Monday, January 30, 2006

ایک در بند ہوتا ہے تو

جب خوشیوں کا ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالی دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہماری نظریں بند دروازے پہ لگی رہتی ہیں اور ہم دوسرے کھُلنے والے دروازہ کی طرف دیکھتے ہی نہیں

Saturday, January 28, 2006

کِشتی

میری آٹھویں جماعت کے زمانہ کی ڈائری سے (55 سال قبل لکھی ہوئی) * کِشتیاں سب کی کِنارے پہ پہنچ جاتی ہیں ناخدا جِن کا نہ ہو ۔ اُن کا خُدا ہوتا ہے * میری کِشتی خُدا کے آسرے پہ چھوڑ کے ہٹ جا میری کِشتی اگر اے ناخدا تکلیف دیتی ہے

Thursday, January 26, 2006

پاکستان بلندیوں پر

علالت کے دوران خبر ملی کہ اپنے ملک پاکستان میں ترقی کا معیار سطح سمندر سے 602 فٹ بلند ہو گیا ہے اور اِس پر صرف ساڑھے بائیس کروڑ روپیہ خرچ ہوا ۔ اِس ترقّی پر مُہر ہمارے بادشاہ سلامت نے اپنے دستِ مبارک سے لگائی ۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مغل بادشاہ شاہجہاں خوبصورت عمارتیں ہی بناتا رہا اور ملک و قوم کی ترقی کی طرف کوئی توجہ نہ دی ؟ شاہجہاں کی رعایا تو خوشحال تھی ۔ اُس کے زمانہ میں نہ تو 40 فیصد سے زیادہ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے اور نہ زلزلہ سے 30 لاکھ انسان بے گھر ہوئے تھے ۔ اگر ساڑھے بائیس کروڑ روپیہ صرف کراچی میں پینے کے صاف پانی کے منصوبہ پر خرچ کیا جاتا تو وہاں کے لوگ کئی بیماریوں سے بچ جاتے ۔ اگر کراچی پورٹ ٹرسٹ پر خرچ کیا جاتا تو ادارہ فعال بن جاتا ۔ آئیے سب مل کر اللہ سُبحَانُہُ و تَعَالَی کے حضُور میں التجا کریں کہ ہمارے حکمرانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے کہ وہ عیاشیاں چھوڑ کر اپنی عاقبت سنوارنے کا کچھ سامان کریں ۔

Wednesday, January 25, 2006

طورخم سے کیماڑی تک

طورخم سے کیماڑی تک تو کیا ۔ ہمارے ملک میں ایک سا رویّہ کِسی ایک شہر میں بھی نہیں رہا ۔ لیکن آجکل ایسا ہے ۔ جی ہاں طورخم سے کیماڑی تک سب کو بِن مانگے مل رہا ہے ۔ فدوی کو بھی ملا ہے ۔ یہ ہے وائرس اِنفیکشن (viral infection) جو پورے پاکستان میں ہر کسی کو بغیر کسی تفریق کے مل رہا ہے ۔ 15 جنوری کو معمولی زکام ہوا ۔ خیال نہ کیا ۔ 18 جنوری کو قبل دوپہر ہی کمپیوٹر بند کر دیا کہ طبیعت سُست ہو رہی تھی ۔ بس پھر کیا تھا 24 جنوری تک نزلہ ۔ تیز بُخار اور شدید کھانسی میں مبتلا رہے ۔

Wednesday, January 18, 2006

ہماری باتیں

بھائی محمد عاصم کی تدفین اور دعائے مغفرت کے بعد تقریباً سب شرکاء اُن کے دونوں بیٹوں خُرّم اور عمر کے ساتھ تعزیّت کر کے رخصت ہوئے ۔ میں خُرّم اور عمر کے ساتھ قبرستان سے باہر نکل رہا تھا کہ پندرہ سولہ سال پہلے کا واقعہ یاد آیا ۔ اِسی قبرستان میں کسی کی تدفین کے بعد ہم قبرستان سے باہر نکل رہے تھے تو ایک ساتھی بولے "قبرستان کی حدود میں ہم مؤمن ہوتے ہیں اور باہر نکلتے ہی شیطان ہمارے اندر گھُس جاتا ہے"۔ بات اُنہوں نے صحیح کہی تھی ۔ ہم لوگوں پر کِسی کی وفات کا بس اِتنا ہی اثر ہوتا ہے ۔ ہماری حالت بارش میں بننے والے پانی کے بُلبلے کی سی ہو چکی ہے جو یک دم بنتا ہے اور چند لمحے بعد پھَٹ جاتا ہے ۔ گھر میں تعزیّت کے لئے آئے ہوئے حضرات میں ایک صاحب 40 منٹ سے متواتر بولے جا رہے تھے ۔ وہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ اگر کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھایا جاتا تو اُن کے مرض کی تشخیص ہو جاتی اور بروقت علاج ہو جاتا ۔ میں نے اُن سے پُوچھا "جہاں تشخیص کا بہترین بندوبست ہے کیا وہاں سب زندہ رہتے ہیں ؟" اِس سوال پر وہ صاحب خاموش ہوگئے ۔ میں نہیں جانتا امریکی اور یوُرپی کیا کرتے ہیں مگر لبیا میں میں نے دیکھا کہ میّت پر آئے لوگ تلاوت کرتے رہتے ہیں یا خاموش بیٹھے رہتے ہیں ۔ اللہ ہمیں دین کو سمجھنے اور اِس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

Monday, January 16, 2006

قدر و قیمت

بھائی محمد عاصم کی وفات اور اِس کے بعد اُن کے بڑے بیٹے تیس سالہ خُرّم کے کردار سے مجھ پر دو حقیقتیں منکشف ہُوئیں ۔ ایک یہ کہ ہمیں کسی چیز کی قدر اس وقت ہوتی ہے جب وہ کھو جاۓ ۔ دوسری یہ کہ ہمیں کسی چیز کی کمی کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ مل جاتی ہے برخوردار خُرّم نے سب کچھ مَاشَاء اللہ اِتنی خوش اُسلُوبی سے کیا کہ میں دِل ہی دِل میں سُب٘حَان٘ اللہ اور مَاشَاء اللہ کہتا رہا اور خُرّم کو دعائیں دیتا رہا ۔ خُرّم نے بڑے سلیقے سے میّت کو قبر میں اُتارا ۔ جب دفن کے بعد دعا ہو چکی تو اُس نے بلند آواز میں کہا "اگر میرے والد نے کِسی کے ساتھ زیادتی کی ہو یا اُن کی کسی بات سے کسی کو پریشانی ہوئی ہو تو میری درخواست ہے کہ اُنہیں معاف کر دے اور اگر اُن کے ذمّہ کسی کا کچھ واجب الادا ہو تو میں حاضر ہوں دینے کے لئے ۔

Saturday, January 14, 2006

زندگی

موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں در حقیقت وہ کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں مرنے والوں کی جبِیں روشن ہیں اِس ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں جِینا کیا ہے خواب ہے اک دیوانے کا زندگی نام ہے مَر مَر کے جِئے جانے کا پھُول تو دو دن کے لئے بہارِ جانفِزا دِکھلا گئے حَیف ایسے غُنچوں پہ جو بن کھِلے مرجھا گئے اب تو گبھرا کے کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کِدھر جائیں گے

Thursday, January 12, 2006

اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَی٘ہِ رَاجِعُون٘

میں اِنتہائی دکھ کے ساتھ لکھنے پہ مجبور ہوں کہ میرے پیارے ساتھی میرے مخلص دوست میرے ہمدرد بھائی اور میری پیاری بہو بیٹی عنبرین زکریّا کے والد محترم چوہدری محمد عاصم صاحب پاکستان میں عید الاضحی کے دن (11 جنوری) شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے اچانک حرکتِ قلب بند ہو جانے سے وفات پا گئے ۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَی٘ہِ رَاجِعُون٘ ۔ میں دست بدعا ہوں اور میری تمام قارئین سے التماس ہے کہ اللہ سے مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کیجئے اور دعا کیجئے کہ اللہ تعالی بیٹی عنبرین ۔ عنبرین کی والدہ ۔ دونوں بھائیوں اور پھوپھو کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین یا ربِ العالمین ۔
۔ بھائی عاصم صاحب ایک خود ساز۔ اپنے فن کے ماہر۔ بہت محنتی اور بہت سادہ طبیعت انسان تھے ۔ وہ باعمل اور حلیم طبع مسلمان تھے ۔ وہ ہر ایک کے ہمدرد اور ہر ایک سے مخلص تھے ۔ وہ اپنی مرضی کرنے کی بجائے دوسرے کی خوشی میں خوش رہتے ۔
۔
پاکستان بننے پر گیارہ سال کی عمر میں سوائے دو ماموں ایک بڑے بھائی اور ایک چھوٹی بہن کے والدین سمیت تمام بزرگوں کی لاشیں بھارت میں چھوڑ کر پاکستان پہنچے ۔ ایف ایس سی پاس کرنے کے بعد ماموں صاحبان بھی راہیءِ ملکِ عدم ہوئے تو کراچی شپ یارڈ میں بطور اپرنٹس بھرتی ہو گئے اور فاؤنڈری پریکٹس میں تعلیم و تربیّت حاصل کی ۔ کچھ سال بعد پاکستان آرڈننس فیکٹریز ۔ واہ کینٹ سے منسلک ہو گئے اور اپنی لگن اور شب و روز محنت سے چند ہی سالوں میں فاؤنڈری کے ماہرین میں شمار ہونے لگے ۔ ملک کے بڑے بڑے کارخانوں نے اُن کے ماہرانہ مشوروں سے استفادہ کیا ۔ ۔ تیرہ سال میرا اُن سے بہت قرب رہا ۔ میری تمام تر کوشش کے باوجود اُنہوں نے کبھی اپنی خواہش کا اظہار نہ کیا اور ہمیشہ مجھ ہی سے کہا "آپ بتائیں یہ کیسے کیا جائے ؟" میں کہتا کہ یہ آپ کی خواہش کے مطابق کرنا ہے تو کہتے "میری خوشی اُس میں ہے جو آپ کریں" اور میں لاجواب ہو جاتا ۔ ایسا بھائی ایسا دوست مجھے ڈھونڈے نہ ملے گا ۔

Wednesday, January 11, 2006

اللہُ اکبر

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

Tuesday, January 10, 2006

عید مبارک

اللہ سُب٘حانُہُ و تَع٘الی آپ سب کے لئے سینکڑوں خوشیوں بھری عیدیں لائے۔ آمین ۔
اُمید کی جاتی ہے کہ آپ اِس عید پر زلزلہ کے متاءثرین کو بھی اپنی خوشیوں اور صحبت کا کچھ حِصّہ عطا فرمائیں گے

برفاں دے گولے ۔ ملائی دی برف

پنجاب کے رہنے والے اگر اِن صداؤں سے واقِف نہیں تو پھر وہ کچھ نہیں جانتے ۔ برفاں دے گولے ۔ ٹھنڈے تے مِٹھے ۔ پیئو تے جیو ۔ ۔ ۔ ملائی دی برف اے پُرانی بات ہے ۔ ہم چند دن پہلے شمالی علاقوں میں کچھ دن قیام کے بعد واپس آئے تھے ۔ ہمارے ہاں کچھ مہمان آ گئے ۔ اُن کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو میں برفانی پہاڑوں کی تفصیل بتا رہا تھا کہ ایک بچّہ بولا "پھر تو وہاں کے بچّے خوب برف کے گولے اور آئس کریم کھاتے ہوں گے" ۔ آجکل حارث بن خُرّم اور قدیر احمد رانا صاحبان بھی برف کے گولے اور آئس کریم کھا رہے ہوں گے ۔ چند دن قبل حارث بن خُرّم صاحب کی ای میل ملی کہ ملتان میں بہت سردی پڑ رہی ہے ۔ اُن کی ڈھارس بندھانے کے لئے سرفراز شاہد صاحب کے یہ شعر لبوں پہ آ کے قلفی ہو گئے اشعار سردی ميں غزل کہنا بھی اب تو ہو گیا دشوار سردی میں محلے بھر کے بچوں نے دھکیلا صبح دم اس کو مگر ہوتی نہیں اسٹارٹ اپنی کار سردی میں کئی اہل نظر اس کو بھی ڈسکو کی ادا سمجھے بچارا کپکپایا جب کوئی فنکار سردی ميں

Sunday, January 08, 2006

مُنڈیا سیالکوٹیا

کِسی زمانہ میں ملکہءترنّم نورجہاں کا ایک گانا بہت مشہور ہوا تھا۔ تیرے مکھڑے تے کالا کالا تِل وے وے مُنڈیا سیالکوٹیا سو میں سیالکوٹی مُنڈے (سیالکوٹ کے لڑکے) کی شادی خانہ آبادی میں شرکت کے لئے سیالکوٹ اور لاہور گیا تھا ۔ میں شائد سات آٹھ سال بعد سیالکوٹ گیا ۔ شادی کا احوال اور سفر کی روئیداد انشاء اللہ جلد

Wednesday, January 04, 2006

یادِ ماضی تلخ بھی شیِریِں بھی

ماضی کی یادوں کے متعلق ایک شاعر نے کہا "یادِ ماضی عذاب ہے یارو چھین لے کوئی حافظہ میرا " ۔ مگر میرا خیال ہے کہ ماضی کے لمحات خواہ کتنے ہی تلخ رہے ہوں سالہا گذر جانے کے بعد جب انسان کو اُن کی یاد آتی ہے تو ایک عجیب سی مٹھاس محسوس ہوتی ہے ۔ آج صبح سویرے بیٹا زکَرِیّا بہو بیٹی اور میری پیاری پوتی مشَیل اٹلانٹا روانہ ہو گئے ۔ دو ہفتے ماشا اللہ خوب رونق لگی رہی ۔ چند دن قبل ہم سب لاؤنج میں بیٹھے تھے کہ میری بیوی نے ہمیں متوجہ کیا اور سٹیریو پلیئر چلا دیا ۔ 26 سال پہلے کی میری اور میرے تینوں بچوں کی بولنے اور ہنسنے کی آوازیں ۔ بہت لطف آیا ۔ اُس وقت زکَرِیّا تقریباً ساڑھے آٹھ سال کا تھا ۔ زکَریّا تینوں میں بڑا ہے ۔ ٹیپ چلتے چلتے ایک گانا آ گیا جسے سن کر سوچ کی اُڑان مجھے ماضی بعید میں تقریباً چھیالیس سال پیچھے لے گئی جب میں نے پہلی بار یہ گانا گایا تھا ۔ میں ابھی انجنیئرنگ کالج میں داخل نہیں ہوا تھا کہ میرے والد صاحب بیمار ہو گئے ۔ راولپنڈی میں سال بھر علاج سے کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ بیماری کی تشخیص نہیں ہو رہی تھی ۔ لاہور میں ڈاکٹر توفیق جنہیں فادر آف میڈیسن کہا جاتا تھا اُن سے علاج کے لئے والد صاحب کو گنگا رام ہسپتال لاہور میں داخل کرا دیا ۔ چھ ماہ وہاں رہ کر تشخیص ہو گئی تو گھر آ گئے ۔ مزید دو سال بیمار رہنے کے بعد وہ ٹھیک ہوئے ۔ اِن ساڑھے تین سالوں میں والد صاحب کے بزنس مینجر نے منافع کو نقصان میں بدل دیا ۔ گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے پر میں کالج روانہ ہونے لگا تو والد صاحب کے پاس میرے اخراجات کے لئے رقم نہ تھی ۔ میری بڑی بہن جو ڈاکٹر ہیں اوراُن کی شادی ہو چکی تھی نے مجھے 9 ماہ کا خرچ 900 روپیہ دیا ۔ میرا دل جیسے بیٹھ گیا مگر اس وقت پڑھائی کو خیرباد کہنا خاندان کے مفاد میں نہ تھا۔ میں بوجھل دِل لئے لاہور پہنچ گیا۔ کلاسز شروع ہونے میں چند دن باقی تھے اسی دن کئی لڑکے ہوسٹل میں پہنچ گئے ۔ کمرہ الاٹ کروا کر صفائی کروائی ۔ میس ابھی چالُو نہ ہوا تھا ۔ گڑھی شاہو جا کر کھانا کھایا اور سو گئے ۔ دوسرے دن پانچ سات ہم جماعت اکٹھے بیٹھے تھے ۔ وقت گذارنے کے لئے تجویز ہوا کہ سب باری باری گانا گائیں ۔ میری باری آئی ۔ میرا دل افسردا تھا اور بولنے کو بھی نہیں چاہ رہا تھا کُجا گانا ۔ میں نے کہا "مجھے گانا نہیں آتا" تو ایک طوفان مچ گیا "جھُوٹ جھُوٹ ۔ ہر پکنک پر تم نے گایا ۔ راوی میں کشتی رانی کرتے تم نے گایا " ۔ جان کی خلاصی نہ ہو رہی تھی ۔ اچانک مجھے ایک حسبِ حال گانا یاد آیا اور میں نے نظریں نیچی کر کے گانا شروع کیا ۔ گا چُکا تو کچھ ایسا احساس تھا کہ کہیں میری چوری تو نہیں پکڑی گئی ۔ اچانک ایک ہم جماعت مجھ سے لپٹ گیا اور کہنے لگا "اجمل ۔ سچ بتاؤ کیا بات ہے ؟ تم نے تو ہمیشہ ہمیں ہنسایا ہے آج رُلا کیوں دیا ؟ "۔ میں نے بڑی مشکل سے نظریں اُٹھا کر دیکھا تو دو لڑکے اپنی آنکھیں پونچھ رہے تھے ۔ کسی نے سچ کہا تھا ۔ "جب دِل کو ٹھیس لگتی ہے تو موسیقی کے تار خود بخود بجنے لگتے ہیں"۔ میرے ساتھیوں نے اُس وقت میری بہت حوصلہ افزائی کی اور سارا سال میرا بہت خیال رکھا ۔ آج اُس وقت کی یاد مجھے افسردہ کم اور روح پرور زیادہ محسوس ہوئی ۔ گانا یہ تھا ۔ رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا کس کے روکے رُکا ہے سویرا رات جتنی بھی سنگین ہو گی صبح اتنی ہی رنگین ہو گی غم نہ کر ۔ گر ہے بادل گھنیرا کس کے روکے رُکا ہے سویرا یونہی دنیا میں آ کر نہ جانا صرف آنسو بہا کر نہ جانا مسکراہٹ پہ بھی حق ہے تیرا کس کے روکے رُکا ہے سویرا آ۔ مل کے کوئی تدبیر سوچیں سُکھ کے سپنوں کی تعبیر سوچیں جو تیرا ہے وہی غم ہے میرا کس کے روکے رُکا ہے سویرا لب پہ شکوہ نہ لا ۔ اشک پی لے جس طرح بھی ہو کچھ دیر جی لے اب تو اُٹھنے کو ہے غم کا ڈیرہ کس کے روکے رُکا ہے سویرا

Monday, January 02, 2006

آپ سب کا شکریہ

جزّاکَ اللہِ خیرٌ نئے سال کے لئے بہت سے بلاگرز نے مجھے خاص ذاتی سطح پر اچھی دعائیں اور نیک خواہشات ارسال کی ہیں ۔ انتہائی پیاری اور پُر خلوص ۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ سُبحَانُہُ و تَعَالی آپ سب کو اور آپ کے خاندان کے تمام افراد کو صحت و تندرستی دے رزقِ حلال واسع عطا کرے آپ میں اتفاق و محبت قائم رکھے نیک مقاصد میں کامیاب کرے اور ہمیشہ خوش و خُرم رکھے آمین

Sunday, January 01, 2006

سالِ نو مبارک

میری دلی دعا ہے اس دِن کے لئے اللہ کرے سالِ نو مبارک سب کے