Wednesday, July 12, 2006

القاب و خطابات

جب ميں ليبيا کی حکومت کا الخبير لِلمصانع تھا تو ايک بہت بڑے ادارے کے نائب رئيس عبدالرحمٰن براملی ايک دن ميرے پاس آکر کہنے لگے " آپ نے کبھی پوچھا نہيں کہ براملی کا کيا مطلب ہے ؟" سو ميں نے پوچھا تو کہنے لگے " برمِيل barrel کا ترجمہ ہے اور برامِل اس کی جمع ہے ۔ ميرے بزرگ برامِل بنايا کرتے تھے ۔ اُس زمانہ ميں برامِل لکڑی سے بنتے تھے چنانچہ ميرے آباؤاجداد بڑھئی يا ترکھان تھے" گويا ايم ايس سی انجنيئرنگ اور اعلٰی عہدے پر فائز شخص اپنے آباؤاجداد کے بڑھئی يعنی ہُنرمند ہونے پر فخر کر رہا تھا ۔ ہمارے مُلک ميں بہت سے القاب و خطابات رائج ہيں ۔ سردار ۔ خان ۔ نواب ۔ نوابزادہ ۔ ملک ۔ پير ۔ پيرزادہ ۔ رئيس ۔ صاحبزادہ وغيرہ کُمہار ۔ دھوبی ۔ درزی ۔ لوہار ۔ تيلی ۔ ميراثی وغيرہ اوْلالذکر اعلٰی سمجھے جاتے ہيں اور ان پر فخر و تکبّر کيا جاتا ہے اور يہ القاب و خطابات قابض برطانوی حُکمرانوں نے زيادہ تر اُن لوگوں کو ديئے جنہوں نے قابض برطانوی حُکمرانوں کی خوشنوُودی حاصل کرنے کيلئے اپنے ہموطنوں کے خلاف کام کيا ۔ جبکہ آخر الذکر گھٹيا سمجھے جاتے ہيں اور يہ بھی برطانيہ کی غلامی کے دور ميں رواج پائے ۔ آج ان لوگوں کو کمتر سمجھنے والوں کو فائيو سٹار ہوٹلوں ميں انسانيت کا پرچار کرتے شرم نہيں آتی ۔ يہ نام نہاد اعلٰی اور گھٹيا القابات و خطابات انگريزوں نے ہندوستانی مُسلمانوں ميں تفرقہ ڈال کر ہندوستان پر اپنی حکومت مضبوط کرنے کيلئے باقائدہ طور پر رائج کئے تھے جن سے ہماری قوم اب تک چِمٹی ہوئی ہے ۔ لوگ اِن القابات و خطابات کے معاشرہ پر بلکہ اپنی عاقبت پر مُضر اثرات سے بے خبر اِن کا اِستعمال کرتے ہيں ۔ نمعلوم کيوں لوگ بھول جاتے ہيں کہ سب انسان برابر ہيں اور اُن کی اچھائی اُن کے نيک اعمال ہيں نہ کہ پيشہ يا دولت يا بڑے باپ کی اولاد ہونا ۔ کتنے ہی انقلاب آئے مگر کسی کو سمجھ نہ آئی ۔ پيرس فرانس ميں رہنے والے خاور صاحب آئے دن ہميں ياد کراتے رہتے ہيں کہ وہ کميار ہيں [پنجابي ميں کُمہار کو کميار کہتے ہيں] ۔ ميں جب آٹھ نو سال کا تھا تو شہر کے کنارے ايک کُمہار صاحب کے پاس بيٹھ کر ديکھتا رہتا کہ وہ برتن کيسے بناتے ہيں ۔ ايک دن کُمہار صاحب نے مجھے پوچھا "برتن بناؤ گے ؟" ميں تو کھِل گيا ۔ کُمہار صاحب نے تھوڑی سی مٹی چکّے پر لگائی اور ميرا ہاتھ پکڑ کر اُس سے لگايا اور اُوپر نيچے کيا تو چھوٹا سا گُلدان بن گيا ۔ پنجابی کا کميار يا اُردو کا کُمہارجو کوئی بھی ہے ايک ايسا ہُنرمند اور کاريگر [Skilled Craftsman] ہے جس نے انسان کو مہذب بنايا ۔ اگر کميار يا کُمہار برتن نہ بناتا تو انسان آج بھی جانوروں کی طرح کھانا کھا رہا ہوتا ۔ اِسی طرح بڑھئی ۔ لوہار ۔ درزی - تيلی وغيرہ سب ہُنرمند اور کاريگر ہيں ۔ بدقسمت ہيں وہ لوگ جو جھوٹی شان دِکھانے کے لئے اِن ہُنرمندوں کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہيں ۔ * بلاگسپاٹ نہ کھول سکنے والے قارئين ميرا يہ بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر کھوليں http://iftikharajmal.wordpress.com میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے Hypocrisy Thy Name - -http://hypocrisythyname.blogspot.com - - یہ منافقت نہیں ہے کیا ميرے اِس انگريزی بلاگ کو آپ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر بھی پڑھ سکتے ہيں

8 Comments:

At 7/12/2006 07:57:00 AM, Blogger میرا پاکستان said...

ہم نے يہ بھي ديکھا ہے کہ جب کمہاروں والا کام نيشنل کالج آف آرٹس کے طالبعلم کرتے ہيں تو انہيں تخليق کار يا آرٹسٹ کہا جاتا ہے۔ نہ کوئي انہيں کمہار کہتا ہے اور نہ ترکھان۔
بات وہي ہے کہ اگر امير آدمي ايک پيشہ اپناتا ہے تو وہ کاروبار کہلاتا ہے مگر جب يہي کام ايک غريب کرتا ہے تو اسے کمہار اور لوہار کا خطاب دے ديا جاتا ہے۔
نواز شريف فيملي کي مثال ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے ساري عمر لوہے کا کام کيا مگر وہ مياں ہي رہے۔ اسي طرح کتنے سياستدان ہيں جن کي کپڑے کي مليں ہيں مگر انہيں کوئي جولاہے نہيں کہتا۔

 
At 7/12/2006 10:25:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

افضل صاحب
نواز شريف کے خاندان کی مثال کُچھ مناسب نہيں ۔ بےنظر بھٹو نے ايک تقرير ميں کہا تھا "يہ لوہا کُوٹتے تھے ۔ اِن کے پاس اتنا پيسہ کہاں سے آ گيا"۔
ميں گمنام حيثيت ميں مياں شريف صاحب ۔ نواز شريف اور شہباز شريف سے مُختلف اوقات ميں ملا تو مجھے محسوس ہوا کہ مياں شريف صاحب اور اُن کی اولاد موجودہ سياست کے اہل نہيں ہيں ۔ وہ سادہ زندگی کے عادی اور محنتی ہيں اور لوہار کہلانا معيوب نہيں سمجھتے ۔
ميں نے بی ايس انجنيئرنگ کے دوران چھٹيوں ميں عام مِستريوں سے بڑھئی اور خراد کا کام سيکھا اور بحيثيت اسسٹنٹ ورکس مينجر ملازمت شروع کرتے ہی گيس ويلڈنگ ۔ اليکٹرک اوپن اينڈ کنٹرولڈ ويلڈنگ کا کام اپنے ماتحت مِستريوں سے سيکھا ۔ تيس سال قبل جب کہ ميں پاکستان کی حکومت کی طرف سے لِبيا کی حکومت کا ايڈوائزر تھا تو ميں نے موٹر مکينک اور ڈينٹر کا کام سيکھا ۔ اور اللہ کے فضل سے يہ سب کام ميں ٣عمدہ کر ليتا ہوں ۔ گھر کی تمام مشينوں بشمول ايئر کنڈيشنر کی مينٹيننس اور مرمت ميں خود کرتا ہوں ۔ چھوٹا موٹا اينٹيں لگانے ۔ پلستر کرنے يا ٹوٹی وغيرہ لگانے کا کام ہو سب اللہ کے فضل سے بخوبی کر ليتا ہوں ۔ مجھے اس پر فخر ہے کيونکہ يہ مجھ پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی خاص مہربانی کا نتيجہ ہے

 
At 7/12/2006 02:03:00 PM, Anonymous Anonymous said...

القاب و خطاب یا خاندانی شجرے پر فخر کرنے میں کیا برائی ہے؟
میں تو کرتا ہوں!!!!

 
At 7/12/2006 03:16:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

شعيب صفدر صاحب
ديئے گئے يا اِختيار کئے گئے القاب و خطابات اور خاندانی شجرے ميں بہت فرق ہے ۔ پھر اگر القاب و خطابات جائز طريقہ سے ديئے گئے ہوں تو بھی مناسب ہے ۔ ليکن يہاں تو بات ہو رہی ہے ہُنرمندوں کی تضحيک کی .

 
At 7/13/2006 01:35:00 AM, Blogger خاور کھوکھر said...

ميں آپنا كمہار ہونا اس لئے ياد كرواتا رہتا هوں كه خود كو نسلى (عام طور پرجانوروں كے لئے استعمال ہوتا هے)سمجهنے والے بے ہنر لوگ آگر بے جا فخر كرسكتے هيں تو ميں ايک ہنر پر فخر كيوں نه كروں ـ
نسلى جاتوں كے كم تعليم والے لڑكے يہاں يورپ ميں بغير كاغذوں كے اور بغير ہنر كے كام كى تلاش ميں سرگرداں ميرا كميار هونا سن كر جب حقارت سے ديكهتے ہيں توـ
تو ميں كہا كرتا ہوں كه بهائى تمہيں ميرا كون سا پرذه كم نظر اتا ہے ؟ اگر كہو تو انڈروئير اتار كر اپنے كمہار ہونے كا ثبوت ديكهاؤں؟؟
آپ مجهے نفسياتى مريض بهى سمجهـ سكتے هيں جو نسلى فخر ميں مبتلا اور دوسروں کونيچ سمجهنےوالے لوگوں كو آئينه دكها كر لذّت ليتا هےـ
ميرے نزديک انسانوں كو ماپنے كى كسوّٹى نبى پاک كے آخرى خطبه ميں فرمائے هوے وه الفاظ هيں جن ميں لوگوں كى لوگوں پرفوقيت كا معيار بتايا گيا ہے ـ
ميرا يه نظريه هے كه ہر ادمى كو اپنے خاندان اپنے ہنر پر اور اپنى جائے پيدائش پر اپنے شہر يا گاؤں پر اپنے ملک پر پر فخر كرنا چاہئيے ـ
مگر كسى كو نيچ سمجهنے كا حق كسى كو بهى حاصل نهيں ہونا چاہئے

آپنے لفظوں اور لہجے كى كڑواہٹ كى معذرت كے ساتہ كه شائستہ گوئى مشكل تهى

 
At 7/13/2006 09:31:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

خاور جی
تُسی بالکل ٹھيک آکھدے او ۔ تَن لا کے کمائی دا جيڑا سواد آوندا اے او گھپياں وِچ نئيں ۔ پر اِک گَل پلّے بن لو کہ بندے دے تَن تے سب توں قيمتی چِيڑا کچھا ہوندا اے ۔ جے کچھا ای لتھ جاوے تے کُج نئيں بَچدا

 
At 7/13/2006 01:30:00 PM, Anonymous Anonymous said...

بے ہنر پر ہنر مند کی عزت لازم ہے!!!!
جو دوسروں کو کمتر سمجھتے ہیں یا کمتر کہتے ہیں وہ خود احساس کمترے کا شکار ہوتے ہیں اور دراصل اس کمتری کے احساس کو دبانے کے لئے وہ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں!!! خود پر فخر کرنا یاک بات!!! دوسرے کو کمتر کہنا دوسرا عمل ہے!!!!

 
At 7/13/2006 02:52:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

شعيب صفدر صاحب
ميں نے اِسی رويّے کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے

 

Post a Comment

<< Home