Monday, June 20, 2005

ہمارا رویہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ تیسری قسط

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے
حکومت بے بس یا قانون
ہمارے ملک میں قتل و غارت گری بالخصوص کارو کاری کو روکنا اس لئے ممکن نہیں کہ ہمارے زیادہ تر قوانین غیر ملکی حاکم (انگریزوں) نے ہمیں کمزور کرنے اور اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے بنائے تھے ۔ یہ قوانین حکومت وقت کے بعد زیادہ تر ان لوگوں کی حمائت میں ہیں جن کو انگریزوں نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کی خاطر اپنی قوم یعنی ہندوستان کے باشندوں سے غدّاری کے عوض جاگیریں عطا کیں اور سردار یا وڈیرہ بنایا ۔ قانون با اختیار ہو تو بھی کچھ اچھا نتیجہ نکلے مگر یہاں تو صرف کتابوں میں ہے اس پر عمل درآمد کرانے کے لئے نہیں ۔ ان انسان دشمن نظام کو بدلنا اس لئے مشکل ہے کہ سردار اور وڈیرے یا ان کی اولاد یا عزیزواقارب ہر طرف ہیں ۔ اسمبلی ہو۔ سول سیکریٹیریئٹ ہو یا فوج ۔ ہر ادارہ کی فہرستیں بنا کے تحقیق کر لیجئے ہر جگہ آپ ان کو پائیں گے۔ دوسرا عنصر جس نے پاکستان بننے کے پانچ سال کے اندر ہی پاکستان کے عوام کو اصل آزادی سے محروم کرنے کی سازشیں شروع کر دیں تھیں وہ ہیں انڈین سول سروس (آئی سی ایس) کے تربیّت یافتہ آفیسران اور فوج کے اعلی آفیسرز جو قائداعظم اور پاکستان کی نسبت حکومت برطانیہ کے زیادہ وفادار تھے ۔ آج کی سول سروس کے آفیسران بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو حاکم اور عوام کو غلام سمجھتے ہی ہیں ۔ پاکستان بننے کے بعد سب سے سینئر دو مسلمان فوجی آفیسر جو محب وطن تھے وہ ایک ہوائی حادثہ میں ہلاک ہو گئے ۔ کہتے ہیں یہ حادثہ ایک سازش تھی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت برطانیہ کے دلدادہ ایوب خان فوج کے سربراہ بن گئے ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اور قائداعظم کے قریب ترین ساتھی لیاقت علی خان کو بھی ایک سازش کے تحت1951 میں ہلاک کر دیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین کو قائداعظم کے بعد گورنر جنرل بنایا گیا تھا ۔ حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے انہیں قوم کا واسطہ دے کر وزیراغظم بنا دیا اور پھر 1953 میں ان کی حکومت مع اسمبلی کے توڑ دی ۔ 1954 میں بیوروکیٹس (غلام محمد گورنر جنرل اور چوہدری محمد علی وزیراعظم) اور جنرل محمد ایوب خان (کمانڈر انچیف اور وزیر دفاع) کی چوہدراہٹ میں حکومت شروع ہوئی ۔ اپنی مرضی کے وزیر اعظم بنائے اور ہٹائے جاتے رہے ۔ غلام محمد کے بعد میجر جنرل ریٹائرڈ سکندر مرزا اور پھر 1958 میں جنرل محمد ایوب خان کی قیادت میں پکی فوجی حکومت آ گئی ۔ تمام سیاست دان جنہوں نے پاکستان بنانے کے لئے کام کیا تھا ان کو نا اہل قرار دے دیا گیا ۔ اپنی خواہشات کے مطابق سیاست دانوں کی نئی پنیری لگائی گئی ۔ جنرل دس دس سال حکومت کرتے رہے مگر انہوں نے اپنے تیار کردہ سیاست دانوں کو بھی دو تین سال سے زیادہ حکومت نہ کرنے دی ۔ اس طرح سارا وقت اپنے آپ کو مضبوط بنانے ۔ اپنی جائیدادیں بنانیں اور اپنی انڈسٹریاں قائم کرنے میں گذارتے رہے ۔ اس کے لئے جنہوں نے ان کا ساتھ دیا ان کو بھی مالامال کیا گیا ۔ ملک و قوم اور قوانین میں بہتری لانے کی کوئی کوشش کرنے کی بجائے قوانین کو ذاتی خواہشات کے مطابق ڈھالتے رہے ۔
باقی انشااللہ آئیندہ

2 Comments:

At 6/20/2005 11:20:00 PM, Blogger خاور کھوکھر said...

سكندر مرزا ! يه صاحب مشەور غدار مير جعفر كے پوتے تهے ـ يه حقيقت پاكستان ميں طالب علموں كو نەيں بتائى جاتى ـ ـ
خاور كهوكهر

 
At 6/21/2005 02:32:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

خاور آپ نے ٹھیک کہا ۔ میں نے جان بوجھ کر نہیں لکھا تھا ۔ ویسے کئی بروں کے بیٹے اچھے بھی ہوتے ہیں ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ سکندر مرزا نے پاکستان کی فوج میں ہوتے ہوئے پاکستان کے خلاف سازش کی تھی ؟

 

Post a Comment

<< Home