Monday, September 05, 2005

آؤ بچو سنو کہانی

ہم بہن بھائی جب چھوٹے چھوٹے تھے دادا جان سے کہتے کہانی سنائیں ۔ وہ کہتے آؤ سنو کہانی ایک تھا راجہ ایک تھی رانی دونوں کی ہوگئی شادی ختم ہوئی آج کی کہانی ۔ اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ۔ لیکن میں آج وہ کہانی کہنے لگا ہوں جو آپ نے پہلے کبھی سنی نہیں ہو گی ۔ ویسے کہانی شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے ۔ شادی سے پہلے تو صرف ہوائی قلعے ہوتے ہیں ۔ ایک درخت ہوتا ہے جو بہت جلد بڑا ہو جاتا ہے بہت بڑی جگہ گھیر لیتا ہے اور اس کی جڑیں بھی زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ۔ ایک علاقہ میں لوگ ٹھیک ٹھاک رہ رہے تھے ۔ ایک آدمی یہ کہہ کر ان کی زمین پر آیا کہ وہ ان کی زمین کی پیداوار بڑھا دے گا اور وہ اطمینان کی زندگی گذار سکیں گے ۔ اس نے متذکرہ درخت وہاں بو دیا اور ساتھ ہی اپنا مکان بنا کر رہنے لگا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت بہت بڑا ہو گیا اور بجائے پیداوار بڑھنے کے اس کے سائے اور جڑوں کی وجہ سے وہاں پیداوار کم ہو گئی ۔
۔
اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ اس شیطانی درخت کی ایک شاخ درخت لگانے والے کے گھر میں گھس گئی ۔ اس نے وہ شاخ کٹوا دی ۔ اس کی جگہ دو شاخیں اگ کر اس کے گھر میں گھس گئیں ۔ اس نے وہ کٹوا دیں تو تین چار شاخیں ان کی جگہ اگ کر اس کے مکان میں گھس گئیں اور ساتھ ہی درخت کی جڑوں نے اس کے مکان کی بنیادیں ہلا دیں جس سے درخت لگانے والا نیم پاگل ہو گیا ۔
۔
جناب اس درخت کا نام ہے دہشت گردی ۔ اگر زمین فلسطین ہے تو درخت لگانے والا اسرائیل اور اگر زمین عراق ہے تو درخت لگانے والا امریکہ ۔
۔
بچو کہانی پسند آئی ؟ اپنی رائے ضرور بھیجنا ۔

12 Comments:

At 9/05/2005 07:42:00 AM, Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

بہت اچھی لگی یہ کہانی !۔۔۔

 
At 9/05/2005 03:46:00 PM, Blogger Jahanzaib said...

جی بہت اچھی کہانی ہے

 
At 9/05/2005 08:12:00 PM, Blogger Shaper said...

Its a leason learning story .... although we call its a story, but its a reality. Thanks for sharing it

 
At 9/05/2005 10:28:00 PM, Anonymous Anonymous said...

جناب اجمل صاحب،
کہانی اچھی ہے مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ عراق میں درخت اگانے کیلئے عرب ممالک نے بھی امریکہ کا بھر پور ساتھ دیا تھا ـ

 
At 9/06/2005 12:51:00 AM, Blogger خاور کھوکھر said...

آپ نے عبدالواحد کھوکھرصاحب كے متعلق اور ميرى تعليم پوچها تها ـ
ميں ايكـ انتهائى غريب خاندان سے هوں كه آب تصّور بهى نهيں كر سكتے ـ
ستر كى دهائى تكـ ميرے خاندان ميں دوردورتكـ بهى كوئى ميٹركـ پاس نهيں تها ـ اب بهى ادهے سے ذياده ميرے آپنے لوگ تحرير كى پهچان سے نا بلد هيں ـ
اس وقت بهى ميرا اپنے خاندان كے كسى بهى فرد سے انٹر ننيٹ پر رابطه نهيں هے ـ
كيونكه كوئى بهى كمپيوٹر استعمال نهيں كر سكتا! ـ
حالانكه ميرا خاندان بهت بڑا هے ـ
اگلى دفعه جب ميں پاكستان اؤں گا تواپكو اپنے گاؤں لے كر چلوں گا ـ
ليكن ايكـ بات بتاؤں ميرے خاندان كے افراد جيسے ملنسار مخلص اور اچهے لوگ اپ كو پاكستان ميں كم هى مليں گےـ

 
At 9/06/2005 07:08:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

شعیب صفدر صاحب جہانزیب اشرف صاحب شبیر صاحب اور دبئی والے شعیب صاحب
آپ سب کا شکریہ
دبئی والے شعیب صاحب سے عرض ہے کہ اگر نام نہاد مسلمان حکمران صحیح مسلمان ہوتے تو امریکہ کو افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کی جراءت نہ ہوتی ۔

 
At 9/06/2005 07:28:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

عبدالواحد کھوکھر انجنئرنگ کالج میں مجھ سے ایک سال سینئر تھے ۔ میرا خیال ہے وہ اسی علاقہ میں کسی گاؤں کے رہنے والے تھے جس میں آپ کا گاؤں ہے ۔ ان کا خاندان جموں کے کسی گاؤں سے 1947 میں ہجرت کر کے آیا تھا ۔ وہ بہت ہی اچھے اور ملنسار آدمی تھے ۔ ذہین اور محنتی تھے ۔ ان کے آباء و اجداد کمہار تھے ۔ والدین انتہائی غریب ہوتے ہوئے وہ کسی طرح پڑھتے رہے ۔

آپ کی دعوت کا مشکور ہوں ۔ اللہ کرے آپ کے اگلی دفعہ پاکستان آنے تک میں سفر کے قابل ہو جاؤں اور آپ کے گاؤن کی سیر کو جا سکوں ۔ میں پاکستان میں اور پاکستان کے باہر سوائے امریکہ کے جہاں کہیں بھی گیا شہروں سے باہر کے علاقوں کو دیکھا اور وہاں بسنے والوں کی عادات معلوم کیں ۔ اونچی عمارتوں نے مجھے کبھی مرغوب نہیں کیا لیکن سادہ لوگوں کی محبت نے مجھے ہمیشہ کھینچا ۔

 
At 9/07/2005 11:42:00 PM, Blogger S A J Shirazi said...

Nice post man. I enjoyed this.

 
At 9/17/2005 07:08:00 AM, Anonymous Anonymous said...

asalam o alikum
ye parhtay parhty mujhy bhi apna bachpun, aor bahpun sy realted batein yaad agayein..meri dadi hamesha kaha karti thein..balky abhi bhi kehti hain....dopeher mein kahaniyan nhi suntay musafir rasta bhol jatay hain

very nice uncle...kehny ko toh kahani ha likin sohny ko buhat kuch ha

 
At 9/19/2005 11:59:00 PM, Blogger urdudaaN said...

آپ كى تحرير تو بہت دلچسپ هے، آپكا بلوگ اب آپكے ماضى كى يادوں كو يوں محفوظ كرسكتا هے

 
At 9/20/2005 11:52:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

شیرازی صاحب کمال لکھنے والے کا نہیں ہوتا تعریف کرنے والے کی اعلی ظرفی ہوتی ہے ۔ بہر حال پسند کا شکریہ

گمنام صاحب یا صاحبہ ۔
آپ کا شکریہ ۔ اگر آپ کی پہچان ہو جاتی تو ہمیں اور بھی زیادہ خوشی ہوتی ۔

اردو دان صاحب آپ کا شکریہ ۔ میرے خیال میں بلاگ کا صحیح استعمال یہی ہے کہ اپنا علم اور اپنے تجربات بعد میں آنے والی نسل تک پہنچائے جائیں ۔
میں آج آپ سے رابطہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا کہ اپنے بلاگ پر آپ کا تبصرہ نظر پڑا ۔ اللہ سبحانہ و تعالی کی مجھ پر مہربانی ہے کہ جب میں کسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہوں تو مددگار ازخود میرے پاس پہنچ جاتا ہے ۔
میں نے جہانزیب اشرف صاحب کے بلاگ پر لکھی ہوئی ہدائت کے مطابق عمل کیا مگر شائع کرتے وقت بلاگر نے اسے قبول نہیں کیا اور بتایا کہ اس میں کوئ غلطی ہے ۔ آپ میری مدد کیجئے ۔ اپنی بتائی ہوئی سٹرنگ یا ایرے میں انگریزی اور اردو کے الفاظ ایک دوسرے کے بعد لکھ کر مجھے اس ایڈریس پر بھیج دیجئے ۔ ممنون ہوں گا ۔
iabhopal@hotmail.com

 
At 9/20/2005 01:32:00 PM, Blogger urdudaaN said...

آپ كو اى۔ميل ارسال كرچكا هوں

 

Post a Comment

<< Home