Sunday, October 15, 2006

ايک نظر ادھر بھی

پنجاب يونيوسٹی ميں ناچ گانے کي باقاعدہ کلاسز کی مخالفت کرنے پر سٹوڈنٹس کو يونورسٹی سے نکالنے کی تيارياں ۔ نيچے ديئے رابطہ پر کلک کر کے يا اسے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے http://nawaiwaqt.com.pk/urdu/daily/oct-2006/15/columns3.php

12 Comments:

At 10/16/2006 02:44:00 PM, Anonymous Anonymous said...

کل پڑھا تھا میں نے یہ کالم!!!!! کیا کہا جا سکتا ہے!!!!

 
At 10/17/2006 06:07:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

شعيب صفدر صاحب
معاملہ يہ ہے کہ اُن طُلباء پر وہ الزام نہيں لگايا گيا جو اُنہوں نے کيا بلکہ دوسرے قابلِ گرفت الزامات لگا کر اُنہيں يونيورسٹی سے نکال ديا گيا ہے ۔

 
At 10/18/2006 04:04:00 AM, Blogger Noumaan said...

پیش خدمت ہے ٹائم میگزین کا آرٹیکل۔ نوائے وقت بھی کوئی اخبار ہے؟ غور طلب بات یہ ہے کہ جمعیت طلبا اسلام کے کارکنان طالبعلموں کو پنجاب یونیورسٹی میں دہشت زدہ کرتے ہیں اور دہشت کے بل پر اپنے نظریات اور عقائد طالبعلموں پر تھوپتے ہیں۔ نصاب ترتیب دینے میں بھی مداخلت کرتے ہیں اور اساتذہ ان کی مرضی کے خلاف بات کلاس روم میں نہیں کہہ سکتے۔ کسی بھی جامعہ کے علمی ماحول کے لئے ایسی طلبہ تنظیمیں زہر قاتل ہیں۔ دونوں انتہا پسند اخباروں نے خواہمخواہ ناچ گانے پر زور دیا ہے۔ حتی کہ نوائے وقت کے نامہ نگار تو ہیرامنڈی کی طرف اشارے بھی کرتے ہیں اور ناچ گانے کو طوائف پیشہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ٹائم کے نامہ نگار اس بات پر معترض ہیں کہ لڑکے لڑکیاں ڈیٹ نہیں کرسکتے۔ تعلیم کا ہوش کسے ہے۔

 
At 10/19/2006 10:35:00 AM, Anonymous Anonymous said...

کسی بھی وجہ سے نکالا ہو میرا تو خیال ہے کہ بہت اچھا کیا کہ جمیعت کے سرکردہ لوگوں کو نکال دیا۔ میرا جمیعت کے ساتھ تجربہ یہی ہے کہ یہ غنڈے اور قاتل قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اسلام کی الف بے نہیں آتی مگر دھونس جماتے ہیں یہ جعیتی!

 
At 10/19/2006 02:20:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

نعمان صاحب
جہاں تک طلباء کی سياسی تنظيموں کا تعلق ہے تو ميں اس کے خلاف ہوں چاہے اسے کسی بھی سياسی جماعت کی پشت پناہی حاصل ہو ۔ يہ جنگلی پودے عوامی دور کی يادگار ہيں جن کی جڑيں بہت گہری ہو چکی ہيں ۔

نوائے وقت کو آپ اخبار ہی نہيں سمجھتے اور پھرانتہاء پسند بھی کہتے ہيں ۔ آپ کے خيالات حقيقت کا احاطہ نہيں کرتے اور ان ميں شخصی بغض کی جھلک بھی ہے ۔

ناچ گانے کو ناچنے واليوں سے تشبيح نہ دی جائے تو کيا پاکباز خواتين سے دی جائے ؟ کيا آپ نے کوئی ايسا اسلام ترتيب ديا ہے جس ميں ناچ گانا نيک خواتين کا وصف ہے ؟

 
At 10/19/2006 02:29:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

زکريا بيٹے
آپ کا خيال ٹھيک ہے ۔ آجکل کوئی مذہب کے نام پر اور کوئی روشن خيالی کے نام پر غنڈاگردی کر رہا ہے ۔ ميں تو اس حق ميں ہوں کہ طلباء کی تمام سياسی تنظيميں ممنوع قرار دی جائيں اور جو استاد صاحبان ان کی پشت پناہی کريں انہيں بھی فارغ کر ديا جائے ۔ کلجوں ميں بارہ بارہ سال سے لڑکے زيورِ تعليم ہوتے ہيں کيا اور يہی فطور مچانے والے ہوتے ہيں مگر حکومت کے اہلکار ان کے خلاف سخت کاروائی کی کسی کو اجازت نہيں ديتے ۔

 
At 10/26/2006 09:23:00 AM, Blogger Noumaan said...

یونیورسٹی کسی کو زبردستی تو ناچ گانے کی کلاسیں لینے پر مجبور نہیں کررہی۔ جس کا جی چاہے وہ کلاسیں لے جس کا جی چاہے نہ لے۔

میں واقعی نوائے وقت کو اخبار نہیں سمجھتا۔ مگر آپ تو سمجھتے ہیں۔

طوائف پیشہ ہونے میں اور ناچ گانا سیکھنے میں کوئی فرق نہیں؟ اوہ میں تو بھول گیا تھا اسلام میں تو گانا
بجانا ممنوع ہے۔ مگر ضروری تو نہیں ہر ناچنے گانے والی بیسوا ہو۔

ویسے ناچنے گانے سے روکنے پر ان طالبعلموں کو نہیں نکالا گیا بلکہ دھونس اور بدمعاشی پر معطل کیا گیا ہے۔ تادم تحریر وہ یونیورسٹیوں میں تمام تر اسلامیات کے ساتھ واپس آچکے ہونگے۔ میں تو کہتا ہوں ایسے دہشتگرد طلباء پر فوجداری قوانین کے تحت مقدمے چلنا چاہئے

 
At 10/26/2006 09:38:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

نعمان صاحب
اگر آپ کے اختيار مين ہوتا تو ناجانے دنيا کا نقشہ کيا ہوتا ۔ ليکن يہ دنيا کسی شخص کے اختيار ميں نہيں ہے ۔
بيسوا کا آپ نے ذکر کيا ہے تو آپ کی اطلاع کيلئے عرض ہے کہ بيسوا کی زندگی کا آغاز اکثر ناچ گانے سے ہی شروع ہوتا رہا ہے ۔ ايک بات اور بھی ذہن نشين کر ليجئے کہ بيسوا اسے کہا جاتا ہے جو يہ خرافات پيٹ پالنے کيلئے کرتی ہے اور جو شوقيہ لطف اُٹھاتی ہے وہ آج کی روشن خيال دنيا ميں اعلٰی سوسائيٹی کی فرد کہلاتی ہے ۔

 
At 10/26/2006 05:37:00 PM, Blogger Noumaan said...

موضوع کہیں اور جارہا ہے۔ قصہ مختصر اگر یونیورسٹیوں میں دہشتگرد طلبہ تنظیموں کو قطعا دیگر طلباء کو ہراساں کرنے، انتظامی اور تدریسی معاملات میں بزور دہشت مداخلت کرنے کی قطعا اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ یا اگر بات اسلام کی ہو تو انہیں دھونس زبردستی اور دھمکی کی اجازت ہونی چاہئے؟؟؟

 
At 10/27/2006 07:25:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

تعليمی اداروں ميں کسی بھی تنظيم کو دھونس دھاندلی کی اجازت نہيں ہونا چاہيئے چاہے وہ جماعتِ اسلامی کی پروردہ ہو يا ايم کيو ايم کی ۔

اسلام کو رگڑا لگانا آپ نے اپنا نصب العين بنا ليا ہے ۔ اسلام ميں دھونس دھاندلی ايک ناپسنديدہ ہی نہيں بلکہ قابل تعزير عمل ہے ۔

 
At 10/27/2006 07:53:00 AM, Blogger Noumaan said...

پس ثابت ہوا کہ ان طلباء کا فعل قابل تعزیر تھا؟

 
At 11/11/2006 01:16:00 AM, Anonymous Anonymous said...

Hyderabad based urdu newspaper siasat editor mr amir ali khan and mr mazhar and mr alamdar were involved in a sex racket today as exposed by MIM floor leader in the state assembly in which a young girl was sold to alleged sex racket after being brought in a trap by offering her a scholarship and then taking her to a farmhouse and raping her which are seirous offenses and even forcing her parents not to file a police complaint and threatnig them with dire consequences.Even the National Law Trust has sent a letter dated on 14-09-2006 signed by its Chairman Mr Khalid Nishu to all the Newspaper editors to take up the story as it damages the reputation of the media and the victim Mrs Mariam Fatima had even met the President of India seeking justice and the State Home Minister has appointed a team led by deputy Commissoner of police Mr Madhu Sudan Reddy IPS to investigate the case as promised by the Minister in the Assembly .The Majlis Ittehadul Muslimeen on Tuesday took the Congress government to task for its alleged failure to control kidnappings and trafficking of young girls in the State, particularly Hyderabad.

 

Post a Comment

<< Home