Thursday, October 12, 2006

جھگڑے اور شرمندگی سے نجات

پاکستان ميں مندرجہ ذيل رابطہ اپنے چرند [Browser] ميں لکھ کر کھولئے
۔
ہماری ہر بات اور عمل اپنا اثر رکھتے ہيں جس طرح پانی ميں پتھر پھينکا جائے تو لہريں پيدا ہوتی ہيں جو دور تک جاتی ہيں ۔ ہميں اپنی مرضی کے مطابق بولنے اور عمل کرنے کا حق ضرور ہے ليکن ہمارے بولے ہوئے الفاظ اور ہمارے عمل کے نتيجہ کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ جلدی ميں بولے ہوئے الفاظ نے متعدد بار پيار کرنے والے مياں بيوی يا دوستوں کے درميان ديوار کھڑی کی ہے ۔
۔
بعض اوقات ہم کسی کے متعلق غلط سوچ قائم کرتے ہيں اور پھر غُصّے يا جذبات ميں آ کر جو منہ ميں آتا ہے کہہ ڈالتے ہيں ۔ ايسے ميں اگر ہم توقّف کريں تو جلد ہی غصہ يا جذبات دھيمے پڑ جاتے ہيں اور اس کی جگہ رحمدلی يا تدبّر لے ليتا ہے ۔ اسلئے غصے يا جذبات سے مغلوب ہو کر کچھ بولنا يا کوئی قدم اُٹھانا بڑی غلطی ہے ۔ بہتر يہ ہے کہ غصہ يا جذبات کے زيرِ اثر نہ کوئی بات کی جائے اور نہ کوئی عملی کام ۔ عين ممکن ہے ايک آدھ دن ميں يا تو غصے کا سبب ہی ختم ہو جائے يا کوئی بہتر صورت نکل آئے ۔ بالفرضِ محال اگر صورتِ حال جوں کی توں رہتی ہے تو کم از کم بہتر اقدام کے بارے ميں سوچنے کا وقت تو مل گيا ہو گا ۔ زيادہ قياس يہی ہے کہ غصہ کھانے کی وجہ ہی نہيں رہی ہو گی ۔
۔
سُورة 41 فُصِّلَت / حٰم السَّجْدَة آيت 34 ۔
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا
*
ميری يہ مواصلاتی بياض [Blog] مندرجہ ذیل رابطہ پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر بھی پڑھ سکتے ہيں
میری انگريزی کی مواصلاتی بياض حقائق عموماً تلخ ہوتے ہيں ۔ ۔ Reality is Often Bitter مندرجہ ذیل روابط ميں سے کسی ايک پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر پڑھيئے ۔ http://hypocrisythyname.blogspot.com

2 Comments:

At 10/12/2006 07:54:00 PM, Blogger میرا پاکستان said...

اسی لۓ کہتے ہیں کہ زبان کہتی ہے تو مجھے منہ سے نکال میں تمہیں گاؤں سے نکلواؤں گی۔
ایک حدیث بھی ہے۔ نبی پاک صلعم نے فرمایا "جس نے دو چیزوں کی حفاظت کی وہ جنت میں جاۓ گا۔ یہ دو چیزیں ہیں آپ کی زبان اور دوسری شرمگاہ"۔

 
At 10/13/2006 08:00:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

افضل صاحب
آپ نے ٹھيک کہا ۔ انسان ساری دنيا کو قابو کرنے کی فکر ميں رہتا ہے ليکن اپنے جسم کے ايک چھوٹے سے حصہ پر قابو پانے ميں اکثر ناکام رہتا ہے ۔ 1988 ميں جب مين ايم آئی ايس ڈيپارٹمنٹ کا چيف بنا تو ميں نے اپنے دفتر ميں لکھ کر لگا ديا
Test of fairness is how fair you are to those who are not
اس کو پڑھ کر کئی افسروں نے ميرے ساتھ بحث کی کہ ايسا ممکن ہی نہيں

 

Post a Comment

<< Home