Saturday, April 29, 2006

مسلمان بدنام کيوں ہيں ۔ لمحہءِ فکريہ

کِسی مُلک کا قانون وہ ہوتا ہے جو کہ اُس مُلک کا مجاز حاکم بناتا ہے اور یہ بھی تمام ممالک کے قوانین کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ قانون سے لاعلمی بریّت یا معافی کا جواز نہیں ۔ کوئی ذی شعور آدمی يہ نہيں کہتا کہ قانون وہ ہے جس طرح لوگ کر رہے ہيں ۔ ايک روزمرّہ کی مثال ديتا ہوں ۔ ہمارے ملک ميں قوانين کی کھُلم کھُلا خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ ٹريفِک کے قوانين ہی کو لے ليجئے ۔ مقررہ رفتار سے تيز گاڑی چلانا غلط طرف سے اوورٹيک کرنا اور چوراہے ميں بتی سُرخ ہوتے ہوئے گذر جانا عام سی بات ہے ۔ 90 فيصد لوگ ٹريفک قوانين کی خلاف ورزی کرتے ہيں مگر کبھی کِسی نے نہيں کہا کہ قانون وہی ہے جيسا لوگ کرتے ہيں ۔ يہی لوگ اگر ٹريفک سارجنٹ موجود ہو تو سب ٹريفک قوانين کی پابندی کرنے لگتے ہيں ۔ ليکن اسلام کا معاملہ ہو تو بڑے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ مسلمان کہلوانے والوں کے کردار کو اسلام کا نام دے کر اسلام کی ملامت کرتے ہيں يا اسے رد کرتے ہيں ۔
۔
اِسلام کے قوانین قرآن الحکیم میں درج ہیں ۔ قرآن شریف میں اللہ کا حُکم ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو اِسلئے حدیث اور سنتِ رسول بھی اِسلام کے قوانین کا حصّہ ہيں ۔ قرآن الحکيم کا اور حديث کا مطالعہ کيا جائے تو اس میں نہ صرف يہ کہ کوئی بُرائی نظر نہيں آتی بلکہ اچھائياں ہی اچھائياں نظر آتی ہيں اور کئی غيرمُسلم مفکّروں نے بھی اسے بہترين قانون قرار ديا ۔ سياسی ليڈروں ميں چين کے ايک وزيراعظم اور بھارت کے ايک صدر نے دو اميرالمؤمنين اور خليفہ ابوبکر صِدّيق رضی اللہ عنہ اور عُمر رضی اللہ عنہ کی حکومتوں کو انسانوں کے لئے بہترين قرار ديا حالانکہ ان دونوں شخصيات کا مسلک اسلام سے عاری تھا ۔ جسٹس کارنيليئس جو عيسائی تھے مگر اعلٰی پائے کے قانون دان تھے نے آسٹريليا ميں ورلڈ چيف جسٹسز کانفرنس ميں کہا تھا کہ دنيا کی بہترين اور قابلِ عمل قانون اسلامی قانون ہے اور يہ انتہائی قابلِ عمل بھی ہے پھر اس کے حق ميں دلائل بھی ديئے ۔ دنيا کے کسی چيف جسٹس نے اُن کے اس استدلال کو رد کرنے کی کوشش نہ کی ۔
۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کا کردار ايسا تھا کہ اُن کے دين کے دُشمن بھی اُنہيں صادق ۔ امين اور مُنصِف سمجتے تھے ۔ اُن کے پاس اپنی امانتيں رکھتے اُن سے اپنے معاملات ميں فيصلے کرواتے ۔ يہاں تک کہ يہودی اور مُسلمان ميں تنازع ہو جاتا تو يہودی فيصلہ کے لئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے پاس جاتے اور جو وہ فيصلہ کرتے اُسے بخوشی قبول کرتے
۔
خلفائے راشدين کو بھی ديکھئے ۔ عمر رضی اللہ عنہ اميرالمؤمنين اور خليفہ ہيں ۔ ساتويں صدی عيسوی ميں بيت المقدّس پر بازنطینی [عيسائی] حکومت تھی جس نے 636 عیسوی میں مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس ان کے حوالے کر دیا ۔
۔
اب سوال پيدا ہوتا ہے کہ آخر آج مُسلمان بدنام کيوں ہيں ؟ اگر ديکھا جائے تو اپنے دين اسلام کی بدنامی کا باعث بھی ہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ جس طرح کسی مُلک کا قانون وہ نہیں ہوتا جس طرح وہاں کے لوگ عمل کرتے ہیں بلکہ وہ ہوتا ہے جو مجاز حاکم بناتا ہے ۔ اسی طرح اِسلام بھی وہ نہیں ہے جس طرح کوئی عمل کرتا ہے بلکہ وہ ہے جو اللہ نے قرآن شریف میں اور اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ اٰلِہِ و سلّم نے اپنی حدیث اور عمل کے ذریعہ سمجھایا ہے ۔
۔
مُسلمانوں کی بدقسمتی يہ ہے کہ اُنہوں نے دنيا کی ظاہری چکاچوند سے مرغوب ہو کر اپنے دين پر عمل کرنا چھوڑ ديا ہے ۔ ناجائيز ذاتي مفاد کيلئے جھوٹی گواہی ديتے ہيں ۔ اپنی خوبی جتانے کيلئے دوسروں کی عيب جوئی کرتے ہيں ۔ نہ تجارت ميں نہ لين دين ميں نہ باہمی سلوک ميں کہيں بھی اسلامی اصولوں کو ياد نہيں رکھا جاتا اور حالت يہ ہو چکی ہے کہ آج کا ايک اچھا مُسلمان تاجر ايک غير مُسلم تاجر پر تو اعتبار کر ليتا ہے مگر مُسلمان پر نہیں کرتا ۔ مُسلمان اس خام خيالی ميں مبتلا ہو گئے ہيں کہ سب کچھ کرنے کے بعد حج کر ليں گے تو بخش ديئے جائيں گے يا کسی پير صاحب کے پاس جا کر يا کسی قبر پر چڑھاوا چڑھا کر بخشوا ليں گے ۔ ہماری قوم کی اصل بيماری محنت کرنے کا فُقدان ہے ۔ صرف دين ہی نہيں دنيا ميں بھی شارٹ کَٹ ڈھونڈ لئے ہوئے ہيں ۔ امتحان پاس کرنے کيلئے کتابوں کی بجائے نوٹس پڑھ لئے وہ بھی اپنے لکھے ہوئے نہيں فوٹو کابياں کالجوں ميں بِکتی ہيں ۔ والدين مالدار ہوں تو ممتحن اساتذہ کی جيبيں بھر نے سے بالکل آسانی رہتی ہے ۔ زيادہ مال بنانے کيلئے ہر فعل ہيراپھيری کرتے ہيں ۔ تولتے ہوئے ڈنڈی مارتے ہيں ۔ اشياء خوردنی ميں ملاوٹ کرتے ہيں ۔ افسوس صد افسوس ۔ بننا تو امريکن چاہتے ليکن اتنی تکليف نہيں کرتے کے اُن سے محنت کرنا ہی سِيکھ ليں البتہ اُن کی لغويات سيکھ لی ہيں ۔
۔
يہ ہنسنے کی باتيں نہيں پشيمان ہونے اور اپنے آپ کو ٹھيک کرے کی سوچ کی باتيں ہيں ۔ ہم خود تو اپنے کرتوُتوں سے بدنام ہوئے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے ہمارے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے ذريعہ آئے ہوئے دين کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہيں ۔
۔
اللہ ہمیں قرآن الحکیم کو پڑھنے ۔ سمجھنے ۔ اس پر عمل کرنے اور اپنے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔
ومَا عَلَيْنَا اِلْالّبلَاغ
*
قارئین سے گذارش اگر بلاگسپاٹ آپ کھول نہ سکتے ہوں تو میرے بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایلز [URLs] پر پڑھ سکتے ہیں ۔
۔ What Am I ? ... http://www.pkblogs.iftikharajmal.com ... میں کیا ہوں ؟
Hypocrisy Thy Name ... http://www.pkblogs.hypocrisythyname.com ... یہ منافقت نہیں ہے کیا ؟

Wednesday, April 26, 2006

معصوم بچی کی مدد کيجئے

يہ تين سالہ بچی رياض سعودی عرب میں دو ماہ قبل ملی تھی ۔ يوں لگتا ہے کہ وہ کسی طرح اپنے والدين سے الگ ہو گئی مگر ابھی تک کسی نے متعلقہ ادارہ کو اُس کی گمشُدگی کی اطلاع نہيں دی ۔ کَمسِنی کی وجہ سے بچی سے کوئی معلومات حاصل نہيں ہو سکيں ۔ اُس وقت منظر بڑا رقعت آميز ہوتا ہے جب بچی موبائل فون کان سے لگا کر زاروقطار روتی ہے اور " بابا بابا " پُکارتی ہے ۔

۔
بچی کے والدين يا عزيز و اقارب مندرجہ ذيل پتہ پر رابطہ کريں
بچی اب جماعت النہدہ [Al-Nahdah Charity] کے پاس ہے ۔ رابطہ : پبلک ريليشن ۔ ميڈيا ڈويزن ۔ فون ۔ 014650029
۔
مجھے يہ اطلاع ايک دوست نے دی ہے اور ميں بلاگ پر شائع کرنے کے علاوہ پاکستان ميں تمام اپنے جاننے والوں کو ای ميل کر رہا ہوں ۔ تمام اہلِ دل اور بچوں سے پيار کرنے والے خواتين و حضرات سے درخواست ہے کہ وہ بھي اسے ہر طرح سے مُشتہر کريں يعنی اپنے بلاگز پر اور ای ميل کے ذريعہ ۔ مُشتہر کرنے والوں کا شکريہ پيشگی ۔ *
قارئین سے گذارش
اب میرے دونوں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایلز [URLs] پر بھی پڑھے جا سکتے ہیں ۔
What Am I ? ۔ ۔ ۔ http://www.pkblogs.iftikharajmal.com ۔ ۔ ۔ میں کیا ہوں ؟
Hypocrisy Thy Name ۔۔۔۔ http://www.pkblogs.hypocrisythyname.com ۔ ۔ ۔ یہ منافقت نہیں ہے کیا ؟

Sunday, April 23, 2006

ارونا حقائق سے پردہ اُٹھاتی ہے

جمعہ 21 اپريل کو سندھ ہائی کورٹ کے حيدرآباد سرکٹ بنچ نے ازخود مواخذہ کرتے ہوئے ارونا اور اسکے خاوند معظّم کے خلاف سول جج حيدرآباد کا ديا ہوا پوليس ريمانڈ معطل کرديا ۔ ہائی کورٹ کا حکم بذريعہ ٹيليفون اور فيکس فيصلہ کے ايک گھينٹے کے اندر تمام متعلقہ آفيسران اور محکموں کو پہنچا ديا گيا ۔ مزيد جوڈيشيل مجسٹريٹ اوکاڑہ نے ارونا اور معظّم کے خلاف تمام کيس ختم کر کے اُن کی رہائی کا حُکم دے ديا ۔ اور وہ دونوں پوليس کی حفاظت ميں حيدرآباد کيلئے روانہ ہوگئے ۔ ارونا نے جوڈيشيل مجسٹريٹ اوکاڑہ کو بتايا کہ دو صوبائی وزيروں نے اُس کے خلاف اُسکے والدين کی اعانت کی ۔
۔
واقعہ ۔ ايک ريٹائرڈ جج عطا محمد کی چوبيس سالہ بيٹی ارونا حيدرآباد کے ايک پرائيوٹ ميڈيکل کالج کی طالبہ تھی اُس نے اگست 2005 ميں پی ٹی سی ايل کے سافٹ ويئر انجنيئر معظّم سے شادی کر لی اور کچھ دن بعد اپنے والدين کو اس سے مطلع کيا ۔ ارونا کی والدہ اپنی نند يا بہن کے ساتھ فوراً حيدرآباد پہنچ گئیں اور ارونا کو حيدرآباد ميں ايک قريبی عزيز فرحان کے ہاں لے گئیں جہاں ارونا نے ساری تفصيلات بيان کيں ۔ ميزبانوں نے مشروب پيش کيا جسے پی کر ارونا بيہوش ہو گئی ۔ جب اُس کی آنکھ کھُلی تو وہ سکھر ميں تھی ۔ پھر اُسے ساہيوال ليجايا گيا جہاں اُسے اپنے خاوند معظم سے عليحدگی پر مجبور کيا گيا اور تين دن تک مارا پيٹا گيا مگر وہ نہ مانی ۔ پھر اُسے اسلام آباد لے گئے جہاں چار ماہ تک اُس پر يہی دباء ڈالا جاتا رہا ۔ ايک دن وہ کسی طرح بس اڈا پير ودھائی پہنچنے ميں کامياب ہو گئی جہاں سے وہ بس میں سوار ہو کر ملتان پہنچی اور دوسرے دن ميں حيدرآباد معظّم کے پاس پہنچ گئی ۔
۔
ارونا کے والد نے حدود قوانين کے تحت رينالہ خورد پوليس سٹيشن ميں کيس رجسٹر کرا ديا کہ "ميں اپنی والدہ کے گاؤں رينالہ خورد جا رہا تھا کہ معظم ۔ اُسکا بھائی جنيد ۔ شاہد اور اُنکے دو ساتھيوں نے ميری بيٹی ارونا کو اغواء کر ليا" ۔ مقدمہ درج ہونے کے بعد اوکاڑہ پوليس 19 اپريل کو حيدرآباد پہنچی ۔ اُنہيں گرفتار کر کے سول جج حيدرآباد سے اُنہيں جيل بھيجنے کي درخواست کی ۔ سول جج حيدرآباد نے ريمانڈ دے ديا ۔ چنانچہ وہ اُنہيں اپنے ساتھ لے گئے ۔ ارونا کے والد کے وکيل نے عدالت ميں بيان کيا کہ ارونا نے سول جج کی عدالت ميں خُلا کی درخواست دی ہوئی تھی اور خُلا کا فيصلہ ہو چکا ہے مگر ارونا نے اس کی ترديد کی ۔
۔
بد قسمتی سے ہمارے مُلک ميں کچھ ايسے لوگ ہيں جو ہر خبر کو اپنی مقصد براری کيلئے استعمال کرتے ہيں اوراسکے لئے خبر کو توڑ مروڑ کر پيش کرنے کے بھی ماہر ہيں ۔ ميری ايسے حضرات سے درخواست ہے کہ صرف اتنا ياد رکھنے کی کوشش کريں کہ اللہ سب ديکھ رہا ہے اور سب جانتا ہے ۔ اللہ ظاہر تو کيا دِلوں کے بھيد بھی جانتا ہے ۔
۔
" اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ " سُورة 2 الْبَقَرَة آيت 42
۔
اللہ ہميں نيک عمل کی توفيق عطا فرمائے آمين ۔ وَمَا عَلَينَا اِلَّالّبلاغ ۔
*
قارئین سے گذارش
میرے دونوں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایلز [URLs] پر براہِ راست پڑھے جا سکتے ہیں
What Am I ? . . . http://www.pkblogs.iftikharajmal.com میں کیا ہوں ؟ Hypocrisy Thy Name . . . http://www.pkblogs.hypocrisythyname.com یہ منافقت نہیں ہے کیا ؟

Thursday, April 20, 2006

بِلّیاں ۔ ۔ ۔

قارئین سے گذارش
بلاگسپاٹ [blogspot] پر پابندي کے باوجود میرے بلاگ مندرجہ ذيل يو آر ايلز [URLs] پر کلِک کر کے يا اِنہيں اپنے براؤزر [browser] ميں لکھ کر براہِ راست کھولے جا سکتے ہيں ۔
What Am I ? میں کیا ہوں ؟ -----
Hypocrisy Thy Name یہ منافقت نہیں ہے کیا ؟ ---- http://www.pkblogs.hypocrisythyname.blogspot.com

Monday, April 17, 2006

نشتر پارک کراچی کا سانحہ

گمان غالب ہے کہ 12 ربیع الاوّل 1427 کو نشتر پارک میں ہونے والا سانحہ ہر لحاظ سے پہلا سانحہ ہے ۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں آج تک میلاد النبی صلّی اللہ علیہ و سلّم کے دن کبھی قتلِ عام نہیں ہوا اور اس سے بڑا ظُلم کیا ہو گا کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی عبادت میں مشغول لوگوں کا قتلِ عام ۔ اگر اُن میں گناہ گار بھی تھے تو اُس وقت وہ اللہ کے دربار میں حاضر تھے ۔ اس سانحہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔ جس کسی نے بھی ظُلم کیا ہے وہ میرے خیال کے مطابق مسلمان ہو ہی نہیں سکتا اور انتہائی درندہ صفت انسان ہے یا ہیں ۔ اللہ الرّحمٰن الرّحیم ہلاک ہونے والوں کی بخشش کرے اور اُن کے پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے ۔ آمین ۔ ماؤں پہ کیا گذری ہو گی جب اُنہوں نے اپنے خوشی خوشی رُخصت کئے ہوئے جگر گوشوں کی خون میں لت پت لاشیں دیکھی ہو ں گی ؟ بیویوں کے دِلوں پر کیسے کیسے خنجر چل گئے ہوں گے جب اُن کے سروں کے صاحب رضاکاروں نے لا کر اُن کے سامنے ڈھیر کر دیئے ہوں گے ؟ اُن نونہالوں کا کیا حال کیا ہوا ہو گا جن کی ننھی ننھی خواہشیں پوری کرنے والے ابّوُ نہ اب اُن سے بات کریں گے نہ اُن کو کہیں نظر آئیں گے ؟ ایک ایک کی طرف خیال جاتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ لیکن ہمارے ملک میں عجیب عجیب قسم کے لوگ بستے ہیں ۔ کم از کم 50 انسان مر گئے یعنی 50 گھر اُجڑ گئے اور سینکڑوں بچے یتیم ہو گئے ۔ بجائے مرنے والوں کے بیوی بچوں کی ڈھارس بندھانے کے اُلٹا اُن کے زخموں پر نمک چھِڑک رہے ہیں ۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سب دہشت گرد تھے ۔ اُن کے خیال میں گویا اچھا ہوا کہ مر گئے ۔ ایک اسے جماعتِ اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام کا کام کہتے ہیں ۔ سندھ کی حکومت نے تو حکومتِ پاکستان سے مطالبہ بھی کر دیا ہے کہ جماعتِ اسلامی دہشت گردوں کی جماعت ہے اسلئے اس پر فوراً پابندی عائد کی جائے ۔ مجھے جماعتِ اسلامی یا جمیعت علمائے اسلام یا سنّی تحریک سے کوئی دلچسپی نہیں مگر انسانوں کی اس طرح ہلاکت اور وہ بھی ناکردہ گناہ پر انسانی ہمدردی کا تقاضہ کرتی ہے ۔
*
قارئین سے گذارش
اب میرے دونوں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایلز [URLs] پر پڑھے جا سکتے ہیں
. What Am I? - http://www.pkblogs.iftikharajmal.com میں کیا ہوں ؟
Hypocrisy Thy Name - http:// www.pkblogs.hypocrisythyname.com یہ منافقت نہیں ہے کیا ؟

Friday, April 14, 2006

بلاگر کا چیف جسٹس کو خط

ميں نے 12 اپریل کی صبح بلاگسپاٹ بند ہونے کے خلاف جناب افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ایک خط انگریزی میں بذریعہ رجسٹری بھیجا ہے جس کے متن کا ترجمہ کچھ اِس طرح ہے ۔
*
جناب کی خدمت میں عرض ہے
*
کہ میں تعلیم اور تجربہ کے لحاظ سے انجنئر اور حکومتِ پاکستان کا پنشنر ہوں
*
کہ پچھلے 6 سال سے زائد عرصہ میں تلاشِ روزگار کی مصروفیت نہ ہونے کے باعث میں نے سوچا کہ نئی پود کو اپنے علم اور تجربہ سے آگاہ کروں اس خیال سے کہ اُن کی رہنمائی ہو سکے اور وہ اچھے پاکستانی اور اچھے مسلمان بن سکیں
*
کہ کمپوٹر چلانے میں مہارت نے میری مندرجہ خواہش کی تکمیل میں مدد کی لیکن رفتار سُست رہی ۔ علم کی سُرعت سے نشرواشاعت کے لئے اپنی ویب سائٹ ہونا ضروری تھا لیکن میری مالی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔ اللہ بہت مہربان ہے اور اپنی مخلوق کی مدد فرماتا ہے ۔ 2004 عیسوی کے شروع میں کچھ صاحبِ حیثیت لوگوں نے اپنی ڈومین پر بغیر معاوضہ ویب سائٹ بنانے کی اجازت دے دی ۔ میں نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی دو ویب سائٹس بنائیں ۔ ایک اُردو اور دوسری انگریزی میں
*
کہ ستمبر 2005 میں کچھ بد اندیش لوگوں نے توہین آمیز خاکے بنائے جو ڈنمارک کے ایک اخبار میں شائع ہوئے ۔ اوائل 2006 عیسوی میں کچھ لوگوں نے اپنی ویب سائٹس پر متذکرہ خاکے نقل کر دیئے
*
کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو ایسی ویب سائٹس بند کرنے کا حکم دیا جن پر متذکرہ خاکے شائع ہوئے تھے ۔ پی ٹی اے نے 12 ویب سائٹس بند کرنے کی بجائے 12 ڈومینز بند کردیں جس کے نتیجہ میں ہزاروں دوسری ویب سائٹس جن کا توہین آمیز خاکوں سے کوئی تعلق نہ تھا پاکستان میں رہنے والوں کیلئے بند ہو گئیں اور میرے سمیت پاکستانیوں کی بنائی ہوئی سینکڑوں ویب سائٹس بھی بند ہو گئیں ۔ مزید پی ٹی اے کا یہ عمل انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ہزاروں پاکستانیوں کیلئے انتہائی پریشانی کا باعث ہوا ہے کیونکہ علم کی نشرواشاعت اُن تک پہنچنے سے روک دی گئی ہے
*
کہ پی ٹی اے کو چاہیئے کہ ساری ڈومینز یا ویب سائٹس پاکستان میں بند کرنے کی بجائے اُن ڈمینز کو چلانے والوں سے رابطہ کرے جن پر بنائی ہوئی ویب سائٹس پر توہین آمیز خاکے شائع کئے گئے تھے اور اُنہیں قائل کرے کہ جن ویب سائٹس پر متذکرہ خاکے شائع ہوئے تھے اُنہیں بند کر دیں ۔ اس طرح یہ غلط حرکت کرنے والوں کو سزا بھی مل جائے گی اور آئندہ لوگ ایسی حرکت کرنے سے گریز کریں گے
.
میں اپنی دونوں ویب سائٹس پر لکھی ہوئی حالیہ تحاریر کے نمونے منسلک کر رہا ہوں تا کہ آپ ملاحظہ کر سکیں کہ ان میں کوئی خرابی ہے یا نہیں ۔ آپ میری پوری ویب سائٹس بھی مندرجہ ذیل یو آر ایلز پر ملاحظہ کر سکتے ہیں
.
.
مندرجہ بالا حقائق کی بنیاد پر جناب چیف جسٹس صاحب سے مؤدبانہ درخواست کی جاتی ہے کہ پی ٹی اے کو 12 ڈومینز جو بند کئے گئے ہیں کھولنے کا حُکم صادر کیا جائے اور ڈومین آپریٹرز سے متعلقہ ویب سائٹس بند کروانے کے لئے رابطہ کی ہدائت کی جائے
.
میرے سمیت ویب سائٹس رکھنے والے سینکڑوں محبِ وطن اور قانون کے پاسدار پاکستانی اُمید رکھتے ہیں کہ اُن کی ویب سائٹس پر سے پابندی فوری طور پر ہٹا کر اُن کے ساتھ اِنصاف کیا جائے گا
*
قارئین سے گذارش اب میرے دونوں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایلز [URLs] پر بھی پڑھے جا سکتے ہیں
What Am I ۔ http://www.pkblogs.iftikharajmal.com ۔ میں کیا ہوں ؟
Hypocrisy Thy Name ۔ http://www.pkblogs.hypocrisythyname.com ۔ یہ منافقت نہیں ہے کیا ؟

Tuesday, April 11, 2006

اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَہِ رَجِعُون

آج صبح سے نشتر پارک کراچی میں اہلِ سنّت کا ایک بہت بڑا اجتماع نبی پاک صَلّی اللہُ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی شان اور اُن کی بتائے ہوئے راستے کے ذکرِ خَیر کے سلسہ میں ہو رہا تھا ۔ اپنے رسول سے محبت رکھنے والے ہزاروں مُسلمان اس میں شریک تھے کہ مغرب کی نماز کے دوران [تقریباً سوا سات بجے] ایک زوردار دھماکہ ہوا ۔ ابتدائی اطلاع کے مطابق 47 افراد جان بحق اور کم از کم 50 زخمی ہوئے ہیں ۔ حاجی محمد حنیف بلّو ہلاک ہو گئے ہیں ۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَہِ رَجِعُون ۔ مولانا قادری بھی زخمی ہوئے ہیں ۔ باقی ابھی معلوم نہیں ہو سکا ۔ دھماکہ سٹیج کے پاس ہوا ۔
*
قارئین سے گذارش
اگر میرا بلاگ براہِ راست یا اُوپر عنوان پرکلک کرنے سے نہ کھُلے تو مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کیجئے یا اِسے اپنے براؤزر میں لکھ کر کھولئے http://www.pkblogs.com/iftikharajmal

Monday, April 10, 2006

احوال شادی کا

اس سال جنوری میں ایک شادی میں شرکت نئے تجربات کا باعث بنی ۔ بارات جمعہ 6 جنوری کو سیالکوٹ سے لاہور جانا تھی اور ولیمہ ہفتہ 7 جنوری کو تھا ۔ بارات صبح 9 بجے روانہ ہونا تھی 10بجے تک صرف وہی لوگ تھے جو اُن کے گھر میں سوئے تھے ۔ ساڑھے دس تک سب باراتی اکٹھے ہو گئے تو فوٹو گرافر غیر حاضر ۔ ٹیلیفون کیا تو پتہ چلا کسی نے اُسے 11 بجے کا وقت دیا تھا ۔ خیر وہ گیارہ سے پہلے پہنچ گئے ۔ اب کاریں تیار کھڑی ہیں مگر بس نہیں آ رہی ۔ معلوم ہوا کہ سڑکیں تنگ ہونے کی وجہ سے بس مُڑ نہیں پا رہی ۔ پینتیس منٹ کی کوشش کے بعد بس رِیورس چلا کر لائی گئی اور ساڑھے گیارہ بجے بارات روانہ ہوئی ۔ سفر کی کوآرڈینیشن اچھی تھی اِس لئے مزید کوئی دشواری نہ ہوئی ۔ بس کا ڈرائیور ہارن کی آواز کا دلدادہ تھا ۔ کوئی گاڑی دیکھ لے چاہے اُس کے آگے نہ ہو وہ پریشر ہارن کے بٹن پر ہاتھ رکھ دیتا تھا جو چند منٹ بعد ہی اُٹھتا تھا ۔ لاہور سے واپسی پر دس کاروں اور ایک بس پر مشتمل بارات دُلہن کو لے کر روانہ ہوئی ۔ بس کے ڈرائیور صاحب نے آڈیو کیسٹ چلا دی ۔ پتہ نہیں کونسے زمانہ کا آڈیو کیسٹ پلیئر تھا ۔ آواز کی چیں چیں نے ویسے ہی تنگ کیا ہوا تھا ۔ اِس پر گانوں نے نمک پاشی کی ۔ جو چند بول مجھے یاد رہ گئے ملاحظہ ہوں دو ہنسوں کا جوڑا بچھڑ گیا رے ۔ غضب ہوا رام ظلم ہوا رے دِل کا کھلونا ہائے ٹوٹ گیا کوئی لُٹیرا آ کے لُوٹ گیا کہیں دِیپ جلے کہیں دِل آ دیکھ لے آ کر پروانے تیری کونسی ہے منزل وہ دیکھو جلا گھر کسی کا ولیمہ کے دن معلوم ہوا کہ بیوٹی پارلر والی نے روانگی کے وقت کو اپنا کام شروع کرنے کا وقت سمجھ لیا تھا چنانچہ دُلہن ایک بجے کی بجائے ساڑھے تین بجے تیار ہو کر آئی ۔ لڑکی کے خاندان والوں نے لاہور سے ڈیڑھ دو بجے تک پہنچنا تھا ۔ 4 بج گئے اور ان کی کوئی خبر نہ ملی ۔ آخر ساڑھے چار بجے پہنچے اور بتایا کہ ڈھائی گھینٹے ڈسکہ میں ٹریفک جام میں پھنسے رہے ۔ * قارئین سے گذارش اگر میرا بلاگ براہِ راست یا اُوپر عنوان پرکلک کرنے سے نہ کھُلے تو مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کیجئے یا اِسے اپنے براؤزر میں لکھ کر کھولئے http://www.pkblogs.com/iftikharajmal میرا دوسرا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے یا اِسے اپنے براؤزر میں لکھ کر کھولئے http://www.pkblogs.com/hypocrisythyname

Sunday, April 09, 2006

بلاگرز کی فوری توجہ اور فوری عمل کی ضرورت

اسلام آباد کے چندبلاگرز اور کچھ آئی ایس پِیز کی درخواست کے نتیجہ میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی [P.T.A.] نے میٹنگ بلائی ہے جو جلد ہونے والی ہے ۔ اس میٹنگ کا ایجنڈا یہ ہے کہ پورے ڈومینز [domains] کی بلاکنگ ختم کی جائے اور صرف قصوروار بلاگز یا ویب سائٹس بلاک کئے جائیں ۔ ضروری ہے کہ اس وقت یعنی میٹنگ ہونے سے پہلے پی ٹی اے پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جائے جس کا صحیح اور مؤثر طریقہ مندرجہ ذیل ہے ۔ پی ٹی اے کی مندرجہ ذیل ویب سائٹ کھول کر فیڈ بیَک [Feedback] پر ماؤس کا بایاں بٹن دبائیں ۔ http://www.pta.gov.pk/index.php?cur_t=vtext اس طرح ایک فارم کھُل جائے گا ۔ اس فارم کو مکمل طور پر پُر کریں اور مندرجہ ذیل سے ملتا جُلتا فقرہ ضرور لکھئے ۔ By blocking twelve domains in stead of twelve concerned websites PTA has blocked thousands of innocent websites. اپنے بلاگ کو ویب سائٹ لکھئے کیونکہ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ بلاگ کیا ہوتا ہے البتہ ویب سائٹ تقریباً سب سمجھتے ہیں ۔ * قارئین سے گذارش اگر میرا بلاگ براہِ راست یا اُوپر عنوان پرکلک کرنے سے نہ کھُلے تو مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کیجئے یا اِسے اپنے براؤزر میں لکھ کر کھولئے http://www.pkblogs.com/iftikharajmal میرا دوسرا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے یا اِسے اپنے براؤزر میں لکھ کر کھولئے http://www.pkblogs.com/hypocrisythyname

Saturday, April 08, 2006

میلہ

کوئی آئے کوئی جائے
کوئی روئے کوئی گائے
میلہ رُکنے نہ پائے
میلہ جگ والا ساتھی رے چلتا رہے
*
قارئین سے گذارش
اگر میرا بلاگ براہِ راست یا اُوپر عنوان پرکلک کرنے سے نہ کھُلے تو مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کیجئے یا اِسے اپنے براؤزر میں لکھ کر کھولئے http://www.pkblogs.com/iftikharajmal میرا دوسرا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے یا اِسے اپنے براؤزر میں لکھ کر کھولئے http://www.pkblogs.com/hypocrisythyname

Wednesday, April 05, 2006

ایک سفر کی روداد

ہمیں دولہا کی طرف سے شرکت کی دعوت ملی جن کی رہائش سیالکوٹ میں ہے ۔ جمعہ 6 جنوری کو بارات لاہور جانا تھی ۔ میری کمر اور ٹانگ کے درد کے پیشِ نظر شورہءِ خانہ نے فیصلہ کیا کہ کار چلانا میرے لئے مُضِر ہو گا اِس لئے بس پر سفر کیا جائے اور اِس کے لئے دَیوُو کا انتخاب کیا گیا جس کا کرایہ دوسری بس سے تقریباً دوگُنا تھا ۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ آرام دہ ہے اور مسافت میں کم وقت لے گی ۔ جمعرات کو 12 بجے دوپہر ایف ۔ 8 ٹرمینل پہنچے جہاں سے وین پر راولپنڈی پہنچائے گئے ۔ وہاں بس میں بیٹھے جو ایک بجے چلی ۔ بس گجرات میں 15 منٹ رُکنے کے بعد چلی مگر شہر کے اندر ہی ٹریفک میں پھنس گئ ۔ سامنے سے آنے والی گاڑیوں نے ساری سڑک روک رکھی تھی اور ایک گاڑی بائیں جانب کی سڑک سے بیچ میں گھس گئی تھی اور کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا ۔ آدھا گھینٹہ گذرنے کے بعد کچھ سواریوں کو نزاکت کا احساس ہوا اور اُنہوں نے اپنی گاڑیوں سے نیچے اُتر کر گاڑیوں کو آگے پیچھے کروایا تو مزید 15 منٹ بعد وہاں سے نکلے ۔ دَیوُو والے راستہ میں مشروب اور کچھ کھانے کو بھی دیتے ہیں ۔ جب ملا تو علم ہوا کہ مِقدار کم ہو چکی ہے اور معیار بھی گِر چکا ہے ۔ نمعلوم کیوں ہمارے ملک میں ہر چیز بڑے طمطراق سے شروع ہوتی ہے اور بعد میں یہی حال ہوتا ہے ۔ پھر پتہ چلا کہ وزیر آباد سیالکوٹ سڑک بن رہی ہے اس لئے براستہ گوجرانوالا جائیں گے ۔ چنانچہ پونے سات بجے یعنی پونے سات گھنٹے میں سیالکوٹ پہنچے جبکہ دوسری بس ساڑھے پانچ گھینٹے میں پہنچنا تھی ۔ * قارئین سے گذارش اگر میرا بلاگ براہِ راست یا اُوپر عنوان پرکلک کرنے سے نہ کھُلے تو مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کیجئے یا اِسے اپنے براؤزر میں لکھ کر کھولئے http://www.pkblogs.com/iftikharajmal.blogspot.com
میرا دوسرا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے یا اِسے اپنے براؤزر میں لکھ کر کھولئے http://www.pkblogs.com/hypocrisythyname.blogspot.com
بلاگ کھُل جائے تو تبصرہ کیلئے تبصرہ کا لنک کاپی کیجئے۔ رائٹ کلک کرکے کاپی لنک لوکیشن منتخب کیجئے پھر اپنے براؤسر کی ایڈریس بار میں پیسٹ کیجئے ۔

Sunday, April 02, 2006

زبان شیرین ملک گیری

پنجابی کا ایک مقولہ ہے " زبان شیرین ملک گیری" یعنی زبان میٹھی ہو تو انسان حکومت کر سکتا ہے ۔
۔
زبان بظاہر ایک چھوٹی سی اور خفیف وزن چیز ہے مگر بہت کم لوگ اسے قابو میں رکھ سکتے ہیں
۔
جو شخص اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے وہ ہر جگہ عزّت پاتا ہے
*
قارئین سے گذارش اگر میرا بلاگ براہِ راست یا اُوپر عنوان پرکلک کرنے سے نہ کھُلے تو مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کیجئے یا اِسے اپنے براؤزر میں لکھ کر کھولئے
میرا دوسرا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے یا اِسے اپنے براؤزر میں لکھ کر کھولئے