Thursday, October 06, 2005

وضاحت

شعیب صاحب ۔ شعیب صفدر صاحب ۔ ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب ۔ حارث بن خرم صاحب ۔ اور دیگر صاحبین و صاحبات اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ میرے نقل کردہ گانے پر آپ حضرات کا تبصرا دلچسپ ہے اور اس سے کئی ذی معنی اور منطقی سوالات ابھرے ہیں ۔ اس لئے میں نے جواب مین پوسٹ میں دینے کا فیصلہ کیا ۔ سبحان اللہ ۔ تعریف اس خدا کی جس نے مجھے اور آپ سب کو بنایا اگر کوئی شخص ہمیں ایک چھوٹا سا تحفہ بھی دے تو ہم تحفہ دینے والے احسانمند ہوتے ہیں اور موقع ملنے پر اسے بہتر تحفہ دیتے ہیں ۔ لیکن عجب بات ہے کہ جس نے ہمیں ان گنت تحائف دیئے اور آئے دن دیتا رہتا ہے اس کا ہم شکریہ بھی ادا نہیں کرتے ۔ " اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے" ۔ یہاں کلک کر کے پڑھیئے سورۃ 55 الرحمان اردو ترجمہ کے ساتھ صفحہ 931 سے 936 تک ۔ ماہ رمضان میں تلاوت کا کئی گنا ثواب کمائیے اور تلاوت کا لطف بھی اٹھائیے ۔ متذکّرہ گانے کی یاد مجھے دو باتوں نے کرائی ۔ اول ۔ ہم اندھا دھند اپنی پیاری زبانوں اردو پنجابی سندھی پشتو کشمیری سرائیکی کو روندتے ہوۓ انگریزی کے پیچھے سرپٹ بھاگ رہے ہے جس کا صحیح قانون قاعدہ ہی نہیں ۔ ہے کوئی ہم میں جو اپنے ملک کی سب زبانیں جانتا ہے ۔ شائد ایک بھی نہیں ۔ میں خود اپنے آپ کو اس سلسلہ میں مجرم گردانتا ہوں ۔ میں اردو اور پنجابی اچھی طرح جانتا ہوں ۔ سندھی پشتو کشمیری اور سرائیکی میں نے سیکھنے کی تھوڑی سی کوشش کی اور نتیجہ میں یہ زبانیں تھوڑی سی سمجھ لیتا ہوں ۔ (بلوچی کا ذکر میں نے نہیں کیا کیوں بلوچی بذات خود کوئی زبان نہیں ہے) دوم ۔ تین دہائیوں سے ہم لوگ تعلیم وتربیت حاصل کرنے کی طرف توجہ چھوڑ کر صرف کاغذ کے ٹکڑے (ڈگریاں) اکٹھا کرنے میں لگے ہوۓ ہیں ۔ اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ یہ کاغذ کے ٹکڑے بھی ہم اپنی دولت سے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شیخ سعدی نے فرمایا تھا کہ گدھے پر سو من کتابیں لاد دی جائیں پھر بھی وہ گدھا ہی رہتا ہے ۔ لیکن اگر کسی جانور کو بھی تربیت دی جاۓ تو وہ اچھے کام کرنے لگ جاتا ہے ۔ ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب نے ٹھیک لکھا ہے کہ ہمارے بہت سے لوگ اس لئے بے روزگار ہیں کہ انہوں نے امتحان پاس کر کے ڈگریاں لی ہیں تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں دی ۔ میں تو کہوں گا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت نہ ہونے اور ہماری پسماندگی کا سبب بھی یہی ہے ۔ اور اسی وجہ سے ہمیں اچھے اور برے میں تمیز نہیں ہے ۔ حارث بن خرم صاحب لکھتے ہیں ۔ "بالکل ہماری پڑھائی الٹی ہے۔ دراصل عوام دھوبی کے گدھے سے بھی گئی گزری ہے جو رات کو کم از کم گھر تو آ جاتا ہے ۔ حکمرانوں نے کم اور ہماری عادتوں اور ظلم، سہنے کی بری '''''خصلت'''' نے ہماری مت مار دی ہے۔"

2 Comments:

At 10/06/2005 09:45:00 PM, Anonymous Anonymous said...

جو سکندر نے پورس پہ کی تھی چڑھائی
جو کی تھی چڑھائی تو میں کیا کروں
جو کورو نے پانڈو سے کی ہاتھا پائی
جو کی ہاتھا پائی تو میں کیا کروں
بی یو ٹی بٹ ہے تو پی یو ٹی پوٹ ہے
زمانے میں پڑھائی کا دستور الٹ ہے
جو ہے الٹی پڑھائی تو میں کیا کروں
------------------------------------------------------------
اس گانے پر میں نےآپ کی یاداشت کی تعریف کے بعد جو اس کے یاد آنے کی وجہ پوچھی تھی تو اس وجہ سے کی کیا آپ کو اس گانے کے بول سے اتفاق ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔کیونکہ میں تو نہ تھا۔۔۔۔نہ ہو۔۔۔۔تاریخ سے دیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے ۔۔۔۔۔ دوئم یہ تعین کرنا کہ اس بناء پر نظام تعلیم کو غلط قرار دینا درست نہیں ہے۔۔۔۔ نظام تعلیم میں موجود خامیوں کو دور کیا جانا چاہئے ! درست ۔۔۔ یہ بھی سچ ہے کہ خامیاں ہیں نظام تعلیم میں۔۔ مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس میں کوئی خوبی نہیں ہے۔۔۔ یہ بے روزگار پیدا کرتا ہے ۔۔۔ کلرکوں کو تخلیق کرتا ہے۔۔ پڑھے لکھے جاہل نکالتا ہے۔۔۔ بغیر علم کے ڈگری ہولڈر اس کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔۔۔ میں یہ سب کیسے مان لو؟؟؟ میرے والد (جو میرے آئیدیل بھی ہیں) اس تعلیم کی پیداوار ہیں۔۔۔ کئی اور بھی ایسے احباب ہیں جو یہاں سے پڑھ کر آگے گئے ہیں۔۔۔۔ تعلیم کسی شخض کو بدل دیتی ہے!اس کی خوبیوں میں نکھار پیدا کرتی ہے! ایک نہ جھٹلاسکنے والا سچ ہے۔۔۔ یہ سمجھ بوجھ کے نئے زاویے دیتی ہے! ایک اٹل حقیقت۔۔۔ تاریخ بھی ایک ایسا علم ہے۔۔۔
بے روزگاری کا تعلق کافی حد تک ملک کی سیاست اور معیشت سے ہے۔۔۔۔ یہ شبہ ان افراد کے ہاتھ میں ہے جو یہاں کا تعلیم یافتہ نہیں۔۔۔۔ہاں یہ بات تسلیم کردہ ہے کہ جمہوریت کو تعلیم کا ایک دوسرے سے کافی گاڑھا رشتہ ہے۔۔۔۔
مجھے آپ کی اس بات سے اختلاف نہیں ہے کہ ہم اسکول و کالج علم کے حصول کے لئے نہیں جاتے بلکہ ڈگری کے لئے جاتے ہیں۔۔ ڈگری اس لئے کہ نوکری مل جائے بچہ بڑا آدمی بنے (بڑا آدمی وہ جس کا عہدہ بڑا ہو سوچ نہیں)۔۔
اردو کے ساتھ ساتھ میں پیجابی،سندھی ،اور سرائیکی بھی سبجھ لیتا ہو۔۔۔

 
At 10/07/2005 03:25:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

شعیب صفدر صاحب
میں 6 اکتوبر کی پوسٹ میں شائد اپنا مدعا واضح نہیں کر سکا اس لئے معذرت خواہ ہوں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں گانے کے بول سے متفق نہیں ہوں ۔ میں نےگانا از راہ تفنن لکھا مگر سوالات کے جواب دیتے ہوۓ میں نے آج کے طلباء اور تعلیم کے ارباب اختیار پر تنقید کی ۔یہ میں نہیں کہتا کہ سارا نظام چوپٹ ہے ۔ میرا نظریہ ہے "محنت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا" ۔ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ خامیاں دور کرنا چاہیئں نہ کہ سب کچھ تلپٹ کر دیا جاۓ ۔ سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ جو بھی نظام بنایا جاتا ہے اسے چلنے نہیں دیا جاتا ۔ تجریہ کار اور لائق فائق پڑھانے والوں کو نظر انداز کر کے نجانے کس کے مشورہ سے اس میں آۓ دن تبدیلیاں کی جاتی ہیں اور کورس میں تبدیلیاں کرنا تو ایک کھیل بنا ہوا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ علوم کی ترقی کے ساتھ کورسز میں مناسب تبدیلیاں ہونا چاہیئں جو کہ کبھی کبھی ہوئی بھی ہیں ۔ ایک اور مسئلہ ہے کہ کبھی ہر سال امتحان کبھی دو سال بعد امتحان ۔ کبھی سیمسٹر سسٹم ۔ کبھی دو سال کا گریجوئیشن کورس کبھی چار سال کا ۔ پہلی دفعہ دو کی بجاۓ چار سالہ گریجوئیشن کورس چالیس سال قبل کیا گیا تھا اس کے بعد بتدریج سیمسٹر سسٹم لایا جانا تھا مگر کچھ سال بعد واپس دو سال پر آ گئے تھے ۔ متذکّرہ تبدیلیاں متعدد بار ہو چکی ہیں ۔

آپ نے اپنے محترم والد صاحب کا ذکر کر کے مجھے بہت محظوظ کیا ۔ آپ کے والد صاحب نے کم از کم تیس سال قبل ایف ایس سی یا انٹرمیڈیئٹ کیا ہو گا ۔ وہ تو اس زمانہ کے پڑھے ہوۓ ہیں جب سکولوں کالجوں میں طاباء و طالبات کو پڑھائی کرانے کے علاوہ تعلیم و تربیت بھی دی جاتی تھی ۔ میں نے لکھا تھا کہ گڑبڑ تین دہائیاں پہلے شروع ہوئی ۔ دراصل تعلیم چوپٹ کرن کی بنیاد 1974 میں رکھی گئی تھی جب تعلیمی ادارے قومیا کر وہاں من پسند لوگوں منتظم لگا دیا گیا تھا اور سرکاری اداروں میں لیٹرل انٹری کے ذریعہ اپنے خاص خدمت گاروں کو تعینات کیا گیا ۔

علم کے بغیر سند یونیورسٹی یا بورڈ کی پالیسی نہیں ہے یہ آجکل کئی طلباء کی خواہش ہے اور کچھ نام نہاد تعلیمی ادارے بھی اس میں ملوث ہیں ۔ آپ نے صحیح کہا کہ تعلیم شخصیت کو بدل دیتی ہے ۔ بے روزگاری کا تعلق کسی حد تک ملکی سیاست سے ہے جس نے سارا نظام بگاڑ دیا ہے ۔ بڑی اچھی بات ہے کہ آپ اپنے ملک کی چار زبانیں جانتے ہیں ۔

 

Post a Comment

<< Home