کئی سالوں سے ثقافت یا کلچر کا بہت شور و غوغا ہے ۔ آخر ہماری ثقافت ہے کیا اور کہیں ہے بھی کہ نہیں ؟ یہ ثقافت یا کلچر ہوتی کیا بلا ہے ؟ آج سے پچاس سال پہلے جب میں انٹرمیڈیٹ میں پڑھتا تھا تو میرا ثقافت کے ساتھ پہلا تعارف کچھ اِس طرح ہوا ۔ اپنے ایک ہم جماعت کے گھر گیا وہ نہ ملا ۔ دوسرے دن اس نے آ کر معذرت کی اور بتایا کہ رشیّن کلچرل ٹروپے [
Russian Cultural Troupe]نے پرفارمینس [
Performance] دینا تھی ۔ میں دیکھنے چلا گیا ۔ میں نے پوچھا کہ پھر کیا دیکھا ؟ کہنے لگا " اہُوں کلچر کیا تھا نیم عریاں طوائفوں کا ناچ تھا " ۔
اب اپنے ملک کے چند تجربات جو روز مرّا کا معمول بن چکے ہیں
ميرے دفتر کے تين پڑھے لکھے ساتھی آفيسروں نے چھٹی کے دن سير کا پروگرام بنايا اور مجھے بھی مدعُو کيا ۔ صبح
8 بجے ايک صاحب کے گھر پہنچ کر وہاں سے روانگی مقرر ہوئی ۔ وہ تينوں قريب قريب رہتے تھے ۔ ميرا گھر اُن سے
40 کلوميٹر دور تھا ۔ ميں مقررہ مقام پر
5 منٹ کم
8 بجے پہنچ گيا تو موصوف سوئے ہوئے تھے ۔ دوسرے دونوں کے گھر گيا تو اُنہيں بھی سويا پايا ۔ مجھے ايک گھينٹہ انتظار کرانے کے بعد اُنہوں نے 9 بجے سير کا پروگرام منسوخ کر ديا اور ميں اپنا سا مُنہ لے کر
3 گھينٹے ضائع اور
80 کلوميٹر کا سفر کر کے واپس گھر آ گيا ۔
چند سال قبل ميں لاہور گيا ہوا تھا اور قيام گلبرگ ميں تھا ۔ رات کو بستر پر دراز ہوا تو اُونچی آواز ميں ڈھما ڈھا موسيقی ساتھ بے تحاشہ شور ۔ سونا تو کُجا دماغ پھٹنے لگا ۔ انتہائی کَرب ميں رات گذری ۔ صبح اپنے مَيزبان سے ذِکر کيا تو بيزاری سے بولے "ہماری قوم پاگل ہو گئی ہے ۔ يہ بسنت منانے کا نيا انداز ہے "۔ محلہ میں کوئی شیرخوار بچہ ۔ بوڑھا یا مریض پریشان ہوتا ہے تو اُن کی بلا سے ۔
آدھی رات کو سڑک پر کار سے سکرِیچیں [
Screeches] ماری جا تی ہیں ۔ اُن کی بلا سے کہ سڑک کے ارد گرد گھروں میں رہنے والے بِلبلا کر نیند سے اُٹھ جائیں ۔ ہمارے گھر کے پيچھے والی سڑک پر رات گيارہ بارہ بجے کسی مالدار کی ترقی يافتہ اولاد روزانہ اپنی اِسی مہارت کا مظاہرہ کرتی تھی ۔ اللہ نے ہم پر بڑا کرم کيا کہ وہ خاندان يہاں سے کُوچ کر گيا ۔
ایک جگہ بھِیڑ اور شور و غُوغا سے متوجہ ہوۓ پتہ چلا کہ کوئی گاڑی ایک دس بارہ سالہ بچّے کو ٹکر مار کر چلی گئی ہے ۔ بچہ زخمی ہے ۔ کوئی حکومت کو کوس رہا ہے کوئی گاڑی والے کو اور کوئی نظام کو مگر بچّے کو اُٹھا کر ہسپتال لیجانے کے لئے کوئی تیار نہیں ۔ يہ کام شائد اللہ تعالٰی نے مجھ سے اور ميرے جيسے ايک اور غير ترقی يافتہ [؟] سے لينا تھا ۔
ایک مارکیٹ کی پارکنگ میں گاڑیاں عمودی پارک کی جاتی ہیں ۔ کار پارک کر کے چلا ہی تھا کہ ایک صاحب نےمیری کار کے پیچھے اپنی کار پارک کی اور چل دیئے ۔ ان سے مؤدبانہ عرض کیا کہ جناب آپ نے میری گاڑی بلاک [
block] کر دی ہے پارکنگ میں بہت جگہ ہے وہاں پارک کر دیجئے ۔ وہ صاحب بغیر توجہ دیئے چل ديئے ۔ ساتھ چلتے ہوئے مزید دو بار اپنی درخواست دہرائی مگر اُن پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ آخر اُن کا بازو پکڑ کر کھینچا اور غُصہ دار آواز میں کہا "گاڑی ہٹائیے اپنی وہاں سے" ۔ تو وہ صاحب اپنی ساتھی کو وہیں ٹھیرنے کا کہہ کر مُڑے اور اپنی کار ہٹائی
پھَل لینے گئے ۔ دکاندار سے کہا "بھائی داغدار نہ دینا بڑی مہربانی ہو گی" ۔ دکاندار بولا "جناب ہماری ایسی عادت نہیں" ۔ اس نے بڑی احتیاط سے چُن چُن کے شاپنگ بیگ میں ڈال کر پھَل تول دیئے ۔ گھر آ کر دیکھا تو
20 فيصد داغدار تھے ۔ ۔ ۔ دراصل اُس نے صحیح کہا تھا "ہماری ایسی عادت نہیں" یعنی اچھا دینے کی ۔
پندرہ سولہ سال پہلے کا واقع ہے جب میں جنرل منیجر [گریڈ
20] تھا ہسپتال میں دوائی لینے کے لئے ڈسپنسری کے سامنے قطار میں کھڑا تھا چپڑاسی سے آفسر تک سب ایک ہی قطار میں کھڑے تھے ۔ ایک صاحب [گریڈ
19] آۓ اور سیدھے کھِڑکی پر جا کر چِلّائے" اوۓ ۔ یہ دوائیاں دو" ڈسپنسر نے سب سے پہلے اسے دوائیاں دے دیں ۔
ایک آفیسر کسی غیر ملک کا دورہ کر کے آۓ ۔ میں نے پوچھا کیسا ملک ہے ؟ بولے " کچھ نہ پوچھیئے ۔ وہاں تو روٹی لینے کے لئے لوگوں کی قطار لگی ہوتی ہے" ۔ کہہ تو وہ صحیح رہے تھے مگر غلط پیراۓ میں ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں تو بس پر چڑھنے کے لئے بھی قطار لگتی ہے ۔ ہسپتال میں دوائی لینے کے لئے بھی ۔ کیونکہ وہ لوگ ایک دوسرے کے حق کا احترام کرتے ہیں ۔
والدین اور اساتذہ نے ہمیں تربیت دی کہ جب کسی سے ملاقات ہو جان پہچان نہ بھی ہو تو سلام کرو ۔ کبھی کسی کو سلام کیا اور اس نے بہت اچھا برتاؤ کیا اور کبھی صاحب بہادر ہميں حقير جان کر اکڑ گئے ۔
کوئی ہفتہ پہلے ميں کار پر جا رہا تھا ۔ ايک چوک پر ميں داہنی لين [lane] ميں تھا جو داہنی طرف مُڑنے يا سيدھا جانے کيلئے تھی ۔ ايک لين ميرے بائيں طرف تھی جو بائيں جانب مُڑنے يا سيدھا جانے کيلئے تھی ۔ بتی سبز ہونے پر چل پڑے ۔ ميں چوک يا چوراہا يا چورنگی ميں داخل ہوا ہی چاہتا تھا کہ ايک کار ميری بائيں جانب سے بڑی تيزی سے ميرے سامنے سے گُذر کر داہنی طرف کو گئی ۔ ديکھا تو وردی ميں ملبوس ايک کرنل اُس کار کو چلا رہے تھے ۔ سُنا تھا کہ فوج ميں بڑا ڈسِپلِن [
discipline] ہوتا ہے ۔
بازار میں آپ روزانہ دیکھتے ہیں کہ بلا توقف نقلی چیز اصل کے بھاؤ بیچی جا رہی ۔
ہم ہیں تو مسلمان مگر ہم نے ناچ گانا ۔ ڈھول ڈھمکْا اور نیو ایئر نائٹ اپنا لی ہے ۔ بسنت پر پتنگ بازی کے نام پر راتوں کو ہُلڑبازی ۔ اُونچی آواز میں موسیقی ۔ شراب نوشی ۔ طوائفوں کا ناچ غرضیکہ ہر قسم کی بد تمیزی جس میں لڑکیاں يا عورتيں بھی لڑکوں کے شانہ بشانہ ہوتی ہیں ۔ [ابھی ہولی اور کرسمس باقی رہ گئی ہيں]
کیا یہی ہے ہماری ثقافت یا کلچر ؟ کیا پاکستان اِنہی کاموں کے لئے حاصل کيا گيا تھا ؟ کیا یہی ترقی کی نشانیاں ہیں ؟
یا اللہ ہمیں صحیح راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما ۔ آمین ۔
*
بلاگسپاٹ نہ کھول سکنے والے قارئين ميرا يہ بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر کھوليں
http://iftikharajmal.wordpress.com
میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔
Hypocrisy Thy Name - - http://hypocrisythyname.blogspot.com - - یہ منافقت نہیں ہے کیا
بلاگسپاٹ نہ کھول سکنے والے قارئين میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر کھوليں
http://iabhopal.wordpress.com
19 Comments:
وہي بات ہوئي آپ والي کہ ہم ہر بري چيز کي نقل بڑے مزے سے کرتے ہيں مگر اچھي چيز کي نقل کرنے ميں ہميں موت پڑتي ہے۔ اب يورپ ميں کہيں بھي رشوت ديني نہيں پڑتي اور ہمارے ہاں رشوت ايک معمول بن چکي ہے۔
يہي چالاک قوموں کي چال ہوتي ہے کہ دوسري قوموں کو نيچے لگانے کيلۓ ان کو بے کار کاموں ميں لگاۓ رکھو۔
آپ نے حالات اور واقعات کو بہت خوبصورت تحریر کیا ہے ـ
عالیجاہ ـ آپ نے میرے بلاگ پر کچھ پوچھا تھا، جس کا جواب میں نے وہیں لکھ دیا ـ
شعیب
افضل صاحب
ہماری حالت تو يہ ہے کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹيڑا
شعيب صاحب
يہ عالیجاہ ميں کيسے بن گيا ؟ بہرحال آپ کی عزت افزائی کا مشکور ہوں
Har woh saqafat jo Islam kay bunyadi usolon say mutasadim ho chor dena chahiay,kion kay woh insano kay liay kabhi bhi faida mand sabit naheen ho sakti,
Ajmal sahab abhi aik hadees nazar say guzri hay soncha aap ki post kay hawalay say dosron tak bhi pohnchay or shaid Zakria kay bhi kaam ki ho,Aap S.A.W.A.W ka irshaad hay Arabi zabaan say teen wajohaat say mohabat karo 1)Meri zabaan Arabi hay,2)Quran ki zabaan Arabi hay,3)Janat ki zabaan Arabi hay,
Kanz ul Ammal,jild 12,safah 22,
or yeh hukum sab musalmano kay liay hay,
مہر افشاں صاحبہ
ميں نے ايک بات لاہور کی اور باقی سب اِسلام آباد کی لکھی تھيں اور ڈر رہا تھا کہ اب کے کوئی اِسلام آباد والا مُجھے متعصُب قرار دے دے گا ۔ الحمدللہ بچ گيا ۔
کنزالعمل ميرے پاس نہيں ہے اسلئے يہ حديث ميری نظر سے نہيں گذری ۔ ويسے بات ثقافت کی تھی اور ثقافت مقامی ہوتی ہے ۔ جہاں تک عربی زبان کی بات ہے اگر آدمی کِسی سے مُحبت يا لگاؤ رکھتا ہے تو اُس کی خوشنودی کی کوشش کرتا ہے چنانچہ اگر ہم مُسلمان ہيں تو ہميں رسول اللہ کے ہر حُکم يا مشورہ پر عمل کرنا چاہيئے ۔۔ دوسری بات يہ ہے کہ اگر قرآن شريف کو سمجھنا ہے تو عربی زبان سيکھنا پڑے گی ۔
ايک سوال ميری معلومات کيلئے ۔ کيا کراچی ميں "سوچا" کو "سونچا" بولا جاتا ہے ؟
Tanz aap acha kar laytay hain:),umeed hay kay narazgi khatam ho gaai hogi,hum nay to apna dil saaf kar lia hay,kionkay munafiqat musalmaan ka shewa naheen hoti,hum baat dil main rakhnay kay qaail naheen hain:)ab aap isay hamari buri aadat kah lain ya achi,
yeh hadees aap ki is post kay hawalay say to na thi albata aik purani post kay hawalay say thi,jahan tak humain yaad parta hay pahlay soncha hi likha jata tha phir baad main is main say noon nikaal dia gaya ab is baat ki tasdeeq to URDUDAAN sahab hi karsaktay hain,laikin humain socha likhnay main bhi koi aitraaz naheen kion kay jadeed urdu lugat main yeh isi tarah likha hay,tashee ka shukria,
jo waqiaat aap nay likhay woh crimnal act main to naheen aatay laikin ikhlaqi jaraaim zaroor hain or is main hamari sari qoom hi mubtila hay,
Hairaan hoon dil ko rowon kay peeton jigar ko main,
مہر افشاں صاحبہ
میں طنز نہيں کيا کرتا البتہ کبھی کبھی تھوڑاسا چڑاتا ہوں صرف اُس کو جو چڑے ۔ اور ہاں ۔ دِل کو ميلا ہی کيوں ہونے ديا جائے جو صاف کرنا پڑے ۔ تعصُب کو اللہ کے فضل سے کبھی قريب پھٹکنے نہيں ديا اور نہ کبھی دِل ميلا کيا ۔ صحت کيلئے يہ ضروری ہے ۔
آپ کا تعلق بہار سے تو نہيں ؟ بہار کے لوگ سوچنا کو سونچنا اور سموسہ کو شائد سنبوسہ کہتے ہيں ۔
Ajmal Sahab hamara taluq to Karachi say hay laikin Walid sahab Lakhnao or Walida sahiba Bilgiraam say taluq rakhti hain,baqi tafseeli jawaab aap ko mail kardia hay,
Tasub hum bhi naheen kartay laikin takleef hoti hay jab log Karachi main honay walay jaraaim ko Karachi walon or khas kar Urdu speekings par thoptay hain,yeh kafiat kam o baish aisi hi hay jaisay Europ main koi musalman jurm karay to woh islami jurm ban jata hay or koi dosray mazhab wala karay to woh aam mujrim kahlata hay,aaj tak mainay jitnay logon kay likhay howay blogs parhay hain un main jis tarah Karachi or MQM ko rageda jata hay kisi or sobay or kisi or siasi jamaat ko naheen rageda gaya jab kay koi bhi siasi jamaat jaraaim say paak naheen or na hi koi soba,agar sab kay saath aik jaisa sulook ho to takleef na ho,
مہر افشاں صاحبہ
ميرا کسی سياسی جماعت کے ساتھ نہ تعلق ہے نہ کبھی رہا ہے ۔ آپ ايم کيو ايم کے متعلق اتنی حسّاس کيوں ہيں اور وہ بھی لکھنؤ کی ہوتے ہوئے ؟ کراچی يا اور اضلاع ميں جو حالات ہيں وہ سب جانتے ہيں ۔ يہ حقيقت ہے کہ کراچی جيسے بُرے حالات مُلک کے کسی اور شہر ميں نہيں ہيں اور اس کے ذمہ دار کراچی ہی کے لوگ ہيں چاہے وہ ايم کيو ايم کے ہوں يا کوئی اور ۔ اس ميں تعصب کی کوئی بات نہيں ۔ تعصب وھ ہوتا ہے جس ميں اچھے سلوک کے بدلے بُرا سلوک ملے ۔ اور ميرا ذاتی تجربہ ايم کيو ايم کے ساتھ يہ ہے کہ مجھ سے اُنہوں نے بھر پور فائدہ اُٹھا کر اور خدمتيں وصول کر کے نہ صرف درپردہ ميرے خلاف کام کيا بلکہ جب اُن کی منافقت کھُل کر سامنے آ گئی تو اُلٹا مُجھے دھمکياں دی گئيں ليکن اللہ نے مُجھے محفوظ رکھا ۔ آپ اس موضوع کو چھوڑ نہيں رہیں اس لئے ايک چھوٹی سی حقيقت بيان کی ہے ۔
Ajmal sahab hum aap ki baat say ikhtilaaf naheen karain gay,jaisa kay hum pahlay hi kah chukay hain kay tamaam siasi jamaatain jarraim main mulawis hain to is main MQM bhi shamil hay or jis tarah har jamaat main achay buray log hain usi tarah MQM main bhi hain,or yeh Karachi kay logon ki majbori hay woh yeh samajhtay hain kay wadairon or jageerdaroon or jhotay mulaaon ko support karnay say bahtar hay kay apnay jaisay middle class logon ko support kia jaay,
aakhir deegar tamaam sobon kay bhi middle class parhay likhay log kion naheen apni siasi jamatain banatay hum aap ko is baat ka wada detay hain kay hum unhain is say ziada support karain gay,umeed hay kay ab aap hamari baat samajh gaay hoon gay,waisay hum vote naheen daaltay kion kay hamaray nazdeek koi bhi siasi jamaat is qabil naheen kay usay vote dia jaay,
مہر افشاں صاحبہ
آپ دين کی ترويج چاہتی ہيں اور لادينی طرز کی سياسی جماعت کی حمائت کرتی ہيں مگر آپ نے کبھی کسی کو اپنے ووٹ کا اہل نہيں سمجھا ۔ يہ سب متضاد نہيں کيا ؟
is ka tafseeli jawaab bazarea mail arsaal karain gay:) laikin Umray say aanay kay baad Insha Allah,
Janay say pahlay aap sab ko aik sawaal day kar ja rahi hoon Karachi kay log MQM ko vote na dain to kis siaasi party ko vote dain?hamari wapsi tak is sawaal ka jawaab dhondain........
مہر افشاں صاحبہ
آپ کا تفصيلی جواب آنے پر ہی کچھ کہہ سکوں گا ۔ پہلے آپ نے فرمايا کہ آپ کسی کو ووٹ کے قابل نہيں سمجھتی اب کہہ رہی ہيں کہ ايم کيو ايم کو ووٹ نہ ديں تو کسے ديں ۔
ليکن کيا ووٹ دينا اللہ نے فرض کيا ہے ۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ و سلّم کا فرمان پڑھا ہو گا کہ بُرائی کو طاقت سے روکو ۔ اگر روکنے کی طاقت نہيں رکھتے تو اُس کے خلاف آواز اُٹھاؤ اور اگر آواز اُٹھانے کی سکت نہ ہو تو اُسے دِل سے بُرا سمجھو اور آخری عمل ايمان کی کمزوری کی نشانی ہے ۔ اُنہوں نے يہ نہيں فرمايا تھا کہ بَدی کے حق ميں رائے دے دو کيونکہ نيکی آپ کو نظر نہيں آتی ۔
Ajmal sahab mera sawaal itna mushkil to na tha, chaliay aap kay liay isay or aasaan kardeti hoon aap kay khayaal main Pakistan kay logon ko kis siasi jamaat ko vote dena chahiay?
dosray maynay to baat bilkul saaf saaf kahi thi phir bhi aap na samajh paay main vote naheen dalti laikin Karachi or soba Sindh kay bay shumaar log to vote daltay hain na yeh sawaal dosray logon kay hawalay say tha.........
Aap nay likha Ladeen tarz ki siai jamaat ki himayat,
Mera sawaal Ladeen kis tarah?
Himayat main Altaf hussain ya deeger oper bethay logon ki naheen karti us main shamil awaam ki karti hoon or sirf us main hi naheen har siasi jamaat main shamil awaam ki,
مہر افشاں صاحبہ
آپ ميرے منہ سے وہ باتيں کہلوانے کی کوشش ميں ہيں جو ميں کہنا نہيں چاہتا ۔ مُجھے سب معلوم ہے اور حقيقت آپ کو بھی اچھی طرح معلوم ہو گی ۔ ووٹ اللہ کے نام پر ديجئے نہ کہ سياست کے نام پر ۔ اکر ديانتدار محنتی آدمی ميدان ميں نہ آئے تو اُسے کوسس کر کے آگے لائيے ۔ اس سلسلہ ميں مندرجہ ذيل ويب سائٹ پر مضمون کے آخر ميں " مصائب کا حل" اور" ديانتدار آدمی اليکشن کيوں نہيں لڑتے" پڑھ ليجئے
http://iftikharajmal.wordpress.com/دین-۔-ہمارا-رویہ-۔-رسم-و-رواج-اور-قانون/
Post a Comment
<< Home