Thursday, September 07, 2006

وصفِ مُسلم

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے جو اوصاف مُسلمانوں کيلئے مقرر کئے ہيں اُن ميں سے روزمرّہ کے کردار کا ايک وصف پيشِ خدمت ہے ۔ خيال رہے کہ مندرجہ ذيل آيات ميں امر کا صيغہ استعمال ہوا ہے يعنی مُسلمانوں کو حُکم ديا گيا ہے ۔ سب جانتے ہيں کہ حُکم عدولی کا نتيجہ کيا ہوتا ہے ۔ بہت دُکھ ہوتا ہے ديکھ کر کہ مُسلمان قرآن شريف ميں دی گئی واضح ہدايات کی طرف تو توجہ کرتے نہيں اور غير مُسلم معاشرے ميں ہدائت تلاش کرتے پھرتے ہيں
۔
سُورت 4 ۔ النِّسَآء ۔ آيت 36
اور تم سب اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں سے حُسنِ سلوک سے پيش آؤ اور پڑوسی رشتہ دار سے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر سے اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو سے احسان کا معاملہ رکھو ۔ يقين جانو اللہ ايسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے
۔
سُورت 17 الْإِسْرَاء يا بَنِيْ إِسْرَآءِيْل آيت 23 و 24 اور تمہارے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو اور ان دونوں کے سامنے نرم دلی سے جھُک کر رہو اور اﷲ کے حضور دعا کرتے رہو کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے رحمت و شفقت سے پالا تھا
*
ميری يہ مواصلاتی بياض [Blog] مندرجہ ذیل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چارُو [browser] ميں لکھ کر بھی پڑھ سکتے ہيں http://iftikharajmal.wordpress.com
میرا انگريزی کا بلاگ یہ منافقت نہیں ہے کیا ۔ ۔ Hypocrisy Thy Name مندرجہ ذیل ميں سے کسی ايک پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چارُو ميں لکھ کر پڑھيئے ۔ http://hypocrisythyname.blogspot.com http://iabhopal.wordpress.com

4 Comments:

At 9/08/2006 10:44:00 PM, Blogger خاور کھوکھر said...

آپ نے بهي والدین کے حقوق والي بات هي لکهي ـ
کبهي کوئي اباجي کے فرائض بهي لکهے گا ؟؟
یورپ اور مڈل ایسٹ کے ذیاده تر جلاوطن مزدوروں کو جن کو میں جانتا ہوں انہوں نے تین نسلوں کي پرورش کي هے ـ اپنے والدین کے آپني اور آپني اولاد کي ـ
آپنے والدین کي پرورش اس طرح که باره تیره سال کي عمر میں محنت کی شروعات که ان کی اس عمر میں بهي ابا جي کا قرضه اتارنا تها ـ یعنی ان کي باره سال تک کی عمر تک ان پر جو خرچ ہوا تها وه بهی ان کو اتارنا پڑا ـ
اس کے بعد اباجی کي اولاد کي شادیاں اور آپني شادي ـ
اباجی کي اولاد کے کاروبار کی کوشش ـ
اباجی کي بیٹیوں کي شادی کرتے کرتے بورہے ہو کئے اور اب جب اپني بیٹیا جوان هیں تو اباجی نے داڑهی رکھ لی ہے اور اللّه والے ہو کئے هیں ـ
باهر جانے کي کوشش میں جب بهي کوئی ڈوٹ کر شہید هوتا هے یا باڈر پولیس کی گولیوں کا نشانه بنتا هے تو میرا جی چاهتا هے که اس لڑکے کے باپ کي تشریف ننگی کر کے اس پر لتّر مارے جائیں که اگر یه شخص کام جور اور بیوقوف نه هوتا تو اس کا بیٹا نه مارا جاتا
پاکستانی معاشرے میں باپوں کے صرف حقوق هوتے هیں اور اولاد کے صرف فرائض ـ
اولاد کا فرض هے که محنت کرکے کمائی اباجی کو دے اور اباجی کا حق هے که اس کمائی کو کها کر پاخانه کر دیں ـ
میں نے لوگوں کو مرتے دیکها هے میں نے لوگوں کو سسکتے دیکها هے ـ
اگر غلاموں کی تجارت کا زمانه ہوتا تو پاکستانی ابّوں کی اولادیں فروخت هو رهی هوتیں
اور پاکستانی ابّے آپني مظلومیت کا ڈهنڈورا پیٹ کر خیرات لے رہے ہوتے
منافقت هے یه منافقت
اولاد کو پیدا کرنے کا دعوه کرتے هیں ـ
کوئی ان سے پوچهے که اگر اولاد کی پرورش نہیں کر سکتے تهے تو مزے لینے کي کیا ضرورت تهي؟؟

 
At 9/09/2006 08:01:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

خاور صاحب
آپ نے ٹھيک لکھا ہے ليکن آپ نے پہلی آيت کو نظر انداز کرديا ۔ ميں بخوبی جانتا ہوں کہ پاکستان ميں ايسے لوگ بستے ہيں جو اولاد کو پيسے بنانے والی مشين سمجھتے ہيں ۔ اگر ہمارے ملک ميں انصاف ہوتا ۔ ميں صرف حکومتی انصاف کی بات نہيں کر رہا بلکہ سب لوگوں کے باہمی انصاف کی بات کر رہا ہوں ۔ تو ہمارے ملک کا يہ حال نہ ہوتا جو اب ہے اور کوئی ڈکٹيٹر حکومت نہ کر سکتا ۔

رہا اللہ والے ہونا تو يہ بھی ہمارے ملک کا رواج ہے کہ ساری عمر اللہ ياد نہيں ہوتا اور جب کچھ کرنے کی سکت نہيں رہتی تو اللہ والے بن جاتے ہيں ۔

ديگر آپ شائد اُس زمانے ميں ميرے بلاگ سے واقف نہيں تھے جب ميں نے باہمی سلوک اور انصاف کے متعلق آيات لکھی تھيں ۔

 
At 9/09/2006 11:19:00 AM, Blogger خاور کھوکھر said...

میرا تو مشن هي توحید اور قرآن هے ـ
اسلئے میں نے آپ کو الزام دیا که آپ کیا اجاگر کر رہے هیں ـ
قران توازن کا تقاضا کرتا هے ـ
ہر چیز میں توازن تو پهر معاشرے میں توازن پیدا هوتا هے ـ
حقوق اور فرائض کا توازن معاشرے کو جنت بناتا هے جس معاشرے میں غم اور اندیشے کے بادل چھٹ جاتے هیں ـ
مارچ میں میں جاپان گیا تها ـ
میں کتنے هی لوگوں سے ملا جنہوں نے اٹهاسی سے چورانوے تک جاپان میں محنت کر کے لاكهوں ڈالرجی هاں لاکهوں ڈالر پاکستان بهیجے
اور جب خود پاکستان کئیے تو وهاں کچھ بهی نہیں تها اس لئیے ان کو دوباره کوریا کے سمندری راستے جان پر کهیل کر جاپان آنا پڑا
اور انہی لوگوں کے ساتهی جن کے ابا جي فوت هو چکے تهے ان سب نے آپنی جاپان کی کمائی سے پاکستان میں کاروبار کر لئیے هیں ـ

ریا کاری ایک موضوع هے جس پر پچهلے بیس سالوں سے لکهنے والوں نے لکهنا چهوڑ دیا هے اور ہر پاکستاني جب کسی ریاکار کو دیکهتا هے تو بجائے اس کی مذمت کے یااس کو برا جاننے کے خود بهی ریاکاری پر اتر آتا هے ـ
آپ ریاکاری پر لکهیں
مذهب کے ان ٹهیکداروں کی پوجا پاٹھ کا حال لکهیں
اولاد کے حقوق کا لکهیں مزدور کے حقوق کا لکهیں افسر کے فرائض کا لکهیں

 
At 9/11/2006 02:19:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

خاور صاحب
رياکاری صرف پاکستان ميں نہيں تقريباً ساری دنيا ميں پھيل چُکی ہے ۔ صرف باپ کو بُرا آپ اس لئے سمجھتے ہيں کہ آپ نے صرف بُرے باپوں کے قصّے سُنے ہيں ۔ ميں نے اللہ کے فضل سے زندگی آنکھيں کھُلی رکھ کر گذاری ہے ۔ ميں نے بے انصاف باپ اور بيٹے دونوں ديکھے ہيں ۔ ايسے بھی ہوا کہ بيٹے نے باپ يا ماں يا دونوں کو اُن کی ساری دولت جلد حاصل کرنے کيلئے قتل کيا ۔ ايسے باپ بھی ديکھے جنہوں نے دولت کی خاطر اپنی بيٹی يا بيٹا بيچ ديا ۔

ميں نے منافقت کے متعلق زيادہ تر اپنی انگريزی کی بياض ميں لکھا ہے ۔ آپ ميری انگريزی کی بياض کو شروع سے پڑھيئے پتہ يہ ہے
http://hypocrisythyname.blogspot.com

 

Post a Comment

<< Home