Thursday, August 18, 2005

کراچی کی حکومت پھر نمبر لے گئی

کراچی کے ایک پولنگ سٹیشن پر پولنگ سے قبل ہی بیلٹ باکس بھرے ہوئے پائے گئے۔ شہر کے مصروف علاقے برنس روڈ کے وومن کالج پولنگ سٹیشن پر صبح سوا آٹھ بجے جب بیلٹ باکس دیکھے گئے تو ان میں سے بعض پہلے سے بھرے ہوئے تھے جب کہ بعض کی سیلیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔
پریذائیڈنگ افسر احمد سلیمان نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں جب سرکاری طور پر یہ بیلٹ بکس ملے تو ایسے ہی ملے ہیں، اور ہم ان پر ہی کام کر رہے ہیں۔
اس علاقے میں متحدہ مجلس عمل کے الخدمت گروپ اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے حامی امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔ الخدمت پینل کے پولنگ ایجنٹوں کا کہنا ہے کہ قواعد کے مطابق پولنگ شروع ہونے سے پہلے خالی بیلٹ بکس امیدواروں یا ان کے پولنگ ایجنٹوں کو دکھائے جاتے ہیں۔ الخدمت پینل نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے مخالف پینل نے پہلے سے بیلٹ بکس بھر کر رکھ دیے ہیں۔
سنی تحریک نے الزام عائد کیا ہے کہ پولنگ کے مقامات پر بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ تحریک کے ترجمان کا کہنا ہے امیدواروں کے پولنگ کیمپ پولنگ اسٹیشن سے کم از کم دو سو گز کے فاصلے پر قائم ہوتے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے حامی امیدواروں نے شہر کے چاروں اضلاع میں بیشتر مقامات پر پولنگ کیمپ پولنگ اسٹیشن کی دیواروں کے ساتھ قائم کیے ہوئے ہیں اور پولنگ اسٹیشنوں کے ساتھ دیواروں پر بیلٹ پیپر کے رنگ کی سیاہی سے ایم کیو ایم کے امیدواروں کے بارے میں چاکنگ کی گئی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ کئی پولنگ اسٹیشنوں پر بوتھ نمبر بھی لکھے ہوئے نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ لیاقت آباد میں ان کے انسان دوست پینل کے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ پر جاتے ہوئے مخالف پینل نے روکا، ہراساں کیا اور تلاشی لینے کے بعد دھمکیاں دی۔

8 Comments:

At 8/18/2005 01:49:00 PM, Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

جناب تب ہی تو کہا تھا کہ لوگ الیکشن سے نہیں سلیکشن سے آئے گے
سلیکشن تو ایسے ہی ہوتی ہے نا! صبح میں ووٹ ڈالنے گیا تھا تو ابھی اُس وقت تک قریب سوا نو ہو رہے تھے اور پولینگ اسٹیشن پر بیلٹ پیپر ہی نہیں آٗئے تھے
حساب لگائے

 
At 8/18/2005 07:25:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

اللہ ہمارے گناہ معاف کرے

 
At 8/21/2005 04:42:00 PM, Blogger Danial said...

میں نہ صرف برنس روڈ پر رہتا ہوں بلکہ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت میرے والدین مذکورہ پولنگ اسٹیشن پر ووٹ ڈالنے کے لئیے باہر کھڑے تھے۔ جو بوگس ووٹ برآمد ہوئے تھے ان پر متحدہ کے امیدواروں کے ناموں پر مہریں نہیں لگی ہوئی تھیں بلکہ وہ سادی پرچیاں تھیں جن کو بنیاد بنا کر جماعت کے حامیوں نے مذکورہ پولنگ اسٹیشن پر توڑ پھوڑ کی۔ پولنگ بہت دیر سے شروع ہوئی اور اس سب ہنگامہ آرائی کے باوجود جماعت کے امیدوار چند سو ووٹ بھی نہ لے پائے۔

کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر دھاندلی نہ ہوتی تو ایم کیو ایم ہار جاتی؟ میرے خیال میں آپ کچھ دنوں کے لئیے کراچی آئیں اور ہمیں میزبانی کا موقع دیں۔ آپ خود دیکھیں گے کہ کراچی کی عوام متحدہ قومی موومنٹ کو کیوں ووٹ دیتے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ہی عام خیال یہ تھا کہ جماعت کو شکست فاش ہوگی اور جب ایسا ہوگیا تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟

جناب آخر اس بات کو تسلیم کرنے میں کیا حرج مانع ہے کہ کراچی کے عوام متحدہ قومی موومنٹ کو ووٹ دیتے ہیں؟

چلیں متحدہ کے ووٹ تو جعلی تھے مگر جماعت کے اصلی ووٹ تو پھر بھی بہت بہت بہت کم تھے۔ اگر متحدہ کے آدھے ووٹ بھی بوگس مان لئیے جائیں تب بھی متحدہ باآسانی جیت جاتی ہے۔

سنی تحریک، متحدہ مخالف پروپگینڈا کر کے سستی شہرت کی متلاشی ہے ذرا الیکشن کے نتائج دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کتنے لوگوں نے ان کے حق میں ووٹ دئیے ہیں۔

 
At 8/21/2005 05:58:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

This comment has been removed by a blog administrator.

 
At 8/21/2005 07:38:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

دانیال صاحب
میزبانی کی خواہش کا شکریہ ۔ کبھی اللہ کراچی لایا تو انشااللہ استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کروں گا ۔ میرے کئی قریبی عزیز
کراچی آئیٹ ہیں میں کبھی کبھار کراچی کا چکر لگاتا ہوں کیونکہ وہ لوگ پہاڑوں کی سیر کے زیادہ شوقین ہیں اس لئے ادھر آ جاتے ہیں ۔

میں نے اخبار کی خبر نقل کرنے کا قصور ضرور کیا ہے ۔ آپ بہت دور لے گئے ۔ میں پہلے بھی واضح کر چکا ہوں کہ میرا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ۔ جتنا وقت اور پیسہ ان مضر انتخابات پر خرچ کیا جاتا ہے وہ سرکاری یونیورسٹیوں میں بانٹ دیں تو بہت فائدہ ہو ۔ جب ہونا وہی ہے جو ڈکٹیٹر چاہے تو یہ فضولیات کس لئے ۔ پچھلے چالیس سال سے جو سیاست دیکھ رہا ہوں ۔ بخشو بی بلی چولہا لنڈورا ہی بھلا کہنے کو دل چاہتا ہے ۔ اگر آپ غور کرنا مناسب سمجھیں تو میرا مشورہ یہ ہے کہ سیاست سے باہر نکلیں کیونکہ اور بھی غم ہیں زمانہ میں محبت کے
سوا

 
At 8/22/2005 02:51:00 PM, Blogger Danial said...

آپکی اس پوسٹ اور پچھلی پوسٹ سندھ کی حکومت پھر بازی لے گئی سے غلط تاثر ابھرتا ہے۔ یہاں پنجاب میں انتخابات میں اسقدر دھاندلی ہوئی ہے کہ بس نہ پوچھیں۔ سرکاری ذرائع کا جس بےدردی سے استعمال ہورہا ہے اس کے نظیر نہیں ملتی مگر اس بارے میں آپ نے کچھ نہیں لکھا۔ کئی لوگ انتخابات کے دوران فائرنگ میں ہلاک ہوئے اور انتخابات کے بعد کئی لوگوں نے جیتنے والوں پر حملے کئیے۔ سرحد میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔ خواتین امیدواروں کو ہراساں کیا گیا مگر آپ نے اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہا۔ پنجاب میں برادری اور ذات ہات کی بنیاد پر یہاں لوگ ووٹ ڈال رہے ہیں اور وزیر اعلی کھلے عام لوگوں کی حمایت میں اشتہار چھپوارہے ہیں۔ عوام سر پر بالٹیاں پہن کر موٹر سائیکلیں چلارہے ہیں اور جرنیلوں اور سیاستدانوں کے لڑکے کھلے عام اپنے بڑوں کے کرپشن پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔

 
At 8/22/2005 03:24:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

دانیال صاحب
میں تھوڑا سا ترتیب سے چلتا ہوں ۔ پہلے میں نے وفاقی دارالحکومت کے متعلق دو تین بار لکھا ۔ اس کے بعد باری کراچی کی آتی ہے پھر لاہور پھر پشاور پھر کوئٹہ ۔ آپ جن باتوں کا ذکر کر رہے ہیں وہ سب کے علم میں ہیں ۔ ان میں پڑ گیا تو کبھی نکل نہ پاؤں گا ۔ ایک آدمی کے جسم پر ایک دو چوٹیں لگی ہوں تو وہ بتا سکتا ہے چوٹ کہاں لگی ہے ۔ جس کا جسم چکناچور ہو وہ کیا بتائے کہ کہاں چوٹ لگی ہے ۔ آپ لاہور میں بیٹھے ہیں تو لکھئیے نا جو کچھ آپ نے دیکھا ۔ یہ بھی بتائیں کہ پنجاب میں سینکڑوں لوگ بلا مقابلہ کیسے منتخب ہو گئے ۔ بڑا سادہ سا طریقہ ہے ۔ مخالف امیدوار کو کاغذات نامزدگی داخل نہ کرنے دو چاہے اسے اغوا کرانا پڑے ۔ یہ طریقہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایجاد کیا جان محمد عباسی کو اغواء کرا کر ۔ اس کے پودے بنے کراچی اور سندھ میں اور جنگل بنا پنجاب میں ۔ آپ پھر کہیں گے کراچی کو بدنام کرتا ہوں ۔ انشاءاللہ میری آنے والی کل کی تحریر میں کراچی کے ایک ادارے کا ذکر ہو گا لیکن میں کراچی کا ذکر نہیں کروں گا وعدہ رہا ۔

 
At 8/22/2005 08:39:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

This comment has been removed by a blog administrator.

 

Post a Comment

<< Home