Friday, September 02, 2005

دانیال صاحب کا استفسار ۔ ساتویں اور آخری قسط

دانیال صاحب پوچھتے ہیں ۔ ایک اور اہم سوال پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اور جہاد میں کس طرح فرق کرنا چاہیئے؟ جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنا بہت آسان ہے مگر ہمارے لئے مشکل بن گیا ہے ۔ وجہ ۔ ہمارے دماغوں کی فریقوئنسی کچھ اس طرح سے سیٹ ہو گئی ہے کہ صرف مغربی دنیا سے آنے والی ویوز ہمارے دماغ میں سما سکتی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دین سے دور ہونے کے ساتھ ہم انسانی سوچ سے بھی محروم ہو گئے ہیں ۔اچھائی اور برائی کی پہچان ہی مفقود ہو گئی ہے اور ہمیں ظالم اور مظلوم کی پہچان نہیں رہی ۔ ہم نہیں جانتے سوائے اس کے جس کا علم ہمیں اللہ دے کیونکہ اللہ علیم الحکیم ہے ۔ اس لئے میں اللہ کے کلام سے صرف دو آیات نقل کرتا ہوں ۔
سورۃ 2 البقرہ آیت 85 ۔ اور کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں ۔
سورۃ 49 الحجرات آیت 14 ۔یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ۔ ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہو گئے ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا ۔ آج کل ہم لوگ نہ تو پورے قرآن پر عمل کرتے ہیں اور نہ ایمان ہمارے دلوں میں داخل ہوا ہے ۔ اس وجہ سے ہمیں اپنے دین کی بہت سی باتیں یا تو معلوم ہی نہیں یا سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اگر لاہور یا کراچی کا دولتمند اور طاقتور شخص کاہنا کاچھا یا لیاری کے غریب لوگوں کو اپنے آدمیوں کے ذریعہ قتل کروا دے اور ان کے اساسوں پر بھی قبضہ کر لے ۔ تو ہم کہیں گے کہ لاہور یا کراچی کا دولتمند ظالم ہے اور کاہنا کاچھا یا لیاری کے غریب لوگ مظلوم ہیں ۔ اگر یہ مظلوم لوگ یا ان کے عزیز و اقارب اپنے اساسے واپس لینے کی کوشش کریں اور اس سلسلہ میں اس ظالم کے خلاف بھی کاروائی کرنا پڑ جائے ۔ پھر ان کو اگر دہشت گرد کہا جائے تو یہ ظلم ہوگا انصاف نہیں ۔ تو پھر ہم فلسطینیوں ۔ کشمیریوں ۔ چیچنوں ۔ افغانوں اور عراقیوں کو دہشت گرد کس طرح کہہ سکتے ہیں ۔ اصل دہشت گرد تو ان کو دہشت گرد کہنے والے خود ہیں جنہوں نے ان کو مارا ۔گھروں سے نکالا اور ان کے اساسوں پر قبضہ کیا ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے انسانوں کو ہر بات بہت اچھے طریقے سے بتائی ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ البقرہ کی آیات 190 تا 193 کا کچھ حصہ ۔ اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور ان کو نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے اس لئے کہ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔ (ظلم ۔ بے انصافی ۔ فساد سب فتنہ کی قسمیں ہیں) یہاں کلک کر کے پڑھئے کہ جنرل مرزا اسلم بیگ اس بارے کیا کہتے ہیں ۔ محمد شاہد عالم صاحب امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ۔ ان کے ایک مضمون کا مختصر خلاصہ نیچے درج کر رہا ہوں ۔
دہشت گردی کی جو ڈیفینیشنز امریکہ نے دی ہیں اگر ہم ان کی روشنی میں امریکہ کی یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کے کردار کا جائزہ لیں تو مسئلہ مبہم و مشکوک ہو جاتا ہے ۔ امریکی حکومت نے اکثر اوقات امریکہ میں اور امریکہ سے باہر دوسرے ملکوں میں سویلین لوگوں کے خلاف تشدد کی کاروائیاں کی ہیں جو امریکہ کی اپنی پیش کردہ ڈیفینیشن کے مطابق دہشت گردی قرار پاتی ہیں ۔ اگر غیرجانبدار مفکّروں کی ایک ٹیم پچھلی دو صدیوں میں ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ امریکہ دہشت گردوں میں سر فہرست ہے ۔ بلا شبہ جرمنی برطانیہ فرانس ہسپانیہ بیلجیم اٹلی روسی یونین اور جاپان کا بھی فہرست میں اونچا مقام ہو گا اور اگر اس فہرست میں عراق میں صدام کی حکومت بھی ہوئی تو شائد فہرست کے آخری چند میں سے ہو ۔

5 Comments:

At 9/02/2005 08:41:00 AM, Anonymous Anonymous said...

ظلم کے خلاف جدوجہد ایک بات ہے اور بے گناہوں، عورتوں اور بچوں کا بے دریغ قتل اور۔ کچھ لوگ چیچنیا، عراق، فلسطین وغیرہ میں اس دوسرے کام میں ملوس ہیں۔

شاہد عالم صاحب کو کچھ سوچنا چاہیئے۔ امریکہ روس اور سوویت یونین سے برا؟ سٹالن کو بھول گئے ہیں شائد شاہد عالم صاحب۔

 
At 9/02/2005 01:04:00 PM, Blogger خاور کھوکھر said...

كچهـ اپ سے ملتى جلتى باتيں ان دنوں ميں بهي لكهـ رها هوں ـ
ميں پەلے كاغذ پر لكهـ كر پهر ٹائپ كيا كرتا هوں ـ
ليكن اس سے بهى ضرورى كام هے كه يهاں فرانس ميں پاكستانى لوگوں كا اپس ميں روابط كا معقول ذريعه نهيں هے ـ ميں اس كے لئيے كوشش كر رها هوں ميں اپ كو اس كا لنكـ بهيجوں گا اگر اپ مشوره دے سكيں
ـ

 
At 9/02/2005 02:55:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

زکریا
جب ظلم کا بازار گرم ہوتا ہے اور ہر طرف ایسے جنگل کا سا سماں ہوتا ہے کہ بھیڑیئے لا تعداد معصوم ہرنوں کو چیر پھاڑ رہے ہوتے ہیں تو گیدڑ بھی شکار کھلینا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے ۔ امریکہ اور اس کے ساتھی بھیڑیوں سے بھی زیادہ خونخوار اور بے رحم ہیں ۔

عام طور پر ضروری نہیں ہوتا کہ ہر شخص کا نام لکھا جائے ۔ مقصد بات واضح کرنے کا ہوتا ہے جو چند ناموں سے پورا ہو جاتا ہے ۔

 
At 9/02/2005 03:33:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

خاور صاحب
آپ لنک بھیجئے مجھ سے جو خدمت ہو سکی میں حاضر ہوں ۔

 
At 9/02/2005 04:43:00 PM, Blogger خاور کھوکھر said...

http://mapage.noos.fr/khawar/
ميں نےاس پر آج هى كام شروع كيا هے
ابهى ميں نے اپنا ايڈريس بهى نهيں لكها انے والے چند دنوں ميں
اس هوم پيج كى شكل واضع هو جائے گي
ميں بيلٹن بورڈ كى طرح كى چيز بنانا چاهتا هوں
جهاں لوگوں كے پيغامات مفت ميں ڈسپلے كئے جائيں اور لوگ مفت ميں اس كو پڑه كر اس سے استفاده كر سكيں
ميں خود ايكـ كم تعليم يافته هوں (مڈل پاس) ـ
اس لئے اپ جيسے تعليم يافته لوگوں كے مشورے كى ضرورت رهتى هے ـ

 

Post a Comment

<< Home