Wednesday, November 29, 2006

يورپ ميں مذہبی منافقت

۔
عيسائی راہبہ [نَن] اپنا جسم حتٰہ کہ سر کے بال اور گردن بھی پوری طرح ڈھانپتی ہے کيونکہ يہ انجيل ميں لکھا ہے ۔ اُسے جرمنی کے سکولوں ميں پڑھانے کی اجازت ہے
۔
۔
۔
ايک مسلم خاتون اسی طرح اپنا جسم اور سر کے بال ڈھانپتی ہے کيونکہ يہ قرآن ميں لکھا ہے ۔ اُس کا جرمنی کے سکولوں ميں پڑھانا ممنوع ہے ۔ ۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
ايک فرانسيی دُلہن اپنے مذہب کے مطابق سر پر دوپٹہ ليتی ہے ۔ اُسے مدبّر سمجھا جاتا ہے اور اُسے فرانس کے رجسٹری آفس ميں شادی کرانے کی اجازت ہے ۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
ايک مسلم عورت سر پر دوپٹہ ليتی ہے ۔ اُسے معاشرہ کی پِسی ہوئی کہا جاتا ہے اور اُسے فرانس کی رجسٹری ميں شادی کرانے کی اجازت نہيں
کمال تو يہ ہے کہ فرانس ميں مسلم لڑکيوں يا خواتين کو اپنے دين کی پيروی ميں تو سر ڈھانپنے کی اجازت نہيں ليکن فيشن کے طور پر سر ڈھانپنے کی اجازت ہے ۔
۔
اب ناروے ميں بھی عام مقامات پر بُرقعہ يا نقاب اوڑھنے پر پابندی لگانے پر غور شروع ہو گيا ہے ۔ اگر مجوّزہ قانون منظور ہو گيا تو پردہ پر پہلی سرکاری پابندی ہو گی ۔
۔

4 Comments:

At 11/29/2006 09:52:00 AM, Anonymous Anonymous said...

مغرب کی منافقت اور دوغلا پن کوئی نئی بات نہیں لیکن ہمارے روشن دماغوں کو ساری خامیاں اپنی ہی ہم مذہب اور ہم وطنوں میں نظر آتی ہے۔ اقبال نے بڑے پتے کی بات کہی تھی کہ: ہم جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

 
At 11/29/2006 08:44:00 PM, Blogger urdudaaN said...

یعنی جب وسائل نہیں ہوتے تو انسان کم کپڑوں پر گذارا کرلیتا ہے۔
جب مناسب وسائل دستیاب ہوتے ہیں تو مناسب کپڑے پہننے لگتا ہے۔
جب اور ترقّی کرلیتا ہے تو زیادہ وسائل میں کم کپڑے خریدنے لگتا ہے۔ اور پہلے کی طرح کم کپڑوں میں نظر آتا ہے۔
آخر کار جب وہ خود کو خوب ترقّی یافتہ گرداننے لگتا ہے تو دوسروں کے کپڑے پہننے پر بھی اسے اعتراض ہونے لگتا ہے۔

 
At 11/29/2006 11:12:00 PM, Anonymous Anonymous said...

اس کے باوجود کیا وہ اعتدال پسند ہیں؟؟؟؟؟

 
At 12/05/2006 10:37:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

اُردودان صاحب
آپ نے ايک دوسرا پہلو اُجاگر کيا ہے جو خودغرض وڈيرے اور عام آدمی ميں ہوتا ہے ۔ يہ بھی منافقت ہی ہوتی ہے

شعيب صفدر صاحب
ميرے حساب سے تو وہ شقی القلب منافق ہيں مگر اُن کا دعویٰ اعتدال پسندی کا ہے ۔

 

Post a Comment

<< Home