Monday, September 18, 2006

احوالِ او ۔ آر ۔ ۔ ۔ ايک دلچسپ نظم

بلاگسپاٹ نہ کھُلنے کی صورت ميں مندرجہ ذيل رابطہ اپنے چرند [Browser] ميں لکھ کر کھولئے
چھ سات ہفتے قبل يہ نظم کی تلاش کی مگر نہ ملی ۔ اب اس کے علاوہ کچھ اور پُرانے نُسخے بھی ملے ہيں جو انشاء اللہ ايک ايک کر کے نذرِ قارئين کئے جائيں گے ۔ ميں نے 1986 عيسوی میں آپريشنز ريسرچ و کوانٹی ٹيٹِو ٹَيکنِيکس کورس کيا ۔ اُن دنوں ميں پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں جنرل مينجر مَينجمنٹ انفارميشن سِسٹمز تھا ۔ کورس ميں سرکاری اور غيرسرکاری اداروں کے دو درجن سے زائد سينئر افسران نے شموليت کی ۔ ڈائريکٹر جنرل ٹريننگ نے پہلے دن فيکلٹی اور کورس کے تعارف کے علاوہ انتخابات منعقد کئے ۔ مندرجہ ذيل اساميوں پر انتخاب ہوا ۔ مُنتخب لوگ متعلقہ کاموں کے ذمہ دار تھے ۔ فادر آف نيشن کا انتخاب ووٹوں سے نہيں ہوا ۔ اُسے سب سے زيادہ عمر کی بنياد پر چُنا گيا ۔ باقی سب کيلئے باقاعدہ ووٹِنگ ہوئی ۔
Operations Research and Quantitative Techniques Course
فادر آف نيشن Father of Nation
ماسٹر آف پروٹوکال Master of Protocol
ماسٹر آف کامن سروسز Master of Common Services
ماسٹر آف سِيرِيمنِيز Master of Ceremonies
ماسٹر آف سوشل سروس Master of Social Service
ماسٹر آف پريئرز Master of Prayers
فادر آف نيشن کا کام اُس وقت شروع ہوتا جب کسی چيز کا فيصلہ کرنے ميں دقت ہو رہی ہو ۔ ماسٹر آف پروٹوکال تمام ماسٹرز کا ماسٹر تھا يعنی سب کاموں کی ذمہ داری اُس پر تھی ۔
ڈائريکٹر جنرل اے يو خان صاحب معمولی سی بات پر لمبی تقرير کر ديتے تھے ۔ کورس بہت سخت تھا ۔ اس طرح وقت ضائع ہونے پر آدھی رات تک بيٹھ کر کام کرنا پڑتا تھا ۔ ايک دن ميں نے کورس ميں حصہ لينے والے دس لوگوں کی لکھی ہوئی رپورٹس کی تصحيح کر کے پھر اُن پر مُشتمل ايک جامع رپوٹ لکھ کر دوسرے دن جمع کرانا تھی ۔ ڈائريکٹر جنرل صاحب کی تقرير ختم ہوتے شام ہو گئی اور ميں کام نہ کر سکا ۔ ميرا مغز خراب ہو چکا تھا سو ميں گھر چلا گيا ۔ رات کو کافی دير تک کام کيا ۔ صبح کلاسز 8 بجے شروع ہوتی تھيں چنانچہ دوسرے دن ميں صبح 6 بجے انسٹيٹيوٹ پہنچ گيا ۔ اللہ کے فضل سے ڈيڑھ گھينٹہ ميں رپورٹ تيار ہو گئی ۔ باقی 30 منٹ گذارنے کيلئے ميں حسبِ حال نظم لکھ دی جو اُسی دن چائے کے وقفے ميں پڑھی گئی ۔ رديف قافيہ اور وزن کا خيال نہ کيجئے گا ۔ ميں شاعر نہيں ہوں ۔
احوالِ اَو ۔ آر
تھا آرام سے بيٹھا ايم آئی ايس ميں
يونہی ياں اَو آر پڑھنے بُلايا گيا ہوں
پھر ساتھيوں کی خُفيہ سازش سے
ماسٹر آف پروٹوکال بنايا گيا ہوں
مزيد فادر آف نيشن کی وساطت سے
بزور سوشل سروس پہ لگايا گيا ہوں
جب کبھی جی چاہا محنت کرنے کو
لمبی تقريروں سے ٹرخايا گيا ہوں
سُنائی جو بات شگفتگی ماحول کی خاطر
تو بسيارگو کے ليبل سے ڈرايا گيا ہوں
واہ بادشاہی ماسٹر آف کامن سروسز کی
دال چاول ياں بلا ناغہ کھلايا گيا ہوں
کبھی کھلا کے جی 9 کے چپّل کباب
ميں آدھی رات تک جگايا گيا ہوں
اور جب کچھ بھی نہ بن پڑی يارو
پاپ کارن دے کے بہلايا گيا ہوں
جانے يہ کِس جُرم کی ہے پاداش
اے يو خان کے پاس لايا گيا ہوں
لے لو قسم ماسٹر آف سَيرِيمَنِيز کی
ايسی جگہ پہ کبھی نہ آيا گيا ہوں
ماسٹر آف پريئرز ميرے لئے کرنا دُعا
چلا جاؤں واپس جيسا کہ بھجوايا گيا ہوں
* ميری يہ مواصلاتی بياض [Blog] مندرجہ ذیل رابطہ پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر بھی پڑھ سکتے ہيں
میرا انگريزی کا بلاگ یہ منافقت نہیں ہے کیا ۔ ۔ Hypocrisy Thy Name مندرجہ ذیل روابط ميں سے کسی ايک پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

14 Comments:

At 9/18/2006 07:12:00 PM, Blogger میرا پاکستان said...

بہت خوب جناب
اس طرح کی بھولی بسری یادیں بڑی سبق آموز اور مزیدار ہوتی ہیں۔ امید ہے اس کاوش کو جاری رکھیں گے۔

 
At 9/18/2006 11:04:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

افضل صاحب
شکريہ ۔ ميرے لئے دعا کيا کيجئے

 
At 9/19/2006 09:00:00 AM, Anonymous Anonymous said...

Hum nay bhi suna hay kay Doctor Abdul qadeer khan kafi self centerd aadmi thay apnay aagay kisi ki na suntay thay,aap nay to un kay saath kaam kia hay zara humain bhi bataain kay woh kaisay insan hain,waqaai koi heroe hain ya bas logon nay bana dia hay,waisay yeh bhi pata chala hay kay hindostan say aay thay yani mahajir hain,

 
At 9/19/2006 03:36:00 PM, Anonymous Anonymous said...

بہت ھی اچھی نظم ھے

 
At 9/19/2006 07:12:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

گُمنام صاحب
پہلی بات يہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدير خان صاحب کا مندرجہ بالا تحرير سے دُور کا بھی تعلق نہيں ۔ يہ تو وہ بات ہوئی کہ پہلے جاتکے دی گل سُن لو ۔

دوسرے آپ پردے کے پيچھے سے ايک شخص پر الزام لگا رہے ہيں ۔ يہ نہ تو اخلاقی لحاظ سے جائز ہے نہ دينی لحاظ سے ۔

آپ کی معلومات غلط ہونے کا شُبہ تو اسی سے ہو جاتا ہے کہ ميں نے ڈاکٹر عبدالقدير خان صاحب کے ساتھ کام نہيں کيا اور نہ ہی اُن کے ادارہ ميں کام کرتا تھا ۔

ڈاکٹر صاحب کو ميں ملا متعدد بار ہوں اور کچھ معاملات پر اُن کے ساتھ تبادلہءِ خيال کا موقع بھی ملا ۔ ميں اُنہيں ايک خوش اخلاق اور محنتی انسان سمجھتا ہوں ۔ کسی بھی انسانی بہبود کے کام ميں اُن سے مدد مانگی جائے تو وہ حصہ لينے کيلئے تيار ہوتے تھے ۔ جہاں تک ايٹمی دھماکہ کا تعلق ہے تو وہ واقعی ہيرو ہيں ورنہ دوسرے لوگ کئی کئی دہائياں صرف دعوے ہی کرتے رہے ۔ ميں جس مسجد ميں نماز پڑھتا ہوں اس کے ساتھ خطيب اور مؤذن صاحبان کيلئے چھوٹے چھوٹے کوارٹر ڈاکٹر عبدالقدير خان صاحب نے شائد آج سے بيس سال يا اس سے زائد پہلے بنوائے تھے ۔ شہاب الدين محمد غوری کا مقبرہ اور مسجد بھی اُنہوں نے بنوائے ۔ انجنئرنگ کانگرس اور انجنيئرنگ کونسل کی مدد بھی کرتے رہے ۔

ہاں ۔ ڈاکٹر عبدالقدير خان صاحب بھوپال سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے ليکن کيا يہ جُرم ہے ۔ آپ کو يہ سوال اُٹھاتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہ ہوئی ۔ بہت افسوس کا مقام ہے ۔

 
At 9/19/2006 07:13:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

طارق کمال صاحب
بہت شکيہ ۔ آپ نے ميرا حوصلہ بڑھايا

 
At 9/19/2006 10:26:00 PM, Anonymous Anonymous said...

Aray aray aap to jazbati hogaay mainay to yeh sirf apni genaral knowledge kay liay pocha tha,kion kay aap kay ilaqay kay bohat say logon ko un kay baray main pata naheen kia kia kahtay sun chuka hoon,waisay hijrat karkay aany ko or aanay walon ko bohat say log mujrim hi samajhtay hain,

 
At 9/20/2006 06:08:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

طارق کمال صاحب

معذرت خواہ ہوں ۔ شکريہ ميں ر ٹائپ نہ ہوئی اور شکيہ بن گيا ۔ ميری غلطی ہے کہ پڑتال کئے بغير شائع کرديا ۔

آپ کا شکريہ

 
At 9/21/2006 04:27:00 AM, Blogger Noumaan said...

آپ نے گمنام صاحب کو جو جواب دیا ہے خصوصا مہاجریت کے حوالے سے میں اس سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ اور گمنام صاحب کو مشورہ دونگا کہ وہ اپنی بینائی ٹیسٹ کرائیں یا پہلے پوسٹ صحیح طرح پڑھا کریں۔ ڈاکٹر قدیر بھوپال سے ہیں یا تہران سے۔ آدمی اپنے کام سے پہچانا جاتا ہے۔ ملک و قوم کو ٹیکنالوجی کے حصول میں ڈاکٹر صاحب کی قربانیاں تمام پاکستانیوں کے لئیے افتخار کا باعث ہیں۔ اللہ انہیں صحت تندرستی اور لمبی زندگی عطا فرمائے۔

 
At 9/21/2006 09:30:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

نعمان صاحب
ميری بات سے اتفاق کرنے کا شکريہ ۔ مجھے تو حق بات کہنے ميں کوئی جھجک نہيں ۔ کسی بھی کميونٹی ميں کچھ لوگ خراب ہو سکتے ہيں چاہے مہاجر ہوں يا مقامی ۔ اس بنا پر سب کو بُرا کہنا بداخلاقی يا پھر بُغض کا نتيجہ ہو سکتا ہے ۔

 
At 9/23/2006 06:44:00 AM, Anonymous Anonymous said...

Acha acha isi liay aap saray zamanay ko itla detay phir rahay thay kay nouman MQM say taluq rakhta hay,aap to farmatay hain kay woh aik ladeeni jamaat hay,or galiban aap kay khayal main us main shamil tamam log bay deen or dahshat gard hain,

 
At 9/23/2006 07:40:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

گمنام صاحب
جو شخص آپ کی طرح سامنے آ کر بات نہيں کر سکتا وہ بزدل ہوتا ہے يا فتنہ ۔
نعمان جو بات کہتا ہے سامنے کہتا ہے اور ميں بھی اپنا اختلاف اس کے بلاگ پر لکھ ديتا ہوں ۔
کيا فتہ پھيلانا آپ کے ذمہ کر ديا گيا ہے ؟

 
At 9/23/2006 11:51:00 AM, Blogger Noumaan said...

میرے خیال میں گمنام صاحب صرف یہ چاہتے ہیں کہ خواہ مخواہ فساد پھیلایا جائے۔ کوئی آدمی ایسے تبصروں کا جواب کیسے دے سکتا ہے جن کا نہ سر ہو نہ پیر۔

 
At 9/23/2006 12:24:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

نعمان صاحب
آپ نے ميرے خيال کی تائيد کی

 

Post a Comment

<< Home