Saturday, October 07, 2006

ماں باپ ايسے ہوتے ہيں ؟؟؟

پاکستان ميں مندرجہ ذيل رابطہ اپنے چرند [Browser] ميں لکھ کر کھولئے
۔
ہم نے سنا اور ديکھا بھی کہ اولاد اگر بدچلن ہو تو والدين ان کی سرزنش کريں گے پٹائی بھی کريں گے ليکن اُن کی برائيوں يا عيوب کی تشہير نہيں کريں گے بلکہ جہاں غيروں کا معاملہ ہو تو اپنے بچوں کا دفاع کريں گے ۔ يہ بھی سنا تھا کہ کسی قوم کے سردار يا حاکم قوم کے ماں باپ ہوتے ہيں ۔
۔
قائدِاعظم نے مسلمانانِ ہند کو اپنے پيارے بچوں کا سلوک ديا تو آج تک قوم اُن کو ياد کرتی ہے اور دوائيں ديتی ہے ۔
۔
اُن کے بعد جو بھی ملک کا سربراہ بنا اُس نے خواہ اپنی قوم کے ساتھ خود کيسا ہی سلوک کيا ہو ليکن غيروں کے سامنے اپنی قوم کی برائياں نہيں کيں بلکہ اپنی قوم کی تعريفيں ہی کيں ۔
۔
ہمارے موجودہ بادشاہ سلامت نے تو وہ کر دکھايا جو کبھی خواب ميں بھی نہ ديکھا تھا
اپنی ہی قوم کے سينکڑوں افراد کو بغير کسی جُرم کے ثبوت کے دشمنوں کے حوالے کيا
قوم کے ہيرو کو دشمنوں کی خوشنودی کی خاطر بلاثبوت نہ صرف قيد ميں ڈالا بلکہ اُس کی تضحيک اور بدنامی کی
قوم کے دين کا مذاق اُڑاتا رہا
اپنے ہی ملک کے مردوں ۔ عورتوں اور بچوں کو غيروں کی طفننِ طبع کی خاطر دہشت گرد قرار دے کر اُن پر بم برسائے
پھرکتاب کی صورت ميں ناکردہ گناہ بھی اپنی قوم کے سر تھوپ کر قوم کے خلاف ايف آئی آر کاٹ دی
خود تعريفی سے بھری جھوٹ کا پلندہ اِس کتاب کی نقاب کُشائی مُلک و قوم کے دشمن کے مُلک ميں کر کے دُشمنوں سے دادِ تحسين وصول کی
رہی سہی کسرآئی ايس آئی کو مشکوک بنا کر پوری کر دی گويا پوری فوج کو بھی مشکوک بنا ديا
۔
کيا بادشاہ سلامت خود اس قوم کا اور اس فوج کا حصہ نہيں ہيں ؟
کيا ان کو تھپکياں دينے والے غيرلوگ دل ميں ان کے بيانات پر ہنستے نہيں ہوں گے ؟
۔
سکول کے زمانہ ميں ضرب المثل پڑھی تھی کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے ۔ اس کا مطلب اُس وقت تو سمجھ نہ آيا تھا مگر اب اچھی طرح سمجھ آ گيا ہے ۔ گنجے کو ناخن مل گئے سو اس نے اپنے سر کو خارش کر کر کے لہو لہان کر ليا ہے ۔
۔
ايک تاريخی واقعہ ياد آيا ۔ جنوبی ہندوستان کے صادق نامی شخص نے اپنے لوگوں کے ساتھ غداری کر کے انگريزوں کی مدد کی جس سے وہ جيت گئے ۔ اس کے نتيجہ ميں جب اسے جان سے مارا جانے لگا تو اس نے احتجاج کيا ۔ جواب ملا کہ جو شخص اپنی قوم کا وفادار نہيں وہ کسی غير کا کيسے وفادار ہو سکتا ہے ۔ يہ کہہ کر اسے موت کے گھاٹ اتار ديا گيا ۔
*
ميری يہ مواصلاتی بياض [Blog] مندرجہ ذیل رابطہ پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر بھی پڑھ سکتے ہيں
۔
میری انگريزی کی مواصلاتی بياض حقائق عموماً تلخ ہوتے ہيں ۔ ۔ Reality is Often Bitter مندرجہ ذیل روابط ميں سے کسی ايک پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

6 Comments:

At 10/07/2006 10:17:00 PM, Blogger urdudaaN said...

جعفر از بنگال، صادق از دکن
ننگِ ملّت، ننگِ دیں، ننگِ وطن

جس شخص کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ غدّار بنگال کا مِیر جَعفر تھا

 
At 10/08/2006 07:22:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

اُردودان صاحب
معاف کيجئے گا شعر اس طرح ہے
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ دين ننگِ قوم ننگِ وطن
ميں نے دکن کے مير صادق کا حوالہ ديا ہے ۔ قابض انگريز نے فتح کے بعد اسے توپ کے آگے باندھ کر توپ چلا دی تھی ۔

 
At 10/08/2006 08:36:00 PM, Blogger urdudaaN said...

محترم
شعر تو میری دانست میں صحیح ہی ہے، البتّہ مَیں نے غلطی سے دوسرے میر کے بارے میں لکھ دیا تھا۔

 
At 10/09/2006 11:39:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

اُردودان صاحب
چلئے آپ والا صحيح مان ليتے ہيں ۔ دونوں کا ايک ہی مطلب ہے ۔

 
At 10/09/2006 07:58:00 PM, Blogger urdudaaN said...

محترم
درگذر کرنے کیلئے شکریہ۔
میرا مقصد صحیح شعر معلوم کرنا تھا۔
دراصل میں نے پہلی بار سُنا یہ شعر اپنے استاد سے سنا تو یوں تھا
ننگِ دیں، ننگِ دنیا، ننگِ وطن
لیکن بعد میں کہیں پڑھا تو وہ تھا
ننگِ ملّت، ننگِ دیں، ننگِ وطن
میں نے کتاب میں تلاش کیا لیکن یہ شعر ہاتھ نہ آیا
انٹرنیٹ پر البتّہ آپ ہی کی طرح لکھا ہوا ملا
لہٰذا آپ کا شعر ذیادہ معتبر ثابت ہوا

خیر جیسے آپ نے فرمایا، فی الوقت مطلب پر نظر رکھی جائے۔

 
At 10/09/2006 09:53:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

اُردودان صاحب
آپ نے تو خُوب تحقيق کی ۔ اب آپ کی بات تو ماننا ہی پڑے گی
جب ہم نويں جماعت ميں تھے تو ہميں يہ شعر تاريخ کے اُستاذ صاحب نے سنايا تھا ۔ اُسی وقت سے مُجھے ياد ہے ۔ ميں نے نويں 1952 ميں پاس کی تھی ۔
اب ميرے خيال ميں آپ نے غلطی سے شفٹ دبا کر زيڈ پر اُنگلی ماری ہے اسلئے زيادہ کی بجائے ذيادہ لکھا گيا ہے ۔

 

Post a Comment

<< Home