Sunday, July 31, 2005

نمرود کی خدائی ؟

اللہ سبحانہ و تعالی نے جو کمپیوٹر میرے جسم میں رکھا ہوا ہے اس کا پروسیسر دنوں یا ہفتوں نہیں مہینوں سے متواتر چل رہا ہے اور بلاگنگ کرتا جا رہا ہے ۔ اتنی زیادہ پوسٹس کہ ان کو انسان کے بنائے ہوۓ کمپیوٹر کے ذریعہ کسی ویب سائٹ پر منتقل کرنے کی میں استطاعت و استداد نہیں رکھتا ۔ اس کشمکش میں اپنا دماغ مناسب حروف تصنیف کرنے سے قاصر ہو گیا اور نیند کی پری مجھ سے روٹھ گئی ۔ کسی کا کوئی شعر یا عبارت بھی نہ مل رہی تھی کہ پڑھ کر شائد کچھ سکون ملے ۔ وجہ کیا ہے ؟ سب جانتے ہیں مگر ظاہر کرنے میں پس و پیش ہے ۔ دھماکہ امریکہ میں ہو یا انگلستان یا مصر میں شامت بے سہارا پاکستانیوں کی بالخصوص اگر داڑھی والے ہوں ۔ ایسا کیوں نہ ہو جب ہم خود ہی اپنے آپ کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ یہ ہماری روشن خیالی کا ایک عمدہ نمونہ ہے ۔ کراچی میں روزانہ پچاس موبائل فون چھین لئے جائیں ۔ بیس سے چالیس تک کاریں اور موٹرسائیکل چوری کر لی جائیں یا چھین لی جائیں ۔ روزانہ بھرے بازاروں میں شہری بسوں میں سفر کرنے والے مسافروں کو پستول دکھا کر جیبیں خالی کروا لی جائیں ۔ راہ چلتے شریف آدمی کو گولی مار کے ہلاک کر دیا جائے یا کسی مسجد یا امام بارگاہ میں بم چلایا جائے ۔ اندرون سندھ یا پنجاب حتی کہ اسلام آباد میں کسی شریف زادی کی عزت لوٹ لی جائے اور اس میں پولیس والے بھی شامل ہوں ۔ کراچی لاہور اور راولپنڈی میں روزانہ گھروں میں ڈاکے پڑیں ۔ تو ہمارے شہنشاہ ہمیں گڈ گورننس کی یقین دہانی کراتے ہیں ۔ اوراق الٹ پلٹ کرتے آج کچھ شعر نظر آ گئے سو حاضر ہیں ۔ اس نظم کا عنوان ہے نمرود کی خدائی ۔ یہ قدسیوں کی زمین جہاں فلسفی نے دیکھا تھا اپنےخواب سحرگہی میں ہواۓتازہ وکشت شاداب وچشمہ جانفروزکی آرزوکاپرتو یہیں مسافر پہنچ کےاب سوچنےلگاہے وہ خواب کا بوس تو نہیں تھا ؟ وہ خواب کا بوس تو نہیں تھا ؟ اے فلسفہ گو کہاں وہ رویائے آسمانی ؟ کہاں یہ غرور کی خدائی ؟ مگر۔ ۔ یہاں تو کھنڈر دلوں کے یہ نوع انسانی کی کہکشاں سے بلندوبرترطلب کےاجڑے ہوئے مدائن شکست آہنگ حرف ومعنی کےنوحہ گرہیں میں آنےوالےدنوں کی دہشت سےکانپتاہوں میری نگاہیں یہ دیکھتی ہیں کہ حرف و معنی کے ربط کا خواب لذّت آگیں بکھر چکا ہے کہ راستے نیم ہوش مندوں سے نیند میں راہ پو گداؤں سے صوفیوں سے بھرے پڑے ہیں حیات خالی ہے آرزو سے ( ن م راشد )
شاعر نے علامہ اقبال کو مخاطب کیا ہے

Wednesday, July 27, 2005

سائنس کی کرامات اور اسلام

بات چلی سائنس کی ترقی کی اور کفر اور شرک کی حدوں کو چھونے لگی ۔ میں نے معاملہ کو سلجانے کی کوشش کی مگر (1) Success of communication depends on how it is perceived and not on how it is delivered.
(2) Perception of communication is influenced by education / training of the receiver and emotional state in which he / she is at the time of communication.
دانیال صاحب فرماتے ہیں
دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والی سائنسی ترقی نے جنگوں، بھوک، وبائی امراض جیسے ملیریا ٹائیفائڈ وغیرہ کو کنٹرول کرنے میں حیرت انگیز مدد دی ہے ۔ ۔ ۔ سائنس محبت اور امن کا نہ صرف سبق دیتی ہے بلکہ ایک نہایت اہم بات جو محترم بلاگر نظر انداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ سائنس مسیحائی کے جو کام انجام دے رہی ہے
ملیریا ٹائیفائڈ پولیو والی بات ٹھیک ہے لیکن انتھراکس اور زہریلی گیسیں وغیرہ بھی سائنسدانوں کی ایجاد ہیں جو صرف انسانوں کو ہلاک کرنے کی لئے ہیں ۔ سائنس اخلاقیات کا مضمون نہیں ہے کہ اس میں محبت اور امن کا ذکر ہو اور نہ ہی سائنس میں دل ہوتا ہے جو ترس کھائے ورنہ جتنی دوائیاں انسانوں پر تجربے کر کے بنائی جاتی ہیں اور جو اشیاء صرف انسان کی ہلاکت کے لئے بنائی گئی ہیں وہ نہ بنتیں ۔ برطانوی اور امریکی سائنسدانوں کی محبت اور امن کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے ۔ پوست کی کاشت سینکڑوں سال سے ہندوستان میں ہو رہی تھی ۔ اس سے خشخاش حاصل کی جاتی تھی جو کچھ اہم دواؤں میں استعمال ہوتی تھی اور ویسے بھی ایک مقوّی غذا تھی ۔ انگریز سائنسدانوں نے افیون تیار کی (تفصیل انشا اللہ پھر کبھی) ۔ بعد میں پوست سے مغربی دنیا کے سائنسدانوں نے امریکہ کے سیاسی پروگرام کے تحت ہیروئین تیار کی ۔ پوست کی کاشت پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے ارد گرد قبائلی علاقہ میں کی گئی اور وہاں ہیروئین بنانے کے پلانٹ بھی لگائے گئے ۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ روسی فوجیوں اور قبائلی پختونوں کے نشئی بننے سے پہلے ہیروئین یورپ اور امریکہ میں پہنچ گئی تو بوکھلا کر پابندیاں پاکستان پر لگا دی گئیں ۔ رہی مسیحائی تو یہ بیسویں یا اکیسویں صدی کا کارنامہ نہیں بلکہ انسان کی سب سے اہم ضرورت صحت ہے اس وجہ سے مسیحائی ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہے ۔ جراحی میکینائز ہونے سے کافی سودمند ہوگئی ہے مگر میرا خیال ہے کہ طب میں زمانہ قدیم کا معالج آج کے میڈیکل سپیشلسٹ سے بہتر تھا ۔ اس پر انشاء اللہ پھر کسی وقت لکھوں گا ۔ چین اور جاپان میں ابھی تک قدیم علاج رائج ہیں اسی لئے ان لوگوں کی صحت بہت اچھی اور عمریں بہت لمبی ہوتی ہیں ۔ جاپان میں عورتوں کی اوسط عمر 85 سال سے زیادہ ہے اور مردوں کی اوسط عمر 78 سال سے زائد ہے ۔ چین میں شدید آب و ہوا اور غربت ہونے کے باوجود عورتوں کی اوسط عمر 73 اور مردوں کی 70 ہے جبکہ امریکہ کی انتہائی ترقی اور تمام وسائل کے ہوتے ہوئے عورتوں کی اوسط عمر 79 اور مردوں کی 74 سال ہے ۔ اب تو امریکہ میں بھی قدیم طب تیزی سے رائج ہو رہی ہے ۔
بھوک پر سائنس نے کیسے کنٹرول کیا یہ میری سمجھ میں نہیں آیا فصلوں کی سائنسی ترقی کا میں نے مطالع کیا ہے لیکن یہ بہت لمبی بحث ہے ۔ رہی جنگ کی بات تو دوسری جنگ عظیم کے بعد اس طرح کی جنگ تو نہیں ہوئی مگر اس سے بہت زیادہ مہلک جنگیں ہوئی ہیں ۔ سائنس کی ترقی کے باعث اب لا تعداد لوگوں کو ان کےگھروں میں ہی تباہ کر دیا جاتا ہے ۔ صرف عراق اور افغانستان میں امریکہ اور برطانیہ نے جو کاروائیاں کی ہیں ان میں کی گئی بمباری دوسری جنگ عظیم کی بمباری سے سات گنا ہے اور ہلاکت و تباہی آٹھ گنا ہوچکی ہے ۔ دانیال صاحب نے صحیح لکھا ہے کہ سائنس کا بنیادی مقصد جستجواور کھوج ہے ۔ میرا کہنا یہ ہے کہ دین اس میں رکاوٹ نہیں بنتا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ میں نے اپنی تحریر میں ایک متعلقہ ویب سائٹ کا حوالہ بھی دیا تھا ۔ سائنس بھی دین کی مخالفت نہیں کرتی ۔ اب تو سائنس نے قرآن الحکیم میں تحریر شدہ بیانات کو صحیح ثابت کرنا شروع کر دیا ہے ۔ دانیال صاحب لکھتے ہیں

کئی تحقیقات سے سائنس نے ثابت کردیا ہے انسانوں کے درمیان بلا رنگ و نسل، مذہب اور ذات پات کی اونچ نیچ کے بغیر ساتھ کام کرنے سے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں

جو بات قرآن الحکیم میں درج ہے اور جس پر خطبۃ الوداع میں رسول اکرم صل علی علیہ و سلم نے زور دیا وہ ایک ہزار چار سو سال بعد سہی لیکن سائنسدانوں نے مان تو لی ۔ خطبۃ الوداع سے اقتباس ۔ تمام انسان آدم اور حوا سے ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ سوائے اس کے کہ کوئی پرہیزگاری اور اچھے عمل کی وجہ سے بہتر ہو ۔ دانیال صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ نادرا کی مثال نہ دیں ۔ نادرا نے جو گل کھلائے ہیں وہ شائد دانیال صاحب کے علم میں نہیں ۔ رہا انٹرنیٹ تو اس سے میری دوستی دس سال قبل ہوئی جب اسلام آباد میں انٹرنیٹ صرف ایس ڈی این پی کے کا تھا ۔ بیس سال پہلے یعنی 1985 میں مجبوری کے طور پر کمپیوٹر سے عشق کرنا پڑا کیونکہ مجھے ایم آئی ایس کا جنرل مینجر لگا دیا گیا اور پہلا پروجیکٹ ڈویلوپمنٹ اینڈ امپلیمنٹیشن آف کمپیوٹرائزڈ انوینٹری مینجمنٹ سسٹم دے دیا گیا ۔ انوینٹری کی لاکھوں قسمیں تھیں ۔ سات مین فریم کمپیٹروں کا نیٹ ورک تھا اور ہر مین فریم کمپیوٹر کے ساتھ پانچ سے پندرہ تک پی سی لگے تھے جو غلام بھی تھے اور خود مختار بھی ۔ ہر آپریٹر کو سروس اس کی دہلیز پر مہیا کرنا تھی اور ساتھ ہی ساتوں اداروں کے اپنے اپنے ڈاٹا کو محفوظ کرکے دوسروں کے لئے ریڈ اونلی بنانا تھا ۔ اللہ کے فضل سے یہ پراجیکٹ دو سال میں ڈاٹا انٹری سمیت مکمل ہو گیا ۔ اپنے بچوں کے کمپیوٹر کا ماہر ہو جانے کے بعد میں بہت سست ہوگیا ۔

دانیال صاحب لکھتے ہیں میرے خیال میں قرآن بھی ایک سائنسی کتاب ہی ہے صرف انداز بیان الہامی ہے ۔
میں دانیال صاحب سے متفق نہیں کیونکہ قرآن کو معاشیات ۔ معاشرت ۔ ستاروں کے علم اور نظام انصاف کے اصولوں کے علاوہ گائیناکالوجی کی بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے مگر یہ اللہ کا کلام ہے جس کو انسان تبدیل نہیں کر سکتا ۔ سائنس انسان کے تجربوں کا حاصل ہے اور اس میں تبدیلی بھی ہوتی رہتی ہے ۔ کچھ ایسی معلومات ہیں جو قرآن کو نہ ماننے والوں نے بیسویں صدی میں دریافت کیں جب کہ وہ قرآن میں موجود تھیں ۔ ہماری پسماندگی کا سبب نہ تو قرآن ہے نہ اسلام بلکہ اسکا سبب ہمارا دین سے دور ہونا اور قرآن کے ساتھ منافقانہ روّیہ ہے کیونکہ قرآن پر عمل کرنا تو کجا ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآن میں لکھا کیا ہے اور اسی وجہ سے ہم لوگ محنت کرنے کی بجائے شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں ۔ دانیال نے سو فیصد درست بات کی کہ کسی مسلمان کو اللہ اور اس کے رسول پر اپنے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لئے سائنسی دلیلوں کی ضرورت نہیں ۔
وما علینا الالبلاغ ۔

Saturday, July 23, 2005

سائینس امن کا باعث ہے یا تباہی کا ؟ تیسری اور آخری قسط

آخری قسط کا انتظار کئے بغیر دانیال صاحب نے اپنی 19 جولائی کی تحریر میں تجزیہ کر دیا اور سوال پوچھنے کے جرم میں مجھ پر جذباتی ہونے کا لیبل لگا دیا حالانکہ جذباتی وہ ہوتا ہے جو دوسرے کی پوری بات سنے بغیر اپنی بات شروع کر دے ۔ فی الحال میں اپنی تحریر مکمل کروں گا ۔ دانیال صاحب کی تحریر کا جائزہ بعد میں ۔ شعیب صاحب نے لکھا ۔
جو سائنسدانوں کا نام لکھا ہے، یہ صرف اسلامک ہسٹری تک ہی محدود ہیں دنیا کی باقی قومیں ان ناموں سے بالکل ناواقف ہے ۔ ۔ ۔ سال میں صرف ایک دن یہاں دبئی میں بارش ہوتی ہے، سائنس کی بدولت اس بار دبئی کی تاریخ میں پہلی بار ٹھہر ٹھہر کر پورا مہینہ بارش برستا رہا ـ اس کام کیلئے امارات نے امریکہ کو کروڑوں ڈالر ادا کئے ہونگے ـ یہ اسلامی ملک ہے اگر چاہتے تو دعا کرلیتے، امریکہ سے بارش خریدنے کی کیا ضرورت تھی ۔ ۔ ۔ آپ یقین کیجئے آج کا سائنسدان بہت کچھ کرسکتا ہے، اتنا کچھ کہ سوچنا بھی مشکل ہے
مغربی دنیا کے عیسائی اور یہودی جنہیں ہم لوگ کشادہ دل سمجھتے ہیں وہ انتہائی شقی القلب ہیں ۔ مگر سچائی نے قائم رہنا ہوتا ہے اس لئے مغربی دنیا ہی میں چند محقق ایسے پیدا ہوتے رہتے ہیں جو دنیا کو حقیقت سے آشنا کر دیتے ہیں ۔ جو نام میں نے لکھے یہ بیسویں صدی میں مغرب کے لوگوں نے ہی تحقیق کے بعد کتابوں میں نہ صرف شامل کئے بلکہ ان کے کارناموں کی تفصیل اور ان کے اصلی نام بھی لکھے ۔ وہیں سے پڑھ کر کچھ مسلمانوں نے ان معلومات کو انٹرنٹ کی زینت بنایا اور مختلف ویب سائٹس نے ان کو یکجا کیا ۔ ہلاکو خان نے 1258 عیسوی میں بغداد کو فتح کرنے کے بعد وہاں کی ہر چیز تباہ کر دی ۔ اور 1492 عیسوی میں یورپ کے لوگوں نے غرناطہ اور قرطبہ میں یہی عمل دہرایا ۔ کچھ کتابیں جو صاحب علم لوگوں کے ہاتھ لگیں ان کا انہوں نے ترجمہ کیا یا کروایا اور اس علم کو آگے بڑھانا شروع کیا ۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے مسلمانوں کی تحقیقات کو ترجمہ کے بعد اپنے نام لکھ لیا ۔ایک اور بات بھی ہے کہ مختلف زبانوں میں نام مختلف طریقہ سے لکھے جاتے ہیں بعض نام بدل بھی دیئے جاتے ہیں ۔ جس طرح مغرب والے حضرت عیسی علیہ السلام کو جیزز کہتے ہیں اور حضرت یحی علیہ السلام کو جوھن یا جاھن کہتے ہیں ۔ اسی طرح ممبئی کو انہوں نے بمبے ۔ اٹک کو کیمبلپور اور ساہی وال کو منٹگمری بنا دیا تھا ۔ سائنس کی مثبت سمت میں ترقی سے انسان کو کافی فوائد حاصل ہوئے ہیں لیکن ابھی تک عام انسان اس کے فوائد سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکا ۔ جبکہ منفی ترقی انسان بلکہ انسانیت کی تباہی کا باعث بنی ہے اور بن رہی ہے ۔ یہ حقیقت کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے کہ سب کچھ اللہ سبحانہ و تعالی نے مہیا کیا ہوا ہے ۔ انسان صرف کھوج لگا کر اسے دریافت کرتا ہے اور استعمال کے قابل بناتا ہے ۔ سائنس نہ خالق ہے نہ طاقت نہ ہمیشہ رہنے والی ۔ خالق صرف اللہ ہے ۔ سب طاقت بھی اسی کے پاس ہے اور وہی الحی و القیّوم ہے ۔ حسبی اللہ و لا الہ الا اللہ علیہ توکّلت و ہو رب العرش العظیم ۔ ذرائع رسل و رسائل یعنی کمیونیکیشن سسٹمز میں جس میں کمپیوٹر بھی شامل ہے سائنس کی ترقی انسانوں کی اکثریت کے لئے فائدہ مند ہوئی ہے اور جرائم کی روک تھام میں بھی اس کا کردار ہے مگر ساتھ ہی جرائم کو آسان اور تباہ کن بھی بنا دیا ہے ۔ اسلحہ تو سراسر تباہی کا باعث ہے ۔ انسان کی آسائش کے لئے ہوائی جہاز ۔ کاریں ۔ ایئر کنڈیشنر ۔ ریفریجریٹر ۔ آٹومیٹک واشنگ مشین ۔ کوکنگ رینج ۔ کچن مشینز وغیرہ نے آسائش مہیا کی ہے مگر بہت کم لوگوں کو ۔ یہ تو ان لوگوں کے استعمال کی اشیاء ہیں جن کے پاس خریدنے کی استطاعت ہو ۔ دنیا کی آبادی کے کم از کم ایک تہائی لوگوں کو پیٹ بھر کے کھانا نہیں ملتا ۔ رہنے کو اپنا مکان نہیں ۔ مزید ایک تہائی بمشکل گذر اوقات کرتے ہیں ۔ ان دو تہائی لوگوں کے لئے ابھی تک کوئی خاص کام نہیں ہوا ۔ سرطان کا علاج دریافت ہو گیا ہے لیکن دنیا کے 70 فیصد سے زائد لوگ اس علاج کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے ۔ عام آدمی کی سب سے اہم اور جان لیوا بیماری یرقان ہے جس کی نہ وجہ آج تک معلوم ہوئی نہ کو ئی جامع علاج ۔ پولیو کی ویکسین نے فائدہ پہنچایا ہے ۔ اینتھریکس بھوت بنے کھڑی ہے ۔ مالدار ملک دبئی نے مصنوئی بارش خرید لی مگر جو ملک غریب اور خشک سالی کا شکار ہیں وہ کہاں جائیں ؟ مصنوعی بارش کے لئے فضا میں مناسب بخارات کا ہونا شرط ہے جو فی الحال سائنس کے بس کی بات نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سلور نائیٹریٹ یا دوسرے نمکیات جو فضا میں بکھرے جاتے ہیں یہ صحت افزاء نہیں ۔ میرے خیال میں تو قدرتی نظام کو درہم برہم کرنا کوئی مفید بات نہیں ۔ یہ بات میں سائنس کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں دین کی بنیاد پر نہیں ۔ سنتے ہیں آجکل میڈیکل سائنس بھی بہت ترقی کر گئی ہے ۔ باپ کے بغیر یا شائد ماں کے بغیر یا شائد دونوں کے بغیر انسان پیدا کرنے کو ہيں ۔ مجھے کوئی اتنا بتائے کہ ترقی یافتہ دنیا میں کتنے معالج ڈاکٹر ہیں جن کی اپنی صحت سو فیصد ٹھیک ہے ؟ ایک امیر آدمی کو آرام دہ گھر کے آرام دہ کمرے میں آرام دہ بستر پر اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے مشورہ کر کے اچھی سے اچھی دوائی کھانے کے باوجود نیند نہیں آتی ۔ سائنس اس امیر مگر بدقسمت انسان کو نیند مہیا کرنے سے قاصر ہے ۔ گرمی ہو یا سردی غریب آدمی زمین پر بھی اس طرح سو جاتا ہے کہ قریب ڈھول بج رہے ہوں تو اسے خبر نہیں ہوتی ۔ یہ نیند اور سکون اللہ عطا کرتا ہے ۔ رہی اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا کرنے کی بات تو اس کی ہجو کو میں گناہ سمجھتا ہوں ۔ میرا یقین ہے کہ انسان خلوص نیّت سے دعا مانگے تو قبول ہوتی ہے ۔ بات صرف اتنی ہے کہ کبھی ہمیں منظور ہوئی نظر آ جاتی ہے اور کبھی نہیں ۔اللہ کا منکر شخص بھی جب مشکل میں ہو یا کسی وجہ سے مایوس ہو تو پکار اٹھتا ہے ۔ یا اللہ ۔ یا رب ۔ اے بھگوان ۔ او گاڈ ۔ ان میں وہ سائنسدان بھی ہوتے ہیں جو بقول شعیب صاحب کے اللہ کی بھی پروہ نہیں کرتے ۔ میرا نظریہ تو یہ ہے کہ سائنس کی تعلیم انسان کو اللہ کا قائل کرتی ہے اللہ سے دور نہیں ۔ بلکہ دین کے کئی پہلو ماضی قریب میں سائنس کی مدد سے بھی ثابت کئے جا چکے ہیں ۔

Tuesday, July 19, 2005

سائینس امن کا باعث ہے یا تباہی کا ؟ دوسری قسط

دین کو نفرت کا بیج کہنے اور سائنس کو ترقّی کی معراج اور امن و صلح کا راستہ کہنے سے پہلے اگر دین نہیں تو کم از کم سائنس کی تاریخ کو پڑھ لینا چاہیئے۔ دین شروع سے آج تک صرف ایک ہے اور اس کا نام اسلام ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ الہ و آلہ و سلم تک سب کا دین اسلام ہے ۔ فساد کی وجہ دولت کا لالچ اور خودغرضی ہے دین اسلام نہیں۔ اسلام اخوّت اور بے لوث خدمت کا سبق دیتا ہے ۔ قرآن شریف نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے ۔ آجکل کی تورات اور انجیل تحریف شدہ ہونے کے باوجود بھی نفرت کی بجائے محبت اور ظلم کی بجائے خدمت کا سبق دیتی ہیں ۔ نہ تورات ایریئل شیرون کے کردار کی عکاسی کرتی ہے نہ انجیل جارج واکر بش کے کردار کی اور نہ قرآن پرویزمشرّف کے کردار کی ۔ نہ ہی اسلام کے ساتھ روشن و معتدل لکھنے کی ضرورت ہے ۔ اور نہ اسلام بریلوی ہے نہ وہابی نہ دیوبندی نہ شیعہ نہ احمدیہ نہ اسماعیلی نہ بوہری نہ آغاخانی ۔ نہ کچھ اور ۔ اسلام صرف اسلام ہے ۔ اسلام وہ ہے جو قرآن الحکیم اور حدیث میں موجود ہے اور جس کی حفاظت اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے ۔اگر کوئی دین میں تحریف کرتا ہے یا اس پر عمل نہیں کرتا تو اس میں دین کا کیا قصور ہے؟ ایک ہی کار کو دس آدمی چلائیں تو شائد دس کا چلانے کا طریقہ مختلف ہوگا لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ کار میں نقص ہے ۔ اگر کار غلط چلا کر کوئی ٹکر مار دے تو کیا کاریں بنانے والے سب کارخانے بند کر دینے چاہئیں ؟ اب آتے ہیں سائنس کی طرف ۔ نہ سائنس دین کے خلاف ہے اور نہ دین سائنس کے خلاف ۔ دین اللہ سبحانہ و تعالی نے مقرر کیا اور سائینس کی بنیاد بھی ۔ اس سلسلہ میں کئی آیات میں ابھی لکھ سکتا ہوں مگر مضمون لمبا ہو جائے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے آدمی کو ذہن عطا کیا کہ سائینس کو استعمال کر کے اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائے ۔ مسئلہ صرف استعمال کا ہے۔ انسان اپنے ہاتھوں سے کسی کمزور کو سہارا بھی دے سکتا ہے اور اس کا بلا وجہ گلا بھی گھونٹ سکتا ہے ۔ چھری سے اپنے عزیزوں یا دوستوں یا غرباء کو کھانا کھلانے کے لئے سبزی اور پھل بھی کاٹا جا سکتا ہے اور کسی بے قصور کا گلا بھی۔ نائٹروگلسرین ایک غضبناک ہائی ایکسپلوسیو ہے مگر دل کا دورہ پڑنے پر اگر اس کی تھوڑی سی مقدار مریض کی زبان کے نیچے رکھ دی جائے تو وہ اللہ کے فضل سے صحتیاب ہو جاتا ہے۔ اگر سائنس کی اعلی ترقی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ ہیروشیما اور ناگا سکی پر ایٹم بم گرائے یا نائٹروگلسرین اور دیگر سائنسی ایجادات کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان اور عراق میں ڈیزی کٹر اور دوسرے مہلک ہتھیاروں کا استعمال کر کے قتل عام کرے تو اس میں دین کا قصور ہے یا سائنس کا یا استعمال کرنے والوں کا ؟ ہم بھول جاتے ہیں کہ سائنس نے انسان کو جتنی آسائش پہنچائی ہے اس سے کہیں بڑھ کر سائنس انسان کی تباہی کا باعث بنی ہے۔ مانا کہ ایک دمدار تارے کو ہٹ کر کے امریکیوں نے سائنس کی ایک پھلجڑی چلا دی مگر اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود کہ امریکہ پہاڑ کی کھو میں حرکت کرتی اور سمندر کی تہہ میں پڑی چیز کو دیکھ سکتا ہے اور چونتیس ہزار فٹ کی بلندی سے ٹیبل ٹینس کی گیند کو نشانہ بنا سکتا ہے ۔نہ تو اس زلزلے کا کچھ کر سکا جس کے اثرات کو سونامی کہا گیا اور نہ آج تک چلتے پھرتے ملّا عمر کو تلاش کر سکا ۔ امریکی ماہروں نے اوسامہ بن لادن کی ایک وڈیو سے کمپیوٹر کی مدد سے اپنی خواہش کے مطابق امریکیوں کو ہراساں کرنے کے لئے کئی وڈیو بنا کر وقفے وقفے سے الجزیرہ سے ٹیلی کاسٹ تو کروا دیں مگر امریکہ آج تک بتا نہیں سکا کہ اوسامہ اگر زندہ ہے تو کہاں ہے ۔ کونسی سائنس کی کتاب یا کلیہ ہے جس میں انسان کو محبت اور امن کا سبق دیا گیا ہے ؟ یہ سب تو صرف دین سیکھاتا ہے ۔ انسانوں سے محبت کا دعویدار امریکہ طاقت کے نشہ اور دولت کے لالچ میں پچھلے ساڑھے چودہ سالوں میں عراق اور افغانستان میں لاکھوں بےگناہ انسانوں کا خون بہا چکا ہے اور مزید بہا رہا ہے ۔ اسرائیل فلسطینیوں کا قتل اور ان پر ظلم امن پسند امریکہ کی امداد اور شہ پر کر رہا ہے ۔ وہ امریکہ کے انسان دوست سائنسدان کیا ہیروئین کھا کر سوئے ہوئے ہیں ؟ میں نے اسلحہ کی ایجاد اور ارتقاء پر بیس سال ریسرچ کرنے کے بعد جب 1985 میں کتابچہ لکھا تو اس کا پیش لفظ تھا۔ With the skill bestowed on him by Allah, Soob-hanohoo Wa Ta’ala, the species known as Ashraf-ul-Makhlooqat, changed his weapons from stone to metal and then making use of explosives to explode and project items, he progressed to reach the present age of nuclear weapons and missiles. Thus, starting with preparing for defence, ended with destruction of man-kind. یہاں کلک کرکے مندرجہ ذیل مضمون میں سائنسی معلومات اور قرآن کا موازنہ پڑھئے
The Relationship Between the Qur'an and Modern Science

Sunday, July 17, 2005

حسبہ کا قانون . Hasba Act

حسبہ کے قانون کے متعلق کئی دنوں سے ملک میں بہت شور شرابا ہے ۔ اسلام آباد میں تو یوں لگتا ہے کہ زلزلہ آ گیا ہے یا جنگ چھڑ گئی ہے ۔ اس کے خلاف صرف حکومت ہی نہیں بہت سی سیاسی پارٹیاں بھی حرکت میں آ گئی ہیں ۔ اس قانون کو انسان دشمن اور دین اسلام کے بھی خلاف کہا گیا ہے ۔ حسبہ کا قانون اچھا ہے یا برا اس کا فیصلہ اگر ہر شخص اپنی عقل کے مطابق حسبہ قانون کا متن اچھی طرح پڑھنے کے بعد کرے تو بہت اچھی بات ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ رواج نہیں ۔ قطع نظر اس کے کہ حسبلہ بل کیا ہے میری سمجھ میں جو بات نہیں آئی وہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اور سندھ کی اسمبلیاں اپنی سادہ اکثریت اور ہیرا پھیری کے زور پر جو قانون چاہتے ہیں منظور کر لیتے ہیں جن میں سے ایک بندوق کے زور پر منتخب حکومت کو ختم کرنے والا وردی میں ملبوس صدر بھی ہے ۔ اب اگر سرحد کی اسمبلی نے دوتہائی اکثریت سے ایک قانون منظور کیا ہے تو حکومت کے اور حکومت کے حواریوں کے پیٹ میں اتنے زور دار بل کیوں پڑ رہے ہیں ؟ حسبہ قانون کا پورا متن پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے ۔ موٹی موٹی باتیں مندرجہ ذیل ہیں ۔ Preamble: Whereas sovereignty over the entire universe belongs to Almighty Allah alone and the authority to be exercised by the people of Pakistan through their chosen representatives within the limits prescribed by him is a sacred trust;And whereas implementation of Islamic way of life revolves around Amer-Bil-Maroof and Nahi-Anil-Munkir and to achieve this objective it is necessary, apart from other steps, to establish an institution of accountability, which could keep a watch on securing legitimate rights of various classes of the society, including females, minorities and children and to protect them from emerging evils and injustices in the society;And whereas it is further necessary from the accountability point of view to extend the authority of Mohtasib to government’s administration and offices in order to have a check upon injustices, abuse of powers and other similar excesses;(b) “Amer-Bil-Maroof” means fulfilling the obligations of enjoining the good as laid down in Holy Quran and the Sunnah;(c) Competent Court: Competent court means court established under CPC 198.(d) “Expert Lawyer” means a lawyer having at least ten years experience in the profession of advocacy;(i) “maladministration” includes all such decisions, processes, recommendations, acts and deficiencies which-(j) is contrary to law, rules or regulations or is a departure from established practice or procedure, unless it is bonafide and for valid reasons; or(k) is perverse, arbitrary, unreasonable, unjust, biased, oppressive or discriminatory; or(l) is based on irrelevant grounds; or(m) involves the exercise of powers or the failure or refusal to do so, for corrupt or improper motives, such as bribery, jobbery, favouritism, nepotism and administrative excesses; or(o) amounts to negligence, inattention, delay, incompetence, inefficiency and inaptitude in the administration or discharge of duties and responsibilities;(q) “Nahi-Anil-Mukir” means fulfilling the obligations of forbidding the evil as required by the Holy Quran and Sunnah and all other matters which the mohtasib, in the light of the Holy Quran and Sunnah, determines in consultation with the Council of Advisors;3. Appointment of Mohtasib.—(1) There shall be a Mohtasib for the North-West Frontier Province, who shall be appointed by the Governor of the North-West Frontier Province in consultation with the chief minister of the province. (2) A mohtasib shall be a person who is a qualified religious scholar and is eligible to be appointed as judge of the Federal Shariat Court. (3) A Mohtasib may be removed from office on the ground of misconduct or of being incapable of properly performing the duties of his office by reason of physical or mental incapacity and in this context will be served with a notice in advance. If in the opinion of the Mohtasib the reasons of his removal are not based on facts, he shall be entitled to challenge the bona fide of the notice before the Peshawar High Court, which shall be heard by a Division Bench of the said Court; provided that if no hearing date is fixed for ninety days from the date of approaching the Court, then it shall be deemed that the notice of removal has become effective.10. Power and duties of Mohtasib—-The Mohtasib shall, on a written or oral complaint of any person, or on reference from the High Court, the Supreme Court or the Provincial Assembly, or suo moto, shall have the authority to- (a) Enquiries into the allegations of maladministration against any agency or its employees; (b) Protect/watch the Islamic values and etiquettes; (c) Watch the media established by Government or working under the administrative control of Government to ensure that its publications are useful to the purpose of upholding Islamic values; (d) Forbid persons, agencies and authorities working under the administrative control of government to act against Shariah and to guide them to good governance; (e) Formulate such directives and principles which may help in making the conduct of authorities working under this section to be effective and purposeful; and (f) Extend to the provincial administration in discharging its functions smoothly and effectively; provided that the Mohtasib shall not interfere in any matter which is sub-judice before a court of competent jurisdiction or which relates to external affairs of Pakistan or the relations or dealings of Pakistan with any foreign state or Government or relates to or is connected with the defence of Pakistan or any part thereof, the Military, Naval and Air Forces of Pakistan or the matters covered by laws relating to these forces.11: Procedure and evidence—-(1) A complaint shall be made in writing or orally by the person aggrieved or, in case of his death, by his legal heirs, to the Mohtasib, which may be delivered personally to the Mohtasib himself or his concerned member of staff or by post, Email or Fax, etc.(2) Where the Mohtasib proposes to conduct an investigation, he shall issue to the principal or subordinate office of the Agency concerned a notice calling upon it to make reply to the allegations made. If no reply is received within a reasonable time from the concerned Agency or the officer under its control competent to give reply, the Mohtasib shall initiate investigation proceedings, which will be informal, but in special circumstances, the Mohtasib may adopt such procedure as he considers appropriate for such investigation. The Mohtasib shall, in accordance with the rules made under this Act, pay expenses and allowances to the affected parties or the witnesses produced by them. The Mohtasib shall be empowered to check or cause to be checked through his employees the official records of the concerned Agency; provided that such documents do not pertain to state secret documents. Where the Mohtasib, with respect to any complaint, does not consider it appropriate to take any action, he shall inform the complainant. The Mohtasib shall regulate the procedure for the conduct of business under, or the exercise of powers coffered by, this Act.12. Implementation of orders, etc—-(1) On completion of the action in relation to a complaint, the Mohtasib shall have the power to issue directive to the competent officer of the Department concerned for its implementation and may, at the same time, take up such steps as considers expedient. The concerned Agency within the time limit mentioned in the directive, inform the Mohtasib about the action taken in that behalf, failing which the concerned Agency or competent officer will render itself or himself, as the case may be, to the following actions:(a) One or more actions under the North-West Frontier Province Removal from Service (Special Powers) Act, 2000.(b) In case of non-cooperation with the Mohtasib or his staff during investigation, action for interference in smooth functioning of Government.(3) Where the Mohtasib is satisfied in respect of a complaint under consideration that any functionary of Government has committed a cognizable offence or a civil suit can be instituted against him, he shall direct the concerned Agency to initiate action as aforesaid in accordance with law.(2) The aggrieved against any order of the Mohtasib under section (1) may, within 30 days of such order, appeal in the High Court which shall be heard by a Division Bench of the said court.15. Provincial Advisory Council.— The Provincial Mohtasib, under his chairmanship, shall establish a Provincial Advisory Council, consisting of –(a) two Ulema of repute;(b) two senior advocates from Bar;(c) two representatives of Government in PBS-20.(1) The Provincial Mohtasib may, for a district or for more than one district, appoint a District Mohtasib.(1) A District Mohtasib, with the permission of the Provincial Mohtasib, may appoint as many Tehsil Mohtasib as the need may be.23. Special Powers of Mohtasib.—Without prejudice to the powers conferred by section 10, the Mohtasib shall have the following powers:(i) To monitor adherence of moral values of Islam at public places;(ii) To discourage exhibition of extravagance, particularly at the time of marriages and other family functions;(iii) To follow code of Islam in giving dowry;(iv) To discourage beggary;(v) To monitor adherence of Islamic values and its respect and regard at the times of iftar and traveh;(vi) To discourage entertainment shows and business transaction at the time of Eids and Friday prayers around mosques where such prayers are being held;(vii) To remove causes of dereliction in performance and proper arrangement of Eid and Friday prayers;(viii) To discourage employment of under-age children;(ix) To remove unnecessary delay in discharge of civil liability which is not disputed between the parties;(x) To prevent cruelty to animals;(xi) To remove causes of negligence in maintenance of mosques;(xii) To observe decorum of Islam at the time of Azan and Fardh prayers;(xiii) To prevent misuse of loud-speakers and sectarian speeches;(xiv) To discourage un-Islamic and inhuman customs;(xv) To check the tendency of indecent behaviour at public places including harassment of women;(xvi) To eradicate the deal as profession in Taweez, palmistry, magic, etc;(xvii) To protect the rights of minorities, particularly to regard the sanctity of their religious places and sites where they perform their religious ceremonies;(xviii) To eliminate un-Islamic traditions, which affect the rights of women, particularly taking measures against their murders in the name of Honour, to remove the tendency of depriving them of their right of inheritance, to eliminate the tradition of Cirri, and to protect their rights guaranteed by Sharia and law;(xix) To monitor weight and measures and eliminate adulteration;(xx) To eliminate artificial price hike;(xxi) To protect government properties;(xxii) To eliminate bribery from government offices;(xxiii) To incite feeling of service to people at large amongst government functionaries;(xxiv) To advise those who are found to be disobedient to their parents;(xxv) To perform any other functions which the Provincial Mohtasib determines from time to time in consultation with the Advisory Council;(xxvi) To mediates amongst parties and tribes in matters pertaining to murders, attempts to murder and similar other crimes threatening to law and order situation.25. Restriction.–-(1) No court or authority shall be competent to question the legal status of the proceedings before a Mohtasib.(2) No court or authority shall have the power to pass any injunction or any interim or a stay order with regard to any matter under consideration of the Mohtasib.(3) No suit or legal proceeding shall lie against the Mohtasib or his staff for anything in good faith done or intended to be done.27. Conciliation Committee.—(1) The Provincial Mohtasib in consultation with the District Advisory Council, shall establish a conciliation committee, at police station level, that consists of(i) Two religious scholars of repute,(ii) A local lawyer,(iii) A minority representative from the area,(iv) A respectable local resident, and(v) Station House Officer or his nominee28. Offences to be Non-Cognizable.— Defiance of the order of the concerned Mohtasib in the performance of his duties under section 23 of this Act shall be non-cognizable offence punishable with imprisonment for a term of six month and a fine up to 2000 rupees.30. Over-riding effect.—The provisions of this Act, to the extent provided hereunder, shall have over-riding effect vis-a-vis any other law for the time being in force.31. Removal of Difficulties.—Government may, by notification in the official Gazette, remove any difficulty or hindrance in connection with the implementation of the Act.

Friday, July 15, 2005

سائینس امن کا باعث ہے یا تباہی کا ؟

مذہب کی حفاظت کیلئے ایک دوسرے سے نفرت کا درس ملتا ہے ـ آج دنیا میں ہو رہی جنگیں، فسادات اور خون خرابوں کا 50 فیصد ذمہ دار مذہب ہے ـ مذہب کے لغوی معنی جو بھی ہوں، میرے نزدیک مذہب کا مطلب نفرت کا بیج ہے ـ اس ترقی یافتہ دور میں سائنس کے طفیل بہت ساری چیزیں وجود میں آرہی ہیں جسے دنیا کی ہر قوم اپنالیتی ہے مگر یہ جاننا ضروری نہیں سمجھتے کہ یہ کس مذہب پسند کی ایجاد ہے

ایک طرف سائنس دوسری طرف مذہب اور ایسے بھی انسان پرسکون ہیں جنہیں کسی پر اعتبار نہیں، خدا اور مذہب انکی نظر میں فضول ہے (اعوذ باللہ من ذالک ۔ اجمل) ـ ۔ ۔ ایسے انسان تمام فرقہ وارانہ نفرتوں سے آزاد، گہری سوچ اور عمدہ خیالات کے حامل ہوتے ہیں ـ ۔ ۔ انکی سوچ مذہب پسندوں سے مختلف ہے ۔ ۔ ـ ایسی ذہنیت کے حامل اکثر اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ مذہبی لوگ قیامت کا صرف انتظار ہی کرتے رہیں گے لیکن مجھے یقین ہے قیامت کا وقت سائنس کے قبضے میں ہے (اعوذ باللہ من ذالک ۔ اجمل) ۔ ۔ ۔ یہ سب سائنس کا کمال، جب چاہے کسی بھی ملک کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں ـ یہ اعلی ذہنیت کے انسان، انکے نزدیک دنیا بھر کے مذہبوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں بلکہ آپسی بھائی چارہ اور انسانی ہمدردی کو مذہب قرار دیتے ہیں، ان کا ضمیر امن پسند ہوتا ہے

شعیب صاحب نے مجھے تاریخ کے وہ اوراق یاد کرا دیئے ہیں جن میں لکھا ہے انسان نے ستارے کو دیکھا تو اسے اپنا خدا سمجھ لیا ۔ پھر اس نے چاند دیکھا اور کہا میرا رب ستارہ نہیں یہ ہے ۔ دن چڑھا تو سورج کو دیکھ کہ کہنے لگا میرا خدا سورج ہونا چاہیئے ۔پھر ایک دن آسمانی بجلی چمکی تو کہنے لگا ہو نہ ہو یہی میرا رب ہے ۔
آج کل سائنس کی چکا چوند سے ہماری نظریں اس لئے خیرا ہو رہی ہیں کہ ہمارے دل سے پیدا کرنے والے کا یقین اٹھ گیا ہے ۔ اول تو تاریخ کی کتابیں لکھنے والے اپنی مرضی کے مطابق لکھتے ہیں لیکن جو وہ لکھ گئے اس پر تحقیق کرنا تو کجا ہم اسے کھلے ذہن سے پڑھنا بھی گوارہ نہیں کرتے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ کئی قومیں ترقی کے عروج پر پہنچ کر ہم چناں دیگرے نیست مطلب جو ہم ہیں وہ کوئی دوسرا نہیں سمجھنے لگیں پھر ایسی مٹیں کہ نام بھی باقی نہ رہا ۔ کیا انسانوں کو بھاری تعداد میں موت کی نیند سلانے کے لئے نیوکلیر بم ۔ ڈیزی کٹر ۔ اینتھریکس اور دیگر زہریلے مواد بنانے والے انسانوں سے محبت کرتے ہیں ؟ کیا یہ چیزیں استعمال کرنے کا حکم دین یا دین داروں نے دیا تھا ؟ سائنس میں صرف بے دین لوگوں نے نہیں ۔ اللہ کو ماننے والے اور دین اسلام پر عمل کرنے والوں نے بھی نام پیدا کیا ہے ۔ نیوٹن نے کہا تھا انگوٹھے کی ایک پور کا مشاہدہ ہی یہ باور کرنے کے لئے کافی ہے کہ خدا ہے ۔ مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ دین دار ہی سائنس کے پائنیرز ہیں ۔ لیکن دین داروں نے انسان کی تباہی کے لئے نہیں انسان کی صحت اور سہولت کے لئے ایجادات کیں ۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ عیسائیوں میں علوم نےگرجوں میں پرورش پائی اور پرانے زمانہ کے موجد بنیادی طور پر پادری تھے ۔ مسلمانوں میں بھی تمام سائینسی علوم نے مساجد ہی میں پرورش پائی ۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو عبادت گاہوں کو نفرت کا منبہ قرار دیتے ہیں ۔ الجبرا اور لوگرتھم جن سے میتھیمیٹکس اور سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا ہو گیا وہ ایک اللہ کو ماننے والے مسلمان ابو عبداللہ محمد ابن موسی الخوارزمی کی ایجاد ہیں . آج کی میڈیکل سائنس کا جد امجد ابو علی الحسین ابن عبداللہ ابن سینا کیا بے دین تھا ؟ اور ابو القاسم الزہراوی بابائے جراحی یعنی فادر آف سرجری کیا دین دار نہیں تھا ؟
مندرجہ ذیل انسانیت کے خدمت گار بھی دین دار ہی تھے اور بھی بہت سے ہوں گے ۔ صرف تحقیق کرنے کی ضرورت ہے ۔
باقی انشاءاللہ آئیندہ

Monday, July 11, 2005

اور اس کی کایا پلٹ گئی

سب نام فرضی ہیں ۔ آج سے پنتالیس چھیالیس برس پہلے کا واقعہ ہے جب میں انجنئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا۔ ولید ایک لاپرواہ لڑکا تھا۔ سلام کرنا یا شکریہ ادا کرنا اس کا شیوا نہیں تھا ۔ کسی سے کوئی چیز لیتا تو واپس لینے کے لئے اس کے پیچھے پھرنا پڑتا۔ اتنا لاپرواہ کہ بعض اوقات کتاب اس وقت واپس کرتا جب پھٹ جاتی۔ پھر اچانک اس میں تبدیلی آئی جس نے سب کو شش و پنج میں ڈال دیا۔ جب ملتا تو حلیم طبع میں سلام کرتا۔ وہ چیز عاجزی سے مانگتا اور ملنے پر شکریہ ادا کرتا۔ جلدی خود آ کر شکریہ کے ساتھ واپس کرتا۔ وقت گزرتا گیا مگر عقدہ نہ کھلا۔ آخر ایک دن ولید کے کچھ دوستوں نے تبدیلی کی وجہ پوچھ ہی لی ۔ ولید کہنے لگا والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے باعث خاندان کے سب افراد میری ہر خواہش پوری کرتے تھے جس سے میں حیوان بن گیا تھا۔ مجھے جمیل نے انسان بنا دیا۔ جن دنوں اچھی ڈرائینگ شیٹس نہیں مل رہی تھیں مجھے معلوم ہوا کہ سینئر جماعت کے جمیل کو ایک دوکان کا پتہ ہے جہاں سے شیٹس مل سکتی ہیں۔ میں جمیل پاس گیا تو میرے ساتھ جانے کو تیار ہو گیا اور کہا میرا سائیکل کوئی لے گیا ہے اس لئے کل چلیں گے۔ میں نے واپس آ کر ایک دوست کا سائیکل لیا اور پھر جمیل کے پاس گیا تو وہ بیٹھا پڑھ رہا تھا مگر میرے ساتھ چل پڑا ۔
سائیکل پر چڑھتے ہی اتر کر کہنے لگا کہ اس کے پہیئے میں ہوا بہت کم ہے اس لئے سائیکل خراب ہو جائے گا۔ میں نے کہا سائیکل میرے دوست کا ہے تم کیوں فکر کرتے ہو ؟ چلو میرا نیا سائکل تم لے لو اور دوسرا میں چلاتا ہوں مگر جمیل نہ مانا اور کہنے لگا دوسروں کی چیز کی اپنی چیز سے زیادہ دیکھ بھال کرنا چاہیئے۔ خیر ایک کلومیٹر پیدل چل کر سائیکل مرمت کی دکان آئی ہوا بھروائی اور روانہ ہوئے۔ میں سارا راستہ کڑہتا اور دل میں جمیل کو کوستا رہا کہ خواہ مخوا ایک کلومیٹر پیدل چلا دیا۔ واپس آئے اور میں اپنے کمرہ میں آ گیا۔
جمیل کا رویہ بالخصوص اس کے الفاظ " دوسروں کی چیز کی اپنی چیز سے زیادہ دیکھ بھال کرنا چاہیئے"۔ میرے دماغ پر سوار ہو گئے"۔ میں سوچ میں پڑھ گیا اور کچھ دن بعد احساس ہوا کہ جمیل انسان ہے اور میں جانور ۔ سو میں جمیل کا پیروکار بن گیا تا کہ میں بھی انسان بن جاؤں۔

Thursday, July 07, 2005

استقلال کامیابی کی چابی ہے

آج آپ بھلائی کریں ہو سکتا ہے وہ کل کلاں بھلا دی جائے پھر بھی بھلائی کرتے رہیئے * آپ کے بھلائی کرنے پر ہو سکتا ہے لوگ الزام لگائیں کہ اس کا محرّک خودغرضی اور پوشیدہ عزائم ہیں پھر بھی بھلائی کرتے جائیے * دیانت داری آپ کو مخدوش کر سکتی ہے پھر بھی آپ دیانت دار ہی رہیئے * آپ نے جو سالوں میں بنایا وہ لمحوں میں تباہ کیا جا سکتا ہے
پھر بھی آپ بناتے جائیے

Sunday, July 03, 2005

ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ چھٹی اور آخری قسط

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے 23-05-2005 11-06-2005 14-06-2005 20-06-2005 23-06-2005 26-06-2005
انصاف کا اسلامی نظام انصاف کے اسلامی نظام اور مغربی جسٹس سسٹم (جو کہ پاکستان میں بھی رائج ہے) میں ایک بہت اہم فرق ہے وہ یہ کہ انصاف کے اسلامی نظام میں انصاف مہیا کرنا قاضی یعنی جج کا فرض ہوتا ہہے اور ماہر شریعت و شریعی قانون انصاف کرنے میں جج کی مدد کرتے ہیں ۔ جبکہ ہمارے ہاں جو مغربی سسٹم رائج ہے اس میں سچ جھوٹ ثابت کرنا مدعی اور مدعا علیہ کے وکلاء کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جن کیسوں میں پولیس کا عمل دخل ہو ان میں پولیس بھی کرتب دکھاتی ہے ۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے مذہبی عالموں کو اگر حاکم وقت چیف جسٹس کا عہدہ پیش کرے اور عالم کے خیال میں وہ حاکم منصف نہ ہو تو وہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیتے تھے خواہ انکار پر سزا بھگتنا پڑے ۔ امام ابو حنیفہ کو چیف جسٹس ببنے سے انکار پر حاکم وقت (عبّاسی خلیفہ منصور) نے قید سخت کی سزا دی ۔ چار پانچ سال بعد امام صاحب قید ہی میں وفات پا گئے ۔ ہمارا کردار اور مصائب کا حل ذرا اپنے کردار پر بھی نظر ڈالتے ہیں ۔ ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہمیں قانون شکنی میں مزہ آنے لگا ہے ۔ چوراہے میں بتی سرخ ہو گئی ہے مگر ہم متواتر ہارن بجاتے ہوئے نکل جاتے ہیں ۔ سڑک پر اگر داہنی طرف جگہ نہ ہو تو ہم گاڑی بائیں طرف سے نکال کر لے جاتے ہیں ۔ جہاں حد رفتار 80 کلومیٹر فی گھینٹہ ہو وہاں 120 کلو میٹر یا زیادہ تیز گاڑی چلانے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں ۔ انتہائی تیزی سے گاڑی آگے نکال کر دوسری گاڑیوں کے آگے بریک لگانے میں ہمیں لطف آتا ہے ۔ یہ سب اسلام آباد کی روئداد ہے جہاں بڑے پڑھے لکھے اور بڑے بڑے آفیسر رہتے ہیں ۔ تہذیب کا عمدہ نمونہ دیکھنا ہو تو یوم آزادی کو مغرب کے بعد خیابان قائد اعظم بلیو ایریا چلے جائیے اور دیکھئے کہ کوئی خاتون یا شریف آدمی بڑے گھرانوں کے نوجوانوں کی کان پھاڑنے والی موسیقی کے علاوہ ان کے غلیظ جملوں اور پٹاخوں سے محفوظ نہیں ۔ اس کاروبار میں لڑکیاں بھی پیچھے نہیں رہتیں ۔
اگر کسی جگہ قطار لگی ہو تو کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح آگے پہنچ جائیں ۔ دوسروں کا حق مارنا تو ہمارا پیدائشی حق ہے ۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد احساس جرم کی بجائے ہمارے سینے فخر سے پھول جاتے ہیں ۔ بااصول لوگوں کو ہم نہ صرف بیوقوف گردانتے ہیں بلکہ اگر کوئی ہمیں سمجھانے کی کوشش کرے تو اسے گالی گلوچ کے علاوہ دو گھونسے رسید کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ اب ملاحظہ ہوں سینکڑوں میں سے صرف دو خط ۔ News Post Thursday June 16, 2005-- Jamadi Al Awwal 08, 1426 A.H. Road brats Driving in any large city in Pakistan one cannot help notice the proliferation of "road brats": kids in their teens who have been given a long leash by their parents. These teens -- in p-caps, tee-shirts and oversized jeans, and playing loud music, and in general doing everything to look "hip" -- drive around in "Dad's multimillion-rupees automobile." The result, rash driving, distraction for other motorists and fatal accidents. Just like the fifteen year old who was trying to take a photo from his mobile phone of the car's speedometer while doing 140 km/hour on a residential highway. The car went out of control and hit a tree and he died. I appeal to the parents of such teen drivers to induce some discipline in their kids. Shehzad Ahmed Mir Islamabad Unless we change course A country where the Constitution is treated as waste paper, where the law of necessity (read law of the jungle) enjoys precedence over the rule of law, where personalities are placed above principles, where justice is hostage to the power of the gun, where politicians are bought and sold like a bunch of bananas, where the opposition to the government is dubbed anti-state activity, where electoral results are known long before polling day, where Parliament is a rubberstamp and where hypocrisy rules -- such a country cannot survive indefinitely. The only way to avert the impending disaster is grand national reconciliation to heal the wounds of the nation and give the nation a fresh start. If General Musharraf cannot unite the nation behind him, he should make way for those who know the job. If the ship of state continues to sail on its present suicidal course it is going to sink. B. A. Malik Islamabad یہاں کلک کر کے ایک اور رپورٹ ملاحظہ کریں ۔ ہم ظلم ہوتا دیکھیں تو بجائے روکنے کے وہاں سے کھسک جاتے ہیں یا بڑے شوق سے نظارہ کرتے ہیں ۔ البتہ سٹیج پر چڑھ کر ظلم کے خلاف لمبی تقریریں کرتے ہیں ۔ اب تک اس موضوع پر جو کچھ میں لکھ چکا ہوں اس کا ہرگز یہ مدعا نہیں کہ ہمارے ملک میں سب لوگ خراب ہیں ۔ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے ۔ میرے اندازہ کے مطابق ایک تہائی لوگ ٹھیک ہیں مگر ان میں کچھ جاگ رہے ہیں باقیوں کو جگانے کی ضرورت ہے ۔ دوسری تہائی اچھائی کی حوصلہ افزائی سے ٹھیک ہو سکتے ہیں اور تیسری تہائی کو ٹھیک کرنا ہو گا ۔ جب پہلی تہائی پوری جاگ اٹھے گی اور دوسری تہائی کی حوصلہ افزائی کرے گی تو یہ دو تہائیاں مل کر تیسری تہائی کو ٹھیک کر سکتی ہیں ۔ اللہ سے محبت رکھنے یا جن کے دل انسانیت سے لبریز ہیں ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتے ۔ ایک واقعہ سنیئے ۔ سیالکوٹ کے محلہ سلہریاں میں دو جوانوں میں تکرار ہوئی بات یہاں تک پہنچی کہ ایک جوان خنجر لے کر آ گیا ۔ محلے کے لوگ (مردوں سمیت) جو کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے خنجر دیکھ کر گھروں میں گھس گئے ۔ ایک خاتون نے شور سن کر کھڑکی سے جھانکا تو اسے خجر لے کر آتا ہوا جوان نظر آیا ۔ وہ بھاگ کر گلی میں پہنچی ۔ اتنی دیر میں وہ جوان بھرپور وار کرنے کے لئے اپنا خنجر والا ہاتھ بلند کر چکا تھا ۔اس جری خاتون نے دونوں جوانوں کے درمیان پہنچ کر خنجر والے ہاتھ کی کلائی پکڑ کر ایسا جھٹکا دیا کہ خنجر ہاتھ سے نکل کر دور جا گرا اور جوان بھی اس غیر متوقع حملے سے دہل گیا ۔ خاتون کی اس بہادری کو دیکھ کر محلہ والوں کو حوصلہ ہوا اور انہوں نے دروازوں کے پیچھے سے نکل کر دونوں جوانوں کو قابو کر لیا ۔ وہ صرف اللہ سے ڈرنے والی خاتون اب اپنے اللہ کے پاس جا چکی ہے ۔ میرے ساتھ آپ بھی دعا کیجئے کہ اللہ اس نیک خاتون کو جنّت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے آمین ۔ ہمارے کردار کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے ۔ ہم باتوں میں تو تعلیم کے شیدائی ہیں لیکن اگر کوئی سکالر کسی موضوع پر عمدہ تقریر کرنے والا ہو اور ہال میں داخلہ کا کوئی ٹکٹ بھی نہ ہو تو ہال آدھا خالی رہتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں اگر کسی ناچنے والی نے نیم برہنہ ناچ کرنا ہو یا کسی پاپ موسیقی کے ٹولے نے اپنے کرتب دکھانے ہوں تو لوگ ٹکٹ خریدنے بھی اتنے زیادہ پہنچ جاتے ہیں کہ ٹکٹ گھر اور ٹکٹ بیچنے والوں کو بچانے کے لئے پولیس بلانا پڑتی ہے ۔ موجودہ ظالمانہ نظام سے چھٹکارا پانے کے لئے سب سے پہلے ہمیں خود اپنا محاسبہ کرکے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہو گا ۔ اس کے بعد حکومت یعنی اسمبلیوں اور سینٹ سے اوباش لوگوں کو نکالنا ہو گا چاہے وہ سردار ہوں ۔ وڈیرے ہوں یا جنرل ۔ یہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب الیکشن کے وقت ہم سب یعنی عوام ۔ ذاتی فائدوں کی بجائے اجتمائی بہتری کا سوچتے ہوئے ۔ ۔ ۔ اول ۔ سچے اور دیانت دار امیدوار نامزد کریں ۔ دوم ۔ اپنے نامزد کردہ امیدواروں کا روپیہ خرچ کرائے بغیر رضاکارانہ طور پر بھاگ دوڑ کر کے انہیں کامیاب کرائیں ۔ کیونکہ دیانت دار شخص نے اسمبلی کا ممبر بن کے حرام مال کمانا نہیں ہوتا تو پھر وہ کیوں اپنی حلال کی کمائی الیکشن پر ضائع کرے ۔ اسی وجہ سے عام طور پر اچھے لوگ الیکشن میں حصہ لینے سے کتراتے ہیں ۔ وما علینا الالبلاغ ۔ اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں اپنے آپ کو درست کرنے اور اجتمائی بہتری کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔

Saturday, July 02, 2005

آج کا دن میرے والد محترم کے نام

میں لیبیا میں پونے سات سال قیام کے بعد واپسی پر عمرہ کرکے یکم فروری 1983 کو پاکستان پہنچا ۔ ان دنوں ہماری رہائش سیٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں تھی ۔ والدہ ماجدہ 1980 میں وفات پا گئی تھیں اور والد صاحب میرے چھوٹے بھائی کے پاس سعودی عرب میں تھے مگر ہم سے دو دن پہلے راولپنڈی پہنچ چکے تھے ۔ ہم نے والد صاحب کے ساتھ رہنا شروع کر دیا ۔ اور میں روزانہ واہ میں اپنے دفتر راولپنڈی ہی سے آتا جاتا رہا ۔
والد صاحب کے حکم پر ہم اکتوبر 1984 میں واہ سرکاری کوٹھی میں چلے گئے اور میری سب سے چھوٹی بہن اپنے خاوند اور بچوں سمیت والد صاحب کے ساتھ رہنے لگی ۔ہم ہر ہفتہ وار چھٹی والد صاحب کے ساتھ راولپنڈی میں گذارتے اور روزانہ ٹیلی فون پر والد صاحب کی خیریت دریافت کرتے ۔ جون 1987 میں ایک دن میں نے والد صاحب سے بات کی تو مجھے ان کی آواز میں معمولی سی لڑکھڑاہٹ محسوس ہوئی ۔ میں نے اسی وقت اپنی بڑی بہن جو ڈاکٹر ہیں اور واہ ہی میں رہتی ہیں کو ٹیلیفون کیا اور تیار ہونے کو کہا ۔ میں میری بیوی اور باجی راولپنڈی گئے اور والد صاحب کو زبردستی واہ لے گئے (بوڑھوں کے لئے اپنا گھر چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے) ۔
میرا اندازہ ٹھیک تھا والد صاحب کو ہلکا سا سٹروک (برین ہیموریج) ہوا تھا ۔ علاج سے الحمدللہ وہ ٹھیک ہو گئے ۔ 1988 میں میری ایک اور چھوٹی بہن جو اسلام آباد میں رہتی ہے خدمت کے جذبہ میں والد صاحب کو اپنے گھر لے گئی ۔ کچھ ماہ بعد والد صاحب کو پہلے سے زیادہ شدّت والا سٹروک ہوا اور میں پھر انہیں اپنے پاس واہ لے گیا ۔
ان دنوں واہ میں کوئی نیوروسرجن نہ تھا اس لئے علاج کے لئے میں انہیں ہفتہ میں ایک بار راولپنڈی لے کر آتا ۔ حالانکہ میری کار بہت آرام دہ تھی پھر بھی آنے جانے سے والد صاحب کو تھکاوٹ ہو جاتی تھی ۔ میرا سب سے چھوٹا بھائی جو سرجن ہے وہ ان دنوں سکاٹ لینڈ میں تھا ۔ میں نے 1990 کی گرمیوں میں اسے ٹیلیفون کر کے ساری بات بتائی اور کہا کہ کمائی کافی ہو گئی اب آؤ اور اسلام آباد والے مکان میں رہو اور والد صاحب کو اپنے پاس رکھ کر ٹھیک طرح سے علاج کراؤ چنانچہ وہ اگلے ہی ماہ آ گیا اور سیٹیلائیٹ ٹاؤن سے سامان اسلام آباد شفٹ کر کے والد صاحب کو اسلام آباد لے آیا ۔
جون 1991 میں وہ کہنے لگا بھائی جان میں تو اسی طرح چھوڑ چھاڑ کر آ گیا تھا میری نئی گاڑی بھی وہاں ایسے ہی کھڑی ہے میں جاکر تین ماہ میں سب کچھ کلیئر کر کے آ جاؤں گا ۔ سو میں والد صاحب کو پھر واہ لے گیا ۔ والد صاحب کی صحت کافی کمزور ہو چکی تھی ۔ کھانا ہم ان کو اپنے ہاتھ سے ہی کھلاتے تھے ۔ 2 جولائی کو صبح میری بیوی ان کو ناشتہ کرانے لگی انہوں نے ناشتہ نہ کیا ۔ میں دفتر جانے کے لئے کار میں بیٹھا ہی تھا کہ میری بیوی بھاگتی ہوئی آئی اور مجھے بتایا ۔ میں والد صاحب کے کمرہ میں پہنچا ۔ مجھے والد صاحب بہت کمزور محسوس ہوئے چنانچہ میں دفتر نہ گیا اور والد صاحب کے پاس ہی رہا ۔
بارہ بجے کے قریب میں نے ہسپتال میں کئی جگہ ٹیلیفون کر کے اپنی بڑی بہن کو تلاش کیا اور والد صاحب کے متعلق بتایا ۔ ایک بجے وہ ہمارے گھر پہنچ گئیں ۔ سب جتن کئے گئے مگر والد صاحب بعد دوپہر دو بج کر بیس منٹ پر اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے ۔ انّا للہ و انّا الہہ راجعون ۔
چھوٹا بھائی سکاٹ لینڈ ۔اس سے بڑا سعودی عرب اس سے بڑا ابو ظہبی اور ایک بہن لاہور میں تھی سب کو اسی وقت ٹیلیفون کئے ۔ ایک بھائی دوسرے دن صبح سویرے پہنچا باقی سب اسی رات پہنچ گئے ۔ تین جولائی کی صبح والد صاحب کے جسد خاکی کو نیو کٹاریاں قبرستان میں ان کی وصیّت کے مطابق سپرد خاک کر دیا کیونکہ میری والدہ ماجدہ کا جسد خاکی بھی وہیں مدفون ہے ۔ والد صاحب نے اسلام آباد والے پلاٹ پر چار ملحقہ مکان بنوائے تھے ۔ ان کی خواہش تھی کہ ہم چاروں بھائی اکٹھے رہیں سو الحمدللہ ہم نے ان کی خواہش پوری کی اور ماشاءاللہ چاروں بھائی اکٹھے رہ رہے ہیں ۔ کہتے ہیں اتفاق میں برکت ہوتی ہے ۔