Wednesday, March 15, 2006

اسلام اور رسمیں

ہم نے بہت سے رَسَم و رواج کو اپنا کر اُن میں سے بہت سے اِسلامی سمجھ لئے ہوئے ہیں ۔ اِن رَسَم و رواج کو ہم اللہ اور اس کے آخری نبی سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں حالانکہ اِسلام [قرآن] رَسَم و رواج کی مخالفت کرتا ہے اور اِنسان کو صِرف اللہ اور اُس کے آخری نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے ۔ جوں جوں سائنس ترقی کرتی جارہی ہے ہماری رسُوم بھی ترقی کر رہی ہیں ۔ عرس ۔ چراغاں ۔ محفلِ میلاد ۔ کُونڈے بھرنا ۔ گیارہویں کا ختم ۔ میلادُالنّبی کا جلُوس ۔ مُحَرّم کا جلُوس ۔ شامِ غریباں ۔ قَبَروں پر چادریں چڑھانا ۔ انسانوں [پیروں] اور قبروں سے مرادیں مانگنا ۔ قبروں پر ناچنا [دھمال ڈالنا] ۔ قصِیدہ گوئی وغیرہ وغیرہ ۔ لمبی فہرست ہے ۔ دس بارہ سال پہلے شادی سے پہلے قرآن خوانی کا رواج شروع ہوا ۔ ہمارے محلہ میں ایک لڑکی کی شادی ہونا تھی ۔ میری بیوی کو پیغام آیا کہ مہندی والے دِن قرآن خوانی اور درس ہوگا ۔ وہ خوش ہوئی کہ خرافات چھوڑ کر قرآن کی تلاوت کریں گے ۔ وہاں سے بیوی واپس آئی تو چہرہ سُرخ منہ پھُلایا ہوا ۔ پوچھا کیا ہوا ؟ کہنے لگی " قرآن شریف ابھی بمشکل پڑھا کہ بلند آواز سے پاپ موسیقی شروع ہوگئی ۔ میں وہاں سے بھاگ آئی ہوں ۔ کھانے پینے کے لئے روک رہے تھے میں معذرت کر کے آگئی" ۔ شائد اِسی کو روشن خیالی کہتے ہیں ؟ پچھلے سال سے مَسجِد میں نِکاح پڑھانے کا فیشن شروع ہے ۔ مسجد میں نِکاح پڑھانا اچھی بات ہے لیکن ہوتا کیا ہے کہ پہلے دُولہا اور چند لوگ نماز مَسجِد میں پڑھتے ہیں ۔ نماز کے بعد نکاح پڑھایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد سب گھروں کو جا کے تیار ہو کر فور یا فائیو سٹار ہوٹل کا رُخ کرتے ہیں جہاں کھانے کے بعد ناچ گانے سمیت دنیا کی ہر خرافات ہوتی ہے ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم دھوکہ کس کو دیتے ہیں ؟ بھارتی فلمیں دیکھ دیکھ کر اُن میں دِکھائی گئی بہت سی ہِندُوانا رَسمیں بھی اپنا لی گئی ہیں ۔ مہندی کے نام سے دُولہا دُلہن کو اکٹھے بٹھا کر اُن کے سرّوں پر سے پیسے وارنا ۔ شادی شُدہ خوش باش عورتوں کا اُن کے سروں پر ہاتھ پھیرنا یا اُن کے گِرد طواف کرنا اور اُن کے اُوپر کچّے چاول پھینکنا ۔ [اب شائد کپڑوں کو گرہ لگا کر آگ کے گرد پھیرے لگانا اپنانا باقی رہ گیا ہے ] ۔ ایک نیک خاندان کی لڑکی کی منگنی اس لئے ٹوٹ گئی کہ ہونے والے دولہا کی والدہ شادی سے ایک دن پہلے مہندی کی رَسَم کرنا چاہتی تھیں جس میں وہ چار سوہاگنوں کی رَسَم بھی کرنا چاہتی تھیں ۔ لڑکی کی والدہ نے تَفصِیل پوچھی تو پتہ چلا کہ اس میں لڑکا اور لڑکی ساتھ ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور چار شادی شدہ عورتیں جن کے خاوند زندہ ہوتے ہیں اور وہ خوش باش ہوتی ہیں لڑکی لڑکے کے گرد طواف کرتی جاتی ہیں اور لڑکی لڑکے پر کچْے چاول پھینکتی جاتی ہیں ۔ لڑکی کے گھر والے غیر شرعی رسُوم کے مخالف تھے اس لئے منگنی ٹوٹ گئی ۔ ہم میں سے جو نماز پڑھتے ہیں وہ صرف فرض یا واجب رکعتوں میں ایک دن میں بیس مرتبہ اِھدِنَا صِرَاطَ المُستَقِیم کہتے ہیں جس کا مطلب ہے دِکھا ہم کو راہ سیدھی ۔ [اگر سُنتیں اور نفل بھی شامل کر لئے جائیں تو پانچ نمازوں میں 48 بار کہتے ہیں] ۔ کبھی ہم نے سو چا ہے کہ ہم مانگتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں ؟ اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
اگر میرا بلاگ براہِ راست نہ کھُلے تو اپنے باؤزر میں یہ لکھ کر کھولئے http://translate.google.com/translate?u=http://iftikharajmal.blogspot.com بلاگ کھُل جائے تو تبصرہ کیلئے تبصرہ کا لنک کاپی کیجئے۔ رائٹ کلک کرکے کاپی لنک لوکیشن منتخب کیجئے پھر اپنے براؤسر کی ایڈریس بار میں پیسٹ کیجئے ۔

6 Comments:

At 3/15/2006 12:07:00 PM, Anonymous Anonymous said...

Mr. Ajmal,

Some of rituals you've mentioned above are commonly seen in my relatives and friends since forever. As you know 90% of present Muslims in Sub Continent are Hindu converts, so at that time they changed their religion but kept some of the rituals. Men is a creature of habbit and one of the most evil practice is Jehaz which is also has roots in Hinduism as it has no place in Islam since daughter inherits a share in fathers's property. Another thing I noticed is people tend to follow the customs of their area if its not hurting anyone than there is no harm in enjoying and having good time with your family. In the middle east they do dance a lot during wedding, surprisingly in similar manner as their Jew/Christian neighbors. So it proves that depends on the culture not on religion.


On another note this article may interest you

http://www.chowk.com/show_article.cgi?aid=00004335&channel=gulberg

 
At 3/15/2006 04:02:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

سدرہ صاحبہ
آپ نے ٹھیک لکھا ہے ۔ آپ کے بتائے ہوئے لِنک پر میں نے ایک سکھ کی آپ بیتی پڑھی جو مع اپنے سارے عزیزواقارب کے فیصل آباد میں بخیریت رہا اور پھر ٹرین سے امرتسر بخیریت پہنچ گیا ۔ البتہ اَس کے والد جو اُن کے ساتھ نہیں تھے زخمی ہوئے ۔
جب پاکستان بنا تو میں دس سال کا تھا ۔ ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا وہ میں مختصر طور پر لکھ چکا ہوں ۔ وقت نکال کر ضرور مندرجہ ذیل یو آر ایلز پر پڑھئے ۔
http://hypocrisythyname.blogspot.com/2005/08/jk11.html
http://hypocrisythyname.blogspot.com/2005/08/jk12.html
http://hypocrisythyname.blogspot.com/2005/08/jk13.html
http://hypocrisythyname.blogspot.com/2005/08/jk14.html
http://hypocrisythyname.blogspot.com/2005/08/jk15.html

 
At 3/15/2006 04:45:00 PM, Blogger میرا پاکستان said...

آپ کي باتيں ٹھيک ہيں ليکن شرط مسلمان ہونا ہے۔ اگر ہم مسلمان ہي نہيں رہے اور ہمارا آخرت پر ايمان ہي نہيں رہا تو پھر اچھا کيا اور برا کيا۔

ہم جانتے ہيں کہ تھانے کے ڈر سے شريف لوگ جرائم سے اجتناب کرتے ہيں مگر آخرت کے عزاب سے نہيں ڈرتے جہاں جسم پگھلا ديۓ جائيں گے اور وجہ صرف يہ ہے کہ ہم ميں سے اکثر کا يہي خيال ہے کہ قيامت کس نے ديکھي ہے يعني ہمارا آخرت پر ايمان ہي نہيں رہا۔

 
At 3/16/2006 01:24:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

میرا پاکستان والے صاحب
آپ نے ٹھیک فرمایا ہے ۔ لوگ بغیر قرآن کو پڑھے اور سمجھے مسلمان بننا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں ۔ ہم لوگ ظاہر کے ماننے والے بن چکے ہیں ۔

 
At 3/19/2006 04:39:00 AM, Blogger dr Raja Iftikhar Khan said...

يہ چاول پھينکنے والي رسم يہاں اٹلي ميں موجود ہے ، شادي کے بعد کونسل ھال سے جب نوبياھتاجوڑا باہر نکلتا ہے تو احباب و اقارب ان پر چاول پھيکتے ہيں بلکہ مارتے ہيں۔ بقول مارکو کے انکا مقصد ہے کہ ان کے رزق ميں اضافہ ہو۔ ويسے اسي طرح کي ايک رسم پاکستان ميں بھي ہے يہ دلہن بوقت رخصتي اناج وغيرہ پيچھے کي طرف پھيکتي ہے ۔ بقول کسي بزرگ کے اس کا مقصد ہوتا ہے کہ ميرے حصہ کا رزق ادھر ہي رہے۔ وللہ اعلم

 
At 3/19/2006 02:34:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب
ہاں ۔ میں نے تیس پینتیس سال پہلے کہیں ایسا دیکھا تھا ۔ لیکن اناج پیچھے چھوڑنے والا خیال شرک کے مترادف ہے کیوں کہ سب کے اناج کا کنٹرول اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ دیگر اناج کو زمین پر پھینک کر ضائع کرنا اناج کی بے حُرمتی ہے جو ہمارے دین میں منع ہے ۔

 

Post a Comment

<< Home