Friday, October 14, 2005

اللہ تیری شان

مثل مشہور ہے کہ در نقارخانہ آواز طوطی چہ معنی دارد ۔ یعنی جہاں بگل باجے اور ڈھول بج رہے ہوں وہاں طوطے کی آواز کس کو سنائی دے گی ۔ لیکن جب پیدا کرنے والے کی نظر عنائت ہو جائے تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔ میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف ۔ 8 کی جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں وہ پارک روڈ پر واقع ہے ۔ اس مسجد میں کچھ بڑے بڑے لوگ یعنی وزیر ۔ رکن قومی اسمبلی ۔ فیڈرل جائنٹ سیکرٹری سے سیکرٹری تک ۔ کرنل سے جنرل تک اور بڑے تاجر نماز پڑھنے آتے ہیں ۔ افتخار احمد سروہی صاحب جو سابق نیول چیف اور جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیرمین رہ چکے ہیں میرے پہلو میں نماز پڑھتے ہیں ۔ جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں 11 اکتوبر کو میں نے فجر کی نماز کے بعد چیدہ حضرات کو روک کر عرض کی کہ امدادی کام کو آرگنائز کرنے کا بہترین طریقہ خیمہ بستیاں بنانا ہے اور اس کی تفصیلات بھی بیان کیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ بلا چوں و چرا سب نے اتفاق کیا ۔ میں جن تین اداروں کے لئے کام کر رہا ہوں ان میں جامعہ فریدیہ کے لوگوں نے اسی دن اپنے رضاکاروں کو خیمہ بستیاں بنانے کی ہدائت جاری کردی ۔ الھدی انٹرنیشنل اور ریڈ کریسنٹ والے ابھی تک سوچ رہے ہیں ۔ اللہ کی کرم نوازی دیکھئے کہ بات میرے ہم مسجد نے لمحوں میں ارباب اختیار تک پہنچا دی اور اسی شام خیمہ بستیاں بنانے کا فیصلہ ہوا ۔اگلے روز اسلام آباد سپورٹس کمپلیکس میں خیمہ بستی بنا کر وزیراعظم صاحب کی منظوری لے لی گئي ہے ۔ آئیے ہم سب مل کر دعا کریں کہ اس سکیم کو تیزی سے عملی جامہ پہنایا جاۓ ۔
سبحان اللہ و اللہ اکبر 12 اکتوبر کو مظفرآباد میں ملبہ کے نیچے دبے ہوۓ کچھ لوگوں کو نکالنے کے لئے سرنگ بنائی گئی تو غیر متوقع طور پر وہاں سے ایک پانچ سالہ بچی ہاتھ پاؤں پر چلتی باہر نکل آئی ۔ اس کے چچا جو وہاں موجود تھے انہيں معلوم نہیں تھا کہ ان کی بھتیجی اس جگہ ہو گی ۔ متاءثرہ علاقہ میں جہاں تیز بارش نے امدادی کاروائیوں میں خلل ڈالا اور بچ جانے والے متاءثرین کے لئے مشکلات پیدا کیں وہاں ۔ ۔ ۔ ایک 80 سالہ بزرگ کو جب ملبہ کے نیچے سے نکالا گیا تو وہ توقع کے خلاف کچھ تازہ دم نظر آۓ ۔ انہوں نے بتایا کہ بارش کا پانی دراڑ میں سے ٹپکتا رہا اور وہ پیتے رہے ۔

3 Comments:

At 10/14/2005 03:24:00 PM, Blogger Nabeel said...

افتخار اجمل صاحب، جزاک اللہ۔

 
At 10/14/2005 10:18:00 PM, Anonymous Anonymous said...

انسانی ہمدردی کے ناطے مجھے دکھ ہو رہا ہے کہ خبروں کے مطابق ابھی تک دور دراز علاقوں میں زلزلہ متاثرین کیلئے راحت نہیں پہنچی اور وہاں کے لوگوں کا بھوک سے بہت برا حال ہے ـ تمام خبروں میں یہی بتایا جارہا ہے کہ دور دراز علاقے مثلا پہاڑی علاقوں پر جہاں زلزلے کا مرکز تھا، وہاں کے لوگ بہت بری حالت میں ہیں ابھی تک انکی مرہم پٹی بھی نہیں ہوئی ـ برائے مہربانی توجہ دیں ـ

 
At 10/15/2005 07:30:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

قدیر احمد رانا ۔ نبیل اور شعیب صاحبان
میری راہنمائی اور حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ درخواست ہے کہ مجھے اپنی نیک دعاؤں میں یاد رکھا کیجئے ۔

یہ صحیح ہے کہ ابھی تک کئی علاقوں میں کوئی امداد نہیں پہنچی ۔ یہ کس کی کوتاہی ہے اللہ بہتر جانتا ہے ۔ ہم اپنی کی سی عملی کوشش اور دعا ہی کر سکتے ہیں

 

Post a Comment

<< Home