Monday, December 04, 2006

بھارت پاکستان اور امريکہ

بيٹھے بيٹھے ميرے ذہن ميں آيا ۔ سوچا قارئين کی نذر کيا جائے
بھارت کے گائک نے گايا
دَم مارو دَم م م م
مِٹيں سارے غم م م م
بولو صبح شام
ہری کرِشن ہری رام
ہماری موجودہ حکومت کہتی ہے
ڈَم ڈما ڈَم م م م
مِٹے سارے غم م م م
کھاؤ صبح شام
ہری مرچ ہرا بادام
امريکی حکومت کہتی ہے
بَم مارو بَم م م م
مٹيں سارے مُسلِم م م م
کرتے جاؤ اعلان
امن امان ۔ امن امان ۔

7 Comments:

At 12/04/2006 02:41:00 PM, Blogger Shoiab Safdar Ghumman said...

خوب!!!

 
At 12/05/2006 10:29:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

شعيب صفدر صاحب
بِسمِ اللہ ۔ بڑے دنوں بعد آپ کا نام ديکھ کر مُسرّت ہوئی

 
At 12/07/2006 08:53:00 AM, Anonymous Anonymous said...

ایسے امن سے کچھ یاد آ گیا۔
کچھ عرصہ کی بات ہے میرے چھوٹے بھأی یہاں کینیڈا آٔے ہؤے تھے۔ ان کی ابھی نٔی نٔی شادی ھوٌی تھی۔ ہم دونوں بھأی حسب معمول سپر مارکیٹ سے سودا سلف لینے گٔے تو ایک راہگیر نے روک کر پوچھا کے ہمارا تعلق کہاں سے ہے غالباً اسے بھی ہمارے کپڑے دیکھ کر یہ سوال کرنا پڑا کیونکہ ہم دونوں بھأی ہمیشہ مسلم لباس پہنتے ہیں۔
ہم دونوں نے سعودی ثوب پہن رکھا تھا۔ میرے بھأی نے اس وقت اک چادر اوڑھ رکھی تھی اور میرے سر پر عمامہ تھا۔ اس کو بتایا کے ھمارا تعلق پاکستان سے ہے تو کہنے لگا: تمھارے کپڑے تمھاری شخصیت کو بہت پرسکون بنا رہے ہیں۔
Your clothes make your personality very peaceful.
جب اسے بتایا کہ یہ کپڑے تو ہمیں اپنے نبی سے ورثے میں ملے ہیں تو کہنے لگا پھر تمہارا نبی کتنا پرسکون شخص ہو گا؟

اسی طرح ایک دفعہ راستے میں اک پاکستانی بھأی مل گیا کہنے لگا : یہ آپ ہمیشہ پاکستانی یا عربی لباس میں کیوں رہتے ھیں ہماری طرح لباس کیوں نہیں پہنتے؟ مرے منہ سے بس یہ نکلا: ہم تو آپ کی ہے طرح پہنتے ہیں پتہ نہیں آپ کیوں ان لوگوں کی طرح پہنتے ہیں !۔

 
At 12/07/2006 09:38:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

ابو حليمہ صاحب
آپ بہت اچھا کرتے ہيں اپنا لباس پہن کر ۔ يہ ايک خوبی ہے اور کردار کی مضبوطی ظاہر کرتی ہے ۔ ہمارے لوگ تو اپنے ملک ميں ہوتے ہوئے غيروں کا لباس پہننے ميں فخر محسوس کرتے ہيں ۔ ميں آپ کو ايک لطيفہ سناؤں ۔ ميرے والدين اور اساتذہ نے ہميں تربيت دی تھی کہ جب کسی سے ملو يا کسی جگہ کوئی ملے تو السلام عليکم کہو ۔ سو ميں کسی دکان يا چھابڑی والے سے سودا خريدنے لگوں تو پہلے السلام عليکم کہتا ہوں ۔ اس پر کچھ لوگ ميرے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہيں کچھ پريشان ہو جاتے ہيں اور کچھ ايسے بھی ہوتے ہيں جو حقارت سے مجھے ديکھتے ہيں ۔

 
At 12/07/2006 09:27:00 PM, Anonymous Anonymous said...

کتنا دکھ ہوتا ہے جب اپنے مسلمان بھاٌی اس طرح سلوک کرتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں ہمارے لوگ اس احساس کمتری میں مبتلا ھیں کے مغربی تہذیب کو اپنا کر ہی سرخرو ہوا جا سکتا ہے۔ چلو اپناتے ہو تو اپناٌو کم سے کم اپنی تہذیب تو نہ بھولو۔ یہاں کینیڈا میں سکھ برادری بہت یکجا یے خاص طور پر اپنے عقاٌد کے بارے میں کسی سے کے سامنے نہ جھکنے والے ۔ آپ اس سے اندازہ لگاٌں کہ
ROYAL CANADIAN MOUNTED POLICE
جو کے کینیڈا کی سب سے بڑی فورس ہے ، میں ایک یونٹ ایسی بھی ہے جس میں سکھوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو باقاعدہ سر کی پگڑی کو یونیفارم کا حصہ بنانا پڑا۔ اور مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ اگر کوٌی اللہ کا بندا کہیں سنت رسول کو زندہ کرنے کا ارادہ کر ہی بیٹھا تو صرف اپنی روشن خیالی ثابت کرنے کے لیٌے اس سنت سے ہی منکر ہو جاتے ہیں ۔

 
At 12/08/2006 09:39:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

ابو حليمہ صاحب
مسئلہ يہ ہے کہ ہم لوگ مسلمان والدين کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہيں ۔ دوسرے صرف کلمہ پڑھ لينا ہی کافی نہيں اس پر عمل بھی ضروری ہے ۔ جب اللہ کو ہم معبود مانتے ہيں تو پھر ہمارا کوئی بھی فعل نہ صرف يہ کہ اللہ کی ہدائت کے خلاف نہيں ہونا چاہيئے بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کيلئے ہونا چاہيئے ۔
ہماری بے راہروی کا سبب ہمارے دو خصائل ہيں ايک تو ہم تعليم کا شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہيں تاکہ ڈگری مل جائے اور ہم افسر بن جائيں ۔ علم سے ہميں کوئی سروکار نہيں ۔ دوسرے ہم اپنی ہر چيز کو گھٹيا اور دوسروں کی ہر چيز کو اچھا سمجھتے ہيں خواہ ہماری چيز دوسروں سے بہتر ہو ۔

سکھ اپنے خيالات ميں پکّے ہيں اس کی وجہ اُن کی کم تعداد بھی ہو سکتی ہے ۔

 
At 12/08/2006 11:45:00 PM, Anonymous Anonymous said...

اچھا مزے کی بات ہے کہ دوسروں کی چیزوں کو بھی تب تک ہی اچھا سمجھتے ہیں جب تک اپنا کام نکلے۔ جب خود اس نظام کو اپنانے کی باری آتی ہے تب اس اقدام میں صرف براٌی ہی نظر آتی ہے۔ ابھی سامنے کی مثال ہے کہ ہماری کمیونٹی میں عید الاضحی کی پارٹی کا انتظام میرے سپرد کیا گیا۔
شوری میں یہی طے پایا کہ کھانے پر ٹکٹ رکھا جاٌے اور کھانا کسی مسلمان رستوران والے سے خریدا جاٌے ۔ اک سوال اٹھا کہ ان لوگوں کا کیا ہو گا جو ٹکٹ کے بغیر آ جاویں ۔ کہا بھأی رستوران میں بغیر پیسے جاو تو کیا ہوتا ہے؟
جب تک تو کسی انگریز کی پارٹی میں جاٌو تو تب تو یہی کہا جاتا ہے کہ واہ صاحب کیا نظام ہے پر جب اپنی باری آتی ہے نظام اپنانے کی تو نظام ہزم نہیں ہوتا۔

 

Post a Comment

<< Home