آزادیءِ نسواں ايک پُر کشش نعرہ ہے جو عورتوں کے دِل موہ ليتا ہے اور وہ مردوں کی غلامی سے نجات کے شوق ميں مردوں کی کٹھ پُتلی بن جاتی ہيں ۔ کيا يہ حقيقت نہيں کہ آج مغربی دُنيا کی نام نہاد آزاد عورت کی حيثيت ايک کٹھ پُتلی [Robot] کی سی ہے جس کا ہر عمل مرد کی خواہشات کا مرہونِ منت ہے ؟
۔
عورت کی عُمدگی کو اس کی عقل و فہم کی بجائے اس کے جسمانی خدوخال اور جِنسی کشش سے ناپا جانے لگا ۔ عورت سے اس کا قدرتی منصب و کردار [ماں ۔ بہن ۔ بيوی ۔بيٹی] چھين کر اسے اشتہاروں ۔ سينماؤں ۔ سٹيج اور محفل کی زينت بنا ديا گيا تاکہ وہ مرد کی تفننِ طبع کا سامان مہياء کر سکے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے عطا کردہ تمام حقوق جن کی رو سے وہ گھر کی مالکن اور قابلِ احترام بنتی ہے عورت سے چھين کر نہ صرف روزی کمانے کی ذمہ داری اس پر ڈالی گئی بلکہ مرد گاہکوں کی خوشنودی کی خاطر دفاتر اور ہوٹلوں کی زينت بنايا گيا ۔ عورت کو آزادی کا چکمہ دے کر مرد نے اسے اپنی نفسانی خواہشات کا کھلونا بنا ديا اور اب عورت کو اس جال سے باہر نکلنے کا راستہ بھی ميسّر نہيں ۔
۔
آخر ايسا کيوں ہے کہ اشتہار موبائل فون کا ہو ۔ کار ۔ ٹيليويزن حتٰی کہ ريزر بليڈ کا ۔ اس ميں تصوير عورت کی ہوتی ہے ۔ نيم عُرياں يا عُرياں ناچ ہو تو عورت کا ۔ کپڑوں کے اشتہار ہوں يا کوئی اور اُن ميں سب سے بڑا عنصر عورت کے جسم کی نمائش کا ہوتا ہے ۔ کيا نيم عُرياں نوجوان عورت کا کُولہے مٹکا کر مردوں سے داد و تحسين پانا آزادیءِ نسواں کہلاتا ہے ؟
۔
مغربی دنيا ميں مرد جب چاہتا ہے عورت سے لُطف اُٹھاتا ہے اور اس کے نتيجہ ميں بچہ جننا يا ضائع کرنا مرد کے حُکم کا تابع ہوتا ہے جبکہ ساری تکليف يا زحمت عورت اُٹھاتی ہے ۔ خاوند کے ساتھ ساتھ بيوی بھی گھر کے خرچ کيلئے پيسہ کماتی ہے اور امورِ خانہ داری اور بچوں کی پرورش عورت کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ کيا يہی مساوات يا مساوی حقوق ہيں ؟ اگر مادی مساوات ہی کرنا ہے تو پھر مردوں کو بھی امورِ خانہ داری کے علاوہ بچوں کی پرورش کرنا چاہيئے ۔ اس کے علاوہ مردوں کے بھی نيم عُرہاں يا عُرہاں ناچ ہونا چاہئيں تھے اور بچہ جننے کی تکليف عورت اور مرد باری باری اُٹھاتے ۔ ليکن ايسا نہيں ہے اور نہ ہو گا ۔
مغربی معاشرہ جہاں عورت کی آزادی کا ڈھنڈورہ پيٹا جاتا ہے وہاں عورت کی بے بسی قابلِ رحم ہے ۔ عورت مرد کو خوش کرتے ہوئے عام طور پر شادی سے پہلے حاملہ ہو جاتی ہے اور پھر اسی مرد کی خوشنودی کی خاطر حمل ضائع کر کے جسمانی اور ذہنی اذيّت سے گذرتی ہے ۔ شادی کے بعد اپنے خاوند کے بچہ پيدا کرنا يا ضائع کرنا بھی خاوند کے حُکم سے ہوتا ہے ۔
۔
آج تو حالات بالکل ہی دِگرگُوں ہو چکے ہيں ۔ لگ بھگ چار دہائياں پہلے کی بات ہے ميں اس زمانہ ميں مغربی جرمنی ميں تھا ۔ ايک ہم عمر آسٹروی نزاد جرمن ميرا دوست بن گيا ۔ ہم اکٹھے گومتے پھرتے ۔ جب میرا واپسی کا سلسلہ ہوا تو کہنے لگا "اجمل ميرے لئے کسی دن بہت سا وقت نکالو ميں تمہارے ساتھ بہت سی باتيں کرنا چاہتا ہوں"۔ اگلے اتوار کو سارا دن اکٹھے گذارا ۔ اُس نے اپنی پيدائش سے ليکر اُس دن تک کی آپ بيتی اور اپنے خيالات بتائے ۔ آخر ميں کہنے لگا " اجمل ۔ ميں مسلمانوں کی بہت عزت کرتا ہوں ۔ ميں نے آسٹريا ۔جرمنی اور تُرکی ميں تعليم حاصل کی ہے ۔ ميں دو سال انقرہ يونيورسٹی ميں رہا ۔ وہاں تُرکوں کی تمام عادتيں يورپ کے لوگوں کی طرح تھيں ۔ شراب پيتے ۔ لحم الخنزير کھاتے ۔ ناچتے گاتے مگر ايک عجيب بات تھی وہاں بہت ڈھونڈنے سے شائد کوئی عورت ملے جو شادی سے پہلے کسی مرد کے ساتھ سوئی ہو جبکہ يورپ ميں بہت ڈھونڈنے سے شائد کوئی عورت ملے جو شادی سے پہلے کسی مرد کے ساتھ نہ سوئی ہو ۔ وہاں سے آنے کے بعد ميں بالکل بدل گيا ۔ ميں نے الکُحل بلکہ بيئر پينا بھی چھوڑ دی ۔ لڑکيوں کے ساتھ ناچنا بھی چھوڑ ديا ۔ اب ميں اپنے وطن ميں اجنبی ہوں ۔ مسلمان جيسے کيسے بھی ہيں ميرے دل ميں اُن کيلئے بہت عزت ہے"۔ کيا يہی ہے آزادیءِ نسواں جس کا پرچار مغرب والے کرتے ہيں ؟
۔
ہمارے ہم وطن "کوا دُم ميں مور کا پنکھ لگا کر لگا تھا مور بننے ۔ نہ تو مور بنا نہ کوّوں ميں واپس آ سکا" کی مثال بن رہے ہيں ۔ ہمارا مسئلہ آزادیءِ نسواں نہيں بلکہ عورت کا جو احترام اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مردوں پر واجب کيا ہے اُسے بحال کرنا ہمارا اصل مسئلہ اور ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ نہ تو اللہ نے عورت کو قيد کرنے کا حُکم ديا ہے اور نہ آوارہ گردی کی اجازت ۔
۔
حقيقت يہ ہے کہ آزادیءِ نسواں کا نعرہ مردوں نے روشناس کروايا اور عورتوں کو ماں بہن بيوی اور بيٹی کے پاکيزہ اور مقدّس مقام سے دھکيل کر جِنسِ نمائش اور مردوں کی خواہشات کی کٹھ پُتلی بنا ديا ۔ اصل ميں تو يہ آزاریءِ نسواں کی بجائے مرد کو کھُلی چھُٹی ہے ۔
اے مُسلماں ۔ کھول آنکھ کہ زمانہ چال قيامت کی چل گيا ۔
*
بلاگسپاٹ نہ کھول سکنے والے قارئين ميرا يہ بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر کھوليں
بلاگسپاٹ نہ کھول سکنے والے قارئين میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر کھوليں
3 Comments:
پتہ نہيں عورت کو اور کتني آزادي چاہيۓ۔ اب بھي وہ گھر کي مالک ہے اور جو چاہے اپنے خاوند يا بواۓ فرينڈ سے کام کراليتي ہے۔ رہي بات مردوں کي وہ باہر پہلوان ہوتےہيں تو گھر ميں بھيگي بلي۔ يہ سب دکھاوے کي باتيں ہيں ان کا حقيقت سے کوئي تعلق نہيں۔ حقيقت يہي ہے کہ عورت گھر ميں راج کر رہي ہے اور مرد باہر۔
puppetکٹھ پُتلی کےمعنی
نھیں بنیں گے؟
افضل صاحب
آپ نے بجا فرمايا
ابو حليمہ صاحب
آپ نے ڈکشنری کے حساب سے ٹھيک ترجمہ کيا ہے ليکن آجکل کی آزاد خيال عورت پَپَٹ کی نسبت روبوٹ سے زيادہ مشابہ ہے ۔
Post a Comment
<< Home