Thursday, November 09, 2006

علّامہ محمد اقبال کی ياد ميں

علّامہ محمد اقبال ايک فلسفی اور مُفکّر تھے جنہوں نے پہلے سب اہلِ ہندوستان اور بعد ميں مسلمانانِ ہند ميں مِلّی اور سياسی شعور بيدار کيا ۔ بعض اوقات وہ خود ہی سوال کرتے اور خود ہی جواب لکھ کر صورتِ حال کو واضح کرتے ۔ شکوہ اور جواب شکوہ اس کی بہت عمدہ مثال ہيں ۔ اللہ سے شکوہ کا آغاز يوں کرتے ہيں ۔
۔
کيوں زياں کار بنوں ۔ سود فراموش رہوں ؟
فکرِ فردا نہ کروں ۔ محوِ غمِ دوش رہوں ؟
نالے بُلبُل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا ميں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں ؟
جُرأت آموز ميری تابِ سُخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ۔ خاکم بدہن ۔ ہے مجھ کو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
اے خدا شکوۂِ اربابِ وفا بھی سن لے
خُوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
۔
اس پر ہندوستان کے کانگرسی مولويوں نے علّامہ پر مقدمہ کر ديا اور تاجدارِ برطانيہ نے علامہ کو قيد ميں ڈال ديا ۔ پھر جواب ميں مسلمانانِ ہند کی حالت کا خوب نقشہ بيان کرتے ہيں
۔
ناز ہے طاقتِ گُفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سليقہ نہيں نادانوں کو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
ہم تو مائل بہ کرم ہيں کوئی سائل ہی نہيں
راہ دِکھلائيں کسے ؟ راہروِ منزل ہی نہيں
تربيت عام تو ہے ۔ جوہرِ قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی يہ وہ گِل ہی نہيں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی ديتے ہيں
ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں
ہاتھ بے زور ہيں ۔ الحاد سے دل خُوگر ہيں
اُمتی باعثِ رُسوائیِ پيغمبر ہيں
بُت شکن اُٹھ گئے ۔ باقی جو رہے بُت گر ہيں
تھا ابراھيم پِدر ۔ اور پِسر آزر ہيں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
س قدر تم پہ گراں صبح کی بيداری ہے
ہم سے کب پيار ہے ہاں نيند تمہيں پياری ہے
طبعِ آزاد پہ قيدِ رمضاں بھاری ہے
تُمہِيں کہہ دو يہ آئينِ وفاداری ہے ؟
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہيں تم بھی نہيں
جذبِ باہم جو نہيں ۔ محفلِ انجم بھی نہيں
جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن ۔ تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن ۔ تم ہو
بِجلياں جن ميں ہوں آسودہ وہ خرمن ۔ تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مَدفَن ۔ تم ہو
ہو نِکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے ؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
منفعت ايک ہے اس قوم کی نقصان بھی ايک
ايک ہی سب کا نبی ۔ دين بھی ايمان بھی ايک
حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ايک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک
فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کی يہی باتيں ہيں ؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
قلب ميں سَوز نہيں ۔ رُوح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغامِ محمد کا تمہيں پاس نہيں
جا کے ہوتے ہيں مساجد ميں صف آرا تو غريب
زحمتِ روزہ جو کرتے ہيں گوارا تو غريب
نام ليتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غريب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غريب

11 Comments:

At 11/09/2006 11:24:00 AM, Anonymous Anonymous said...

Allama Mohammad Iqbal ka aik qita hay Panjabi musalman kay naam say umeed hay pasand aay ga,
PUNJABI MUSALMAN
mazhab main bohat taza pasand is ki tabiat
karlay kaheen manzil to guzarta hay bohat jald
tahqeeq ki bazi ho to shirkat naheen karta
ho khail mureedi ka to harta hay bohat jald
taweel ka phanda koi sayaad lagaday
yeh shakh e nashayman say utarta hay bohat jald

 
At 11/10/2006 01:08:00 AM, Blogger میرا پاکستان said...

اجمل صاحب
کیا گمنام صاحب نے مسلمان کی بجاۓ پنجابی مسلمان کہ کر تعصب سے کام نہیں لیا اور کیا اسطرح کا کمینٹ ہمیں اپنی پوسٹ پر رکھنا چاہۓ یا حذف کردینا چاہۓ۔

 
At 11/10/2006 01:52:00 AM, Anonymous Anonymous said...

Janab aap chahain to Allama ka kalam khud bhi parh saktay hain jis main yeh qita Punjabi musalman kay hi naam say hay,ab chahy aap unhain tasubi kahain ya kuch or hamaray nazdeek to woh aik haqeeqt pasand shair thay,haan un ki shayri chotay zahen mushkil say hazam karpatay hain,Allama apni zaat say bohat oper uth kar sonchtay thay!

 
At 11/10/2006 02:32:00 AM, Blogger urdudaaN said...

عنوان دراصل پنجابی مسلمان ہی ہے۔

 
At 11/10/2006 08:56:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

گمنام صاحب ۔ افضل صاحب اور پرويز صاحب

پنجابی مسلمان کے عنوان سے مندرجہ بالا شعر ضربِ کليم ميں شامل ہيں ۔ ضربِ کليم يعنی اعلانِ جنگ دورِ حاضر کے خلاف ۔ اس مجموعہ ميں علّامہ نے مسلمانوں کے تقريباً ہر گروہ کے متعلق لکھا ہے ۔

کاہل اپنے کمپيوٹر ميں اُردو نصب نہيں کرتے اور رومن اُردو لکھنے ميں اس سے کہيں زيادہ وقت ضائع کرتے ہيں سوائے اُن کے جو کسی کا کمپيوٹر استعمال کر رہے ہوتے ہيں ۔

ميں نے گمنام لکھنے والے حضرات سے متعدّد بار عرض کيا ہے کہ ميں اُن کا کچھ نہيں بگاڑ سکتا اپنا نام لکھ ديا کريں اگر اُنہيں ميری بات پر يقين نہيں تو ساری دنيا ميں اخباروں اور ٹی وی پر اشتہار دے کر پتہ کر ليں ۔ گمنام لکھنا اس طرح ہوتا ہے کہ ديوار کے پيچھے سے کوئی پتھر پھينکے يا سيب بات ايک ہی ہے ۔

 
At 11/10/2006 01:16:00 PM, Anonymous Anonymous said...

علامہ اقبال کے بارے میں لکھنا سورج کو چراغ دیکھانے کے مترادف ہے!!!!
آپ کو سالگرہ مبارک ہو شادی کی!!!!!

 
At 11/10/2006 02:52:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

شعيب صفدر صاحب

مبارک کا شکريہ ۔ آپ ہميں اس قسم کی مبارک کا موقع کب ديں گے ؟

علامہ محمد اقبال ايک اعلٰی پائے کے فلسفی اور مُفکّر تھے ۔ اُنہوں نے ہندوستان کی بکھری ہوئی مُسلم قوم ميں ملّت کا احساس جگايا

 
At 11/11/2006 02:31:00 PM, Blogger خاور کھوکھر said...

پنجابی مسلمان
مذہب میں بہت تازه پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا هے بہت جلد

تحقیق کی بازی هو تو شرکت نہیں کرتا
هو کهیل مریدی کا تو هارتا هے بہت جلد

تاویل کا پهنده کوئی سیّد لگادے
یه شاخ نشیمن سے اترتا هے بہت جلد

میرے خیال میں تو هم پنجابی کجھ ایسـے هی هیں ـ

 
At 11/11/2006 02:57:00 PM, Anonymous Anonymous said...

Janab aakhri misray main lafz syed naheen sayaad hay jis ka matlab hay shikari,
ji mera naam Abdullah hay,kaahil kahnay ka shukria,kia karon game rozgar say bas itni hi fursat milti hay kay kabhi kabhi aap logon ki tahareer parh leta hoon,
Mera Pakistan sahab aap kuch ziada hi hasas hain punjabion kay hawalay say yeh koi achi baat naheen aap Pakistan hain to Pakistan hi rahy na,

 
At 11/11/2006 03:16:00 PM, Anonymous Anonymous said...

Jnab Khawar sahab aap nay such kah hum panjabi aisay hi hayn,
maynay yeh mahsos kia hay kay berasageer mein Islam kay jo naay addition aay un ko qubool karnay main hamaray ilaqay kay log pesh pesh rahay,phir peerimureedi ka zor bhi jitna hamaray yahan raha hay kaheen or itna naheen balkay deegar ilaqon mein yeh Punjab say nikal kar hi pohncha hay,apni buraion per khud nazar rakhnay mein mein samajhta hoon koi burai naheen hay yahi Allama nay bhi kia hay unhoon nay tamam musalmano ki kamzoreeon ko samnay la kar sonchnay ka moqa faraham kia hay,

 
At 11/11/2006 03:52:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

خاور صاحب
آپ نے شائد ٹھيک ہی کہا کہ پنجابی کچھ اسی طرح ہيں ۔
عبداللہ صاحب نے ٹھيک کہا ہے کہ تيسرے شعر کے پہلے مصرع ميں صيّاد ہے سيّد نہيں۔ ويسے ايک سيّدزادے کے متعلق بھی علامہ نے شعر لکھے ہيں ۔ آپ کہيں رومن اردو ميں لکھے ہوئے شعر تو نہيں پڑھتے ؟ يہ ليں يہاں سے علّامہ کی سب تصانيف اُردو ميں پڑھئيے
http://www.allamaiqbal.com/

عبداللہ صاحب
ماشاء اللہ اتنا خوبصورت نام ہے اور آپ اسے چھپائے بيٹھے تھے ۔ ديکھيں نا اب مجھے کتنا مزا آ رہا ہے کہ آپ گويا ميرے سامنے کھڑے ہيں ۔ ميں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ ميری تحارير پڑھتے ہيں ۔ ميری صرف يہ کوشش ہے کہ جو ميں نے ساٹھ سال کی تگ و دو سے سيکھا وہ ميں اچھے لوگوں تک پہنچا دو تاکہ وہ اُن کٹھن حالات سے نہ گذريں جن سے مجھے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نکال لايا ۔ علامہ صاحب کو ميں دس سال کی عمر سے پڑھتا آ رہا ہوں اور ہر بار لطف ميں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔

 

Post a Comment

<< Home