۔
کُتا تو آخر کُتا ہے ۔ کُتے دا پُتر ہے اور کُتيا کا بچہ بھی۔ ۔ ۔ قابلِ غور بات يہ ہے کہ اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھنے والے کُتوں سے بازی لے جانے کی تگ و دَو ميں ہيں ۔ نعمان صاحب کے لکھے کے علاوہ بہت سی باتيں ہيں مگر فی الحال جو زيادہ اہم ہيں ۔
۔
صرف کراچی ميں اوسط ايک دن ميں سرکاری اعداد و شُمار کے مطابق [اصل زيادہ ہو سکتے ہيں]
۔
تين آدمی قتل کئے جاتے ہيں ۔ گولی ۔ چھُری يا گاڑی سے
۔
پانچ گھروں ميں ڈاکے پڑتے ہيں
۔
پچيس گاڑياں چوری کی جاتی يا چھينی جاتی ہيں
۔
ساٹھ موبائل فون چھينے جاتے ہيں
۔
پُرانا آدمی ہوں تو شعر بھی پُرانے ياد آتے ہيں ۔ کسی زمانہ کی عورت گايا کرتی تھی
۔
آپ کی نظروں نے سمجھا پيار کے قابل مُجھے
دِل کی اے دھڑکن ٹھہرجا مِل گئی منزِل مجھے
۔
ليکن اب تو نئی منزليں اور نئی راہيں ہيں ۔ روشن خيال حکومت کی پاليسيوں کی بدولت مُلک ترقی کر گيا ہے اور عورت آزادی حاصل کر کے مرد کے شانہ بشانہ ميدانِ عمل ميں اُتر آئی ہے ۔ ملاحظہ فرمائيے چند جھلکياں
۔
دو يا تين عورتيں بازار يا مارکيٹ ميں شاپِنگ کرتی ہوئی عورت يا لڑکی کے پاس سے تيزی سے گذرتے ہوئے اُس کو دھکا ديتی ہيں اور اُس کے سنبھلنے سے قبل اُس کے بيگ ميں سے موبائل فون يا نقدی يا دونوں نکال کر رفو چکر ہو جاتی ہيں
۔
دو خواتين نے ايک ٹيکسی لی ۔ منزلِ مقصود پر پہنچ کر اُتر گئيں ۔ ٹيکسی ڈرائيور نے کرايہ مانگا تو ايک نے اپنے بيگ ميں سے پستول نکال کر اس کی ٹيکسی کا ٹائر برسٹ کر ديا اور چلی گئيں
۔
ايک آدمی نے قسطوں پر رکشا خريدا ۔ اُس کی قسط 3000 روپے دينے جا رہا تھا کہ دو عورتوں نے روک کر ساحل سمندر جانے کو کہا ۔ ايک سُنسان جگہہ لے جا کر اُتريں اور ايک نے رکشا والے کی کنپٹی پر پستول تان ليا اور دوسری نے اُس کی جيبوں کی تلاشی لے کر 3000 روپے سميت سب رقم نکال لی اور دھَمکاتے ہوئے غائب ہو گئيں
۔
اسلام آباد ميں ايک سپيشيلِسٹ ڈاکٹر ہسپتال سے فارغ ہو کر گھر جا رہے تھے ۔ راستہ ميں دو عورتوں نے رُکنے کا اشارہ کيا اور کہا کہ ہميں کوئی سواری نہيں مل رہی تھوڑا آگے اُتار ديں ۔ ڈاکٹر صاحب نے کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور وہ بيٹھ گئيں ۔ کار چلتے ہی اُن عورتوں نے روشن خيالی شروع کر دی ۔ ڈاکٹر صاحب تاريک خيال تھے گھبرا گئے اور عورتوں سے تہذيب کی درخواست کی ليکن اُلٹا عورتوں نے قُربت اختيار کرنا چاہی جس پر ڈاکٹر صاحب نے کار روک کر عورتوں کو اُتر جانے کا کہا ۔ ايک بولی "اگر 500 روپيہ ديديں تو ہم اُتر جاتی ہيں ورنہ شور مچا کر لوگوں کو اکٹھا کر ليں گی"۔ ڈاکٹر صاحب نے 500 روپيہ دينے ہی ميں خيريت جانی
*
بلاگسپاٹ نہ کھول سکنے والے قارئين ميرا يہ بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر کھوليں
میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے
بلاگسپاٹ نہ کھول سکنے والے قارئين میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر کھوليں
8 Comments:
Is baat ka kia suboot hay kay Karachi main jo jaraaim hotay hain woh Karachi walay hi kartay hain ya idhar udhar say aay howay log?
سيدہ مہر افشاں صاحبہ
اگر فرض کيا جائے کہ کراچی ميں اسلام آباد کے لوگ گڑبڑ کرتے ہيں تو اسلام آباد ميں کراچی والے کرتے ہوں گے ۔
Ajmal Sahab aap say kam az kam mujhay yeh umeed na thi,
Idhar udhar kay logon say meri muraad woh log hain jo bagair visa pasport is mulk main aajatay hain,taleem na honay ki wajah say galat logon kay chungal main phans jatay hain or woh un say jaraaim karwatay hain,
Kaash aap deen ki tableeg kartay howay tasub ko bilkul apnay zahan say nikaal dain to aap ki baaton main ziada asar paida ho jaay ga,
Jazaak Allah,
مہر افشاں صاحبہ
مُجھے متعصب قرار دينے کا شکريہ اور ميں کيا کہہ سکتا ہوں ۔ کمال تو يہ ہے کہ ميں نے ايک تازہ تازہ واقعہ اسلام آباد کا بھی لکھا تھا پھر بھی تعصب ہو گيا ؟
مُحترمہ ۔ آپ کا يہ خيال ناپُختہ ہے کہ جرام غيرمُلکی کر رہے ہيں ۔ آپ کی اطلاع کيلئے عرض کر دوں کہ ميرے کئی بہت قريبی رشتہ دار کراچی ميں رہتے ہيں اور ہر طبقہ کے کئی دوست بھی ۔ ميں کراچی جاتا رہتا ہوں ۔ دو سال پہلے کراچی کے ايک گھر ميں ڈاکوؤں سے ميرا آمنا سامنا ہوا تھا وھ غير مُلکی نہيں تھے ۔ کراچی ميں ميرے خاندان کے ايک جوان مرد سے پچھلے سال بس ميں سفر کرتے ہوئے ايک ہموطن مرد نے پستول کی نوک پر موبائل فون اور باقی سواريوں سے موبائل فون اور نقدی چھينی ۔ دو ہفتے قبل ميرے خاندان کی ايک لڑکی کو دو ہموطن عورتوں نے گذرتے ہوئے ٹکر ماری اور اس دوران اس کا بيگ کھول کر اس کا قيمتی موبائل فون نکال کر غائب ہو گئيں ۔ وہاں کھڑے محافظوں نے درخواست کے باوجود کوئی توجہ نہ دی ۔
Pahli baat aap nay docter sahab walay waqay kay ilawa kisi waqay main jagah ki wazahat na ki thi,jis say yeh tamaam waqiaat Karachi kay hi mahsoos horahay thay aap nay osat bhi sirf Karachi ka hi bataya baqi jaghoon ka batana shaaid bhool gaay,dosri baat hum is baat say inkaar naheen kartay kay jaraaim main Karachi ya Pakistan walay mulawis naheen magar Jaraaim ki sharah barhnay ki deegar wajohaat kay saath saath meri tahreer ki hoi wajah bhi aik aham unsar hay,Karachi main Afgani, Barmi,Bangali, Irani or na janay kahan kahan say log aarahay hain najaaiz tareeqon say, un ki bhi majborian hain, laikin hokomat kay kuch na karnay ki wajah say woh saans ka rishta qaaim rakhnay kay liay jurm karnay par majboor ho jatay hain,mujhay yaqeen hay aksariat khowah kaheen ki ho jaraaim karna naheen chahti agar unhain daal roti ka sahara bhi mayasar ho,Main Krachi main rahti rahi hoon or ab bhi aana jaana laga rahta hay is liay aap say ziada wahan kay halat ko samajhti hoon, khod meray khandaan main chori dakay ki wardatain hoi hain meray Batay ki kanpati par gun rakh kar us ka mobile rah chaltay cheena gaya hay laikin main saray Karachi ya saray Pakistan ko phir bhi bura naheen kahoon gi,kuch galat logon kay kiay ka ilzaam poray mulk ko dena kahan ka insaaf hay?
Aakhri jumlay manay gusay main likhay or gusa is baat ka tha kay aap nay maray khayalaat ko jaanay kay bawajood mujhay mutasib samjha, jab kay mainay saaf saaf idhar udhar kay log likha tha agar aap samajh na sakay thay to pooch laytay kay idhar udhar kay logon say mari kia muraad hay,Aakhri baat aaj is mulk ko tabaahi kay dahanay par isi tasub nay lakar khara kardia hay agar hum ab bhi na jaagay to hamari dastaan bhi na hogi dastanon main,
مہر افشاں صاحبہ
آپ نے خود ہی تصوّر کر ليا کہ میں نے آپ کو مُتعصُب سمجھا اور میں نے آپ کے مُجھے مُتعصُب لکھنے کے باوجود آپ کو مُتعصُب نہ کہا ۔ آپ نے مُجھے ہر اُس بات کا مُلزم ٹھہريا جو ميں نے نہيں کہی جب کہ ميں نے آپ کے اعتراضات کی صرف وضاحت کرنے کی کوشش کی ۔ کراچی اور اسلام آباد کے حالات ميں اسلئے لکھتا ہوں کہ کراچی مُلک کا سب سے بڑا اور سب سے اہم شہر ہے اور اسلام آباد مرکزی حکومت کا گھر ہے ۔ وجہ کُچھ بھی ہو اس ميں کوئی شک نہيں کہ جرائم کی شرح کراچی ميں مُلک کے دوسرے شہروں سے کہيں زيادہ ہے ۔ ميں جانتا ہوں کہ کراچی ميں پانچ لاکھ سے زائد غير مُلکی خلافِ قانون رہ رہے ہيں ۔ سو يا ہزار کی بات ہو تو کہہ سکتے ہيں اُن پر نظر رکھنا مُشکل ہے ۔ اتنے زيادہ کو کس نے پناہ دی ہوئی ہے ؟ آپ نے فرمايا ہے کہ حکومت کُچھ نہيں کرتی ۔ کيا کراچی ميں حکومت کراچی کے لوگوں کی نہيں ہے ؟ کيا گورنر اور وزيرِ اعلٰی
کراچی کے نہيں ہيں ؟ کيا سارے ضلع ناظم کراچی کے نہيں ؟
مُحترمہ آپ ميری 24 جون کی تحرير کو دوبارہ ٹھنڈے دِل سے پڑھيئے ۔ اُس ميں حقائق کے علاوہ کچھ نہيں ہے اور ميرا 25 جون کا جُملہ صرف سطحی نوعيّت کا ہے جس پر آپ نے مُجھے مُتعصُب قرار ديا ۔
آپ مُجھے سمجھنے کی ہدائت کر رہی ہيں جب کہ خود آپ نے سرے سے سمجھنے کی کوشش ہی نہيں کی ۔ آپ بھُول ہی گئيں کہ آپ نے مُجھے اپنے والدِ مُحترم کا ہمعصر قرار ديا تھا ۔ کيا چھوٹا ہونے کے ناطے آپ کا فرض نہيں تھا کہ مُجھ پر اِلزام لگانے سے پہلے آپ مُجھ سے وضاحت طلب کرتيں ؟
Chaliay yeh to tay howa kay hum dono main say koi bhi mutasib naheen or hum dono hi nay aik dosray ko samajhnay main galti ki,
is kay ilawa to mera khayaal hay kay mainay aap ko or kisi baat ka mulzim naheen tahraya,
Itnay ziada logon ko kis nay panah di hoi hay? yah to aaj ka qisa hi naheen barsaha baras purani baat hay,
Wazeere aala to Karachi kay naheen Thar kay hain, baqi oper kay logon ka taluq agar Karachi say ho bhi to machinery to sari wahi purani hay jin say qanon par amaldaramad karwaya jata hay woh to sab wahi hain jo pichli sari hokomaton kay saath kaam kartay rahay hain,
Karachi kay masaail poray Pakistan ki tarah aaj kay naheen balkay 50,55 saal puranay hain,
Dosri baat mujhay gusa aap kay mazmoon par naheen balkay maray tabsiray par aap kay 25 june kay jawaab par aaya tha,jaisa kay main pahlay bata chuki hoon.........
Post a Comment
<< Home