Tuesday, August 16, 2005

دانیال صاحب کا استفسار ۔ تیسری قسط

جاہل ملّا ۔ کہتے ہیں نیم حکیم خطرہء جان نیم ملّا خطرہء ایمان ۔ صرف دو واقعات درج کروں گا ۔ آٹھویں جماعت میں میرے سکول کی اسلامیات کا حال دیکھ کر والد صاحب نے راولپنڈی شہر میں محلے کی مسجد کے امام صاحب کی ٹیوشن مقرر کی کہ میں قرآن شریف دوہرا لوں ۔ میں تلاوت شروع کرتا تو مولوی صاحب سو جاتے ۔ پارہ ختم ہو جاتا تو وہ جاگ جاتے ۔ اسی طرح دو ماہ میں پورا قرآن شریف پڑھا ۔ یہ صاحب بغیر مدرسہ گئے مولوی بن گئے تھے ۔ میری تلاوت کی تصحیح پھر میری والہ صاحبہ نے کی ۔ حکومت نے 1984 میں سکولوں میں مدرسوں سے سند یافتہ اسلامیات کے استاد رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ کام ایک سیکشن آفیسر کے سپرد ہوا جو ہمارے سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی والے گھر کے قریب مسجد کے خطیب بھی تھے ۔ ایک شام میں کسی کام سے ان کے پاس گیا تو پریشان پایا ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے پہلی قسط میں پانچ سو استاد بھرتی کرنا ہیں ۔ ایک سالہ کورس کی سند ہونی چاہیئے میں نے چھ اور تین ماہ والوں کے نام بھی لکھ لئے ہیں اس کے باوجود 247 ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا جناب اتنے سارے امام مسجد خیراتی روٹیوں پر پل رہے ہیں ان کو لے لیں ۔ فرمانے لگے محلہ میں جو بقیہ چار مساجد ہیں ان کے امام ایک دن کے لئے مدرسہ نہیں گئے ۔ میں نے حیرت سے کہا تو یہ امام کیسے بن گئے ۔ فرمایا لوگوں نے اپنی مقصد براری کے لئے بنا دیئے یا خود زورآوری سے بن گئے ہوں گے ۔ جاہل ملّا کہاں سے آئے ۔ ملّا اور جاہل اس حقیقت نے مجھے لڑکپن ہی میں پریشان کر دیا تھا ۔ میں اس کا منبہ تلاش کرنے میں لگ گیا ۔ حالات کی سختیاں جھیلتے سال گذرتے گئے مگر میری جستجو جاری رہی ۔ آخر عقدہ کھلا ۔ ہندوستان ميں انگریزوں کی حکومت بننے سے پہلے بڑی مساجد علم کا گھر ہوا کرتی تھیں اور انہیں جامع یعنی یونیورسٹی کہا جاتا تھا ۔ وہاں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علموم بھی پڑھائے جاتے تھے ۔ طلباء دور دراز سے آکر سالہا سال قیام کرتے اور علم حاصل کرتے ۔ اساتذہ اور تعلیم کا خرچ چلانے کے لئے ان مساجد کے ساتھ بڑی بڑی جاگیریں تھی ۔ اس کے علاوہ مسلمان بادشاہ اور امیر طلباء نذرانے بھی دیتے تھے ۔ 1857 میں جب ہندوستان پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہو گیا تو انہوں نے ہنرمندوں کے ساتھ علماء بھی قتل کروا دیئے اور مساجد کی جاگیریں ضبط کر لیں ۔ پھر پسماندہ علاقوں سے لوگ چنے جو دینی علم نہ رکھتے تھے ۔ ان لوگوں کو برطانیہ بھیج کر چند ماہ کا امام مسجد کا کورس کرایا گیا اور واپسی پر مساجد کا بغیر تنخواہ کے امام مقرر کر دیا ۔ ان اماموں کا نان و نفقہ علاقہ کے لوگوں کے ذمہ کر دیا اور نگرانی علاقہ کے نمبردار یا چوہدری یا وڈیرے یا سردار وغیرہ جو خود انگریزوں نے مقرر کئے تھے کے ذمہ کر دی ۔ آجکل کے جاہل ملّا زیادہ تر اسی عمل کا نتیجہ ہیں ۔ فرقہ وارانہ تشدد ۔ موجودہ حالات میں سمجھ میں نہیں آتا کہ فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ متحدہ مجلس عمل دیوبندی ۔ بریلوی ۔ شیعہ یا اثناعشری اور اہل حدیث سب کا اتحاد ہے اور حکومت کی اسے توڑنے کی کوششوں کے باوجود یہ اتحاد قائم ہے ۔ کوئی ایسی قوت ہے جو ایم ایم اے کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے کبھی ایک فرقہ کے اور کبھی دوسرے فرقہ کے لوگوں کو قتل کر یا کروا رہی ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام صرف دین کے دشمن ہی کر سکتے ہیں ۔
جاہل اور فرقہ واریت پھیلانے والے ملّا حکومت کی لگائی ہوئی پنیری اور حکومت کے باغ کے درخت ہیں ۔ حکمران ان لوگوں کو علماء و مشائخ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ان میں مساجد کے امام بھی ہیں اور شیخ بے مسجد بھی ۔ کنونشن سنٹر اسلام آباد میں حکومت کے خرچ پر ایک علماء و مشائخ کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس سے صدر جنرل پرویز مشرف نے خطاب کیا اور ان سے اپنے حق میں قرارداد منظور کروائی ۔ اس کانفرنس کا ایم ایم اے ۔ بے نظیر کی پی پی پی اور نواز شریف کی مسلم لیگ نے بائیکاٹ کیا تھا ۔ اس کے باوجود صرف راولپنڈی سے 260 علماء و مشائخ شامل ہوئے جبکہ راولپنڈی میں 150 مساجد بھی نہیں اور بہت سے مولوی ایم ایم اے ۔ بےنظیر اور نواز شریف کے حامی ہیں ۔ ہر حکومت کو ایسے داڑھی والوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت کے حق میں فتوی دیں ۔ باقی وقت اپنا ٹیکا رکھنے کے لئے یہ نام نہاد علماء و مشائخ فرقہ پرستی کرواتے ہیں ۔ ان کے خلاف اگر حکومت کوئی قدم اٹھائے گی تو پھر حکومت کے حق میں فتوے کون دے گا ۔

4 Comments:

At 8/16/2005 07:50:00 PM, Anonymous Anonymous said...

جاہل ملاوں کی تاریخ کے متعلق مجھے معلوم نہیں تھا۔ البتہ قیاس کچھ اسی قسم کا تھا کہ من حیث القوم ہمارا رویہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ھمارے ہاں کے مولویوں کا قصور یہی ہوتا ہے کہ بے چارے میٹرک کے امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں اور گھر والے انہیں کسی مسجد کی گدی پر بٹھا آتے ہیں کہ دو وقت کی روٹی تو ملے گی۔ کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہماری مسجدیں با شعور مولویوں سے خالی ہو گئی ہیں۔ وہ موجود ضرور ہیں لیکں نقار خانے میں طوطی کی طرح۔

 
At 8/16/2005 09:18:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

سعادت صاحب
آپ نے ٹھیک ہی لکھا ہے ۔ ہمارے ہاں مسجدوں کے امام بالخصوص دیہات میں زیادہ تر ان پڑھ ہی ہیں ۔ قصور ہم پڑھے لکھے لوگوں کا ہے کہ ہم نے آج تک صحیح مسلمان بننے کی کوشش نہیں کی اور اسی وجہ سے ہم ان پڑھ لوگوں کو اپنا امام بنائے بیٹھے ہیں ۔

 
At 8/20/2005 01:29:00 AM, Blogger Saqib Saud said...

ماضی کا تو مجھے کچھ معلوم نہیں۔۔۔
مگر اتنا ضرور پتا کہ آج کل اکثر مولوی حضرات جاہل کیوں ہیں۔آج کل عام رواج یہ ہے کہ جو سب سے نا لائق بچہ ہوتا ہے اسے لوگ حافظ یا مولوی بناتے ہیں۔
تاکہ اس کی دال روٹی کا مستقل بندوبست رہے۔

 
At 8/20/2005 10:44:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

رانا صاحب
میں نے مدرسوں کے متعلق آپ کی تحریر پڑھی تھی اور شائد تبصرہ بھی کیا تھا ۔

یہ جن صاحب کا بلاگ مائی پاکستان آپ متعارف کرا رہے ہیں انہوں نے فونٹ کونسا استعمال کیا ہے ۔ میں نے ان کا بلاگ کھولا تو مشین لینگوئج نظر آتی ہے ۔

عقلمند شمشیر صاحب
آپ کا کہنا کسی حد تک درست ہے ۔ ہند و پاکستان میں رواج ہے کہ نالائق یا نکمے یا نادار بچوں کو مدرسہ میں داخل کرا دیتے ہیں ۔ کئی والدین اپنے قابو سے باہر بچوں کو مدرسہ میں اس ہدائت کے ساتھ داخل کراتے ہیں کہ اسے باندھ کر رکھیں ورنہ بھاگ جائے گا ۔ اس سب کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم دین کو اہمیت نہیں دیتے ۔

 

Post a Comment

<< Home