Monday, May 29, 2006

راستہ صرف ایک ۔ نہ کہ تين

تخیّل ایک عجیب چیز ہے انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے ۔ پچیس سال پہلے کا واقع ہے ہم اُن دنوں طرابلس [لیبیا] میں تھے ۔ میں ایک ساتھی کو ملنے گیا ۔ اُس نے مجھے بیٹھک میں بٹھایا جہاں ٹی وی پر کسی فلم کا گانا چل رہا تھا ۔ بول تھے ۔ " تین بتّی چار راستہ ۔ تین دیِپ [دِیا] اور چار دوشائیں ۔ اِک رستے پہ مِل مِل جائیں" ۔ تین دیِپ والا منظر خوبصورت تھا ۔ میں اُسے دیکھتے دیکھتے کھَو گیا ۔ کچھ دیر بعد یوں جیسے میرے اندر روشنی کا دھماکہ ہوا اور یکدم میرے اندر ایک نئی زندگی آ گئی ۔ مجھے وہ مل گیا جس کے لئے میرا ذہن کافی عرصہ سے پریشان تھا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے وہ فلسفہ سمجھا دیا جو مجھے پہلے سمجھ نہ آیا تھا کہ مسلمان تنزّل کا شکار کیوں ہیں جبکہ غیر مُسلم ترقی کر رہے ہیں ؟ اللہ سُبحانُہُ و تَعالٰی نے ہمیں ایک راستہ دِکھایا [صِراطُ المُستَقِیم] اور ہدائت کی کہ ہمارا کھانا ۔ پینا ۔ اُٹھنا ۔ بیٹھنا ۔ سونا ۔ جاگنا ۔ مِلنا ۔ جُلنا ۔ اِخلاق ۔ لین ۔ دین ۔ کاروبار غرضیکہ ہر عمل دین اِسلام کے مطابق ہونا چاہیئے ۔ ویسے تو ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں کہتے ہیں ِاھدِنَا صِرَاطَ المُستَقِیم یعنی دِکھا ہم کو راہ سیدھی جو کہ ایک ہی ہو سکتی ہے لیکن اپنی عملی زندگی میں ہم نے تین راستے بنا رکھے ہیں ۔ 1 ۔ خانگی یا خاندانی معاملات کو ہم ایک طریقہ سے حل کرتے ہیں ۔ 2 ۔ دفتر یا کاروبار کے معاملات کو ہم کسی اور نظریہ سے دیکھتے ہیں ۔ 3 ۔ دین کو ہم نے بالکل الگ کر کے مسجد میں بند کر دیا ہے اور مسجد سے باہر صرف کسی کی موت یا نکاح پر استعمال کرتے ہیں ۔ ہماری حالت اُس شخص کی سی ہے جو ایک مقام سے ایک سِمت چلا ۔ بعد میں اُسے ایک اور کام یاد آیا ۔ چونکہ دوسرے کام کا راستہ مختلف تھا چنانچہ وہ واپس ہوا اور دوسرے کام میں لگ گیا ۔ پھر اُسے تیسرا کام یاد آیا اور اِس کا راستہ پہلے دو کاموں سے مختلف تھا چنانچہ وہ پھر مُڑا اور تیسرے کام کی طرف چل دیا ۔ اِس طرح وہ جس مقام سے چلا تھا اُسی کے گرد مُنڈلاتا رہا اور کسی سمت میں زیادہ پیشقدمی نہ کر سکا ۔ متذکّرہ بالا آدمی کے بر عکس ایک شخص نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے سارے کام ایک ہی طریقہ سے سرانجام دے گا چنانچہ وہ ایک ہی سِمت میں آگے بڑھتا گیا اور بہت آگے نکل گیا ۔ ملاحظہ ہوں دونوں صورتیں علمِ ہندسہ کی مدد سے ۔
غیرمُسلموں نے دین کو چھوڑ دیا اور اپنے خانگی اور کاروباری معاملات کو صرف نفع اور نقصان کی بُنیاد پر اُستوار کیا اور آگے بڑھتے چلے گئے گو دین کو چھوڑنے کے باعث اخلاقی اِنحطاط کا شکار ہوئے ۔ جب کہ بے عمل مسلمان نہ دین کے رہے نہ دُنیاوی کاموں میں ترقی کر سکے ۔ بقول شاعر ۔
نہ خُدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ۔ ۔ ۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ۔
*
میرا دوسرا بلاگ يہاں کلِک کر کے پڑھيئے يا مندرجہ ذیل یو آر ایل اپنے براؤزر ميں لکھ کر کھولئے ۔
Hypocrisy Thy Name - - http://hypocrisythyname.blogspot.com - - یہ منافقت نہیں ہے کیا

5 Comments:

At 5/29/2006 06:16:00 PM, Anonymous Anonymous said...

بلکل بجا فرمایا ہے آپ نے ۔۔۔ واقعی راستہ صرف ایک ہی ہے اب یہ انسان پر ہے کہ وہ کس طرح اس راستے پر چلتا ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق اور ہمت دے ۔۔۔۔ آمین

 
At 5/30/2006 10:16:00 PM, Blogger editor said...

Aap bhopali, main bhi bhopali. I live in Bhopal (india).

 
At 5/31/2006 05:21:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

منير احمد طاہر صاحب
ميں بھی آمين ثم آمين کہتا ہوں

اِنڈِ سکرائب صاحب
ميں بھوپال ہوں بھوپالی نہيں ۔ بھوپال ايک قبيلہ ہے مگر ہو سکتا ہے اس کا بھوپال رياست سے کوئی تعلق ہو

 
At 5/31/2006 12:47:00 PM, Anonymous Anonymous said...

بہت اعلی تجزیہ ۔
کامیابی اسی سے ملے گی۔
حقیقت میں دین اور دنیامیں کوئی تفریق نہیں۔
زندگی کے ہر کام کو اسلام کے بتائے ہوئے طریقے سے سرانجام دینا ہی دین ہے۔

 
At 5/31/2006 08:08:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

راجہ صاحب
پسند کا شکريہ ۔ ميں سوچاکرتا تھا کہ پانچ وقت نماز پڑھتے ہيں اور ہيرا پھيری بھی کرتے ہيں ۔ پھر سمجھ آئی کہ اُن کی نماز خالص اللہ کيلئے نہيں ۔

 

Post a Comment

<< Home