Tuesday, October 18, 2005

امدادی کاروائیاں ۔ باتیں ادھر ادھر کی

سب سے پہلے ذکر وزیراعظم شوکت عزیز صاحب کے ایک مستحسن اعلان کا " جن متاءثرہ بچوں کے قانونی وارثین نہ مل سکے ان کی پرورش حکومت کرے گی ۔ کسی کو بچہ گود لینے کی اجازت نہ ہو گی" ۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمس) سے ایک بچی کے اغواء کی کوشش کے بعد یہ فیصلہ ضروری تھا ۔ یہ اغواء کی کوشش ایک خاتون رضاکار نے ناکام بنا دی تھی جس میں رضاکار زخمی بھی ہوگئی ۔ خیموں اور کمبلوں کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے جو کہ ہزاروں کی تعداد میں مطلوب ہیں ۔ پاکستان میں خیمے بنانے کی استداد ہہت ہی کم ہے اس لئے ہنگامی بنیاد پر غیر ممالک سے درآمد ضروری ہے ۔ پہاڑوں پر برف باری کی وجہ سے متاءثرہ علاقوں میں بہت سردی ہو گئی ہے ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی سردی ہو گئی ہے ۔ اس لئے خیمے سرد موسم کے لئے موزوں ہونے چاہیئں اور ان میں بارش کے پانی کو روکنے کی صلاحیت ہونا بھی ضروری ہے ۔ یہاں کلک کر کے خیمہ کا نمونہ ملاحظہ کیجئے عوام کی سطح پر اللہ کے فضل سے ہر پاکستانی اس موقع پر اپنی کی سی ہر کوشش اور مدد متاءثرین کے لئے کر رہا ہے ۔ اعلی سطح پر مناسب پلاننگ اور کوآرڈینیشن نہ ہونے کے باعث عوام کی محنت کا کچھ حصہ ضائع ہو رہا ہے ۔ غیر ملکی رضاکاروں کے علاوہ وہ لوگ جن کو روشن خیال لوگ نفرت سے ملّا یا جہادی کہتے ہیں مربوط طریقہ سے جانفشانی سے کام کر رہے ہیں ۔ ان کے کچھ رضاکار بند راستوں کی پروہ نہ کرتے ہوۓ ملبہ ہٹانے کا سامان کندھوں پر اٹھا کر کئی کئی میل پیدل چل کر متاءثرہ علاقوں میں پہلے ہی دن یعنی 8 اکتوبر کو پہنچ گئے تھے ۔ کراچی سے ہمارے بلاگر ساتھی اعجاز آسی بھر پور خدمت کے جذبہ کے ساتھ تین دن سے اسلام آباد پہنچے ہوۓ ہیں کل سارا دن وہ پمس میں رہے جہاں مریضوں یا متاءثرین کا مربوط ریکارڈ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ ان کی کوشش ہے کہ ایک مربوط کمپیوٹرازڈ ڈاٹا بیس قائم کی جاۓ ۔ ماہرین حضرات ان کی مدد کر کے قومی جذبہ کا اظہار کریں اور ثواب بھی کمائیں ۔ ان کا ٹیلیفون نمبر ہے 03002627033 کچھ ناپسندیدہ واقعات دکانوں اور امدادی سامان کے ٹرک کو لوٹنے کے ہوۓ تھے ۔ اسے روکنے کے لئے کچھ مقامی نوجوان متحرک ہوۓ اور حکومتی ادارے نے خفیہ تفتیش شروع کی جس کے نتیجہ میں پتہ چلا کہ دکان لوٹنے والوں میں سے کوئی مقامی نہیں تھا اور ٹرک لوٹنے کا بندوبست بھی ایک غیر مقامی شریف نما بد قماش آدمی نے کیا تھا اور دیکھا دیکھی پانچ دن سے بھوکے پیاسے چند متاءثرین نے ان کی پیروی کی ۔ اس بدقماش بارسوخ شخص کو گرفتار کر کے اس کے گودام سے لوٹا ہوا کافی مال برآمد کر لیا گیا ہے ۔ یہ شخص اس کے علاوہ ہے جو چند دن قبل کراچی میں پکڑا گیا تھا ۔ دیگر اب مجاہدین جن کو کچھ لوگ جہادی کہتے ہیں امدادی سامان لانے والے ان ٹرکوں کی حفاظت کر رہے ہیں جن کے ساتھ ان کا اپنا حفاظتی دستہ نہیں ہوتا ایک ادارہ بنام بالی فاؤنڈیشن نے اسلام آباد سپورٹس کمپلیکس میں امدادی ہسپتال بنایا ہوا ہے ۔ مرکزی حکومت نے پمس اور فیڈرل ایجوکیشن بورڈ کے قریب عارضی ہسپتال قائم کئے ہوۓ ہیں اور اب ایک خیمہ بستی ایچ 10 میں جلد بنانے کا منصوبہ ہے ۔ راولپنڈی میں حکومت پنجاب کے تین ہسپتال ہیں جن میں امدادی کام زور شور سے ہو رہا ہے ۔ کل تک صرف ایک ہسپتال (ڈی ایچ کیو) میں 550 زخمی متاءثرین آۓ جن میں سے 284 زیر علاج ہیں باقیوں کو دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ۔ اتوار کو دو لڑکے نو اور سات سالہ خود ہی اپنے مکان کے ملبہ کے نیچے سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور پہاڑوں سے پیدل چلتے ایک فوجی کیمپ پر پہنچ کر بتایا کہ ان کی ایک گیارہ سالہ پولیو زدہ بہن ملبہ کے نیچے دبی ہوئی ہے اسے نکالا چاۓ ۔ فوجی ان لڑکوں کے ساتھ گئے اور لڑکی کو نکالا تو وہ زندہ تھی ۔ بالا کوٹ کے قریب ایک پہاڑ پر زلزلہ کے 9 دن بعد ملبہ کے نیچے سے ایک 6 سالہ لڑکی زندہ مگر بیہوش برآمد ہوئی ۔ وہ گرنے والی الماری کے نیچے ایک خانہ میں آ گئی تھی ۔

0 Comments:

Post a Comment

<< Home