اللہ سبحانہ و تعالی نے جو کمپیوٹر میرے جسم میں رکھا ہوا ہے اس کا پروسیسر دنوں یا ہفتوں نہیں مہینوں سے متواتر چل رہا ہے اور بلاگنگ کرتا جا رہا ہے ۔ اتنی زیادہ پوسٹس کہ ان کو انسان کے بنائے ہوۓ کمپیوٹر کے ذریعہ کسی ویب سائٹ پر منتقل کرنے کی میں استطاعت و استداد نہیں رکھتا ۔ اس کشمکش میں اپنا دماغ مناسب حروف تصنیف کرنے سے قاصر ہو گیا اور نیند کی پری مجھ سے روٹھ گئی ۔ کسی کا کوئی شعر یا عبارت بھی نہ مل رہی تھی کہ پڑھ کر شائد کچھ سکون ملے ۔
وجہ کیا ہے ؟ سب جانتے ہیں مگر ظاہر کرنے میں پس و پیش ہے ۔ دھماکہ امریکہ میں ہو یا انگلستان یا مصر میں شامت بے سہارا پاکستانیوں کی بالخصوص اگر داڑھی والے ہوں ۔ ایسا کیوں نہ ہو جب ہم خود ہی اپنے آپ کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ یہ ہماری روشن خیالی کا ایک عمدہ نمونہ ہے ۔ کراچی میں روزانہ پچاس موبائل فون چھین لئے جائیں ۔ بیس سے چالیس تک کاریں اور موٹرسائیکل چوری کر لی جائیں یا چھین لی جائیں ۔ روزانہ بھرے بازاروں میں شہری بسوں میں سفر کرنے والے مسافروں کو پستول دکھا کر جیبیں خالی کروا لی جائیں ۔ راہ چلتے شریف آدمی کو گولی مار کے ہلاک کر دیا جائے یا کسی مسجد یا امام بارگاہ میں بم چلایا جائے ۔ اندرون سندھ یا پنجاب حتی کہ اسلام آباد میں کسی شریف زادی کی عزت لوٹ لی جائے اور اس میں پولیس والے بھی شامل ہوں ۔ کراچی لاہور اور راولپنڈی میں روزانہ گھروں میں ڈاکے پڑیں ۔ تو ہمارے شہنشاہ ہمیں گڈ گورننس کی یقین دہانی کراتے ہیں ۔ اوراق الٹ پلٹ کرتے آج کچھ شعر نظر آ گئے سو حاضر ہیں ۔ اس نظم کا عنوان ہے نمرود کی خدائی ۔
یہ قدسیوں کی زمین
جہاں فلسفی نے دیکھا تھا اپنےخواب سحرگہی میں
ہواۓتازہ وکشت شاداب وچشمہ جانفروزکی آرزوکاپرتو
یہیں مسافر پہنچ کےاب سوچنےلگاہے
وہ خواب کا بوس تو نہیں تھا ؟
وہ خواب کا بوس تو نہیں تھا ؟
اے فلسفہ گو
کہاں وہ رویائے آسمانی ؟
کہاں یہ غرور کی خدائی ؟
مگر۔ ۔ یہاں تو کھنڈر دلوں کے
یہ نوع انسانی کی کہکشاں سے
بلندوبرترطلب کےاجڑے ہوئے مدائن
شکست آہنگ حرف ومعنی کےنوحہ گرہیں
میں آنےوالےدنوں کی دہشت سےکانپتاہوں
میری نگاہیں یہ دیکھتی ہیں
کہ حرف و معنی کے ربط کا
خواب لذّت آگیں بکھر چکا ہے
کہ راستے نیم ہوش مندوں سے
نیند میں راہ پو گداؤں سے
صوفیوں سے بھرے پڑے ہیں
حیات خالی ہے آرزو سے
( ن م راشد )
شاعر نے علامہ اقبال کو مخاطب کیا ہے
1 Comments:
ٹھیک!۔
Post a Comment
<< Home