Friday, December 15, 2006

انسانيت کے عَلَمبرداروں کی منافقت

کيتھولک لوگوں نے حضرت مريم کی يہ تصوير بنائی ہے ۔ اس ميں اُنہيں پورا جسم اور بال ڈھانپے ہوئے دکھايا ہے جيسا کہ عيسائی اُنہيں ديکھنا چاہتے ہيں ۔ اگر اسی طرح کا لباس مسلم خاتون پہنے تو اسے حقير سمجھا جاتا ہے ۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
عيسائی بيوائيں اکثر اپنا جسم اچھی طرح ڈھانپتی ہيں ۔ يہ ان کا خاوند سے خلوص اور قابلِ تعريف فعل سمجھا جاتا ہے ۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
اَيمِش عيسائی خواتين جسم کے علاوہ سر کے بال بھی ڈھانپتی ہيں تو اُنہيں پارسا سمجھا جاتا ہے اور لوگ ان کے عقيدہ سے متفق نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی عزت کرتے ہيں اور وہ کسی حقوقِ خواتين تنظيم کا نشانہ بھی نہيں بنتيں ۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
يہودی مذہبی خواتين اپنے سر کے بال سکارف يا مصنوعی بالوں سے ڈھانپتی ہيں ۔ کسی ملک ميں ايسی کوئی تجويز نہيں کہ ايسی يہودی خواتين پر پابندی لگائی جائے اسلئے کہ اُن کا مذہب اُنہيں اس کی اجازت ديتا ہے ۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
جب مسلم خواتين اپنے دين کے مطابق اپنے سر کے بال ڈھانپتی ہيں تو انہيں کيوں معاشرے کی پِسی ہوئی کہا جاتا ہے اور اُن کے اس فعل کو بذريعہ قانون کيوں ممنوع قرار ديا جاتا ہے ؟ کيا جو کپڑا مسلم خواتين استعمال کرتی ہيں وہ اس کپڑے سے گھٹيا ہوتا ہے جو عيسائی يا يہودی خواتين استعمال کرتی ہيں ؟
۔

4 Comments:

At 12/15/2006 04:59:00 PM, Blogger میرا پاکستان said...

آپ واقعي صحيح کہتے ہيں کہ مسلمانوں کيساتھ امتيازي سلوک کيوں۔ شايد اس وجہ سے کہ مسلمان متحد نہيں ہيں اور اس وقت کمزور ترين ہيں۔

 
At 12/16/2006 08:54:00 AM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

افضل صاحب
مسلمانوں کے ساتھ غير مسلموں کے موجودہ سلوک کی بنيادی وجوہ دو ہيں

اول ۔ غيرمسلم جو اپنا مذہب اپنی مرضی کے مطابق چلا رہے تھے اُن کو اللہ کا دين اپنی من مانی کاروائيوں کا دشمن نظر آيا اور ابتداء ہی سے وہ اسلام کے دشمن ہيں ۔

دوم ۔ مسلمانوں نے دين پر عمل چھوڑ ديا اور آپس ميں تفرقہ کے علاوہ خود ہی دين ميں نہ نظر آنے والے کيڑے نکالنے لگ گئے ۔

 
At 12/16/2006 01:55:00 PM, Anonymous Anonymous said...

مسلہ یہ نہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں ، مسلہ یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ، ہماری اپنی حواتین بھی لباس پر بے لباسی کو ترجیع دے رہیں ہیں ، ایک زمانہ تھا جب بازار میں برقعے ہی برقعے نظر آتے تھے اب خال خال ہی دکھتا ہے ، ہم دوسروں کو تب الزام دیں جب اپنا گھر ٹھیک ہو ، اس وقت آپ جتنی بھی “پڑھی لکھی “ حواتین سے پردے کا سوال کریں تو جواب ۔ ۔ کیا ملے گا آپ میں اور ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں ۔ ۔ ۔ پردہ مردوں کی عقل پر تو خیر اکبر الہ آبادی کے زمانے میں پڑا تھا ، مگر حامدہ شمع انجمن اب بنی ہے
نوٹ ؛ اکبر الہ آبادی کا یہ دو شعر ریفرنس کے لئے درج کر رہا ہوں ہو سکتا ہے کہ کوئی قاری نہ جانتا ہو

کل جو نظر آئیں بے پردہ کچھ بیبیاں مجھے
اکبر “غیرت“ قومی سے زمیں میں گڑھ گیا (اب غیرت ہی کہاں)
پوچھا کہ آپ کا پردہ جو تھا کیا ہوا
کہنے لگیں عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

----------------------
حامدہ چمکی نہ تھی جب انگلش سے بے گانہ تھی
اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی

اگر شعر میں غلطی ہو تو یاداشت کی معذرت

 
At 12/16/2006 03:37:00 PM, Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

اظہار الحق صاحب آپ نے ٹھيک لکھا ہے کہ مسئلہ تو اپنی قوم کا جن کی لُغت سے حياء کا لفظ حذف ہو گيا ہے ۔
اکبر الہ آبادی کا شعر جيسے مجھے ياد ہے کچھ اسطرح ہے
کل بے پردہ جو نظر آئيں چند بيبيں
اکبر غيرتِ قومی سے گھڑ گيا
پوچھا وہ جو پردہ تھا سو کيا ہوا
بوليں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گيا

 

Post a Comment

<< Home