Monday, September 11, 2006

قائد اعظم اور ہم

آج کے دن 58 سال قبل ہماری قوم کے مُحسن اور معمار اِس دارِ فانی کو خيرباد کہہ کر مُلکِ عدم کو روانہ ہوئے ۔ اِس دن کو منانے کا صحيح طريقہ يہ ہے کہ ہم قرآن کی تلاوت کر کے مرحوم کيلئے دُعائے مغفرت کريں اور اُن کے اقوال پر عمل کريں ۔ پچھلے چند سال سے دين اسلام کو دقيانوسی سمجھنے والے ہر طرح سے ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہيں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو اسلامی نہيں بلکہ بے دين رياست بنايا تھا ۔ موجودہ حکومت بھی اپنے پالنہاروں کی خوشنودی کی خاطر پاکستان ميں تعليم کو بھی بے دين بنانا چاہتے ہيں اور اصل ضروريات کو پسِ پُشت ڈالا ہوا ہے ۔ نيچے قائد اعظم کے ايک پيغام کے کچھ اقتباسات درج کر رہا ہوں جو اُنہوں نے 27 نومبر 1947 کو کراچی ميں منعقد ہونے والی کُل پاکستان تعليمی کانفرنس کو ديا تھا ۔
۔
Under foreign rule for over a century, in the very nature of things, I regret, sufficient attention has not been paid to the education of our people, and if we are to make any real, speedy and substantial progress, we must earnestly tackle this question and bring our educational policy and program on the lines suited to the genius of our people, consonant with our history and culture, and having regard to the modern conditions and vast developments that have taken place all over the world. ۔
Education does not merely mean academic education, and even that appears to be of a very poor type. What we have to do is to mobilize our people and build up the character of our future generations. There is immediate and urgent need for training our people in the scientific and technical education in order to build up future economic life, and we should see that our people undertake scientific commerce, trade and particularly, well-planned industries. Also I must emphasize that greater attention should be paid to technical and vocational education. ۔
In short, we have to build up the character of our future generations which means highest sense of honor, integrity, selfless service to the nation, and sense of responsibility, and we have to see that they are fully qualified or equipped to play their part in the various branches of economic life in a manner which will do honor to Pakistan.
*
ميری يہ مواصلاتی بياض [Blog] مندرجہ ذیل رابطہ پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند [browser] ميں لکھ کر بھی پڑھ سکتے ہيں
میری انگريزی کی مواصلاتی بياض حقائق عموماً تلخ ہوتے ہيں ۔ ۔ Reality is often bitter مندرجہ ذیل روابط ميں سے کسی ايک پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

2 Comments:

At 9/12/2006 07:23:00 AM, Blogger Noumaan said...

بے دین یا دیندار مجھے تو اس بات پر ہی اعتراض ہے کہ پاکستان قائداعظم نے بنایا تھا۔ میرے خیال میں جس پاکستان میں ہم آج جی رہے ہیں وہ سیالکوٹ کے رہنے والے ایک پنجابی مسلمان نے بنایا تھا۔ امید ہے ان کے یوم پیدائش پر آپ کے فکر انگیز مراسلات پڑھنے کو ملیں گے۔ تاہم دینداری اور قائداعظم کے بیچ میں کیا رشتہ ہے؟ پولو گراؤنڈ کراچی میں عید کی نماز کے علاوہ مجھے یاد نہیں قائداعظم کا نماز پڑھتے ہوئے کوئی فوٹو بھی ہو۔ ہاں البتہ اقبال دردمند مسلمان تھے۔ ہر وقت قرآن تھامے بیٹھے رہتے تھے اور اس کے اوراق آنسوؤں سے تر کرتے رہتے تھے۔ خصوصا صیہونیت پر اقبال کی فکر تو مسلمان کی فکر سے کافی میچ کھاتی ہے دیگر امور پر بھی ان کے افکار کافی حد تک پاکستانی لگتے ہیں مگر قائداعظم کو تو اللہ پتہ نہیں پاکستان بنانے پر بخشے نہ بخشے ہمیں تو اب بخش ہی دینا چاہئیے اور بیچارے پر مزید الزام نہیں لگانا چاہئیے۔

 
At 9/12/2006 07:41:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

نعمان صاحب
ميری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی سب کو عقل و فہم عطا کرے کہ وہ حقيقت کو پہچان سکيں ۔

تو گويا آپ کے خيال ميں مسلمان وہ ہوتا ہے جو جب نماز پڑھتا ہے تو سامنےکيمرہ رکھ ليتا ہے کہ تصوير بن جائے ۔

 

Post a Comment

<< Home