Monday, May 23, 2005

کچھ حدود آرڈیننس کے متعلق

۔کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ زہن قبول ہی نہیں کرتا۔۔ اسلام انسان کو جستجو اور کھوج کا سبق دیتا ہے۔ اسلام کے بہت سے اصول اس وقت بنائے گئے جب سائینس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ ایسے ہی "حدود " کا معاملہ ہے۔پنجاب ہائی کورٹ میں ایک حدود کا مقدمہ کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ اس مقدمہ کی کہانی یہ ہے کہ ایک شخص کافی عرصے سے امریکہ میں نوکری کررہا ہے بیوی پاکستان میں رہتی ہے۔ بیٹی کی ولادت کے بعد جب وہ پاکستان آیا تو اسے شک تھا کہ یہ بیٹی اس کی نہیں ہے اور یہ کہ اس کی بیوی کے تعلقات کسی اور مرد سے ہیں۔ شوہر کورٹ گیا حدود کا مقدمہ چلا۔ ڈی این اے ٹیسٹ ہوا اور معلوم ہوگیا کے وہ آدمی حق پر ہے ۔۔۔ یہ نقطہ اٹھایا گیا کہ کیا ڈی این اے ٹیسٹ کو حدود کے مقدمہ میں بطور شہادت پیش کیا جا سکتا ہے ؟ ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ جب معلوم ہو گیا کہ وہ بچی اسکی اولاد نہیں ہے تو پھر حدود کا مقدمہ کیوں نہیں چل سکتا اور کیا ایسے تعلقات جائز ہیں جو ایک بند کمرے میں ہوں جہاں چار آدمی ایسے تعلقات نہ دیکھ سکیں اور یہ کہ ایسے تعلقات اگر چھپ کر ہوں تو کیا جائز ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اقتباس ختم ہوا
ہمارے ملک کے قوانین ہماری آزادی سے پہلے قابض انگریز حکمرانوں نے اپنی حکومت کو مضبوط رکھنے کے لئے بنائے تھے۔ عوام کی بھلائی کے لئے نہیں۔ ہماری آزادی کے بعد جو ترامیم ہوئیں وہ زیادہ تر مطلق العنان حکمرانوں کے دور میں ہوئیں چنانچہ اول تو قوانین ہیں ہی جابر اور بارسوخ لوگوں کی حمائت میں۔ اور جو ایسے نہیں ہیں ان کی بھی تشریح اسی طرح سے کی جاتی ہے۔ حدود کے قوانین کا صحیح نفاز اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تعذیرات پاکستان اور قانون شہادت وغیرہ میں انسانیت دوست (یا منطقی) ترمیمات نہیں کی جاتیں۔ حدود آرڈیننس تو کیا۔ کسی بھی انسان دوست قانون کا صحیح نفاذ موجودہ قانون تعذیرات پاکستان اور قانون شہادت کی موجودگی میں ناممکن ہے۔ وکیل بھاری فیس کے عوض ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرتا ہے۔ اپنے ضمیر کو وہ دولت کی گولی کھلا کے سلا دیتا ہے۔ اس لئے کسی عام آدمی کو انصاف مل جانا محض ایک اتفاق ہوتا ہے۔
ضیاءالحق کے زمانہ میں گواہی دینے کے لئے ایک حلف ضروری قرار دیا گیا تھا جو کہ قرآن شریف میں غلط کاری کے سلسلہ میں درج ہے۔ یہ حلف کچھ اس طرح تھا " میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا اور اگر میں کوئی غلط بیانی کروں تو مجھ پر اللہ کا قہر نازل ہو" یہ حلف نامعلوم کیوں ختم کر دیا گیا۔ شائد اس لئے کہ جھوٹے گواہوں کوئی ذہنی کوفت نہ ہو۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اسلام کے نظام انصاف میں نہ آج جیسے وکیل کی گنجائش ہے اور نہ آج جیسے ججوں کی۔ اسلامی نظام انصاف میں سچ کی جستجو اور انصاف کا اطلاق (جس کو کوئی جھوٹ پر مبنی نہ کہہ سکے) جج کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جج صرف وہی بن سکتا ہے جس کے انصاف پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔
پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئي ۔ اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر ۔ چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ ۔ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق ۔ عقل بے ربطیء افکار سے مشرق میں غلام

3 Comments:

At 5/23/2005 03:41:00 PM, Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

http://www.pakistani.org/pakistan/legislation/hudood.html

 
At 5/23/2005 07:46:00 PM, Blogger Shaper said...

Ajmal! u know what ... the Hadood case i am talking about... if the guy failed to present 4 withness againist his wife then he will charge for the crime ... and u know he got the medical prove but the Court thinks in DNA Tests there r a chance of error... i would like to mension that In Canada and North America Police get almost all help on DNA Test ... and they have the DNA Data base for all criminal guyz and if there is any crime in town they first check the DNA Database and find out try to find out the right guy. I will write some recent cases in my blog soon. and the best thing here is they don't give the advantage of doubt like in paksitan still court give the advantage of doubt to the criminal guyz....

 
At 5/23/2005 08:51:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

Shoab Safdar:
Thank you for the reference to website.

Shabbir:
If the rules are followed as directed by Allah SWT in Qur'aan al-Hakeem, there will be no problem but people turn and twist not only the facts but also the law.

Sura 24 (Al-Noor) Verses 6-9: As for those who accuse their wives but have no witnesses except themselves; let the testimony of one of them be four testimonies, (swearing) by Allah that he is of those who speak the truth; And yet a fifth, invoking the curse of Allah on him if he is of those who lie. And it shall avert the punishment from her if she bear witness before Allah four times that the thing he saith is indeed false, And a fifth (time) that the wrath of Allah be upon her if he speaketh truth.

Do you know that in law of our country, pictures, e-mail, etc are not valid evidence in the courts ? They believe in witnesses who may tell lies and give the decision accordingly. Also you can find profesional witnesses in vicinity of the courts. You pay money and tell them what statement is to be given in the court. They are very sharp at memorising and will deliver the statement with much more confidence than a true witness.

 

Post a Comment

<< Home