی تھیں۔ " سر۔ ایک دم پیچھے ہٹ جائیں"۔ چنانچہ دوسری بار جمیل کا سر پانی سے باہر نکلا تو وہ کوشش کر کے 4 فٹ دور کنارہ پر لگی سیڑھی تک پہنچا اور سویمنگ پول سے باہر نکل آیا۔ جمیل چند منٹ کھانستا رہا ۔ اس کے بعد اس نے دیکھا کہ ایمبولنس لڑکے کو لے کر جا رہی ہے ۔ ایمبولنس جانے کے بعد طلعت اور جمشید جمیل کے پاس آئے اور کہا "سر۔ یہ آپ نے کیا کیا ؟ آپ کو تیرنا بھی نہیں آتا اور آپ نے گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی" ۔ جمیل بولا "میں لڑکے کو ڈوبتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ اچھا ہوا آپ لوگ پہنچ گئے اور لڑکے کو بچا لیا"۔ طلعت بولا "سر۔ لڑکے کو ہم نے نہیں آپ ہی نے بچایا۔ آپ لڑکے کو پانی کی سطح پر لے آئے تھے۔ ہم نے تو اسے صرف پول سے باہر نکالا "

Sunday, November 27, 2005

فراغت

بچپن میں سنا کرتے تھے "خالی بیٹھے شیطان سوجھے"۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت عطا فرماۓ ہمارے اساتذہ کو ۔ انہوں نے ہماری تربیّت بھی کچھ ایسی کی ۔ مجھے نہ تو گلی کی نکّڑ پر کھڑے ہو کر یا پلّی پر بیٹھ کر گپیں ہانکنے کی عادت تھی اور نہ آوارہ گردی کی ۔ اپنا وقت گذارنے کے لئے میں اچھی کتابیں پڑھتا اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھا کرتا تھا ۔ جن پر میرے اساتذہ مجھے شاباش دیا کرتے تھے اور میں خوشی سے پھولا نہ سماتا ۔ کچھ دن پہلے میں اپنے کاغذات پھرول رہا تھا کہ مجھے بچپن کی لکھی ایک کہانی ملی جس پر میرے استاد اتنے خوش ہوۓ تھے کہ صبح دعا کے وقت انہوں نے سارے سکول کے طلباء اور اساتذہ کے سامنے پڑھ کر سنائی تھی ۔ وہ کہانی میں دو دن پہلے بلاگ پر لکھ چکا ہوں ۔ علّامہ اقبال فراغت کے سلسلہ میں کہتے ہیں ۔ ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ

Friday, November 25, 2005

جانچا تو دو کوڑی کا نہ نکلا ایمان اپنا

عبداللہ سوات کے پہاڑوں کی ایک خطرناک ڈھلوان پر چل رہا تھا کہ اس کا پاؤں پھسل گیا ۔ کچھ لڑھکنے کے بعد اس کے ہاتھ میں ایک جھاڑی کی ٹہنیاں آ گئیں اور وہ ان سے لٹک گیا ۔ اس نے نیچے کی طرف جانکا تو نیچے سیدھی ڈھیڑ دو سو فٹ گہری کھڈ دیکھ کر بہت پریشان ہوا ۔ جن ٹہنیوں سے وہ لٹکا ہوا تھا وہ کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتی تھیں ۔ ایک ایک لمحہ بہت بھاری گذر رہا تھا یہاں تک کہ عبداللہ کی گرفت کمزور ہونے لگی ۔ وہ اپنی پوری قوت سے چلّایا " کوئی ہے ۔ کوئی ہے ۔ بچاؤ بچاؤ " اچانک کہیں سے ایک بہت بھلی آواز آئی ۔ " عبد عبد ۔ سنو عبد " عبداللہ نے جلدی سے کہا " ہاں میں سن رہا ہوں تم کون ہو اور کہاں ہو ؟ " جواب آیا ۔ " میں ہوں تمہارا پیدا کرنے والا تمہارا رب ۔ میں ہر جگہ موجود رہتا ہوں " عبداللہ حیرانی سے بولا ۔ " آپ ۔۔۔ اللہ ۔۔۔ اللہ تعالی ہو ۔ یا اللہ میں وعدہ کرتا ہوں میں اب کبھی کوئی برا کام نہیں کروں گا ۔ ساری زندگی عبادت میں گذار دوں گا " آواز آئی ۔ " حوصلہ کرو عبد پہلے تمہیں بحفاظت اتار لیں پھر آرام سے بات کریں گے " عبداللہ بولا ۔ " مولا کریم پھر جلدی کریں" آواز آئی ۔ " میری بات غور سے سنو عبد اور جو کہوں وہ کرو " عبداللہ بولا ۔ " میرے مالک میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں " آواز آئی ۔ " عبد شاخ کو چھوڑ دو " عبداللہ سخت پریشانی میں بولا ۔" کے کے کے کیا آ آ آ آ ؟ " آواز آئی ۔ " ہاں عبد مجھ پر بھروسہ کرو اور بے فکر ہو کر شاخ چھوڑ دو " کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر عبداللہ کی آواز گونجی ۔ " کوئی ہے ۔ کوئی ہے ۔ بچاؤ بچاؤ "

Wednesday, November 23, 2005

خوشی صرف امیروں کی میراث ہے ؟ ؟ ؟

ضروری نہیں کہ خوش ترین شخص کے پاس ہر نعمت یا ہر آسائش ہو خوشی کا راز یہ ہے کہ انسان اپنی دسترس میں آنے والی چیز سے بھرپور فائدہ اٹھاۓ اور اللہ کا شکر ادا کرے کیونکہ اگر وہ بھی نہ ملتا تو کیا کرتا

Monday, November 21, 2005

مسلمانوں کی تاریخ بڑی کمزور ہے ؟ ؟ ؟

مسلم ہائی سکول میں ہمارے ایک استاد سبغت اللہ قریشی صاحب ایم اے انگلش اور ایم اے سوشل سائنسز تھے ۔ انہوں نے نویں اور دسویں جماعت میں ہمیں تاریخ اور جغرافیہ پڑھایا تھا ۔ نظم وضبط کے بہت پابند اور کلاس میں بہت سنجیدہ رہتے تھے ۔ جس دن تاریخ کی کلاس ہوتی پڑھانا شروع کرنے سے پہلے کہتے " مسلمانوں کی تاریخ بڑی کمزور ہے" ۔ کسی لڑکے کو پوچھنے کی ہمت نہ پڑی کہ ایسا کیوں کہتے ہیں ۔ میٹرک کے نتیجہ کے بعد ہم سکالر شپ حاصل کرنے والے چند لڑکے سکول گئے ۔ سب اساتذہ سے ملے اور مبارکیں وصول کیں ۔ ماسٹر قریشی صاحب نے ہمیں سینے سے لگا لگا کر مبارک باد دی ۔ ایک لڑکے نے ہمت کر کے پوچھا " ماسٹر صاحب ۔ مسلمانوں کی تاریخ تو بہت اچھی ہے ۔ آپ یہ کیا کہا کرتے تھے"۔ استاد صاحب نے ہنس کر کہا " نہیں بیٹا یہ بات نہیں جو آپ سمجھے ۔ یہ بات آپ کو بڑے ہو کر خود ہی سمجھ آ جاۓ گی" ۔ مجھے 40 سال قبل جب بات سمجھ میں آئی تو بہت دیر ہو چکی تھی محترم استاد ایک سال قبل 1964 میں اس فانی دنیا کو الوداع کہہ چکے تھے ۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ ۔ بات صحیح ہے کہ نہ تو ہم لوگ تاریخ پڑھنے میں دلچسی لیتے ہیں نہ گذری باتیں یاد رکھ کر ان سے کوئی سبق حاصل کرتے ہیں ۔ ہماری پسماندگی کی چند بڑی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے ۔

Saturday, November 19, 2005

حشر نشر

علامہ اقبال کے شعروں کے ساتھ بہت لوگوں نے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور بعض اوقات اس پسندیدگی نے حشر نشر کی صورت اختیار کی ۔ بہت پرانی بات ہے راولپنڈی میں راجہ بازار کے فوارہ چوک (جہاں کبھی فوارہ بنا دیا جاتا ہے اور کبھی توڑ دیا جاتا ہے) سے لیاقت روڈ پر چلیں تو بائیں طرف ایک ہوٹل ہوتا تھا "علی بابا ہوٹل ۔ آنہ روٹی دال مفت" روپے میں 16 آنے ہوتے تھے اور یہ روٹی آجکل کی پانچ روپے والی کے برابر تھی ۔ اس ہوٹل کی دیوار پر جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے ٹوٹل پر تو شاہین ہے کر بسیرا علی بابا کے ہوٹل پر اسی زمانہ میں ایک رسالے میں کارٹون شائع ہوا جس میں لکھا تھا
خودی کو کر بلند اتنا کہ جا پہنچے پہاڑی پر خدا بندے سے پھر پوچھے دس پترا اترسیں کس طراں

Friday, November 18, 2005

کامیابی کا راستہ

Thursday, November 17, 2005

محبت کی کنجی

گھر میں پیار و محبت کی فضا زندگی کی بنیاد ہے اپنے عزیزوں سے اختلاف کی صورت میں صرف حال کے معاملہ پر ہی نظر رکھیئے ماضی کی رنجشوں کو بیچ میں نہ لائیے یاد رکھیئے کہ بہترین تعلقات وہ ہوتے ہیں جن میں آپس میں ایک دوسرے سے محبت ایک دوسرے کی ضرورت سے بڑھ جائے

Tuesday, November 15, 2005

یا اللہ تیرے یہ بندے کدھر جائیں ؟

ہمارے ملک میں صرف ایک خود ساختہ زمینی خدا کے نہ صرف اصلی بلکہ مفروضہ تحفظ کے لئے لاکھوں پاکستانی جانوں کو مصیبت میں ڈالا جا سکتا ہے ۔ یہ خود ساختہ خدا ہی پاکستان ہے باقی ہم لوگوں کی قدر اس چارے کے برابر بھی نہیں جو مویشیوں کو ڈالا جاتا ہے ۔ چار پانچ روز قبل اچانک اس خود ساختہ خدا کو احساس ہوا کہ اس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ 30000 آدمی پہاڑوں سے اتر کر اسلام آباد کی فضا میں اپنی گھٹیا سانسیں چھوڑ رہے ہیں ۔ اگر زلزلہ آیا ہے تو ان کے گھروں میں آتا رہے مگر میری فضا گندی کرنے کی انہیں اجازت نہیں دے سکتا ۔ میں نے ڈالر اکٹھے کرنے تھے کر لئے میرے ثناخوانوں اور حواریوں نے عمدہ یورپی کمبل اور پکنکیں منانے کے لئے خیمے لینا تھے لے لئے چنانچہ حکم دے دیا گیا کہ نکالو ان کو یہاں سے اور 13 نومبر کو 1000 بے خانماں متاءثرین کو نکال دیا گیا ۔ چند دنوں میں اسلام آباد خالی کرا لیا جاۓ گا ۔ جن مصیبت زدہ زلزلہ کے متاءثرین کا کھانے پینے اور رہائش کا 90 فیصد خرچ راولپنڈی اور اسلام آباد کے عوام اور رفاہی ادارے اٹھا رہے تھے اور دن رات ان کی خدمت میں لگے تھے ۔ برفانی پہاڑوں میں ان بے خانماں لوگوں کا کیا ہو گا اس کی خود ساختہ خدا کو کیا پروا ۔ اقوام متحدہ والے اگر کہتے ہیں کہ سخت سردی سے بے شمار متاءثرین مر جائیں گے تو کہتے رہیں ۔ سوا لاکھ سے زیادہ مر چکے مزید مر جائیں تو پرکیپیٹا انکم (per capita income)میں اضافہ ہو جائے گا اور آقا (امریکہ) سے شاباش ملے گی ۔ کمال تو یہ ہے ان کو واپس پہنچانے کے لئے متاءثرین کا خرچ اٹھانے والے مقامی رفاہی اداروں کو ہی حکم دیا گیا ہے تاکہ ٹرانسپورٹ پر حکومت کا خرچہ نہ ہو ۔ لاٹھی کی سرکار نہ ہو کبھی کہیں برباد ۔گھر کسی کا ہو نہ بے خطا ہو سر دار ۔ سر کسی کا ہو تڑپ کے جاں نہ دے بے کسی کے عالم میں جوان لاڈلا ۔ لخت جگر کسی کا ہو اداس لوگوں پہ اب لاٹھیاں نہ برساؤ کہ مشتعل نہ دل نوحہ گر کسی کا ہو یہ سادہ لوح ۔ پہاڑوں کے غمزدہ خوددار نہ زندگی میں زیاں اس قدر کسی کا ہو تمام اعضاء سلامت ہیں جن کے وہ سوچیں نہ ضائع اس طرح دست ہنر کسی کا ہو ریاض الرحمان ساغر اب پڑھیئے کچھ حالات حاضرہ اور خبروں کے بارے میں 1 ۔ " اعزاز" اور احساس محرومی 2 ۔ حکومت کس دردمندی سے زلزلہ زدگان کے دامن تارتار کی بخیہ گری کر رہی ہے

Saturday, November 12, 2005

کہا " کوچ کرو" اور کوچ کر گئے

حسن اتفاق ۔ ایک غزل بہت معروف ہوئی وہ لکھنے والے کی مشہور غزلوں میں سے آخری بن گئی اور گانے والے کی مشہور غزلوں میں سے بھی آخری ثابت ہوئی ۔ ابن انشاء کی لکھی اور استاد امانت علی کی گائی ہوئی ۔ انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا وحشی کوسکوں سے کیا مطلب جوگی کا ڈگر میں ٹھکانہ کیا اس دل کے دریدہ دامن میں دیکھو توسہی سوچو تو سہی جس جھولی میں سو چھید ہوۓ اس جھولی کو پھیلانا کیا شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں کیوں دیر گئے گھر آۓ ہو سجنی سے کرو گے بہانہ کیا جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جا بسرا ہم کریں دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

Thursday, November 10, 2005

یہی وقت ہے

Wednesday, November 09, 2005

تبصرہ کا معتدل نظام اور معذرت

بلاگر ڈاٹ کام نے نیا " تبصرہ کا معتدل نظام" متعارف کرایا تھا جسے میں نے چار یوم قبل نصب کیا ۔ میں پیر کو الدصبح ایک رشتہ دار کی وفات کے سلسلہ میں لاہور چلا گیا ۔ چنانچہ اس دوران جو تبصرہ ہوا وہ منگل کی شام تک شائع نہ ہو سکا ۔ اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں ۔

Thursday, November 03, 2005

عید الفطر کیا لائی ہے

اللہ یہ عید الفطر سب مسلمانوں کے لئے مبارک کرے بالخصوص زلزلہ کے متاءثرین پر اپنی خاص رحمتیں نازل کرے ۔ یہ عید بھی کیا عید ہے نہ نئے کپڑے بنانے کا خیال آیا نہ ہلال نو دیکھنے کا ۔ ایک عید میں نے 1947 میں دیکھی تھی ۔ والدین سے دور لواحقین سے بچھڑے ہوۓ کسی کا پتہ نہ تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں اور ہر وقت یہی خدشہ کہ شائد اگلے ہی لمحے راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہاسبھہ یا اکالی دل کے مسلحہ دستے حملہ آور ہوں گے اور ہمیں کاٹ کے رکھ دیں گے ۔ ڈیڑھ ماہ اسی طرح گذرا تھا مگر ایک لمحہ کے لئے آنکھیں نم نہ ہوئی تھیں سواۓ اس دن کے جب ایک جوان نے آ کر بتایا تھا کہ سب مر گئے ۔ اس سال یہ کیسی عید آئی ہے کہ آنکھوں کی برسات لگی ہے اور دل ہے کہ کچلا چلا جاتا ہے ۔ مگر کیا کروں بوڑھوں کو دیکھوں یا جوانوں کو یا بچوں کو ہر طرف ایک ہی نقشہ ہے ۔ کسی کے سر پر پٹی بندھی ہے تو کسی کی ٹانگ پر پلستر چڑھا ہے ۔ کسی کی ٹانگ کاٹی جا چکی ہے اور کسی کا بازو ۔ معصوم بچوں کا بھی یہی حال ہے ۔ کئی بچے 26 دن گذرنے کے بعد بھی سہمے ہوۓ ہیں اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ کئی معصوم بچے ہیں جن کے نہ والدین کا پتہ ہے نہ کسی عزیز رشتہ دار کا ۔ لوگ تحفے دیتے ہیں تو لمحہ بھر کے لئے اپنی تکلیف بھول کر پھول سے بچے مسکرا دیتے ہيں ۔ بے سر و سامانی کی حالت میں بھی نہ صرف اللہ بلکہ لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ واپسی اختیار کرتے وقت جب کوئی کہہ اٹھتا ہے کل بھی آئیں گے نا ۔ ذرا جلدی آنا ۔ تو پھر قدم رک جاتے ہیں اور دل واپس آنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ آج کچھ بچوں نے میرے بیٹے کے ساتھ کرکٹ کھیلی اور بہت خوش ہوۓ ۔ میرا بیٹا اور بہو شروع دن سے ہی روزانہ کسی کیمپ میں چار پانچ گھنٹے لگا کر آتے ہیں ۔پرسوں رات میری بیٹی پہنچ گئی تھی وہ بھی شامل ہو گئی ۔ آج تو تینوں قبل دوپہر کے گئے ہوۓ افطاری کے وقت پنچے اور افطاری کر کے پھر چلے گئے کہ اب دوسرے کیمپ تحفے تقسیم کرنے ہيں ۔ رات کے گیارہ بج گئے ہیں اور ابھی تک واپس نہیں لوٹے ۔ میں ساتھ نہ گیا - بازار سے اشیاء لا کر ملازمین کی مدد سے ایک سو بچوں کے لئے تحفوں کے پیکٹ تیار کئے ۔ میرے دونوں بھائی بھی آج یہی کام کرتے رہے ۔ بہت سے دیگر لوگ بھی آجکل یہی کر رہے ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ سوئی ہوئی قوم جاگ اٹھی ۔ کسی کے پاس زمین پر بچھانے کے لئے کوئی دری بھی نہیں ۔ وہ گدلی اور ٹھنڈی زمین پر ہی بٹھتے اور لیٹتے ہیں ۔ صاحب دل لوگ آہستہ آہستہ ان کی ضروریات پوری کر رہے ہیں ۔ سی ڈی اے کے ملازمین ان کی حفاظت اور دیگر معاملات سنبھالے ہوۓ ہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ کیمپ جا کے اگر پوچھیں کہ آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے تو جواب ملتا ہے کہ اللہ کا شکر ہے ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ پھر وہاں جانے والے واقف کار لوگوں سے مشورہ کیا جاتا ہے کہ جو وہ دیں گے اس کی بجاۓ کچھ اور دیا جاۓ ۔

اعجاز آسی نے کیا کیا ۔ ایک خاکہ

گذری رات 10 بجے میرے موبائل کی گھنٹی بجی ۔ اعجاز آسی صاحب لائین پر تھے جن کی آواز سننے کا پچھلے 5 دن سے شدید انتظار تھا ۔ انہوں نے سرکاری اداروں کی طرف سے رہبری مفقود ہونے کا ذکر کرتے ہوۓ بتایا کہ متاءثرہ علاقہ میں رضاکار اللہ پر بھروسہ کرتے ہوۓ سارے فیصلے اپنی دانش کے مطابق کر رہے ہیں کہ کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے ۔ رضاکاروں کی رہبری اور مدد صرف مجاہدین کی تنظیمیں کر رہی ہیں جن میں سے کئی پر ماضی میں ہماری حکومت پابندی لگا چکی ہوئی ہے ۔ وقت ملنے پر اعجاز آسی صاحب اپنے تاءثرات قلمبند کریں گے ۔ فی الحال ان کی انگریزی میں تحریر کرہ ای میل کا ترجمہ حاضر ہے ۔ بدھ ۔ 2 نومبر 2005 رات 9 بجکر 7 منٹ 38 سیکنڈ منجانب : اعجاز آسی الحمدللہ ۔ آزاد کشمیر کی لائن آف کنٹرول تک کی وادیوں میں چار دن کی ایک جسمانی اور روحانی حیات افروز آزمائش کے بعد اپنے آبائی گھر شہر میں پہنچ گیا ہوں ۔ میں روشن خیال 9 مرد ڈاکٹروں اور 2 خواتین ڈاکٹروں جن میں سے ایک فوج کے سابق کرنل تھے ایک خاتون رضاکار (پیرامیڈک) کے ساتھ تھا ۔ ان نفیس صاحب ایمان خواتین و حضرات کے ساتھ میں 7 گھنٹے سلسلہء کوہ پر سفر کرتے ہوۓ تلگراں اور سربتاں کے دیہات میں پہنچا ۔ زلزلہ جس نے ہماری زندگیوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا کے 3 ہفتے بعد وہاں ہم پہلی میڈیکل اور زمینی امدادی ٹیم تھے ۔ تفصیلات میں انشاء اللہ جس قدر جلد ممکن ہو سکا لکھوں گا ۔ میں اللہ قادر مطلق کا احسانمند ہوں جس نے ہمیں ان پہاڑوں پر چڑھنے کا حوصلہ اور طاقت عطا کی جنہیں سر کرنا ناقابل تسخیر خیال کیا جاتا تھا ۔ بغیر اللہ کی دستگیری کے ان تین نفیس خواتین نے سینکڑوں مایوس گھرانوں کو امید ۔ منزلت اور محبت کا پیغام نہ دیا ہوتا ۔ میں اپنے میزبانوں لشکر طیّبہ کے اراکین (ایک ممنوعہ تنظیم جس کا نیا نام جماعت الدعوی ہے) کا ممنون ہوں کہ ان کی رہبری اور مدد کے بغیر ہم اس جگہ ایک دن میں نہیں پہنچ سکتے تھے اور ہم نے یقین نہ کیا ہوتا کہ انسانی روح اللہ کی عزمت کو محفوظ رکھنے کے لئے کتنا کچھ سہار سکتی ہے ۔ میں اپنی ٹیم کی خواتین ارکان جو نسوانی صبر ۔ قوت اور دردمندی کی علامت تھیں کے ساتھ چلنے پر اپنے آپ کو مقدم محسوس کرتا ہوں ۔ میں اللہ کا شکرگزار ہوں اور فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک ایسی ٹیم کا رکن رہا جس کے ارکان نے ذاتی تکالیف اور مسائل کو بالا طاق رکھ کر 11 گھنٹوں میں 800 مریضوں کی دیکھ بھال کی جن میں سے بہت سے ایسے تھے کہ اگر یہ علاج میسر نہ آتا تو زندگی کی کشمکش میں مبتلاء ہو جاتے ۔ مجھے امید ہے کہ میری ٹیم کے ارکان (سواۓ کرنل طارق کے) اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہوں گے لیکن ہم میں سے کسی کی زندگی پہلے والی نہیں رہے گی جیسا کہ ہم نے سیکھا ہے کہ ہر دن اپنے سینے میں ایک ابدیت لئے آتا ہے جو دوسری کئی زندگیوں کو شکل دیتا ہے ۔ آئیے ہم عید پر صدق دل سے دعا کریں ان لوگوں کے لئے جو اس زلزلہ میں مر گئے اور ان کے لئے جو تاحال بے گھر ۔ بغیر خوراک کے ہیں ۔ زخمیوں ۔ یتیموں اور بیواؤں کے لئے ۔ مزید اللہ سے دعا کریں کہ متاءثرین کو اپنی محرومیوں سے مقابلہ کے لئے قوت اور حوصلہ عطا کرے اور اس زلزلہ سے جو سبق حاصل ہوا ہے اس کا شعور عطا کرے ۔ آئیے اس نور کی خواہش کریں جو باہمی محبت اور امن کا حامل ہوتا ہے اور اندھیروں کر ختم کر کے دلوں کو سکون بخشتا ہے ۔ آمین ۔

Wednesday, November 02, 2005

امدادی کاروائی میں تین دن تاخیر کیوں ہوئی

اج آکھاں وارث شاہ نوں

اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچون بول تے اج کتابے عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین اج لکھاں دھیآں رودیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن اٹھ دردمنداں دیا دردیا تک اپنا دیس پنجاب اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب کسے نے پنجاں پانیاں وچ اج دتی زہر رلا تے اوہناں پانیاں نوں دتا دھرت نوں لا جتھے وجدی پھوک پیار دی او ونجلی گئی گواچ رانجھے دے سب ویر اج بھل گئے اوس دی جاچ دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیّئاں چون پریت دیاں شہزادیاں اج وچ مزاراں رون اج تے سبے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور اج کتھوں لیآئیے لب کے وارث شاہ اک ہور امریتا پرتم کور ۔ چھ ماہ کی علالت کے بعد 31 اکتوبر 2005 کو بھارت میں فوت ہو گئی ۔ وہ 31 اگست 1919 کو پنجاب کے اس حصہ میں پیدا ہوئی تھی جو اب پاکستان میں شامل ہے ۔ 1947 میں ہجرت کر کے بھارت چلی گئی تھی ۔ اس نے شاعری اور نثر کی ایک سو کے لگ بھگ کتب لکھیں جن میں حقیقت کا ساتھ نہ چھوڑا اور خاصی تنقید کا نشانہ بنی ۔ مندرجہ بالا نظم اس نے 1947 کے قتل عام سے متاءثر ہو کر لکھی تھی ۔ جس نے بھارت میں اس پر تنقید کی بوچھاڑ کر دی تھی ۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے یہ نظم کہاں سے پڑھی تھی یقینی بات ہے کہ کہیں سے بھارت میں چھپا ہوا کوئی اخبار یا رسالہ ہاتھ لگ گیا ہو گا ۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بچپن سے ہی مجھے یاد ہے ۔ جو قاری پنجابی نہیں جانتے ان کی خاطر نیچے اردو ترجمہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے ۔ غلطیوں کی معذرت پیشگی ۔ آج کہوں وارث شاہ سے کہیں قبروں میں سے بول اور آج کتاب عشق کا کوئی اگلا صفحہ کھول ایک روئی تھی بیٹی پنجاب کی تو نے لکھ دیئے تھے بہت بین آج لاکھوں بیٹیاں رو رو کے اے وارث شاہ تجھے کہیں اٹھو دردمندوں کے دردمند دیکھو اپنا دیس پنجاب آج میدانوں میں لاشیں پڑی ہیں اور لہوسے بھرگیا چناب کسی نے پانچوں پانیوں میں آج دیا ہے زہر ملا اور ان پانیوں سے زمینوں کو کر دیا ہے سیراب جس میں بجتی تھی پھونک پیار کی وہ بانسری ہو گئی گم رانجھے کے سارے بھائی آج بھول گئے اسے بجانے کا طریقہ دنیا پر خون برسا اور قبروں میں بھی لگا ٹپکنے پیار بھری شہزادیاں آج مزاروں میں بیٹھ کے روئیں آج تو سب ہی کیدو بن گئے اور حسن و عشق کے چور آج کہاں سے لائیں ڈھونڈ کے وارث شاہ ایک اور

Tuesday, November 01, 2005

ایک تنتبو لا دو نا ۔ ۔چھ سالہ بچے کا انٹرویو

گڑھی حبیب اللہ کے گورنمنٹ سکول میں پہلی جماعت کے طالب علم منّان سے بی بی سی کے وسعت اللہ خان کی گفتگو ۔ صحافی ۔ تمہارے گھر میں کتنے لوگ باقی ہیں ؟ منّان ۔ صاحب ایک تنبو لا دو نا ۔ (تنبو خیمے کا دوسرا نام ہے) صحافی ۔ اچھا یہ بتاؤ منان تمہارے ابو کیا کرتے ہیں؟ منّان ۔ کہیں سے ایک تنبو منگوا دو! صحافی ۔ منان تمھارے کتنے ہم جماعت ملبے میں دب گئے؟ منّان ۔ مجھے تنبو کہاں سے ملےگا! صحافی ۔ اچھا چلو گاڑی میں بیٹھو۔میں تمھیں ایک کیمپ سے کچھ کھانے پینے کا سامان دلانے کی کوشش کروں۔مگر تم تو چھوٹے سے ہو آخر کتنا وزن اٹھا پاؤ گے؟ منّان ۔ صاحب کسی سے کہہ دو نا، ہمیں صرف ایک تنبو دے دے! صحافی ۔ چلو تم میرے ساتھ نہیں چلتے نہ سہی۔یہ تو بتادو کہ جب تم رات کو سوتے ہو تو کس طرح کے خواب دیکھتے ہو؟ منّان ۔ مجھے اور میری بہن کو سردی لگتی ہے آپ ایک تنبو تو دلواسکتے ہونا! صحافی ۔ منان کیا میں تمہیں مظفرآباد یا اسلام آباد کی اس ڈیلی بریفنگ میں لے جاؤں جس میں تم خود سن لوگے کہ حکومت کتنی جان توڑ کوشش کررہی ہے ہر خاندان کو سردیاں شروع ہونے سے پہلے تنبو دینے کے لئے۔ بس کچھ دنوں کی بات ہے۔تم اکیلے تو نہیں ہونا منان! دس لاکھ ٹینٹوں کی ضرورت ہے اور ان میں سے ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ آ بھی چکے ہیں۔یقین نہیں آتا تو چلو کسی افسر سے ملوادوں۔اقوامِ متحدہ کے کسی اہلکار سے پوچھ لو۔بولو کس سے ملوگے ؟ منّان ۔ آپ میرے ابو کو لے جائیں نا اور انہیں کسی سے بھی ایک تنبو دلوادیں! جن کے پورے پورے یا آدھے خاندان ختم ہوگئے انہیں اس سے کیا کہ عالمی برادری ڈیڑھ کروڑ ڈالر چندہ دیتی ہے یا اٹھاون کروڑ ڈالر۔ انہیں اس بات کی کیوں پروا ہو کہ حکومت نے پہلے پہل جذباتی ہوکر فی ہلاک شدہ ایک لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیوں کیا اور پھر اسے ایک لاکھ روپیہ فی خاندان کیوں کردیا۔ وہ کیوں اس بات پر کان دھریں کہ انکے لئے فائبر گلاس کے گھر کب اور کہاں بنیں گے۔ چین سے تین لاکھ ٹینٹ جلدآ رہے ہیں ! آیا کریں۔ نیٹو کی فوج اور مزید امریکی شنوک پہنچ رہے ہیں ! پہنچتے رہیں۔