Sunday, October 30, 2005

ہم کیا کر رہے ہیں ؟

Saturday, October 29, 2005

زلزلہ سے متاءثرہ علاقہ کی ایک جھلک ۔ اعجاز آسی

اعجاز آسی صاحب دس دن زلزلہ سے متاءثرہ علاقہ میں گذارنے کے بعد ایک دن کے لئے اسلام آباد آئے تھے اور پھر متاءثرہ علاقہ میں چلے گئے ہیں ۔ ان کے بالکل مختصر تاءثرات انہی کے الفاظ میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے ۔

Friday, October 28, 2005

ترقی یافتہ روشن خیال جنہیں دہشت گرد کہتے ہیں

جہادی تنظیمیں زلزلے کے خلاف ’جہاد‘ میں مصروف وسعت اللہ خان ۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام صدر پرویز مشرف نے بیس اکتوبر کو یہ کہا تھا کہ حکومت نے زلزلہ زدہ علاقوں میں جہادی تنظیموں کے فلاحی کام پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے تاہم وہ مصیبت کی اس گھڑی میں کالعدم یا واچ لسٹ پر موجود تنظیموں کو مصیبت زدگان کی مدد سے نہیں روکیں گے۔ صدر کے اس بیان سے جہاں حکومت کی تشویش کا اندازہ ہوتا ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور حکومت کی جانب سے زلزلہ زدگان کی فوری اور موثر امداد میں سست روی کا خلا جہادی تنظیمیں خاصے موثر انداز میں پر کر رہی ہیں اور اس کام میں دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ان تنظیموں کی جہادی سرگرمیوں کا سولہ سالہ تجربہ اور نیٹ ورک خاصا مددگار ثابت ہورھا ہے۔ مثلاً جماعت الدعوہ ( سابق لشکرِ طیبہ) کے نیٹ ورک کو ہی لے لیں جو زلزلہ زدہ علاقوں میں غالباً سب سے منظم ڈھانچوں میں شامل ہے۔اس وقت جماعت الدعوہ کے کوئی ایک ہزار کل وقتی اور سینکڑوں جز وقتی رضاکار امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ مجھے مانسہرہ میں جماعت کے مرکزی ریلیف کیمپ میں جانے کا موقع ملا۔تین گوداموں کے علاوہ کیمپ کے کھلے حصے میں کپڑوں، گدوں اور کمبلوں کا ایک پہاڑ سا ہے۔اسی کیمپ سے تمام متاثرہ علاقوں تک امدادی رسد بھیجی جاتی ہے۔ مظفرآباد اور نیلم ویلی کے وہ علاقے جہاں فی الحال ہیلی کاپٹروں تک رسائی ہے، جماعت پہاڑوں پر پھنسے ہوئے متاثرین تک سامان پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کے لئے ایک سو خچر استعمال کررہی ہے۔بالخصوص کشمیر کے علاقے پتیکا، سری کوٹ اور شہید گلی کے دشوار پہاڑی علاقوں میں خچر سروس کے زریعے اب تک بیس ٹن رسد پہنچائی جا چکی ہےاور جن علاقوں میں خچر استعمال نہیں ہوسکتے وہاں پر رضاکار دو ڈنڈوں کے درمیان رسیاں یا گدے جوڑ کر بنائے جانے والے سٹریچروں کی مدد سے زخمیوں کو نیچے لا رہے ہیں۔ اسکے علاوہ کشمیر میں دھن مائی کے علاقے کے تئیس کٹے ہوئے دیہاتوں سے زخمیوں اور متاثرین کو لانے کے لئے گذشتہ دو ہفتوں سے موٹر بوٹ سروس جاری ہے۔اس موٹربوٹ سروس سے اب تک پچاس ٹن امدادی سامان دریائے جہلم کے پار مظفر آباد سے کٹے ہوئے دیہاتوں تک پہنچایا جا چکا ہے۔ ستائیس اگست کو جب میں مظفر آباد میں جماعت الدعوہ کے قائم کردہ فیلڈ ہسپتال پہنچا تو آغاخان ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک بتیس رکنی ٹیم انڈونیشیا کی میڈیکل ٹیم کی جگہ لے رہی تھی۔اس فیلڈ ہسپتال میں دو سرجیکل یونٹ ہیں جن میں ایک سو بیس بڑے آپریشن کئے جاچکے ہیں۔ان میں برین سرجری سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن تک شامل ہیں۔جبکہ اب تک ساڑھے تین ہزار چھوٹے آپریشن ہوچکے ہیں۔ اس فیلڈ ہسپتال کے قریب ایک گودام میں جو اشیائے خوردونوش بھری ہوئی تھیں ان میں خوراک کے سینکڑوں ڈبے ایسے بھی تھے جن پر یو ایس اے لکھا ہوا تھ۔یہ امریکہ کی حکومت کا عطیہ ہیں۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ امریکی رسد عالمی ادارہِ خوراک کے توسط سے جماعت کو متاثرین میں تقسیم کرنے کے لئے دی گئی ہے۔ جماعت الدعوہ کا کہنا ہے کہ اس نے مختلف زلزلہ زدہ علاقوں میں پانچ پانچ سو خیموں کی چھ عارضی بستیاں قائم کررہی ہے جن میں متاثرین کو کم ازکم چھ ماہ تک رکھا جائے گا۔اسکے علاوہ متاثرین کو ایک ہزار گھر تعمیر کرنے کے لئے سامان بھی فراہم کیا جارھا ہے۔ کالعدم جیشِ محمد کے کارکن الرحمت ٹرسٹ کے نام سے متاثرین کو خوراک، کپڑے اور ادویات پہنچا رہے ہیں۔الرحمت ٹرسٹ کے بڑے ریلیف کیمپ ہری پور اور بالا کوٹ سے ذرا پہلے بسیاں کے مقام پر ہیں۔ میں نے بالا کوٹ سے آگے سفر کے دوران اس ٹرسٹ کے رضاکاروں کی پیدل میڈیکل ٹیمیں بھی دیکھیں۔ یہ ٹیم بنیادی طور پر فرسٹ ایڈ کے سامان سے مسلح دو دو رضاکاروں پر مشتمل ہوتی ہے اور پہاڑی راستوں پر نیچے آنے والے زخمیوں کو سڑک کے کنارے فرسٹ ایڈ دیتی نظر آتی ہیں۔جبکہ مظفر آباد میں جیش کا ریلیف کیمپ متاثرین کو خوراک اور ضروریات کی دیگر چیزیں فراہم کررھا ہے۔ بالا کوٹ کے نزدیک بسیاں کے ریلیف مرکز میں جب میں نے الرحمت ٹرسٹ کے کیمپ انچارج سے دیگر علاقوں میں ریلیف سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اسکی تشہیر فی الحال مناسب نہیں سمجھتے۔ اسی طرح حزب المجاہدین بھی ریلیف کے کاموں میں جٹی ہوئی ہے۔مظفر آباد میں حزب کے کارکن متاثرین کے لئے ایک بڑا لنگر چلارہے ہیں۔جبکہ خیمہ بستیاں بنانے کے سلسلے میں وہ جماعتِ اسلامی کے ذیلی ادارے الخدمت کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔تاہم میں نے صوبہ سرحد کے متاثرہ علاقوں میں بظاہر حزب کی ریلیف سرگرمیاں نہیں دیکھیں۔ ایک اور تنظیم البدر مجاہدین الصفہ فاؤنڈیشن کے نام سے سرگرم ہے۔بالاکوٹ میں جتنا بڑا اسکا کیمپ ہے اتنا ہی بڑا بینر بھی ہے۔یہاں کوئی ایک سو رضاکار متاثرین کو خوراک پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کا کام کررہے ہیں۔ البدر کے مردان سے آئے ہوئے پچاس کارکنوں نے بالاکوٹ کے علاقے میں ملبے میں دبی ہوئی لاشیں نکالنے میں بھی خاصی مدد کی۔ اسکے کارکن دو دو دن کی پہاڑی مسافت طے کرکے متاثرین تک رسد پہنچا رہے ہیں۔ کیمپ انچارج شیخ جان عباسی کے بقول کام اتنا ہے کہ ’ہمیں نہانے دھونے کی بھی فرصت نہیں اور ہمارے کپڑوں میں جوئیں پڑ چکی ہیں۔ ‘ شیخ جان عباسی جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی تین برس تک مسلح کاروائیوں میں شریک رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ انکے کارکنوں کی سخت جان جہادی تربیت زلزلے کے متاثرین کو دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں امداد پہنچانے میں خاصی کام آ رہی ہے۔ میں نے پوچھا کہ بندوق کی جگہ پھاوڑا ہاتھ میں پکڑنا کیسا لگ رھا ہے۔شیخ جان عباسی کا جواب تھا کہ انہوں نے بندوق بھی لوگوں کی مدد کے لئے اٹھائی تھی اور اب پھاوڑا بھی اسی مقصد کے لئے پکڑا ہے۔’وہ بھی جہاد تھا یہ بھی جہاد ہے۔میں نے پوچھا حکومت کی جانب سے کوئی وارننگ ملی۔کہنے لگے کہ آج ہی پولیس نے ایک فارم بھرنے کو دیا ہے کیونکہ حکومت ہماری فلاحی سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہتی ہے۔ اسکے علاوہ ابھی تک کچھ اور مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ الرشید ٹرسٹ جو اسوقت امریکی واچ لسٹ پر ہے اسکی ایمبولینسیں بھی متاثرہ علاقوں میں مستقل متحرک ہیں۔بالاکوٹ کے قریب قائم الرشید کیمپ کے انچارج عبدالسلام نے بتایا کہ انکے رضاکاروں نے وادی کاغان کے اب تک کٹے ہوئے علاقوں میں کوئی ڈھائی ہزار خاندانوں کو پیدل راشن پہنچایا ہے۔جبکہ ایک ہزار زخمیوں کا علاج کیا گیا ہے۔ تاہم جوں جوں زلزلہ زدہ علاقوں میں حکومت اور فوج کی امدادی گرفت مضبوط ہورہی ہے ان جہادی تنظیموں پر کڑی نظر رکھنے کا کام بھی شروع ہوگیا ہے۔ الرشید ٹرسٹ کیمپ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ فوجی حکام نے انہیں بٹل کے علاقے میں دو خیمہ بستیاں قائم کرنے سے روک دیا اور ٹرسٹ کے بینرز بھی انتظامیہ نے اتار دئیے۔تاہم کاغان کے علاقے میں فوج کو اس تنظیم کے کام پر فی الحال کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ وادی اب تک مواصلاتی طور پر باقی ملک سے منقطع ہے۔ یہ تضاد آپ کو اور کئی شکلوں میں بھی نظر آسکتا ہے مثلاً یہی کہ متاثرہ علاقوں کے اوپر امریکی چنوک ہیلی کاپٹر پروازیں بھر رہے ہیں اور نیچے جہادی تنظیمیں کوشاں ہیں اور دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔

Wednesday, October 26, 2005

پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی

میں اپنا پہلا بلاگ "یہ منافقت نہیں ہے کیا ؟ ۔ Hypocrisy Thy Name … انگریزی میں لکھا کرتا تھا ۔ جب اردو عام ہوئی تو میں نے یہ دوسرا بلاگ اردو میں شروع کیا ۔ پھر میں نے اپنے پہلے بلاگ میں بھی اردو لکھنا شروع کر دی ۔ اس ماہ مجھے کچھ ای میلز آئیں کہ آپ کے بلاگ پر جاتے ہیں مگر اردو نہ جانتے ہوۓ پڑھ نہیں سکتے ۔ اس پر میں نے سائٹ میٹر کھولا تو معلوم ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے علاوہ قارئین کا تعلق امریکہ ۔ کینڈا ۔ افریقہ ۔ سعودی عرب ۔ فلسطین ۔ کویت ۔ ترکی ۔ فرانس ۔ جرمنی ۔ برطانیہ ۔ ایران ۔ افغانستان ۔ سنگا پور ۔ ہانگ کانگ ۔ کوریا اور آسٹریلیا سے ہے ۔ سو میں نے اپنے پہلے بلاگ پر پھر سے انگریزی لکھنے کا فیصلہ کیا ہے مگر اردو بھی ساتھ چلے گی ۔ چنانچہ اردو سیّارہ کی پالیسی کے تحت اب میرا پہلا بلاگ آپ کو اردو سیّارہ پر صرف اس وقت نظر آۓ گاجب میں اس میں اردو لکھوں گا ۔ انگریزی میں بھی انشاء اللہ دلچسپ باتیں لکھی جائیں گی ۔ صرف آپ کو میرے بلاگ پر جانے کی زحمت گـوارہ کرنا پڑے گی جس کے لئے معذرت پیشگی ۔"

Tuesday, October 25, 2005

زلزلہ سے متاءثر علاقہ سے

بٹگرام کی وادی الائی میں پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں وادی الائی کے علاقے میں امداد کاموں کے انچارچ کرنل ذکیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر علاقے کی آبادی کو دو تین دنوں میں یہاں سے نہ نکالا گیا تو پچیس سے تیس ہزار لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔
کرنل ذکیر نے بی بی سی کے نامہ نگار وسعت اللہ خان کوبتایا کہ پچھلی ایک رات میں دو ہزار سے ڈھائی ہزار تک جھٹکے محسوس کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ رات آنے والے جھٹکے ’ آفٹر شاکس‘ نہیں تھے بلکہ آتش فشاں حرکت معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور جب ایک جھٹکا آتا ہے تو اس کے ساتھ دھماکے کی آواز بھی آتی ہے۔ اور یہ آواز اتنی زیادہ ہوتی ہے جیسے توپوں سے گولے داغے جا رہے ہوں۔ کرنل ذکیر نے بتایا کہ انہوں نے اعلی حکام کو سفارش کی ہے کہ وادی الائی میں امدادی کارروائیوں کرنے کی بجائے تمام مکینوں کو یہاں سے فوراً نکال لیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر دو تین دنوں میں لوگوں کو وہاں سے نہ نکالا گیا تو شاید پھر ہم کچھ کرنے کی پوزیشن ہی میں نہیں رہیں گے۔ کرنل ذکیر نے کہا لوگوں کو علاقے سے نکالنے کے لیے ہیلی کاپٹروں کے علاوہ اور ذریعہ نہیں ہے بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق علاقے کی تمام زمینی راستے ختم ہو چکے ہیں اور تین دن کی مشقت سے بنائی جانے والی ایک سڑک رات کے زلزلوں میں پھر تباہ ہو گئی ہے۔ وادئِی الائی پونے دو لاکھ کی آبادی کا علاقہ ہے۔ یہاں آٹھ اکتوبر کو آنے والے زلزلے میں تین سے چار ہزار افراد ہلاک اور بیس سے بائیس ہزار زخمی ہوئے تھے۔
سرکاری حکام کے مطابق الائی میں اٹھانوے فیصد مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں کیونکہ یہ وادی ایسے پہاڑوں سے گِھری ہوئی ہے جہاں گزشتہ دو ہفتوں سے مسلسل زلزلے کی سی کیفیت ہے۔ یہاں آبادی ایک جگہ پر اکٹھی نہیں بلکہ دو دو تین تین مکانوں کی شکل میں پہاڑوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں 12 تاریخ سے فوج عالمی امدادی اداروں کے کیمپ موجود ہیں لیکن نوے فیصد آبادی نقطہ انجماد کے نیجے کے درجہ حرارت پر کھلے آسمان تلے راتین گزارنے پر مجبور ہے۔ اگلے چوبیس گھنٹوں میں برف باری کی پیش گوئی اور مسلسل آتش فشانی کیفیت کے پیش نظر وادی کو خطر ناک قرار دے کر آبادی کو کہیں اور منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ تیس لاکھ بےگھر، صرف 30 ہزار خمیے امدادی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تیس لاکھ بے گھر افراد کو پناہ فراہم کرنے کے لیے اب تک صرف تیس ہزار خیمے پہنچائے جا سکے ہیں جبکہ اس علاقے میں تین لاکھ پچاس ہزار خیموں کی ضرورت ہے۔ مگرامدادی تنظیموں کے مطابق امدادی ہیلی کاپٹروں کی تعداد میں اضافے کے باوجود اب بھی زلزلے سے متاثرہ تمام علاقوں تک پہنچنا یا وہاں امداد کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ریلیف کو آرڈینیٹر راشد خالیکوف نے کہا ہے کہ زلزلے کے دو ہفتے بعد بھی صرف مظفرآباد میں آٹھ لاکھ افراد بےگھر ہیں ۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں زلزلے کے دوہفتے بعد تک تقریباً دو ہزار دیہات ایسے ہیں جہاں تک مکمل رسائی نہیں ہو سکی ہے اور خدشہ ہے کہ ان دیہات کے رہائشی افراد سخت سردی کا شکار ہو کر ہلاک نہ ہو جائیں۔ امدادی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ زلزلہ زدگان کے لیے عالمی امداد کی فراہمی سست روی کا شکار ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ریلیف کوارڈینیٹر ارشد خالیکوف نے کہا ہے کہ’ یہ لازم ہے کہ امداد دینے والے ممالک جلد از جلد اس کام میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ہمارے پاس چھ ہفتے کا وقت ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ہم یہ کام کر پائیں گے بھی یا نہیں ۔ یاد رہے کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی بی بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کو پانچ بلین ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ عالمی برادری نے اب تک صرف چھ سو بیس ملین ڈالر امداد دی ہے۔

Monday, October 24, 2005

ٹھٹھا مذاق

سورۃ 49 الحجرات آیۃ 11 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں ۔

Sunday, October 23, 2005

معیشت اور تکبّر

معیشت سورۃ 25 الفرقان آیۃ 67 ۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ۔ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔
۔
فخر و تکبّر سورۃ 31 لقمان آیۃ 18 اور 19 ۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل ۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ۔ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ۔

Friday, October 21, 2005

ہماری امداد کریں ناں۔۔۔

میرا نام صبا ہے۔ میں نویں جماعت میں پڑھتی ہوں۔ میری عمر اب چودہ سال ہے۔ اس زلزلے میں میرے امی ابو دونوں کا انتقال ہو گیا۔ ہم دو بہنیں ہیں۔ لاوارث ہیں۔ بس یہاں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہاں کھانے پینے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ ابھی بچے رو رہے تھے، بھوکے ہیں سب۔ ہمیں کچھ مدد نہیں دے رہے۔ ایک گاوں میں رہنے والے دہات والوں کو ایک ٹینٹ دے دیتے ہیں، اور کہتےہیں کہ بس سب کو دے دی امداد۔ اس وقت میرے آس پاس بہت سارے بچے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سارا دن یہ بچے یوں ہی بیٹھے رہتے ہیں۔ کبھی کھانا مانگتے ہیں، کبھی روتے ہیں۔ سردی بھی بہت رہتی ہے۔ کچھ بچوں کو نمونیا ہو گیا ہے۔ تین، چار، پانچ سال کے چھوٹھ چھوٹے بچے ہیں جنہیں سردی کی وجہ سے نمونیا ہو گیا ہے۔ سارے جانور اور مویشی بھی مکانوں کے نیچے دب کر مر گئے۔ ہماری امداد کریں ناں۔۔۔ یہ جو جہاز وغیرہ ہیں، یہ ہمارے سامنے فوجی رہتے ہیں ان کی مدد کرتے ہیں ، ادھر جا کر بیٹھتے ہیں ۔ ہمیں کچھ نہیں دیتے ۔ پل بھی جو تھا ، دریا نیلم کے اوپر، وہ بھی گر گیا ۔ ہماری کچھ مدد کریں ناں۔۔۔

امدادی سامان جل کر راکھ ہو گیا

کراچی کے سٹی ریلوے سٹیشن پر زلزلے کے متاثرین کے لیے بھیجے جانے والے سامان میں آگ بھڑک اٹھی جس سے سارا سامان جل کر خاکستر ہوگیا۔ سندھ بوائز اسکاؤٹ کی جانب سے کیمپ لگا کر یہ سامان جمع کیا گیا تھا جو ریل کے ذریعے راولپنڈی روانا کیا جانا تھا۔ سٹی ریلوے پولیس کا کہنا ہے کہ دوپہر کو ریل کی بوگی میں اچانک آگ بھڑک اٹھی جس کے بعد پوری بوگی جل گئی۔ پولیس کے مطابق بوگی میں زلزلے زدگان کے لیے بستر، لحاف، کھانے پینے کی اشیا اور دیگر سامان موجود تھا۔ اس کے علاوہ اس سامان میں ماچس کے پیکٹ بھی تھے جن کے جل جانے سے آگ نے اور زور پکڑ لیا۔ ریلوے پولیس کا کہنا ہے کہ ریلوے کی جانب سے یہ بوگی مفت میں سندھ اسکاوّٹس کو فراہم کی گئی تھی۔

Thursday, October 20, 2005

زلزلے یا ہزاروں ایٹم بم اور متاءثرین کے شب و روز

ميں نے آزاد جموں کشمیر اور صوبہ سرحد کے ساتھ اسلام آباد میں 15 اکتوبر رات 12 بج کر 37 منٹ 42 سیکنڈ تک آنے والے رخٹر سکیل پر 4 سے زیادہ شدت والے زلزلوں اور جھٹکوں (آفٹر شاکس) کا ریکارڈ پیش کر دیا تھا ۔ اس کے بعد مزید مندرجہ ذیل زلزلے آۓ ۔رخٹر سکیل پر 4 سے کم شدت کے بھی کئی زلزلے آئے مگر ان کا ریکارڈ نہیں ہے ۔ 15 اکتوبر صبح 9 بج کر 24 منٹ 6 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 1 شدت کا صبح 9 بج کر 32 منٹ 21 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 شدت کا صبح 11 بج کر 52 منٹ 14 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 4 شدت کا 17 اکتوبر صبح 3 بج کر 5 منٹ 33 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 3 شدت کا بعد دوپہر 3 بج کر 43 منٹ 8 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 1 شدت کا 18 اکتوبر رات 11 بج کر 32 منٹ 3 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 5 شدت کا 19 اکتوبر رات 2 بج کر 20 منٹ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 5 شدت کا رات 2 بج کر 20 منٹ 6 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 3 شدت کا صبح 7 بج کر 33 منٹ 30 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 8 شدت کا صبح 8 بج کر 16 منٹ 22 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 4 شدت کا بعد دوپہر 5 بج کر 47 منٹ 28 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 2 شدت کا کچھ خبریں جھٹکوں یا آفٹر شاکس کے علاوہ 80 زلزلے بھی آۓ کراچی یونیورسٹی کے جیالوجسٹ ڈاکٹر نیئر ضیغم نے بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور شمالی علاقوں میں اتنے شدید زلزلے کی وجہ زمین کی سطح سے صرف دس سے بیس کلو میٹر کی گہرائی پر توانائی کی بڑی مقدار کا اخراج تھا ۔ پاکستان میں اکتوبر کی آٹھ تاریخ کو سات عشاریہ آٹھ اور اس کے بعد چھ عشاریہ چار کی شدت سے آنے والے دو زلزلوں میں جتنی توانائی خارج ہوئی ہے وہ ایک میگا ٹن کے ساٹھ ہزار ایٹم بموں کے دھماکوں کے برابر تھی۔ انہوں نے کہا کہ اتنے شدید زلزلے نے ایک ڈگری سکوائر کے علاقے میں دوسری فالٹ لائنز کو بھی متحرک کر دیا ہے اور ماضی میں غیر متحرک یا سوئی ہوئی فالٹ لائنز بھی زلزلوں کا باعث بن رہی ہیں ۔ ڈاکٹر نیئر نے کہا کہ پندرہ تاریخ تک اس علاقے میں پچہتر زلزلے ریکارڈ کیے گئے جن کو سائنسی اصطلاح میں آفٹر شاک یا جھٹکے کہنا ٹھیک نہیں بلکے یہ علیحدہ علیحدہ زلزلے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ماہرین کا خیال یہی تھا کہ یہ بڑے زلزلے کے بعد آنے والے جھٹکے ہیں لیکن اس زلزلوں کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ یہ الگ الگ زلزلے تھے اور کسی ایک جگہ نہیں آ رہے۔ انہوں نے کہ ہمالیہ پہاڑیوں کے تھرسٹ سسٹم میں ارتعاش پیدا ہوگیا ہے۔ متاءثرین کے شب و روز بی بی سی کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں زلزلے کے باعث ہزاروں خاندان پاکستان کے مختلف شہروں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ یہ خاندان یا تو اپنے طور پر رہ رہے ہیں یا حکومت کی طرف سے قائم چند خیمہ بستیوں میں رہائش پذیر ہیں یا وہ اسلام آباد میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تعمیر کیے گئے فلیٹس میں رہتے ہیں ۔یہ فلیٹس اسلام آباد میں آبپارہ میں واقع ہیں ۔ ایسے ہی ایک مقام پر بہت سے بچے ڈھیر میں سے کپڑے تلاش کر رہے تھے۔ ایک بچی نے کہا کہ اس کو کچھ نہیں ملا۔ ایک بچہ ہنستےہوئے بولا کہ اس کو ایک جیکٹ مل گئی لیکن وہ اسے چھوٹی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کو یہ کپڑے پسند نہیں ہیں اور یہ سارے بچے کھلکھلاتے ہوئے بیک آواز بولے کہ یہ لنڈا بازار ہے۔ ایک فلیٹ میں مقیم مظفرآباد کے رہائشی ہلال پیرزادہ کا کہنا ہے کہ یہ کپڑے پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بھیجے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑی خوبصورتی سے پیک کیے گئے تھے لیکن جب ان کو کھولا گیا تو اندر سے پھٹے پرانے کپڑے نکلے جو بالکل ناکارہ اور ناقابل استعمال تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری اس مشکل حالات میں بھی اس سے کئی بہتر چیزیں عطیے میں دے سکتے ہیں۔ لگ بھگ تین سو فلیٹس میں کچھ دنوں سے مقیم چھ سات سو خاندان خاصی مشکل زندگی گذار رہے ہیں۔ ایک فلیٹ میں مقیم مظفرآباد کی خاتون نبیلہ حبیب کا کہنا ہے کہ ان کے تین خاندان دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے ہیں اور گزر اوقات کر رہے ہیں۔ یہ زندگی نہیں ہے۔ 'کہاں اپنا گھر اور گھر کا آرام اور کہاں یہ'۔ انہوں نے جذباتی ہو کر کہا کہ ان کے پرانے گھر کا سٹور ان کمروں سے بہتر تھا جس میں وہ اب سوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'ہم دوسروں کے محتاج ہوگئے ہیں کہ وہ کھانا لائیں گے اور ہم کھائیں گے جب ہمیں شاپر میں پیک کرکے کھانا دیا جاتا ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے پہلے ہم روتے ہیں پھر کھاتے ہیں۔ ہماری عزت نفس مجروح ہورہی ہے ۔ہمیں ساری رات نیند نہیں آتی ہے ہمیں کوئی سکون نہیں ہے'۔ انہوں نے کہا کہ وہ پیر کو بچوں کی کچھ چیزیں خریدنے کے لیے بازار گئی تو وہاں دوکانیں دیکھ کر انہیں اس لیے رونا آرہا تھا کہ کبھی وہ بھی ایسی ہی دوکانوں کے مالک تھے۔
نبیلہ کا کہنا تھا کہ یہاں کے لوگوں نے ان کی بہت مدد کی لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنے شہر میں عزت سے اور ٹھاٹھ سے رہتے تھے لیکن ہم یہاں چوروں کی طرح رہ رہے ہیں'۔
ان فلیٹس میں رہنے والے بےگھر کشمیری اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ۔
آصفہ جو پیشے کے اعتبار سے ایک استاد ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے اچھے سکولوں میں پڑھتے تھے لیکن یہاں بچوں کو کوئی سہولت نہیں ہے۔ اب بچوں کا مستقبل کیا ہے، وہ خود گریڈ سولہ کی ملازم ہیں ان کا مستقبل کیا ہے۔ ان کی بہنوں کا کیا مستقبل ہے ۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے وہ سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ آصفہ تین بچوں کی ماہ ہیں اور ان کا تعلق بھی مظفرآباد سے ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کب تک وہ اپنے بچوں کو خشک بسکٹ اور ٹھنڈا دودھ دیں گے۔ اس سے بچے بیمار ہوجائیں گے جو آدھے بچے بچ گئے ان کو تو نہ ماریں۔
پروفیسر عبدالمجید کا تعلق بھی مظفرآباد سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ان فلیٹوں میں بجلی، پانی اور گیس میسر نہیں ہے جبکہ یہاں تینوں کے کنکشن پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی حکومتی اہلکار نہیں آیا البتہ ان کا کہنا تھا کہ ان کے لوگوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر سے ملاقات کرکے انہیں اپنی مشکلات سے آگاہ کیا تھا اور انھوں نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مسائل حل کریں گے لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔
حکومت نے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں امدادی کام شروع کیا ہے لیکن یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ خاندان کتنے عرصے تک مشکلات کا شکار رہیں گے اور کب ان کی معمول کی زندگی بحال ہوگی۔

لین دین

سورۃ 17 بنی اسرآءیل آیۃ 35 ۔ پیمانے سے دو تو پورا بھر کے دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو ۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی بہتر ہے ۔
۔
سورۃ 61 الصف آیۃ 2 اور 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہر ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔

Tuesday, October 18, 2005

ایک خبر

امریکہ نے 20000 خیمے پاکستان روانہ کر دیئے ہیں ۔ ان میں 5000 سے زائد خیمے ایسے ہیں جن پر Made in Pakistan لکھا ہوا ہے ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ خیمے لاہور میں بنے ہوۓ ہیں اور امریکی فوچ کو فروخت کئے گئے تھے ۔

امدادی کاروائیاں ۔ باتیں ادھر ادھر کی

سب سے پہلے ذکر وزیراعظم شوکت عزیز صاحب کے ایک مستحسن اعلان کا " جن متاءثرہ بچوں کے قانونی وارثین نہ مل سکے ان کی پرورش حکومت کرے گی ۔ کسی کو بچہ گود لینے کی اجازت نہ ہو گی" ۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمس) سے ایک بچی کے اغواء کی کوشش کے بعد یہ فیصلہ ضروری تھا ۔ یہ اغواء کی کوشش ایک خاتون رضاکار نے ناکام بنا دی تھی جس میں رضاکار زخمی بھی ہوگئی ۔ خیموں اور کمبلوں کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے جو کہ ہزاروں کی تعداد میں مطلوب ہیں ۔ پاکستان میں خیمے بنانے کی استداد ہہت ہی کم ہے اس لئے ہنگامی بنیاد پر غیر ممالک سے درآمد ضروری ہے ۔ پہاڑوں پر برف باری کی وجہ سے متاءثرہ علاقوں میں بہت سردی ہو گئی ہے ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی سردی ہو گئی ہے ۔ اس لئے خیمے سرد موسم کے لئے موزوں ہونے چاہیئں اور ان میں بارش کے پانی کو روکنے کی صلاحیت ہونا بھی ضروری ہے ۔ یہاں کلک کر کے خیمہ کا نمونہ ملاحظہ کیجئے عوام کی سطح پر اللہ کے فضل سے ہر پاکستانی اس موقع پر اپنی کی سی ہر کوشش اور مدد متاءثرین کے لئے کر رہا ہے ۔ اعلی سطح پر مناسب پلاننگ اور کوآرڈینیشن نہ ہونے کے باعث عوام کی محنت کا کچھ حصہ ضائع ہو رہا ہے ۔ غیر ملکی رضاکاروں کے علاوہ وہ لوگ جن کو روشن خیال لوگ نفرت سے ملّا یا جہادی کہتے ہیں مربوط طریقہ سے جانفشانی سے کام کر رہے ہیں ۔ ان کے کچھ رضاکار بند راستوں کی پروہ نہ کرتے ہوۓ ملبہ ہٹانے کا سامان کندھوں پر اٹھا کر کئی کئی میل پیدل چل کر متاءثرہ علاقوں میں پہلے ہی دن یعنی 8 اکتوبر کو پہنچ گئے تھے ۔ کراچی سے ہمارے بلاگر ساتھی اعجاز آسی بھر پور خدمت کے جذبہ کے ساتھ تین دن سے اسلام آباد پہنچے ہوۓ ہیں کل سارا دن وہ پمس میں رہے جہاں مریضوں یا متاءثرین کا مربوط ریکارڈ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ ان کی کوشش ہے کہ ایک مربوط کمپیوٹرازڈ ڈاٹا بیس قائم کی جاۓ ۔ ماہرین حضرات ان کی مدد کر کے قومی جذبہ کا اظہار کریں اور ثواب بھی کمائیں ۔ ان کا ٹیلیفون نمبر ہے 03002627033 کچھ ناپسندیدہ واقعات دکانوں اور امدادی سامان کے ٹرک کو لوٹنے کے ہوۓ تھے ۔ اسے روکنے کے لئے کچھ مقامی نوجوان متحرک ہوۓ اور حکومتی ادارے نے خفیہ تفتیش شروع کی جس کے نتیجہ میں پتہ چلا کہ دکان لوٹنے والوں میں سے کوئی مقامی نہیں تھا اور ٹرک لوٹنے کا بندوبست بھی ایک غیر مقامی شریف نما بد قماش آدمی نے کیا تھا اور دیکھا دیکھی پانچ دن سے بھوکے پیاسے چند متاءثرین نے ان کی پیروی کی ۔ اس بدقماش بارسوخ شخص کو گرفتار کر کے اس کے گودام سے لوٹا ہوا کافی مال برآمد کر لیا گیا ہے ۔ یہ شخص اس کے علاوہ ہے جو چند دن قبل کراچی میں پکڑا گیا تھا ۔ دیگر اب مجاہدین جن کو کچھ لوگ جہادی کہتے ہیں امدادی سامان لانے والے ان ٹرکوں کی حفاظت کر رہے ہیں جن کے ساتھ ان کا اپنا حفاظتی دستہ نہیں ہوتا ایک ادارہ بنام بالی فاؤنڈیشن نے اسلام آباد سپورٹس کمپلیکس میں امدادی ہسپتال بنایا ہوا ہے ۔ مرکزی حکومت نے پمس اور فیڈرل ایجوکیشن بورڈ کے قریب عارضی ہسپتال قائم کئے ہوۓ ہیں اور اب ایک خیمہ بستی ایچ 10 میں جلد بنانے کا منصوبہ ہے ۔ راولپنڈی میں حکومت پنجاب کے تین ہسپتال ہیں جن میں امدادی کام زور شور سے ہو رہا ہے ۔ کل تک صرف ایک ہسپتال (ڈی ایچ کیو) میں 550 زخمی متاءثرین آۓ جن میں سے 284 زیر علاج ہیں باقیوں کو دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ۔ اتوار کو دو لڑکے نو اور سات سالہ خود ہی اپنے مکان کے ملبہ کے نیچے سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور پہاڑوں سے پیدل چلتے ایک فوجی کیمپ پر پہنچ کر بتایا کہ ان کی ایک گیارہ سالہ پولیو زدہ بہن ملبہ کے نیچے دبی ہوئی ہے اسے نکالا چاۓ ۔ فوجی ان لڑکوں کے ساتھ گئے اور لڑکی کو نکالا تو وہ زندہ تھی ۔ بالا کوٹ کے قریب ایک پہاڑ پر زلزلہ کے 9 دن بعد ملبہ کے نیچے سے ایک 6 سالہ لڑکی زندہ مگر بیہوش برآمد ہوئی ۔ وہ گرنے والی الماری کے نیچے ایک خانہ میں آ گئی تھی ۔

Monday, October 17, 2005

- زلزلہ سے متاءثرہ افراد کے متعلق معلومات Information Exchane Quake Affected People

زلزلہ سے متاءثرہ علاقے کے گم شدہ اور باز یافتہ افراد کے متعلق معلومات حاصل کرنے یا بہم پہنچانے کے لئے نیچے دیئے ہوۓ لنک پر کلک کیجئے یا اپنے کمپویٹر کے براؤزر میں مندرج ذیل لکھ کر ویب سائٹ کھولئے ۔ ۔ ۔ وساطت : اعجاز آسی http://missingpersons.dsl.net.pk/
سب سے درخواست ہے کہ یہ اطلاع اپنے تمام جاننے والوں تک پہنچائیے
Please click on the URL above to see or record information about people affected by Earth Quake. You can also do it by writing above URL in your browser window. . . Courtesy: Ejaz Asi Please inform as many people as possible

انصاف ۔گواہی

سورۃ 2 البقرۃ آیۃ 42 ۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو ۔ سورۃ 4 النّسآء آیۃ 58 ۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔ اللہ تم کو نہائت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے ۔ سورۃ 4 النّسآء آیۃ 135 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے ۔ لہذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ۔

Saturday, October 15, 2005

Record October, 2005 Earth Quakes

Record of earth quakes, of intensity over 4 on Richter Scale, that jolted Azad Jammu Kashmir and Northern Pakistan. Up to intensity 4 were in hundreds MAG -- DATE ---- Pak Time --- LAT ---- LON - Depth ---------- y/m/d ------ h : m : s ---- deg ----- deg ---- km 5.0 - 2005/10/15 - 00:37:42 - 34.830 - 73.101 - 10.0 4.9 - 2005/10/14 - 09:04:48 - 34.599 - 73.233 - 10.0 4.1 - 2005/10/14 - 04:25:05 - 34.393 - 73.636 - 10.0 4.9 - 2005/10/14 - 03:53:04 - 34.806 - 73.302 - 10.0 5.3 - 2005/10/14 - 01:49:23 - 34.684 - 73.153 - 10.0 4.8 - 2005/10/14 - 01:23:03 - 34.821 - 73.203 - 10.0 4.4 - 2005/10/13 - 23:46:49 - 34.724 - 72.995 - 10.0 4.4 - 2005/10/13 - 22:08:46 - 34.629 - 73.454 - 10.0 4.6 - 2005/10/13 - 16:19:14 - 34.582 - 73.355 - 10.0 5.4 - 2005/10/13 - 01:23:38 - 34.882 - 73.102 - 10.0 4.5 - 2005/10/11 - 22:35:50 - 34.918 - 73.392 - 10.0 4.5 - 2005/10/10 - 18:28:17 - 34.534 - 73.400 - 10.0 4.6 - 2005/10/10 - 17:43:01 - 34.541 - 72.943 - 10.0 5.0 - 2005/10/10 - 17:38:12 - 34.735 - 73.072 - 10.0 4.6 - 2005/10/10 - 16:25:30 - 35.167 - 73.314 - 76.8 4.8 - 2005/10/10 - 15:49:06 - 34.799 - 73.725 - 10.0 4.8 - 2005/10/10 - 15:36:21 - 34.648 - 73.374 - 10.0 4.2 - 2005/10/10 - 11:54:32 - 34.729 - 73.761 - 10.0 4.8 - 2005/10/10 - 11:01:59 - 34.487 - 73.992 - 10.0 4.6 - 2005/10/10 - 07:48:43 - 34.437 - 73.460 - 10.0 4.4 - 2005/10/10 - 03:37:53 - 34.240 - 73.849 - 10.0 5.1 - 2005/10/10 - 00:47:01 - 34.696 - 73.006 - 10.0 5.4 - 2005/10/10 - 00:20:37 - 34.316 - 73.746 - 10.0 4.6 - 2005/10/09 - 23:28:19 - 34.258 - 73.619 - 10.0 5.0 - 2005/10/09 - 19:56:48 - 34.750 - 73.399 - 10.0 4.7 - 2005/10/09 - 18:35:00 - 34.820 - 73.481 - 10.0 5.1 - 2005/10/09 - 17:38:14 - 34.794 - 73.168 - 10.0 4.7 - 2005/10/09 - 16:30:43 - 34.405 - 73.849 - 10.0 5.0 - 2005/10/09 - 16:21:44 - 34.677 - 73.174 - 10.0 4.8 - 2005/10/09 - 14:26:36 - 34.489 - 73.268 - 10.0 4.9 - 2005/10/09 - 14:22:33 - 34.540 - 73.415 - 10.0 4.7 - 2005/10/09 - 13:58:48 - 34.703 - 73.229 - 10.0 5.7 - 2005/10/09 - 13:30:01 - 34.602 - 73.201 - 7.0 5.4 - 2005/10/09 - 12:09:19 - 34.572 - 73.180 - 10.0 5.1 - 2005/10/09 - 09:58:55 - 34.655 - 73.062 - 10.0 4.8 - 2005/10/09 - 09:49:28 - 34.697 - 73.291 - 10.0 4.4 - 2005/10/09 - 09:17:41 - 34.456 - 73.042 - 10.0 4.0 - 2005/10/09 - 08:21:33 - 34.654 - 73.393 - 10.0 4.5 - 2005/10/09 - 07:28:55 - 34.554 - 73.547 - 10.0 4.7 - 2005/10/09 - 06:26:03 - 34.631 - 73.306 - 10.0 4.9 - 2005/10/09 - 06:12:29 - 34.699 - 73.174 - 10.0 5.4 - 2005/10/09 - 02:45:10 - 34.684 - 73.219 - 10.0 5.7 - 2005/10/09 - 02:13:32 - 34.694 - 73.159 - 10.0 4.7 - 2005/10/09 - 20:16:34 - 34.607 - 73.371 - 10.0 5.0 - 2005/10/09 - 00:08:01 - 34.754 - 73.266 - 10.0 4.3 - 2005/10/08 - 22:53:10 - 34.706 - 73.403 - 10.0 4.5 - 2005/10/08 - 20:23:00 - 35.627 - 73.956 - 107.2 5.1 - 2005/10/08 - 18:46:01 - 34.611 - 73.161 - 10.0 5.3 - 2005/10/08 - 17:44:52 - 34.733 - 73.209 - 10.0 5.7 - 2005/10/08 - 17:25:22 - 34.785 - 73.141 - 20.3 5.7 - 2005/10/08 - 17:08:28 - 34.568 - 73.177 - 10.0 5.5 - 2005/10/08 - 16:33:34 - 34.702 - 73.173 - 10.0 5.3 - 2005/10/08 - 16:28:42 - 34.641 - 73.272 - 10.0 6.4 - 2005/10/08 - 15:46:29 - 34.735 - 73.149 - 10.0 4.8 - 2005/10/08 - 15:31:34 - 34.260 - 73.687 - 10.0 5.1 - 2005/10/08 - 15:16:58 - 34.706 - 73.069 - 10.0 5.0 - 2005/10/08 - 14:36:51 - 34.228 - 73.946 - 10.0 5.2 - 2005/10/08 - 14:01:55 - 34.601 - 73.234 - 10.0 5.2 - 2005/10/08 - 13:21:52 - 34.748 - 73.187 - 10.0 4.8 - 2005/10/08 - 12:57:00 - 34.490 - 73.310 - 10.0 4.7 - 2005/10/08 - 12:37:21 - 34.744 - 73.015 - 10.0 4.7 - 2005/10/08 - 12:32:00 - 34.614 - 73.248 - 10.0 5.4 - 2005/10/08 - 11:42:31 - 34.621 - 73.523 - 10.0 5.5 - 2005/10/08 - 11:15:24 - 34.508 - 73.399 - 10.0 4.8 - 2005/10/08 - 11:05:33 - 34.636 - 73.431 - 10.0 5.0 - 2005/10/08 - 10:34:53 - 34.222 - 73.586 - 10.0 5.7 - 2005/10/08 - 10:26:05 - 34.752 - 73.155 - 10.0 5.6 - 2005/10/08 - 10:19:48 - 34.699 - 73.137 - 10.0 5.5 - 2005/10/08 - 10:08:41 - 34.681 - 73.280 - 10.0 5.8 - 2005/10/08 - 09:26:11 - 34.643 - 73.152 - 10.0 5.7 - 2005/10/08 - 09:02:24 - 34.483 - 73.245 - 10.0 7.6 - 2005/10/08 - 08:50:41 - 34.493 - 73.629 - 26.0

یا اللہ خیر

ميری لائبریری یا مطالعہ کا کمرہ دوسری منزل پر گھر کے شمال میں ہے ۔ میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہوۓ داہنی طرف دیکھوں تو کھڑکی میں سے پہاڑ بالکل قریب نظر آتے ہیں جو کہ دراصل دو ڈھائی کلومیٹر کے فاصلہ پر ہیں ۔ پہاڑ کی جانب سے گہرے بادل ہمارے گھر کے اوپر پہنچ چکے ہیں اور تیز یخ بستہ ہواؤں نے مجھے کھڑکیاں بند کرنے پر مجبور کر دیا ۔ یہ عمل آدھ گھینٹہ پہلے سوا سات بجے شروع ہوا ۔ کھڑیاں ہوا کے زور سے کانپ رہی ہیں اور سائیں سائیں کی آوازیں آرہی ہیں ۔ پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ زلزلہ سے متاءثر علاقوں میں اس وقت یا تو طوفانی بارش ہو رہی ہو گی یا برف باری ۔ یا اللہ ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمارے گناہوں کی سزا زلزلہ سے متاءثرہ لوگوں کو نہ دے ۔ اے اللہ آپ تو رحیم و کریم ہو اور جانتے ہو کہ وہ لوگ پہلے ہی پریشان حال ہیں ان کے گناہ معاف فرما اور ان کو اپنی رحمت میں لے لے ۔ یہاں کلک کر کے پڑھئے کہ ہمارے ملا میں کیا ہو رہا ہے اور زیادہ اہم " زلزلہ میں بچ جانے والے کی خود نوشت"

Friday, October 14, 2005

اللہ تیری شان

مثل مشہور ہے کہ در نقارخانہ آواز طوطی چہ معنی دارد ۔ یعنی جہاں بگل باجے اور ڈھول بج رہے ہوں وہاں طوطے کی آواز کس کو سنائی دے گی ۔ لیکن جب پیدا کرنے والے کی نظر عنائت ہو جائے تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔ میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف ۔ 8 کی جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں وہ پارک روڈ پر واقع ہے ۔ اس مسجد میں کچھ بڑے بڑے لوگ یعنی وزیر ۔ رکن قومی اسمبلی ۔ فیڈرل جائنٹ سیکرٹری سے سیکرٹری تک ۔ کرنل سے جنرل تک اور بڑے تاجر نماز پڑھنے آتے ہیں ۔ افتخار احمد سروہی صاحب جو سابق نیول چیف اور جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیرمین رہ چکے ہیں میرے پہلو میں نماز پڑھتے ہیں ۔ جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں 11 اکتوبر کو میں نے فجر کی نماز کے بعد چیدہ حضرات کو روک کر عرض کی کہ امدادی کام کو آرگنائز کرنے کا بہترین طریقہ خیمہ بستیاں بنانا ہے اور اس کی تفصیلات بھی بیان کیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ بلا چوں و چرا سب نے اتفاق کیا ۔ میں جن تین اداروں کے لئے کام کر رہا ہوں ان میں جامعہ فریدیہ کے لوگوں نے اسی دن اپنے رضاکاروں کو خیمہ بستیاں بنانے کی ہدائت جاری کردی ۔ الھدی انٹرنیشنل اور ریڈ کریسنٹ والے ابھی تک سوچ رہے ہیں ۔ اللہ کی کرم نوازی دیکھئے کہ بات میرے ہم مسجد نے لمحوں میں ارباب اختیار تک پہنچا دی اور اسی شام خیمہ بستیاں بنانے کا فیصلہ ہوا ۔اگلے روز اسلام آباد سپورٹس کمپلیکس میں خیمہ بستی بنا کر وزیراعظم صاحب کی منظوری لے لی گئي ہے ۔ آئیے ہم سب مل کر دعا کریں کہ اس سکیم کو تیزی سے عملی جامہ پہنایا جاۓ ۔
سبحان اللہ و اللہ اکبر 12 اکتوبر کو مظفرآباد میں ملبہ کے نیچے دبے ہوۓ کچھ لوگوں کو نکالنے کے لئے سرنگ بنائی گئی تو غیر متوقع طور پر وہاں سے ایک پانچ سالہ بچی ہاتھ پاؤں پر چلتی باہر نکل آئی ۔ اس کے چچا جو وہاں موجود تھے انہيں معلوم نہیں تھا کہ ان کی بھتیجی اس جگہ ہو گی ۔ متاءثرہ علاقہ میں جہاں تیز بارش نے امدادی کاروائیوں میں خلل ڈالا اور بچ جانے والے متاءثرین کے لئے مشکلات پیدا کیں وہاں ۔ ۔ ۔ ایک 80 سالہ بزرگ کو جب ملبہ کے نیچے سے نکالا گیا تو وہ توقع کے خلاف کچھ تازہ دم نظر آۓ ۔ انہوں نے بتایا کہ بارش کا پانی دراڑ میں سے ٹپکتا رہا اور وہ پیتے رہے ۔

Thursday, October 13, 2005

رضا کار بھائیوں کے لئے مزید اہم معلومات

کچھ مشورہ کے لئے مجھے بلایا گیا تھا ۔ مشورہ کے بعد کچھ تشویشناک واقعات پر بھی غور ہوا ۔ متاءثرہ علاقوں سے اطلاعات ملی ہیں کہ کچھ لوگوں نے دکانوں کے دروازے توڑ کر اور گری ہوئی عمارتوں سے سامان چوری کیا ۔ چند افراد نے اپنی جسمانی طاقت کے بل بوتے پر ایک بار کی بجاۓ زیادہ بار امداد حاصل کر کے مستحقین کا حق مارا (ایک آدمی نے ازخود بتایا ہے کہ اس نے 5 خیمے حاصل کئے) ۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ امدادی سامان لانے والوں سے کچھ لوگوں نے زبردستی سامان چھینا ۔ چوری کرنے والوں کے متعلق تو جیو کے مظفرآباد میں موجود نمائندے نے بتایا ہے کہ وہ لوگ مقامی نہیں ہیں ۔ باقی لوگوں کے متعلق صحیح معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون ہیں ۔ جس شخص نے خود پانچ خیمے لینے کا بتایا ہے وہ متاءثرین میں سے ہے ۔ ان حالات کی روشنی میں بہتر ہے کہ خیمے لوگوں میں تقسیم کرنے کی بجاۓ خود نصب کئے جائیں اور ان میں متاءثرین کو بسا کر ان کی ضروریات پوری کی جائیں ۔ اس طرح امداد کا ضیا‏‏ع نہیں ہو گا اور زیادہ سے زیادہ متاءثرین مستفید ہوں گے ۔

رضاکار بھائیوں کی خدمت میں

کچھ بھائیوں کے پاکستان اور غیر ممالک سے متاءثرین زلزلہ کی امداد کے سلسلہ میں استفسارات موصول ہوۓ ہیں ۔ بلاگرز میں اعجاز آسی (یا عاصی) صاحب کا بھی رات ٹیلیفون آیا ۔ اس سے پہلے حارث بن خرم صاحب آن لائین مل گۓ اور انہرں نے بھی اسی سلسلہ میں استفسار کیا ۔ میں ان سب حضرات کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے مشورہ کے قابل سمجھا ۔ چنانچہ میں بلاگ میں اس سلسلہ میں اپنی معلومات درج کر رہا ہوں ۔ میری تمام قارئین سے درخواست ہے کہ اگر وہ میری تحریر سے متفق ہوں تر اس کو پورے شدومد کے ساتھ ہوا کی طرح ہر طرف پھیلا دیں پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر بھی ۔ صورت حال متاءثرہ علاقہ ہموار نہیں ہے بلکہ پہاڑوں پر واقع ہے ان علاقوں میں اکتوبر سردی کا مہینہ ہے ۔ گرمیوں میں بھی ان علاقوں میں سورج ڈھلتے ہی سردی ہو جاتی ہے ایسی سردی نہیں جیسے لاہور یا کراچی میں ہوتی ہے بلکہ حقیقی سردی ۔ سڑک پر چل رہے ہوں یا گلی میں کبھی چڑھائی چڑھ رہے ہوتے ہیں کبھی اتر رہے ہوتے ہیں ۔ مظفرآباد اور بالا کوٹ میں 80 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور جو بچ گئی ہیں وہ رہائش کے قابل نہیں ہیں ۔ راولا کوٹ اور باغ میں تقریبا تمام عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں ۔ مظفرآباد اور بالا کوٹ کے گرد و نواح کے علاقے مکمل تباہ ہو چکے ہیں ۔ متاءثرہ علاقہ کے ذی شعور حضرات کے مطابق 100000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ تعداد 150000 یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ابھی تک ملبہ کے نیچے دبے ہوۓ ہیں ۔ اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارہ کے مطابق 40 سے 50 لاکھ تک افراد متاءثر ہوۓ ہیں ۔ متاءثرہ افراد کھلے آسمان کے نیچے رہنے پر مجبور ہیں جبکہ سردی بڑھ رہی ہے ۔ بالاکوٹ کے پہاڑوں پر سیزن کی پہلی برفباری ہو چکی ہے جس نے سردی میں اضافہ کر دیا ہے ۔ سواۓ چند لوگوں کے جن کے پاس کچھ امداد پہنچ گئی ہے متاءثرین کے پاس وہی کپڑے ہیں جو انہوں نے زلزلہ کے وقت پہنے ہوۓ تھے ۔ نہ ان کے پاس کوئی برتن ہے ۔ نہ کھانا پکانے کا کوئی انتظام نہ سونے کا ۔ کھلے آسمان کے نیچے ننگی زمین پر ہی بیٹھتے اور لیٹتے ہیں اشیاء ضرورت خیمے ۔ پاکستان میں ختم ہو چکے ہیں پاکستان سے باہر رہنے والے ہموطنوں سے درخواست ہے کہ فوری طور پر خیمے بھجوائیں ۔ پی آئی اے سے بھجوائیے وہ ریلیف گڈز کا کرایہ نہیں لیں گے ۔ خیمے کم از کم ڈھائی تین لاکھ افراد کے لئے چاہیئں ۔ خیمے چھوٹے سائز کے ہوں مثلا پانچ افراد والے اور کم والے ۔ بڑے خیمے تیز ہواؤں کے سامنے ٹھہر نہیں سکیں گے ۔ کمبل ۔ رضائیاں ۔ گدیلے ۔ دریاں (بستر کے لئے اور زمین پر بچھا کر بیٹھنے کے لئے) ۔ تکئے چاہیئں ۔ کمبل اور رضائیوں کی بھی بہت قلّت ہے ۔ پاکستان سے باہر رہنے والے ہموطنوں سے درخواست ہے کہ فوری طور پر کمبل اور رضائیاں بھجوائیں سلے ہوۓ کپڑے ۔ شلوار قمیض ۔ سویٹر ۔ گرم کوٹ ۔ جرابیں ۔ گرم ٹوپیاں ۔ کچھ گرم پتلونیں اور جینز بھی بھیجی جا سکتی ہیں مگر بھاری اکثریت شلوار قمیض پہنتے ہیں خوراک ۔ آٹا ۔ چاول ۔ چینی ۔ نمک ۔ مرچ ۔ دالیں ۔ گھی ۔ پکانے کا تیل ۔ بسکٹ ۔ رس (پاپے) ۔ کھجوریں ۔ خشک دودھ ۔ وغیرہ دوائیں ۔ اینٹی بائیوٹکس ۔ پیناڈول ۔ پونسٹن ۔ پونسٹن فورٹ ۔ کھانسی نزلہ کی دوائیں جیسے بیناڈرل سرپ ۔ گلوکوز ڈرپ ۔ مرحم پٹی کا سامان ۔ مزید کسی تجربہ کار ڈاکٹر سے مشورہ کریں ۔ رضا کار بھائیوں کی خدمت میں رضاکار بھائیوں سے درخواست ہے کہ جو کچھ وہ جمع کر رہے ہیں اسے بھجوانے کے لئے اچھی طرح تسلّی کر لیں کہ امداد پوری کی پوری مستحقین تک پہنچ جاۓ گی ۔ جن اداروں کا میں خدمتگار ہوں انہوں نے امداد تقسیم کرنے کے لئے اپنے نمائندے متاءثرہ علاقوں میں بھیجے ہوۓ ہیں ۔ پھر بھی انہیں تسلّی نہیں ہو رہی تھی سو کل فیصلہ کیا گیا تھا کہ خیمے لیجا کر اپنے نمائندے ایک چھوثی خیمہ بستی بنائیں گے ۔اس میں گنجائش کے مطابق متاءثرین کو بسائیں گے اور ان کی تمام ضروریات پوری کرنے کی کوشش کريں ۔ ساتھ ہی دوسری خیمہ بستی شروع کرنے کی کوشش کی جاۓ گی اور یہ عمل جاری رکھنے کی کوشش کی جاۓ گی ۔ اللہ مدد فرماۓ اور اس نیک کام میں انہیں کامیابی عطا فرماۓ ۔ جو بھائی متاءثرہ علاقوں میں خود جا کر خدمت کرنا چاہتے ہیں وہ ضرور جائیں لیکن ذہن میں رہے کہ شکاری ہرن کے شکار کے لئے شیر سے مڈبھیڑ کی تیاری کر کے نکلتا ہے ۔ ہر رضاکار اپنے لئے خیمہ ۔ دری ۔ سلیپینگ بیگ ۔ گرم کپڑے ۔ مفلر ۔گرم ٹوپی ۔ بارش یا کیچڑ سے بیکار نہ ہونے والے بوٹ ۔ کھانے کا اور پکانے کا سامان ساتھ لے کر جائے ۔ وہاں مٹی کا تیل تو کیا ماچس بھی نہیں ملے گی ۔ بارش سے بچنے کے لئے رین کوٹ بھی چاہیئے ۔ چھتری نہیں چلے گی وہاں ہوائیں بہت تیز چلتی ہیں ۔ مزید جو مجھے یاد آۓ گا یا جو اطلاع موصول ہو گی میں لکھتا جاؤں گا ۔

Wednesday, October 12, 2005

صورت حال ۔ مزید اطلاعات ۔ امدادی کاروائی

راولاکوٹ شہر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے جبکہ بالاکوٹ ۔ باغ اور مظفرآباد کے ساتھ ساتھ درجنوں بستیوں کا نام و نشان مٹ گیا ہے ۔ امدادی کارروائیاں شروع ہوچکی ہیں اور کچھ افراد کو ملبے سے زندہ نکالا گیا ہے لیکن اب بھی سینکڑوں یا ہزاروں افراد ملبے میں دبے ہوئے ہیں۔ منگل کو بارش کے باعث بعض علاقوں میں امدادی کارروائی میں خلل آیا تھا اور کچھ سڑکیں بھی بند ہو گئی تھیں بالاکوٹ میں رات گئے برفباری سے سردی میں شدید اضافہ ہوگیا ۔ مظفرآباد کے برعکس جہاں لوگ کھانے اور پانی کا مطالبہ کرتے رہے بالاکوٹ میں لوگ کمبل اور ٹینٹ مانگ رہے ہیں ۔ متاثرہ لوگوں میں مایوسی اور حکومت کے خلاف غصے کے جذبات میں وقت گذرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ لوگ مسلسل چار راتیں تقریبا کھلے آسمان تلے گزار چکے ہیں اور پینے کے صاف پانی اور کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے ۔ ضلع باغ میں مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ وہ قبریں کھودتے اور لاشیں دفناتے تھک گئے ہیں گو ہلاک ہونے والوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا جا رہا ہے ۔ بیشتر مکانات، مساجد اور دکانیں تباہ ہوچکی ہیں اور شہر کے پانچ تعلیمی اداروں سمیت کئی منہدم عمارتوں اور مکانوں کے ملبے تلے سینکڑوں لوگ دبے ہوئے ہیں ۔ گرلز ڈگری کالج، گرلز ہائی سکول، سپرنگ فیلڈ سکول، پوسٹ گریجوئیٹ بوائز کالج اور بوائز پرائمری سکول کی زمین بوس عمارتوں میں ملبے تلے دبے طلبا اور طالبات کی لاشوں کی بو پھیلی ہوئی ہے ۔ کوہالہ پل سے باغ شہر تک سڑک کے دونوں کناروں پر بیشتر مکانات اور دکانیں منہدم ہوئی ہیں اور زلزلے سے بچے ہوئے مرد، خواتین اور بچے ملبے تلے اپنے پیاروں کی لاشین ڈھونڈ رہے ہیں ۔ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ مقامی شہری ملبہ ہاتھوں سے ہٹا رہے تھے ۔ قریب ہی سسکیاں لیتی تین بچیاں اپنی ماؤں کے ہمراہ کھڑی تھیں جنہوں نے بتایا کہ ڈیڑھ سو کے قریب بچیاں تین کلاسوں میں تھیں جس میں سے صرف پانچ بچیاں بچیں ہیں اور باقی ملبے تلے دبی ہیں۔ بالاکوٹ کاغان روڈ بری طرح تباہ ہوئی ہے اور اس کو کھولنے میں خاصا عرصہ لگ سکتا ہے۔ کاغان اور مضافات میں بڑی تباہی ہوئی ہے اور بچ جانے والے لوگ سو سے زیادہ کلو میٹر کا سفر پیدل طے کر کے بالا کوٹ پہنچ رہے ہیں ۔ ضلع مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے دور دراز کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں کے رہنے والے یا تو مر گئے یا زخمی اور بے گھر ہوگئے لیکن وہ اب تک مناسب توجہ حاصل نہیں کرسکے اور نہ ان جگہوں پر قابل ذکر امدادی کاروائیاں شروع ہوسکی ہیں ۔ صوبہ سرحد میں جو اضلاع متاثر ہوئے ہیں ان میں ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام اور کوہستان نمایاں ہیں۔ ان علاقوں میں متاثرہ افراد کی تعداد کا اندازہ تقریباً پانچ لاکھ لگایا گیا ہے۔ کچھ علاقوں کو جانے والی سڑکیں لینڈ سلائڈ سے بند ہیں اور کچھ کھول دی گئی ہیں ۔ مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے علاقوں الائی، پٹن، داسو، بٹل، شنکیاری، وادی کونش، وادی پکھل وادی سرن، وادی بھوگڑ منگ، کاغان، ناران، گڑھی دوپٹہ، گلیات اور سرکل بکوٹ میں شدید تباہی ہوئی ہے لیکن ان جگہوں پر امدادی کام شروع نہیں ہوسکا یا نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ایبٹ آباد کے علاقہ چہانگل گاؤں میں لڑکیوں کے ایک اسکول کی عمارت گرنے سے پچاس طالبات ہلاک ہوئی ہیں۔ وادی پکھل میں سینکڑوں کچے مکانات منہدم ہوگئے ہیں ۔ مانسہرہ ضلع میں ہزاروں کی تعداد میں مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں جن کی لاشیں گلنا سڑنا شروع ہوگئی ہیں اور جگہ جگہ بدبو پھیل رہی ہے۔ منگل کی صبح اسلام آباد سے مظفرآباد کے لیے امدادی سامان کے تیس ٹرک روانہ کیے گئے جس میں خیمے، سلیپنگ بیگ اور کمبل شامل تھے ۔ پیر کو بھیجا جانے والا امدادی سامان منگل کی صبح مظفرآباد پہنچ گیا تھا ۔متاثرہ علاقوں میں بڑی تعداد میں خوراک بھی روانہ کی گئی جبکہ بالاکوٹ کے لیے بھی کئی ٹرک روانہ کیے گئے ۔ اس کے علاوہ پینتالیس سے زائد ہیلی کاپٹر امدادی کاروائی میں حصہ لے رہے ہیں تاہم متاثرہ علاقوں میں ہموار زمین نہ ہونے کی وجہ سے یہ ہیلی کاپٹر یہ سامان اوپر سے گرا رہے ہیں ۔ نجی رفاہی اداروں کی امداد اس کے علاوہ ہے ۔ ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، راولپنڈی اور اسلام آباد کے تمام سرکاری اور نجی ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کی استعداد سے زیادہ مریض وہاں زیرعلاج ہیں۔ ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل کمپلکس میں خیموں میں مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے

Tuesday, October 11, 2005

ٹمٹماتی روشنی اور گٹاٹوپ اندھیرا

یوں لگتا ہے زلزلہ سے متاءثر آج ہماری ہر بہن ہر بھائی ہر بچہ ہماری طرف دونوں باہیں پھیلا کر کہہ رہا ہے ۔ کیا کہوں اے دنیا والو کیا ہوں میں دیکھ لو مجھ کو کہ تم جیسا ہوں میں جب مجھے تم نہیں پہچانتے غیر اپنے آپ کو لگتا ہوں میں
عجیب کیفیت ہے کہیں کوئی بچہ کوئی بہن کوئی بھائی ٹنوں ملبہ کے نیچے سے زندہ برآمد ہوتا ہے تو مایوسیوں کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں امید کی ایک کرن پھوٹتی ہے جو لمحہ بھر میں غائب ہو جاتی ہے اور پھر گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ امید و یاس کی اس فضا می نہ رات کو آرام نہ دن کو چین ۔ ہفتہ 8 اکتوبر سحری کے وقت سے اب تک میں کل دس گھنٹے آرام کر سکا ہوں ۔ کام کا حساب لگاتا ہوں تو سمندر میں ایک قطرہ محسوس ہوتا ہے ۔ گذشتہ رات اور اس پچھلی رات مرگلہ ٹاورز پر جذباتی صورت پیدا ہوئی ۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب ایک امدادی کارکن کو مدھم سی آواز سنائی دی "مجھے نکالو میں زندہ ہوں" ۔ وہاں ایک چھوٹا سوراخ کر کے ایک مائیک لٹکایا گیا تو صاف آواز سنائی دی "میں زندہ ہوں ۔ میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ مجھے نکالو" ۔ ملبہ میں ایک طرف سے سرنگ کھودی گئی جس میں دو تین گھنٹے بعد جب حماد نامی بائیس تیئس سالہ لڑکے کو باہر نکالا تو وہ بلند آواز میں اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا جا رہا تھا ۔ اس پر تمام امدادی کارکن اور اپنے عزیزون دوستوں کے نکلنے کی آس میں کھڑے لوگوں نے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا " نعرہء تکبیر ۔ اللہ اکبر" گذشتہ رات ایک عراقی خاتون اور اس کے شیر خوار بچے کو نکالا گیا تو لوگوں نے نعرے لگاۓ "برطانوی مددگار زندہ باد" عراقی عورت نے بتایا کہ "میں نے تو کچھ نہیں کھایا پیا لیکن میں اپنے بچے کو اپنا دودھ پلاتی رہی اور وہ کھیلتا رہا" ۔ سبحان اللہ ۔ اب تک وقفے وقفے سے جھٹکے محسوس کئے جا رہے ہیں ۔ آج دو بج کر دس منٹ پر ذرا تیز تھا ۔ آج تنبہہ کی گئی ہے کہ رات آٹھ اور بارہ بجے کے درمیان زلزلے کے تیز جھٹکے آ سکتے ہیں ۔ اللہ سب کو خیریت سے رکھے ۔ ہمارا مالی بتا رہا تھا کہ گاؤں پیر سوہاوہ میں جو مکان اس نے پچھلے سال بنایا تھا اس میں دراڑیں پڑ گئی ہیں اور اس کے بھائی کا مکان گر گیا ہے ۔ اس مکان کے لئے بیچارے نے بڑی مشکل سے پیسے اکٹھے کئے تھے اور خود بھی تعمیر میں حصہ لیا تھا ۔ اور کہہ رہا تھا کہ زلزلے کے بار بار جھٹکوں سے اس کی بیٹی اتنی ڈر گئی ہے کہ تین دن سے سوئی نہیں ہے اور ہر وقت دروازے میں کھڑی رہتی ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جہاں اتنی تباہی ہوئی ہے ۔ ہمارے ایک عزیز اسی سال اگست میں لیبیا گئے اور اپنے 16 سالہ بیٹے ذھیر اقبال کو اپنے بڑے بھائی کے پاس تعلیم کی خاطر چھوڑ گئے ۔ ہفتہ کے روز اس کی لاش مرگلہ ٹاورز کے ملبہ سے نکلی تھی ۔ انا للہ و انّا الہہ راجعون ۔ بعد میں اس کی تائی صاحبہ کو زخمی حالت میں نکالا گیا ۔ تایا صاحب کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں ۔ آج صبح اطلاع ملی کہ جن علاقوں میں اب جا سکتے ہیں وہاں بھی پینے کا پانی نہیں ہے اور لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں تو تین سے دس لیڑ کی بوتلوں میں پانی کا ایک ٹرک بھجوایا ۔ ہم اتوار سے کوشش کر رہے ہیں ابھی تک صرف 250 تھیلے آٹا اکٹھا ہوا ہے ۔ مل والے کہتے ہیں گندم نہیں مل رہی ۔ راولپنڈی سے کمبل اور رضائیاں اتوار کو جو ملیں اس کے بعد نہیں مل رہے ۔ بھنے چنے جتنے ملے لے لئے ۔کل 7 سے 10 من کا وعدہ ہے اس کے بعد پتہ نہيں ۔ چھوٹے چھوٹے اداروں کی پہنچ اتنی ہی ہوتی ہے ۔ لپٹن نے مشہوری کے لئے پیکٹ بناۓ تھے جس میں بسکٹ اور ایوری ڈے وائٹنر ہے وہ سب اٹھا لئے ۔ جوں ہی ایک ٹرک کے قابل سامان بنتا ہے بھیج دیا جاتا ہے ۔ آج دوپہر تک مظفرآباد جانے کا راستہ بذریعہ ایبٹ آباد تھا ۔ الحمدللہ مری والا راستہ بھی آج کھل گیا ہے ۔ اب دبے ہوؤں کو نکالنے کے لئے فوجی بھی کام کر رہے ہیں ۔ خوراک بھی کچھ پہنچنا شروع ہو گئی ہے ۔

ہاتھ جوڑ کر پاؤں پکڑ کر التجا کرتا ہوں

انّا للہ و انّا الہہ راجعون ۔ ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جانا ہے ۔ اللہ الرحمان الرحیم ہمارے گناہ معاف کرے اور ہماری مدد فرماۓ آمین ۔ مجھ سے شکائت تھی کہ میں کبھی خشک اور کبھی سخت تحاریر لکھتا ہوں ۔ سو میں نے نرم و ملائم اور خوشگوار لکھنے کی کوشش کی ۔ لیکن کیا کروں اپنے ارد گرد کے ماحول اور اس کے اثرات کا ۔ میں تین دن سے اپنے اوپر جبر کر کے چپ بیٹھا تھا ۔ آج فجر کی نماز کے بعد مسجد ہی میں وہ مصنوعی بند ٹوٹ گیا جو میں نے باندھا تھا ۔ قدرتی آفت سے جو کچھ ہوا اس پر آنکھیں برسات برساتی رہیں اور دل خون کے آنسو روتا رہا لیکن لب پر تالا ڈالے رکھا اب قدرتی آفات سے بچ جانے والے بہن بھائیوں اور بچوں کو آفت زدہ علاقہ سے دور بیٹھی اپنی قوم کی بیوقوفیوں کے باعث مرتے ہوۓ نہیں دیکھا جاتا ۔ رات بھر اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرتا رہا کہ میری ریڑھ کی ہڈی میں جو نقص اس سال جنوری میں پیدا ہوا اسے ٹھیک کر دے تا کہ میں اپنی کار میں جتنی خشک تیار خوراک بھر سکوں بھر لوں اور متاءثرین کو پہنچاؤں ۔ شائد میری وساطت سے چند انسانوں میں زندگی باقی رہے ۔ اسلام آباد سے لے کر کراچی تک سب (بمع ان اداروں کے جن کے لئے میں کام کر رہا ہوں) خیمے اور دوائیاں اکٹھی کر رہے ہیں ۔ شائد ایدھی ٹرسٹ کا کفن اکٹھے کرنا صحیح قدم ہے کیونکہ قدرتی آفات میں دب کے مرنے والوں کو تو کفن پہنانا فرض نہیں جب خدانخواستہ قدرتی آفات سے بچ جانے والے تین لاکھ افراد بھوک سے مر جائیں گے تو کفنوں کی ضرورت پڑے گی ۔ پیر مورخہ 10 اکتوبر کی شام تک آزاد جموں کشمیر کے متاثرین کو کچھ کھانے کے لئے نہیں ملا ۔ وہ سب ہفتہ 8 اکتوبر کی سحری کے بعد سے بھوکے ہیں اور ہم سب صرف امداد اکٹھا کرنے میں لگے ہیں اور بہت خوش ہیں کہ ڈھیر لگ گئے ہیں ۔ابھی تو امداد پہنچنے کی صرف باتیں ہی ہیں اگر یہ امداد پہنچ بھی گئی تو تین لاکھ متاثرین کے لئے اونٹ کے منہ میں ذیرہ سے بھی کم ہو گی ۔ میرے محترم و مکرم حضرات اور خواتین ۔ ابھی فوری طور پر رس (جنہیں کراچی میں پاپے کہتے ہیں) ۔ بسکٹ ۔ بھنے ہوۓ چنے ۔ کھجوریں ۔ خشک دودھ اور اسی طرح کی غذائی اشیاء فوری طور پر متاءثرہ علاقہ میں پہنچائیں ۔ اور آٹا ۔ چاول ۔ چینی ۔ گھی وغیرہ خریدنا شرو‏ع کردیں اور ساتھ وہ بھی بیجھیں ۔ میری سب سے درخواست ہے کہ میری اس التجا کو اپنی بنا کر اپنے تمام جاننے والوں تک پہنچا دیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالی آپ کی مدد فرماۓ آمین

Monday, October 10, 2005

سلوک ۔ برتاؤ

ہم رمضان کے مہینہ میں روزے رکھتے ہیں ۔ چاہے تنہا ہوں کچھ کھاتے پیتے نہیں اور نہ کوئی برا یا غلط کام کرتے ہیں صرف اس لئے کہ اللہ تعالی دیکھ رہے ہیں ۔ مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ باقی سارا سال ہمیں کیوں یاد نہیں رہتا کہ اللہ دیکھ رہے ہیں اس لئے برے یا غلط کام نہ کریں ؟ سورۃ 2 البقرۃ آیۃ 263 ۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو ۔ اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے ۔
۔
سورۃ 4 النّسآء آیۃ 36 ۔ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ۔ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ اور پڑوسی رشتہ دار سے ۔اجنبی ہمسایہ سے ۔ پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو ۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے ۔
۔
سورۃ 25 الفرقان آیۃ 68 ۔ جو اللہ کے سوا کسی اور کو معبود نہیں پکارتے ۔ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا ۔

Sunday, October 09, 2005

بلاگرز سے دست بستہ درخواست

آپ سب انسانیت کے علمبردار ہیں اور انسانیت کے حق میں بہت کچھ لکھتے رہتے ہیں ۔ آج آپ کے امتحان کا وقت ہے کہ آپ ثابت کریں کہ آپ حقیقی طور پر انسانیت دوست ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ واقعی انسان دوست ہیں ۔ آگے بڑھئیے اور اسے عملی طور پر ثابت کیجئے ۔ ہزاروں کی تعداد میں بچے بوڑھے جوان عورتیں اور مرد آزاد جموں کشمیر اور صوبہ سرحد میں بے خانماں پڑے ہیں ۔ نہ سر پر چھت ہے نہ ان کے پاس سردی سے بچنے کے لئے کپڑے ہیں اور نہ کچھ کھانے کو ہے ۔ عزیزوں کی اچانک موت کے ساتھ ساتھ ان کا سب کچھ تباہ ہو چکا ہے ۔ ان لوگوں نے 8 اکتوبر کی صبح سحری کھائی تھی اس کے بعد سے کچھ نہ کھایا نہ پیا ۔ کھائیں کہاں سے سب کچھ ملبے کے نیچے دب گیا ۔ اپنے گھروں کی الماریوں اور صندوقوں کی تلاشی لیجئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کا گذارا پانچ جوڑوں ۔ دو سویٹروں ۔ دو کوٹوں اور ایک کمبل یا رضائی سے ہو سکتا ہے مگر آپ کے پاس اس سے زیادہ یا بہت زیادہ چیزیں ہیں ۔ ان زائد کپڑوں ۔ کمبلوں اور رضائیوں کا اس سے بہتر کوئی استعمال نہیں کہ انہیں زلزلہ کے متاءثرین کو دے کر اپنی انسانیت کا ثبوت دیں اور ان کی دلی دعائیں بھی حاصل کریں ۔
جب آپ اپنے گھر سے سامان دے چکیں تو پھر اپنے رشتہ داروں ۔ دوستوں اور محلہ داروں کو اس نیک کام میں بھرپور حصہ لینے کی نہ صرف ترغیب دیں بلکہ ان سے کپڑے ۔ کمبل اور رضائیاں اکٹھے کر کے مناسب طریقہ سے متاءثرین تک پہنچانے کا بندوبست کیجئے ۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے رہائشی اس سلسہ میں مجھ سے ٹیلیفون نمبر 2252988 اور 03215102236 پر رابطہ کر سکتے ہیں ۔ میں سامان ان کے گھر سے اٹھانے کے لئے بھی تیار ہوں ۔ میں سامان پہنچانے والے کچھ با اعتماد اداروں کو جانتا ہوں

Friday, October 07, 2005

اسلام ۔ دین یا مذہب ؟

یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آ سکی کہ ہم اسلام کو مذہب کیوں کہتے ہیں ۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انگریزی کے لفظ religion کا ترجمہ کرتے ہیں ۔ قرآن الحکیم میں کہیں بھی اسلام کے ساتھ یا اس کے متعلق مذہب کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ سورۃ المائدہ کی آیہ 3 میں تو بالکل واضح ہے " آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔" صدق اللہ العظیم ۔ یہاں کلک کر نےکے بعد صفحہ 176 کھولیئے ۔ اسلام دین ہے ۔ لائحہء حیات یعنی زندگی گذارنے کا ایک دستور یا آئین ہے ۔ مذہب کا لفظ عربی زبان سے اردو میں آیا۔ اس کا مطلب فرقہ ہوتا ہے ۔ عربی زبان میں ایک مقولہ یا محاورہ ہے ۔ من تہذب خاءن ۔ یعنی جس نے تفرقہ ڈالا اس نے خیانت کی ۔ ایک کتاب پاکستان میں دستیاب ہے " کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ " تالیف ہے عبدالرحمان الجزیری کی جو جامعہ الازہر۔ مصر کے مایہء ناز عالم تھے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ تیئس سال پہلے شائع ہوا تھا۔ اس کتاب میں جو اربعہ مطلب چار مذہب یعنی فرقے ہیں وہ حنفی۔ شافعی۔ مالکی اور حنبلی ہیں ۔ جن اشخاص سے یہ مذہب منسلک کئے گئے ہیں وہ چار مجتہد ہیں امام ابو حنیفہ 80 تا 150 ہجری ۔ امام مالک 93 تا 179 ہجری ۔ امام شافعی 150 تا 204 ہجری اور امام احمد بن حنبل 164 تا 241 ہجری ۔ ۔ ان چاروں حضرات کی سوانح پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے وقت کے مطابق دین کی سمجھ بڑھانے کے لئے اجتہاد کیا ۔ ان کے ادوار میں مسلمان کسی خاص مذہب یعنی فرقہ کے پابند نہیں تھے اور نہ ہی ان کے علم میں تھا کہ ایسی کوئی شق ہے جس میں علماء اور ائمہ کرام کے استنباط اور اجتہاد کو حتمی حیثیت دے دی جائے ۔ جب تک مجتہدین نے اجتہاد کی حدود و قیود کی پابندی کی اس وقت تک اجتہاد باعث رحمت رہا اور اختلاف رائے میں رواداری حوصلہ اور درگذر کا پہلو غالب رہا اور مسلمان فقط دین اسلام پر کاربند رہے ۔ وسط چوتھی صدی ہجری یعنی امام ابو حنیفہ کی وفات کے دو صدی بعد تک اور امام احمد بن حنبل کی وفات کے ایک صدی بعد تک مسلمان دین پر صحیح طور سے کاربند رہے ۔ جب اجتہاد کی شرائط سے چشم پوشی شروع ہوئی تو مذہبیت یعنی فرقہ واریت بتدریج غالب آنا شروع ہو گئی اور تعصّب کے دور کا آغاز ہو گیا ۔ آج ہم ان گنت فرقوں میں بٹ کر دین سے بہت دور جاچکے ہیں ۔ ہم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ کو چھوڑ کر اپنے منتخب مرشدوں یا اماموں کے بتائے ہوئے یا شائد اپنی طرف سے ان کے نام سے منسوب کردہ اپنے بنائے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں جس کے نتیجہ میں نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ اہل مغرب نے دین کو چھوڑ کر انسانی آسائش کو اپنی زندگی کا دستور یا آئین بنا لیا اور ہر چیز کو اس طرز پر ڈھالا ۔ جس کے نتیجہ میں انہوں نے مادی ترقی کر کے زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کر لیں لیکن ساتھ ہی دین سے دور ہو جانے کے باعث اخلاقی پستیوں میں گھر گئے ۔ ہم نے دین کے علاوہ وطن کے ساتھ بھی غلو کیا ۔ ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ۔ ہمارے ملک میں قومی جھنڈے کی یہ عزت ہے کہ یوم آزادی پر اپنی دکانیں اور مکان سجاتے ہیں اس کے بعد قومی جھنڈے ہمیں سڑکوں یا کوڑے کے ڈھیروں پر پڑے نظر آتے ہیں ۔ ایک عام حکم نامہ ہے کہ جب قومی ترانہ بج رہا ہو تو با ادب کھڑے ہو جائیں مگر وہی کھڑے ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں ۔ میں امریکہ گیا ہوا تھا تو میرا بیٹا زکریا مجھے لیزر شو دکھانے سٹوں مؤنٹین لے گیا ۔ شو کے آخر میں امریکہ کا ترانہ بجایا گیا ۔ تمام امریکی مرد اور عورتیں اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ان میں سے بہت سے اسی لے کے ساتھ ترانہ گانے لگے اور ترانہ ختم ہونے پر گھروں کو روانہ ہوئے ۔ کاش ہم ان کی اچھی عادات اپناتے ۔

Thursday, October 06, 2005

وضاحت

شعیب صاحب ۔ شعیب صفدر صاحب ۔ ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب ۔ حارث بن خرم صاحب ۔ اور دیگر صاحبین و صاحبات اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ میرے نقل کردہ گانے پر آپ حضرات کا تبصرا دلچسپ ہے اور اس سے کئی ذی معنی اور منطقی سوالات ابھرے ہیں ۔ اس لئے میں نے جواب مین پوسٹ میں دینے کا فیصلہ کیا ۔ سبحان اللہ ۔ تعریف اس خدا کی جس نے مجھے اور آپ سب کو بنایا اگر کوئی شخص ہمیں ایک چھوٹا سا تحفہ بھی دے تو ہم تحفہ دینے والے احسانمند ہوتے ہیں اور موقع ملنے پر اسے بہتر تحفہ دیتے ہیں ۔ لیکن عجب بات ہے کہ جس نے ہمیں ان گنت تحائف دیئے اور آئے دن دیتا رہتا ہے اس کا ہم شکریہ بھی ادا نہیں کرتے ۔ " اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے" ۔ یہاں کلک کر کے پڑھیئے سورۃ 55 الرحمان اردو ترجمہ کے ساتھ صفحہ 931 سے 936 تک ۔ ماہ رمضان میں تلاوت کا کئی گنا ثواب کمائیے اور تلاوت کا لطف بھی اٹھائیے ۔ متذکّرہ گانے کی یاد مجھے دو باتوں نے کرائی ۔ اول ۔ ہم اندھا دھند اپنی پیاری زبانوں اردو پنجابی سندھی پشتو کشمیری سرائیکی کو روندتے ہوۓ انگریزی کے پیچھے سرپٹ بھاگ رہے ہے جس کا صحیح قانون قاعدہ ہی نہیں ۔ ہے کوئی ہم میں جو اپنے ملک کی سب زبانیں جانتا ہے ۔ شائد ایک بھی نہیں ۔ میں خود اپنے آپ کو اس سلسلہ میں مجرم گردانتا ہوں ۔ میں اردو اور پنجابی اچھی طرح جانتا ہوں ۔ سندھی پشتو کشمیری اور سرائیکی میں نے سیکھنے کی تھوڑی سی کوشش کی اور نتیجہ میں یہ زبانیں تھوڑی سی سمجھ لیتا ہوں ۔ (بلوچی کا ذکر میں نے نہیں کیا کیوں بلوچی بذات خود کوئی زبان نہیں ہے) دوم ۔ تین دہائیوں سے ہم لوگ تعلیم وتربیت حاصل کرنے کی طرف توجہ چھوڑ کر صرف کاغذ کے ٹکڑے (ڈگریاں) اکٹھا کرنے میں لگے ہوۓ ہیں ۔ اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ یہ کاغذ کے ٹکڑے بھی ہم اپنی دولت سے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شیخ سعدی نے فرمایا تھا کہ گدھے پر سو من کتابیں لاد دی جائیں پھر بھی وہ گدھا ہی رہتا ہے ۔ لیکن اگر کسی جانور کو بھی تربیت دی جاۓ تو وہ اچھے کام کرنے لگ جاتا ہے ۔ ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب نے ٹھیک لکھا ہے کہ ہمارے بہت سے لوگ اس لئے بے روزگار ہیں کہ انہوں نے امتحان پاس کر کے ڈگریاں لی ہیں تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں دی ۔ میں تو کہوں گا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت نہ ہونے اور ہماری پسماندگی کا سبب بھی یہی ہے ۔ اور اسی وجہ سے ہمیں اچھے اور برے میں تمیز نہیں ہے ۔ حارث بن خرم صاحب لکھتے ہیں ۔ "بالکل ہماری پڑھائی الٹی ہے۔ دراصل عوام دھوبی کے گدھے سے بھی گئی گزری ہے جو رات کو کم از کم گھر تو آ جاتا ہے ۔ حکمرانوں نے کم اور ہماری عادتوں اور ظلم، سہنے کی بری '''''خصلت'''' نے ہماری مت مار دی ہے۔"

Monday, October 03, 2005

پڑھائی

شائد چالیس سال یا اس سے بھی پہلے جب میں کبھی کبھی فلم دیکھ لیا کرتا تھا ۔ ویسے میرا حافظہ فلموں کے معاملہ میں بہت کمزور ہے ۔ ایک گانے کے کچھ بول یاد ہیں گانے والے کا اور لکھنے والے کا نام یاد نہیں ۔ جو سکندر نے پورس پہ کی تھی چڑھائی جو کی تھی چڑھائی تو میں کیا کروں جو کورو نے پانڈو سے کی ہاتھا پائی جو کی ہاتھا پائی تو میں کیا کروں بی یو ٹی بٹ ہے تو پی یو ٹی پوٹ ہے زمانے میں پڑھائی کا دستور الٹ ہے جو ہے الٹی پڑھائی تو میں کیا کروں