Monday, September 25, 2006

اُردو کا حشر نشر

بلاگسپاٹ نہ کھُلنے کی صورت ميں مندرجہ ذيل رابطہ پنے چرند [Browser] ميں لکھ کر کھولئے
۔
کسی زبان کی ترقی کيلئے پُر مغز اور محنتی زبان دانوں کی ضرورت سے انکار نہيں کيا جا سکتا ۔ بّرِ صغير ميں ايسی ہستياں ايک ايک کر کے مُلکِ عدم کو سدھاريں اور اُردو يتيم ہو کر رہ گئی ۔ دہی مذکر ہے يا مؤنث ۔ اس پر بحث تو 1945 عيسوی ميں شروع ہو گئی تھی ۔ دہلی والے دہی کو مؤنث اور دوسرے مذکر کہتے ۔
۔
اُميد تھی کہ آزادی کے بعد اُردو پروان چڑھنے لگے گی ليکن 1947 کے بعد بھارت نے سنسکرت جس سے خود ہندو نابلد تھے عام کرنے کی سعی شروع کر دی اور پاکستان ميں لياقت علی خان کے قتل کے بعد عنانِ حکومت انگريز کے پِٹھوؤں کے ہاتھ آگيا اور وہ اُردو کو ثانوی حثيت دے کر انگريزی سے محبت کو اُجاگر کرنے لگے کہ شائد گورا مرغوب ہو کر اُن پر نذر نياز کرنے لگے ۔
۔
پاکستان بننے کے بعد يہ سوال بھی پيدا ہوا کہ اُردو مذکر ہے يا مؤنث ۔ اُردو زبان يا بولی ہے ۔ زبان اور بولی دونوں مؤنث ہيں اسلئے اُردو کو ہونا تو مؤنث چاہيئے ۔ خير ۔ يہ پُرانی بات ہے
۔
آجکل بالخصوص جوان طبقہ ميں اس طرح کی اُردو سننے ميں آتی ہے ۔
نَٹ يار ۔ ايسا تو نہيں بولو ۔
تُو پھر مجھے ملنے ضرور آئِيں ۔
اوہ يار ايمان سے وَٹ شُڈ آئی ٹَيل يُو ۔ ۔ ہے نا فنٹاسٹک ؟
تُم آنا شام کو دھَين وِی گو نا ۔ ٹھيک ؟
۔
فارسی کا مصدر ہے آمدَن جس کا مطلب ہے آنا ۔ اس سے بنا آمدَيد يعنی آپ آئے ۔ اس سے بنا خُوش آمدَيد ۔ مگر ہوتے ہوتے يہ بن گيا خُوش آمدِيد ۔ يعنی درميانی د پر زبر کی بجائے نيچے زير آ گئی ۔
۔
فارسی کا مصدر ہےنوشيِدَن جس کا مطلب ہے پِينا ۔ اس سے بنا نَوش يعنی پيجئے ۔ کسی کو مشروب پيش کيا جائے تو کہا جاتا تھا نوش فرمائيے اور اگر کھانے کی چيز پيش کی جائے تو کہا جاتا تھا تناول فرمائيے ۔ اب اتنے الفاظ کا بوجھ کون اُٹھائے ۔ عام ديکھا گيا ہے کہ کھانے کی اشياء پيش کر کے کہا جا تا ہے نوش فرمائيے ۔
۔
ميز جو انگريزی ميں ٹيبل ہوتی ہے سے بنا ميزبان جو انگريزی ميں ہَوسٹ ہوتا ہے ليکن نمعلوم کيسے يہ مِيزبان بن گيا يعنی م پر زبر کی بجائے نيچے زير بن گئی جبکہ ميز ابھی مِيز نہيں بنی ۔
۔
عربی زبان ميں دوسرے کو ثانی اور دوسری کو ثانيہ کہتے ہيں مگر ث کو ت بولتے ہيں ۔ کسی نے تانيہ سُنا جو کہ دراصل ثانيہ تھا اور اپنی بيٹی کا نام تانيہ رکھ ديا ۔
۔
مصر ميں ق کو آف اور ج کو گِيم بولا جاتا ہے چنانچہ ہند و پاکستان ميں جن لڑکيوں يا خواتين کا نام ادريہ ہے دراصل وہ عربی کا نام قدريہ اور اسی طرح گيلانی دراصل جيلانی ہی ہے ۔
۔
ميرے بڑے بيٹے کا نام ہے زَکَرِيَّا ۔ اس نام کے ايک نبی ہوئے ہيں جو حضرت مريم کے ماموں يا خالو تھے ۔ 40 سال سے زائد پہلے ميرے ماتحت ايک فورمين تھے وہ اپنا نام ذِکرِيہ لکھتے اور اِسی طرح بولتے ۔ جب 1985 عيسوی ميں ميری تبديلی بطور جنرل مينجر ايم آئی ايس ہوئی تو محکمہ ميں ايک ڈاٹا اينٹری آپريٹر تھے وہ اپنا نام ذِکرِيا لکھتے تھے ۔ ميرے چھوٹے بيٹے کی شادی ہوئی تو کراچی ميں نکاح رجسٹرار صاحب نے ميرے بيٹے کا نام بطور گواہ ذِکريا ذال سے لکھا ۔ ميں نے کہا کہ زے سے لکھيئے تو فرمانے لگے ۔ يہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ آپ نہيں جانتے ۔ اب اُنہيں کون سمجھاتا کہ حضور قرآن شريف کھول کر سورت مريم پڑھيئے اُس ميں زَکَرِيَّا زے سے لکھا ہوا ہے اور يہ عربی زبان کا نہيں بلکہ کسی قديم زبان کا لفظ ہے جو قرآن شريف ميں زَکَرِيَّا لکھا گيا ہے ۔ شائد نيم مُلا خطرہءِ اِيمان اِسی لئے کہتے ہيں ۔
*
ميری يہ مواصلاتی بياض [Blog] مندرجہ ذیل رابطہ پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند [browser] ميں لکھ کر بھی پڑھ سکتے ہيں
۔
میری انگريزی کی مواصلاتی بياض حقائق عموماً تلخ ہوتے ہيں ۔ ۔ Reality is Often Bitter مندرجہ ذیل روابط ميں سے کسی ايک پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

9 Comments:

At 9/25/2006 04:59:00 PM, Anonymous Anonymous said...

عمدہ لکھا ہے آپ نے اردو کی حالت زار پر۔

آصف

 
At 9/26/2006 08:35:00 AM, Anonymous Anonymous said...

سر!

مَیں آپ کے بلاگ کا ایک خاموش قاری ہوں۔ اکثر آپ کی پوسٹس اور اُن پر دوسروں کے تبصرے صرف پڑھ کر چلا جاتا ہوں۔ البتہ آج ایک بات سمجھ میں نہیں آ سکی تو لکھ رہا ہوں۔

آپ نے لکھا ہے کہ "عربی زبان ميں دوسرے کو ثانی اور دوسری کو ثانيہ کہتے ہيں مگر ث کو ت بولتے ہيں "۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، عربی زبان میں ث کی آواز ت سے قدرے مختلف ہے۔ اردو میں تو ہم اکثر حروف کے اصل تلفظ کو کب کا خیرباد کہہ چکے ہیں (مثال کے طور پر ہم ث کو س ہی کی طرح ادا کرتے ہیں۔ ح اور ہ کا معاملہ بھی ایک اور مثال ہے۔) لیکن اگر کسی قاری کو سورۃ الکوثر کی تلاوت کرتے سُنا جائے تو ث کے تلفظ میں ایک لطافت پائی جاتی ہے جو اسے ت اور س دونوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ہاں، شاید کچھ یوں ہوا ہو کہ کسی عجمی نے کسی عربی کو ثانیہ کہتے سُنا ہو اور غلطی سے اِسے تانیہ سمجھ بیٹھا ہو۔

اگر میں غلطی پر ہوں ضرور اصلاح کیجیے۔

 
At 9/27/2006 11:19:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

آصف صاحب

شکريہ ۔
دعا کيجئے کہ اللہ مجھے سيدھی راہ پر قائم رکھے ۔

سعادت صاحب
آپ نے بالکل ٹھيک کہا ۔ ث کی آواز ت کی طرح نہيں ہے بلکہ عربی ميں ث ہی بولہ جاتا ہے مگر زبان کی نوک سامنے والے اُوپر کے دانتوں کے اندر کی طرف اُوپر لگا کر ۔ آپ کوشش کيجئے تو قاری صاحب والی آواز آپ بھی نکال سکيں گے ۔ عملی طور پر جو کچھ ہوتا ہے ميں نے اسے لکھنے کی کوشش کی تھی ۔
دوسری بات جو آپ نے کہی وہ بھی درست ہے کہ ہم لوگ ث س اور ص ميں کوئی فرق نہيں کرتے البتہ کچھ لوگ ص پر زيادہ ہی زور دے کر اسے صو يا صوا بنا ديتے ہيں

 
At 10/02/2006 11:54:00 AM, Blogger urdudaaN said...

آپ نے اردو میں گرانی کی وضاحت بہت اچھی طرح کی ہے۔ اِس گرانی کی ایک اہم وجہ عربی و فارسی سے غیر مانوسی بھی ہے، جیسے آپ کی دی گئی مثالوں سے ثابت ہے۔
ویسے تو آپ نے مثالوں میں اعراب استعمال کیے ہیں لیکن مجھے پھر بھی مغالطہ ہورہا ہے۔

پہلی مثال میں آمدَید کا بگاڑ آمدِید بنا تو آپکی رائے میں تلفّظ
aamaded
ہوگا یا
aamadeed
؟ میں نے ہمیشہ
aamadeed
ہی کہتے سُنا ہے۔

دوسری مثال(جس میں آپ نے نوش اور تناول کا فرق بتایا ہے) کی رُو سے نوش کا صحیح تلفّظ
naush
ہونا چاہیے یا
nosh

تیسری مثال تو میں سمجھ نہیں سکا کہ عموماً کیا غلطی کی جاتی ہے!
ہمارے یہاں الفاظ مِیز
(mez)
اور مِیزبان
(mezbaan)
استعمال ہوتے ہیں۔ کیا صحیح تلفّظ مَیز
(maiz)
اور مَیزبان
(maizbaan)
ہیں؟

 
At 10/02/2006 04:31:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

اُردودان صاحب
صرف عربی اور فارسی ہی نہيں ہندوپاکستان کے مسلمان عِلم ہی سے ناواقف ہوتے جا رہے ہيں کيونکہ عام خيال ہے کہ پيسہ ہو تو سب کچھ مل جاتا ہے مگر حقيقت ميں ايسا نہيں ہے ۔
aamadeed
تو بالکل غَلَط ہے اور
aamaded
کی آواز تھوڑا سا ہٹ کر ہے ميرے خيال ميں صحيح آواز
aamdaid
سے ہی بنتی ہے ۔ نَوش کا صحيح تلفظ ہے
naush
جس طرح آپ انگريزی کی ٹيبل کو ميز کہتے ہيں اسی طرح ميزبان کے اندر جو ميز ہے اُسے بھی کہيئے

 
At 10/03/2006 11:47:00 AM, Anonymous Anonymous said...

باقی افراد کا تو معلوم نہیں مگر میں تلفط کی غلطی اکثر کرتا ہوں!!!

 
At 10/03/2006 11:52:00 AM, Anonymous Anonymous said...

باقی افراد کا تو معلوم نہیں مگر میں تلفط کی غلطی اکثر کرتا ہوں!!!

 
At 10/03/2006 11:52:00 AM, Anonymous Anonymous said...

باقی افراد کا تو معلوم نہیں مگر میں تلفط کی غلطی اکثر کرتا ہوں!!!

 
At 10/03/2006 09:28:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

شعيب صفدر صاحب

اُردو ہی نہيں انگريزی ميں بھی لوگ صحيح بولنے کا اہتمام نہيں کرتے ۔ يہ ہمارے ملک ميں تعليم سے عدم لگاؤ کا نتيجہ ہے

 

Post a Comment

<< Home