Friday, September 29, 2006

کيا روزے اسی لئے ہيں ؟

بلاگسپاٹ نہ کھُلنے کی صورت ميں مندرجہ ذيل رابطہ اپنے چرند [Browser] ميں لکھ کر کھولئے http://www.pkblogs.com/iftikharajmal
۔
رمضان کا مبارک مہينہ شروع ہوا ۔ اسلامی جمہوريہ پاکستان کی حکومت نے سَستے بازار قائم کرديئے ۔ حکمرانوں کے بيانوں سے اخبار لہلہا اُٹھے ۔ ہم ايک سَستے بازار ميں سودا لينے گئے پياز 15 روپے کلو اور آلو 25 روپے کلو جو چند دن پہلے علی الترتيب 9 روپے اور 23 روپے کلو لائے تھے ۔ باقی سبزی پھل سب کا يہی حال تھا ايک آدھ چيز پچھلے بھاؤ پر تھی کم پر کوئی نہ تھی ۔ مرتا کيا نہ کرتا سودا خريدنا شروع کيا ۔ ايک پياز والے کہ پاس موٹے موٹے پياز تھے اُسے کہا ڈھائی کلو دے ديجئے اُس نے بالکل نيچے سے اس طرح پياز ڈالے کہ سارے بالکل چھوٹے چھوٹے چھوٹے پياز ترازو ميں آئے ۔ اُس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی پوچھا کہ آپ داڑھی رکھنے کا سبب بتائيے گا ۔ جواب ديا کہ سُنّت ہے ۔ ميں نے کہا کيا داڑھی رکھنے کے بعد اجازت ہو جاتی ہے کہ جو ہيراپھيری چاہو کرو ؟ تو منہ بنا ليا ۔ آلو والے نے موٹے موٹے آلو تول کر دے ديئے ۔ کھجور والے سے کہا کہ سب کھجوروں کو تيل لگا ہوا ہے ؟ اشارہ کر کے بولا کہ ان کو تيل نہيں لگا ہوا ۔ ديکھنے ميں موٹی اور تازہ تھيں ۔ بھاؤ پوچھا ۔ 75 روپے کلو ۔ ايک کلو لے ليں ۔ آگے بڑھے تو ڈبے ميں بند کھجوريں بِک رہی تھيں ۔ دوکاندار نے ڈبے کا ڈھکنا اُتار کر دکھايا موٹی موٹی ايرانی کھجوريں تھيں ۔ ايک ڈبہ لے ليا ساٹھ روپے کا ۔ وزن آدھا کلو تھا ۔ امرود والے کے پاس گئے اور درخواست کی کہ بھائی پيسے اپنی مرضی کے لے لينا مگر خراب امرود نہ ڈالنا ۔ کچھ روپے زيادہ لئے اور چُن کے امرود تھيلے ميں ڈال کر دے ديئے ۔
۔
ہم خوش خوش گھر آئے کہ سودا اچھا مل گيا ۔ ملازمہ نے آلو کاٹے تو ڈھائی ميں سے ايک کلو خراب نکلے ۔ تھيلے سے امرود نکالے تو آدھے امرود گلے ہوئے تھے ۔ افطار کے وقت جو کھجوريں کھُلی تھيں وہ ليں تو ہاتھ کو تيل لگ گيا جيسا کبھی کبھی اپنی پرانی گاڑی سے لگ جاتا ہے ۔ تجربہ کيلئے چند کھجوريں دھوئيں تو ايسے محسوس ہوا کہ پانی ميں بھيگے رہنے کی وجہ سے گَل کر پھُول گئی ہيں ۔ چاروناچار کھجوروں کا ڈبہ کھولا ۔ جب کھجوريں پليٹ ميں ڈاليں تو آنکھوں پر يقين نہ آيا ۔ اُوپر کی تہہ ايرانی کھجوريں دوسری تہہ سوکھی کھجوريں اور سب سے نيچے کی تہہ شيرہ ميں بھِگوئے ہوئے چھوہارے تھے ۔
۔
ذرا ديکھئے سُورت الْبَقَرَہ کی آيت 183 ميں يہی لکھا ہے کيا ؟
۔
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ
۔
پھر کہتے ہيں اسلام ہميں ترقی نہيں کرنے ديتا ۔ چودہ صدياں پرانا ہے ۔
۔
يا مالک و خالق ہميں سيدھی راہ پر چلنے کی توفيق دے
*
ميری يہ مواصلاتی بياض [Blog] مندرجہ ذیل رابطہ پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر بھی پڑھ سکتے ہيں
۔
میری انگريزی کی مواصلاتی بياض حقائق عموماً تلخ ہوتے ہيں ۔ ۔ Reality is Often Bitter مندرجہ ذیل روابط ميں سے کسی ايک پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر پڑھيئے ۔ http://hypocrisythyname.blogspot.com

4 Comments:

At 9/29/2006 03:56:00 PM, Blogger میرا پاکستان said...

آپ اگر ترقي يافتہ اور ترقي پزير ملکوں يا يہ کہ ليں کہ مسلمان ترقي پزيد ملکوں اور مادر پدر آزاد ترقي يافتہ ملکوں ميں فرق ديکھيں تو ترقي پزير ملکوں ميں قانون کے اطلاق کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہم نے يہي سنا ہے کہ آج تک پاکستان میں کسي کو ملاوٹ کے جرم ميں سزا نہيں ہوئي اور يہي وجہ ہے کہ ہم ترقي يافتہ قوموں ميں شمار نہيں ہوسکے۔ امريکہ کي تازہ مثال ليجۓ ابھي دو ہفتے پہلے کچھ لوگ پالک کھانے سے بيمار پڑے تو سارے ملک کي دکانوں سے پالک اٹھا لي گئ۔ اس کي وجہ سے پالک کا کاروبار کرنے والوں کا کروڑوں کا نقصان ہوا مگر کسي ميں ہمت نہيں ہوئي کہ وہ دوبارہ پالک بازار ميں بيچ سکے۔

 
At 9/29/2006 04:31:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

افضل صاحب
آپ کا تجربہ ٹھيک ہی ہو گا ۔ مگر ہم لبيا ميں تقريباً سات سال رہے ہيں وہاں ميں ايک سُپرمارکيٹ ميں دہی کی ڈبياں لينے گيا مگر سيل مين نے کہا نہيں ہيں ۔ سامنے ٹھنڈی الماری ميں پڑيں تھيں مينے کہا يہ کيا ہے تو ميرے پاس کھڑا ہوا ايک شخص بولا دہی ٹھنڈی الماری ميں رکھنے کی اجازت نہيں ہے ۔ اب يہ ساری ڈبياں کوڑے کے ٹرک ميں پھينک دی جائيں گی ۔
اسی طرح ايک دوکان ميں ايک دن پہلے کے ٹماٹر اُٹھائے بغير تازہ ٹماٹر رکھ ديئے گئے اور انسپکٹر نے سارے پھنکوا ديئے ۔

 
At 10/03/2006 05:57:00 AM, Blogger urdudaaN said...

Janaab,

Shukriyah. Aap ko aor ahle-khaanah ko bhi Ramzaan Mubarak ho.

Beemaari ke baad ab aap ki tabiat kaisi hai?

Main kaam meiN masroof hogaya tha. Aor ab Ramzaan meiN bhi masroof hoon.

aap kyun udaas hue, kam az kam mail se maaloom kareN.

 
At 10/03/2006 09:25:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

اُردودان صاحب
شکريہ ۔ اللہ کا شکر ہے بہت بہتر ہوں ليکن ابھی مکمل صحتياب نہيں ہوا ۔
اور ہاں ای ميل کا تو خيال ہی نہ آيا ۔
مصروفيت اگر اچھے کام ميں ہو تو اس سے اچھی کوئی چيز نہيں

 

Post a Comment

<< Home