Thursday, November 03, 2005

عید الفطر کیا لائی ہے

اللہ یہ عید الفطر سب مسلمانوں کے لئے مبارک کرے بالخصوص زلزلہ کے متاءثرین پر اپنی خاص رحمتیں نازل کرے ۔ یہ عید بھی کیا عید ہے نہ نئے کپڑے بنانے کا خیال آیا نہ ہلال نو دیکھنے کا ۔ ایک عید میں نے 1947 میں دیکھی تھی ۔ والدین سے دور لواحقین سے بچھڑے ہوۓ کسی کا پتہ نہ تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں اور ہر وقت یہی خدشہ کہ شائد اگلے ہی لمحے راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہاسبھہ یا اکالی دل کے مسلحہ دستے حملہ آور ہوں گے اور ہمیں کاٹ کے رکھ دیں گے ۔ ڈیڑھ ماہ اسی طرح گذرا تھا مگر ایک لمحہ کے لئے آنکھیں نم نہ ہوئی تھیں سواۓ اس دن کے جب ایک جوان نے آ کر بتایا تھا کہ سب مر گئے ۔ اس سال یہ کیسی عید آئی ہے کہ آنکھوں کی برسات لگی ہے اور دل ہے کہ کچلا چلا جاتا ہے ۔ مگر کیا کروں بوڑھوں کو دیکھوں یا جوانوں کو یا بچوں کو ہر طرف ایک ہی نقشہ ہے ۔ کسی کے سر پر پٹی بندھی ہے تو کسی کی ٹانگ پر پلستر چڑھا ہے ۔ کسی کی ٹانگ کاٹی جا چکی ہے اور کسی کا بازو ۔ معصوم بچوں کا بھی یہی حال ہے ۔ کئی بچے 26 دن گذرنے کے بعد بھی سہمے ہوۓ ہیں اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ کئی معصوم بچے ہیں جن کے نہ والدین کا پتہ ہے نہ کسی عزیز رشتہ دار کا ۔ لوگ تحفے دیتے ہیں تو لمحہ بھر کے لئے اپنی تکلیف بھول کر پھول سے بچے مسکرا دیتے ہيں ۔ بے سر و سامانی کی حالت میں بھی نہ صرف اللہ بلکہ لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ واپسی اختیار کرتے وقت جب کوئی کہہ اٹھتا ہے کل بھی آئیں گے نا ۔ ذرا جلدی آنا ۔ تو پھر قدم رک جاتے ہیں اور دل واپس آنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ آج کچھ بچوں نے میرے بیٹے کے ساتھ کرکٹ کھیلی اور بہت خوش ہوۓ ۔ میرا بیٹا اور بہو شروع دن سے ہی روزانہ کسی کیمپ میں چار پانچ گھنٹے لگا کر آتے ہیں ۔پرسوں رات میری بیٹی پہنچ گئی تھی وہ بھی شامل ہو گئی ۔ آج تو تینوں قبل دوپہر کے گئے ہوۓ افطاری کے وقت پنچے اور افطاری کر کے پھر چلے گئے کہ اب دوسرے کیمپ تحفے تقسیم کرنے ہيں ۔ رات کے گیارہ بج گئے ہیں اور ابھی تک واپس نہیں لوٹے ۔ میں ساتھ نہ گیا - بازار سے اشیاء لا کر ملازمین کی مدد سے ایک سو بچوں کے لئے تحفوں کے پیکٹ تیار کئے ۔ میرے دونوں بھائی بھی آج یہی کام کرتے رہے ۔ بہت سے دیگر لوگ بھی آجکل یہی کر رہے ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ سوئی ہوئی قوم جاگ اٹھی ۔ کسی کے پاس زمین پر بچھانے کے لئے کوئی دری بھی نہیں ۔ وہ گدلی اور ٹھنڈی زمین پر ہی بٹھتے اور لیٹتے ہیں ۔ صاحب دل لوگ آہستہ آہستہ ان کی ضروریات پوری کر رہے ہیں ۔ سی ڈی اے کے ملازمین ان کی حفاظت اور دیگر معاملات سنبھالے ہوۓ ہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ کیمپ جا کے اگر پوچھیں کہ آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے تو جواب ملتا ہے کہ اللہ کا شکر ہے ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ پھر وہاں جانے والے واقف کار لوگوں سے مشورہ کیا جاتا ہے کہ جو وہ دیں گے اس کی بجاۓ کچھ اور دیا جاۓ ۔

4 Comments:

At 11/04/2005 01:34:00 PM, Anonymous Anonymous said...

آپ کو سید مبارک

 
At 11/04/2005 01:36:00 PM, Anonymous Anonymous said...

ارے عید لکھنا تھا

 
At 11/05/2005 06:09:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

شعیب صفدر صاحب
شکریہ ۔ اللہ آپ اور آپکے اہل خانہ کے لئے عید مبارک کرے

 
At 11/05/2005 08:39:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

Verification attempt

 

Post a Comment

<< Home