Wednesday, June 29, 2005

Sixth Sense or Telepathy ? چھٹی حس یا ٹیلی پیتھی ؟

آج سے پچیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اس وقت میں حکومت پاکستان کی طرف سے لیبیا کی حکومت کے ایڈوائزر (انڈسٹریل پلاننگ) کی حیثیت سے طرابلس میں متعین تھا۔ میرا چھوٹا بیٹا فوزی اس وقت سوا پانچ سال کا تھا۔26 جون 1980 بروز بدھ فوزی سکول سے واپس آیا تو کھانے پینے سے انکار کر دیا اور ایک کونے میں قالین پر بیٹھ کر آنسوؤں کے ساتھ رونا شروع کر دیا کہ میں نے پاکستان جانا ہے۔ اس وقت پاکستان میں لگ بھگ ساڑھے تین (پاکستان میں ساڑھے پانچ) بجے بعد دوپہر کا وقت تھا ۔ میں نے بہلانے کی کوشش میں کہا اچھا کل دفتر جا کر چھٹی لوں گا اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ لے کر آؤں گا پھر پاکستان چلیں گے۔ لیکن فوزی نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ میں نے ابھی اور اسی وقت پاکستان جانا ہے۔ ہر طریقہ سے بہلانے کی کوشش کی۔ اس کی مرغوب ترین ملک چاکلیٹ بار۔ میکنٹاش کوالٹی سٹریٹ کا ڈبہ۔ آٹومیٹڈ کھلونے۔ مگر کسی لالچ نے کوئی اثر نہ کیا۔ فوزی رات تک روتا رہا اور تھک کر سو گیا۔
اگلے دو دن سکول واپس سے آ کر پھر پاکستان جانے کا تقاضہ شروع ہو جاتا ۔ روتا بھی مگر زیادہ نہیں ۔ 29 جون کو میرے دفتر سے آتے ہی فوزی نے پہلے دن کی طرح متواتر رونا اور پاکستان جانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ہم میاں بیوی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ کیا کریں ۔ ہماری پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ فوزی نے کبھی زیادہ ضد نہیں کی تھی ۔ نہ ہی خاص روتا تھا اور ہماری بات مان بھی لیا کرتا تھا ۔
آخر 30 جون کو ہمیں دو تاریں اکٹھی ملیں۔ یہ میرے بہنوئی کی طرف سے تھیں۔ میری دو بہنیں پاکستاں میں تھیں باقی دو بہنیں لیکن ہم چاروں بھائی ملک سے باہر تھے۔ ایک تار 27 جون کی صبح کی تھی لکھا تھا ماں شدید بیمار ہے جلدی پہنچو۔ دوسری 29 جون کی تھی کہ والدہ فوت ہوگئیں ہیں جلدی پہنچو۔ کسی شخص کی بےوقوفی کی وجہ سے ہمیں یہ دونوں تاریں اکٹھی ملیں ۔ پاکستاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ بدھ 26 جون کو سوا پانچ ساڑھے پانچ کے درمیان میری والدہ محترمہ کر سٹروک یعنی برین ہیموریج ہوا تھا اور وہ کوما میں چلی گئیں تھیں اور 29 جون بعد دوپہر فوت ہوئیں ۔
اتنے چھوٹے بچے کے دل میں ہزاروں میل دور کس نے پاکستان جانے کا خیال ڈالا۔ اور کس چیز نے اس کو اتنا رلایا۔ اس سوال کا جواب آج کے بڑے سے بڑے سائنسدان کے پاس نہیں ہے ۔

Monday, June 27, 2005

مختاراں مائی کیس - آج سپریم کورٹ میں کیا ہوا

مختاراں مائی کے مقدمے کی سماعت کے پہلے روز اٹارنی جنرل آف پاکستان مخدوم علی خان نے مقدمے کی ابتدائی سماعت کے موقع پر بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ مفروضوں پر مبنی تھا۔ اور یہ کہ اجتماعی زیادتی کے واقعات میں صرف زیادتی کا شکار ہونے والی کا بیان ہی ان ملزمان کو سزا دینے کے لئے کافی ہوتا ہے۔
عدالت نے اب یہ کارروائی منگل کے روز تک کے لئے ملتوی کردی ہے۔

میرے وطن تیری جنّت میں آئیں گے اک دن

اردو بلاگز کے ایک عمدہ اور حقیقت پسند قلمکار کراچی کے " دانیال " کی فرمائش پر ذاتی تجربات اور مشاہدات پہلی بار منظر عام پر ۔ ایسے واقعات جو شائد آپ نے نہ پڑھے ہوں گے نہ سنے ہوں گے ۔ یہاں کلک کیجئے اور پڑھئیے ۔ ۔ ۔ میرے وطن تیری جنّت میں آئیں گے اک دن ۔
ہمارے ملک میں یہ رواج نہیں ہے مگر پھر بھی میں گوش گذار کر دوں کہ کچھ قسطوں میں ایسے واقعات کا اندراج ہوگا جس کو پڑھنے سے پہلے کمزور دل خواتین و حضرات کسی مقّوی القلب شربت کا گلاس اپنے پاس رکھ لیں تا کہ بوقت ضرورت کام آئے ۔

Sunday, June 26, 2005

ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ پانچویں قسط

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے 23-05-2005 11-06-2005 14-06-2005 20-06-2005 23-06-2005
.
اسلامی قوانین پورے اسلامی قوانین کا احاطہ کرنا تو میرے بس کی بات نہیں ۔ میں حدود آرڈیننس کے بھی صرف اس حصے پر اظہار خیال کروں گا جس کا تعلق خواتین کے ساتھ بدکاری سے ہے ۔ میں اپنی 23 مئی کی پوسٹ میں حدود آرڈیننس کے متعلق کچھ اظہار خیال کر چکا ہوں ۔ اس کے علاوہ میرے بیٹے زکریا نے اس پر دوسرے زاو یے سے بحث کی ہے ۔ اب میں اس سے آگے چلتے ہوئے اس کے ایک اور پہلو پر بات کروں گا ۔ اسلامی قوانین کے سلسلہ میں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ ان قوانین کا صحیح اطلاق اس وقت تک مشکل ہے جب تک ملک میں ایک رفاہی یا انصاف پسند حکومت قائم نہیں ہو جاتی ۔ جیسا کہ میں اپنی 23 مئی کی پوسٹ میں واضح کر چکا ہوں ۔ حدود آرڈیننس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس کے صحیح اطلاق میں نہ صرف دوسرے قوانین حائل ہیں بلکہ قانون کے نفاذ کا سارا نظام ہی چوپٹ ہے ۔ تفتیش کے دوران عورت کی جسمانی اور جذباتی کمزوری کا پورا فائدہ جابر یا ظالم کو دیا جاتا ہے اور ریپ کے کیس میں بھی عام طور پر عورت کو مجرم قرار دے دیا جاتا ہے اور یہ پولیس اور قانون دانوں کے شیطانی تعاون سے ہوتا ہے ۔ اسلامی قوانین سے واقفیت نہ رکھنے والے جبر و استبداد کو ختم کرنے کی بجائے اسلامی قوانین میں کیڑے نکالنا آسان سمجھتے ہوئے اسلامی قوانین کی مخالفت پر تل جاتے ہیں ۔ حدود آرڈیننس میں درج چار گواہیوں پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔ اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جیسا کہ میرے بیٹے زکریا نے لکھا ہے ۔ بدکاری کی سزا ایک سو کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا ہے ۔ اتنی سخت سزا کسی اور جرم کی نہیں ۔ اسلام میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہا گیا ہے ۔ قاتل کی سزا موت ہے اور اگر مقتول کے وارث از خود معاف کر دیں تو قاتل زندہ رہتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں سنگسار ہونے یا سو کوڑے کھانے والا جس اذیّت سے گذر کر مرتا ہے اس کا اندازہ لگائیے ۔ ہمارے موجودہ معاشرہ پر میں اپنی سابقہ پوسٹس میں روشنی ڈال چکا ہوں ۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جس طرح کا ہمارا معاشرہ بن گیا ہے اگر یہ پابندی نہ ہوتی تو خود غرض اور جابر مرد ۔ عورتوں پر جھوٹے الزامات لگا کر یا تو انہیں اپنی ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کا کھلونا بنا لیتے یا ان کا جینا مشکل کر دیتے ۔ جو کچھ آجکل کچھ علاقوں میں سردار یا وڈیرے کارو کاری یا مانی کے نام پر یا جرگوں کے فیصلوں سے کر رہے ہیں وہ کھلے عام ملک میں ہر جگہ ہونے لگتا ۔ باقی انشاء اللہ آئیندہ

Thursday, June 23, 2005

ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ چوتھی قسط

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے 23-05-2005 11-06-2005 14-06-2005 20-06-2005 بقیہ حکومت بے بس یا قانون پولیس کا نظام جو آج بھی رائج ہے اس لئے بنایا گیا تھا کہ پولیس کے ملازم سرداروں اور وڈیروں کے ٹکڑوں پر پلیں اور ان کی فرمابرداری کریں کیونکہ یہ سردار اور وڈیرے انگریز حاکموں کے خیر خواہ تھے۔ محب وطن اور دیانت دار لوگوں کے خلاف مخبری اور ان کو ایزا رسانی پولیس کے غیر تحریر شدہ فرائض میں شامل تھیں ۔ دیگر ہمارے ہاں واردات کی تفتیش کا جو طریقہ عملی طور پر رائج ہے وہ قانون سے آزاد اور انسانیت کا دشمن ہے ۔ تفتیش کرنے والا پولیس میں ہو یا فوج میں ۔ظلم و تشدّد اور شیطانی عمل سے اپنی مرضی کے بیان پر دستخط کروا لئے جاتے ہیں ۔ اس لئے کوئی شریف آدمی سچ کی حمائت کرتے ہوئے بھی ڈرتا ہے ۔ اسی کی بنا پر مجرم بھی بعد میں عدالت میں یہ بیان دے کر بچ جاتا ہے کہ تشدّد کے ذریعہ اس سے جھوٹے بیان پر دستخط کروائے گئے تھے ۔ مالدار اور بارسوخ لوگ جھوٹے گواہ خرید کر اور پولیس والوں کی جیبیں بھر کر نہ صرف خود جرم کی سزا سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ اپنے پالے ہوئے غنڈوں پر بھی گزند نہیں آنے دیتے ۔ تفتیش میں ایک اور بڑا نقص یہ ہے کہ عام طور پر یہ فیصلہ پہلے ہی کر لیا جاتا ہے کہ کس سے کیا بیان لینا ہے اور پھر اسے اس بیان کی ترغیب دی جاتی ہے اور نہ ماننے پر تشدّد کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہماری عدالتوں کے احاطہ کے اندر ہی پیشہ ور گواہ ملتے ہیں ۔ ان کی فیس گواہی کی نوعیت کے مطابق ہوتی ہے ۔ یہ فرضی گواہ اصل گواہوں سے زیادہ طمطراق کے ساتھ بیان دیتے ہیں ۔ کراچی میں ایک بزرگ ایم ایم احسن رہتے ہیں ۔ وہ کسی زمانہ میں انسپکٹر جنرل پولیس بھی رہے ۔ لکھتے ہیں ۔ پینتیس سال قبل کراچی ائرپورٹ پر پی آئی اے کے ایک ملازم نے بظاہر پولینڈ کے صدر کو گاڑی کے نیچے کچلنے کی کوشش کی لیکن قریب پہنچ کر گاڑی کا رخ بدل گیا اور دو استقبال کرنے والے گاڑی کی زد میں آگئے ۔ تفتیش پر ملزم نے بتایا کہ وہ پولینڈ کے صدر کو نہیں بلکہ اپنے صدر یحی خان کو اس کے غلط چال چلن کی وجہ سے مارنا چاہتا تھا۔ اتفا‍ق سے صدر یحی خان عین آخری وقت اسلام آباد میں رک گئے تھے ۔ ملزم جب تیز رفتار سے گاڑی چلاتا ہوا قریب پہنچا تو دیکھا کہ دو بچے پھول پیش کر رہے ہیں ۔ ان کو بچانے کے لئے گاڑی ایکدم موڑی تو وہ دو استقبال کرنے والوں سے ٹکرا گئی ۔ حکومت کی تسلی نہ ہوئی اور انکوائری ایک بریگیڈئر کے ذمہ کی گئی ۔ انکوائری کے بعد بریگیڈئر نے احسن صاحب کو بتایا کہ میں نے ملزم سے حقیقت اگلوا لی ہے اور ان کو ملنے کا کہا ۔ وہاں پہنچنے پر احسن صاحب کو دیکھتے ہی ملزم نے کہا ۔ جناب بات تو وہی ہے جو آپ کو بتائی تھی مگر بریگیڈئر صاحب کی مار پیٹ سے تنگ آ کر اور بالخصوص ان کی اس دھمکی کے خوف سے کہ اگر میں نے ان کے ساتھ تعاون نہ کیا تو وہ بر سرعام میری بیوی کو برہنہ کر دیں گے ۔ میں نے ان کی مرضی کے مطابق بیان دے دیا ہے ۔ ایک پولیس ملازمین کی کمزوری بھی ہے کہ پولیس کے نچلے عملہ کی تنخواہیں اتنی کم ہوتی ہیں کہ ان کے بیوی بچوں کے جائز اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے اس لئے بھی وہ سرداروں اور وڈیروں اور جرائم پیشہ لوگوں کے غلام بن جاتے ہیں کیونکہ وہ ان کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ جب یہ عادت پڑ جاتی ہے تو جہاں سردار اور وڈیرے نہیں وہاں پولیس والے شریف یا بے وسیلہ لوگوں کی کلائی مروڑ کر اپنا خرچ پورا کرتے ہیں۔ یہی حال پٹواری اور گرداور وغیرہ کا ہے ۔ موجودہ قوانین اور نفاذ کے موجودہ نظام (پولیس سسٹم) کی موجودگی میں پاکستانی عوام کو ظلم سے چھٹکارہ اور آزادي کیسے مل سکتی ہے ؟ باقی انشااللہ آئندہ

Wednesday, June 22, 2005

How to Increase per Capita Income ?

Excuse me for copying English in Urdu blog but this deserved it . A guide to some serious fun by Ansar Abbasi, The News, June 21, 2005 For example with no provision of Hyde Park, if you are caught shouting in abusive language you have to pay Rs 1,000. Going through these offences, one wonders if the law is meant for Pakistan or. . . Included in the eighth schedule of the local government ordinance, approved by the president and already implemented by three of the four provinces, many of these offences do not go with the ground realities. It is, however, said that the original local government ordinance, now amended, carries even imprisonment. The amended ordinance gives different district, Tehsil and town officials the responsibility of enforcing penalties in offences included in the eighth schedule of the ordinance. The following are the offences with their penalties: 1) Keeping pigeon or other birds causing danger to air traffic, Rs 500. 2) Kite flying in contravention of any general or specific prohibition, Rs 300. 3) Selling cattle and animals in contravention of local government law/rule, Rs 1,000. 4) Owner of an animal who through neglect or otherwise damages any land or crop etc, Rs 1,000. 5) Failure of a head of family to report the birth or death to a local government (LG), Rs 500. 6) Begging importunately for alms by exposing any deformity or disease or any offensive sore or wound to solicit charity, Rs 500. 7) Failure to lime-wash or repair a building if so required by LG, Rs 1,000. 8) Using or allowing the used building declared unfit by LG for human habitation, Rs 1,000. 9) Loud shouting in abusive language causing distress to others, Rs 1,000. 10) Loud playing of music or radio, beating or drum or tom-tom, blowing a horn or beating or sounding any brass or other instruments or utensils in violation of LG's prohibitions, Rs 1,000. 11) Exhibiting any obscene advertisement, Rs 1,000. 12) Fixing any bill, notice, poster etc on private or public place other than the place fixed for purpose by LG, Rs 1,000. 13) Defacing or disturbing any direction post, lamppost or lamp extinguishing or any light arrangement, Rs 1,000. 14) Feeding or allowing to be fed an animal meant for dairy or meat purposes, on deleterious substance, filth or refuse of any kind, which is dangerous to health of consumers, Rs 1,000. 15) Failure to keep in good condition troughs and pipes for receiving or carrying water or sullage water, Rs 1,000. 16) Failure to stop leakage of water pipes, faucets and sanitary fittings, Rs 1,000. 17) Failure to clean, repair, cover, fill up or drain off any private well, tank or other source of water supply, which is declared under this ordinance to be injurious to health or offensive to neighbourhood, Rs 1,000. 18) Failure to cut or trim the hedges growing thereon which overhang any well, tank or other source of water used by public, Rs 500. 19) Damage or polluting physical environment, inside or outside private or public premises endangering public health, Rs 2000 for public premises and Rs 500 for private premises. 20) Failure to clean the premises, houses, shops and cultivated lands of plastic bags and other perishable materials, Rs 500. 21) Failure to put in proper order any latrine, urinal drain, cesspool or other receptacle by an owner of a house, shop, office, industry or premises, Rs 2,000 for commercial concerns and Rs 500 for house. 22) Steeping hemp, jute or any other plant in or near pond or any other excavation near residential area, Rs 1,000. 23) Watering cattle or animals, or bathing or washing at or near a well or other source of drinking water, Rs 500. 24) Failure to maintain clean premises of the area in front of a shop, office of factory up to the public street or road serving this facility, Rs 1,000. 25) Failure to provide for disposal of litter or garbage inside or outside a shop, Rs 500. 26) Throwing or refusing any refuse in any place other than specified, Rs 500. 27) Failure to dispose of offal, fate or any organ of a dead animal, Rs 500. 28) Disposal of carcasses of animals within prohibited distance, Rs 500. 29) Causing or permitting animals to stray, Rs 500. 30) Picketing, parking animals or collecting carts or vehicles on any street. Rs 500. 31) Obstructing lawful seizure of animals, Rs 500 32) Failure to furnish information required by LG, Rs 300. 33) Burying or burning a dead body at a place other than registered burial or burning place, Rs 1,000. 34) Excavation of earth, stone or any other material from prohibited areas, Rs 1,000. 35) Connecting or altering any house drain with a drain in a public street or drawing off water without permission, Rs 1,000. 36) Obstructing or tampering with any main pipe, meter or any apparatus or appliances of the supply of water or sewerage system, Rs 1,000. 37) Obstructing or tampering with any road, street, drain or pavement, Rs 1,000. 38) Keeping ferocious dog or other animal in residential areas or taking such animals to public places without leash or chain or to set at large any animal or dog infected with rabies or any other infectious disease, Rs 200. 39) Keeping or maintaining any cattle in any part of the prohibited zone, Rs 500. 40) Without permission allowing the contents of any sink, sewer or cesspool or any other offensive matter to flow or drain or to be put upon any street or public place, Rs 2,000 in case of commercial concerns and Rs 500 for others. 41) Slaughtering of animals for sale of meat at a place other than the specified place, Rs 500. 42) Failure by the owner or occupied of any land to clear away and remove a vegetation declared to be injurious to health to neighbourhoods, Rs 500. 43) Fixing of wooden khokhas/temporary shops on footpaths or beyond the street line, Rs 1,000. 44) Plying of handcarts for the sale of goods without permission, Rs 1,000. 45) Neglect in safe storage of eatable, drinkable and other consumable items sold or supplied to the public, Rs 3,000 in case of large restaurants, hotels and shops, and Rs 500 for others. 46) Digging of public land without permission, Rs 1,000. 47) Contravention of the prohibition or direction of the local government issued under the ordinance, Rs 500.

Monday, June 20, 2005

ہمارا رویہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ تیسری قسط

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے
حکومت بے بس یا قانون
ہمارے ملک میں قتل و غارت گری بالخصوص کارو کاری کو روکنا اس لئے ممکن نہیں کہ ہمارے زیادہ تر قوانین غیر ملکی حاکم (انگریزوں) نے ہمیں کمزور کرنے اور اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے بنائے تھے ۔ یہ قوانین حکومت وقت کے بعد زیادہ تر ان لوگوں کی حمائت میں ہیں جن کو انگریزوں نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کی خاطر اپنی قوم یعنی ہندوستان کے باشندوں سے غدّاری کے عوض جاگیریں عطا کیں اور سردار یا وڈیرہ بنایا ۔ قانون با اختیار ہو تو بھی کچھ اچھا نتیجہ نکلے مگر یہاں تو صرف کتابوں میں ہے اس پر عمل درآمد کرانے کے لئے نہیں ۔ ان انسان دشمن نظام کو بدلنا اس لئے مشکل ہے کہ سردار اور وڈیرے یا ان کی اولاد یا عزیزواقارب ہر طرف ہیں ۔ اسمبلی ہو۔ سول سیکریٹیریئٹ ہو یا فوج ۔ ہر ادارہ کی فہرستیں بنا کے تحقیق کر لیجئے ہر جگہ آپ ان کو پائیں گے۔ دوسرا عنصر جس نے پاکستان بننے کے پانچ سال کے اندر ہی پاکستان کے عوام کو اصل آزادی سے محروم کرنے کی سازشیں شروع کر دیں تھیں وہ ہیں انڈین سول سروس (آئی سی ایس) کے تربیّت یافتہ آفیسران اور فوج کے اعلی آفیسرز جو قائداعظم اور پاکستان کی نسبت حکومت برطانیہ کے زیادہ وفادار تھے ۔ آج کی سول سروس کے آفیسران بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو حاکم اور عوام کو غلام سمجھتے ہی ہیں ۔ پاکستان بننے کے بعد سب سے سینئر دو مسلمان فوجی آفیسر جو محب وطن تھے وہ ایک ہوائی حادثہ میں ہلاک ہو گئے ۔ کہتے ہیں یہ حادثہ ایک سازش تھی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت برطانیہ کے دلدادہ ایوب خان فوج کے سربراہ بن گئے ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اور قائداعظم کے قریب ترین ساتھی لیاقت علی خان کو بھی ایک سازش کے تحت1951 میں ہلاک کر دیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین کو قائداعظم کے بعد گورنر جنرل بنایا گیا تھا ۔ حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے انہیں قوم کا واسطہ دے کر وزیراغظم بنا دیا اور پھر 1953 میں ان کی حکومت مع اسمبلی کے توڑ دی ۔ 1954 میں بیوروکیٹس (غلام محمد گورنر جنرل اور چوہدری محمد علی وزیراعظم) اور جنرل محمد ایوب خان (کمانڈر انچیف اور وزیر دفاع) کی چوہدراہٹ میں حکومت شروع ہوئی ۔ اپنی مرضی کے وزیر اعظم بنائے اور ہٹائے جاتے رہے ۔ غلام محمد کے بعد میجر جنرل ریٹائرڈ سکندر مرزا اور پھر 1958 میں جنرل محمد ایوب خان کی قیادت میں پکی فوجی حکومت آ گئی ۔ تمام سیاست دان جنہوں نے پاکستان بنانے کے لئے کام کیا تھا ان کو نا اہل قرار دے دیا گیا ۔ اپنی خواہشات کے مطابق سیاست دانوں کی نئی پنیری لگائی گئی ۔ جنرل دس دس سال حکومت کرتے رہے مگر انہوں نے اپنے تیار کردہ سیاست دانوں کو بھی دو تین سال سے زیادہ حکومت نہ کرنے دی ۔ اس طرح سارا وقت اپنے آپ کو مضبوط بنانے ۔ اپنی جائیدادیں بنانیں اور اپنی انڈسٹریاں قائم کرنے میں گذارتے رہے ۔ اس کے لئے جنہوں نے ان کا ساتھ دیا ان کو بھی مالامال کیا گیا ۔ ملک و قوم اور قوانین میں بہتری لانے کی کوئی کوشش کرنے کی بجائے قوانین کو ذاتی خواہشات کے مطابق ڈھالتے رہے ۔
باقی انشااللہ آئیندہ

شمعء زندگی

اپنی روح میں شمع جلا کے
اسے اندھیروں میں لے جاؤ
اگر لو گھٹتی ہو محسوس تمہیں
اسے خلوص کی چنگاری سے بڑھکاؤ
لو توصرف اس وقت بڑھے گی
جب اک شمع سے دوسری جلے گی
پھر اربوں جلتی ہوئی شمعیں
گھپ اندھیروں کو دھکیل دیں گی
رکھو بلند اپنی شمع کہ سب دیکھیں
لے کے چلو اسے ساحل سے ساحل
اور دنیا کو بھر دو آزادی کی روشنی سے
صرف آج نہیں ۔ ابد تک کے لئے

Friday, June 17, 2005

تبدیلی تبدیلی تبدیلی

خود بدلتے نہیں ۔ سب کچھ بدل دیتے ہیں میرے اہل وطن یہ کیا چارہ گری کرتے ہیں تبدیلی تبدیلی تبدیلی ۔ پچھلے پینتیس چالیس سال سے یہ گردان سنتا چلا آ رہا ہوں ۔ نتیجہ ۔ جتنی تبدیلی لائی گئی ہے اتنا ہی ملک اور قوم کا نقصان ہوا ۔ وجہ ۔ تبدیلی اس لئے لائی گئی کہ تبدیلی لانا تھی ۔ تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں لا لا کر تعلیم کو بے مقصد بنا دیا گیا ہے ۔ حکومتیں تبدیل کر کر کے ملک کو وحشیوں بھرا جنگل بنا دیا گیا ہے ۔ آئین میں تبدیلیاں کرتے کرتے ملک بے آئین ہو کے رہ گیا ہے ۔ آجکل تو تبدیلی نہیں تبدیلیوں پر زور ہے ۔ اللہ رحم کرے اس ملک پر اور ہم عوام پر ۔ اور ہاں ضیاء صاحب کیفے حقیقت والے کو بھی اردو میں تبدیلی کا شوق چرایا ہے ۔ ارے میاں ۔ ذ اور ز کو برداشت کر لیجئے ۔ پہلے ہی اردو کو شائد گنواروں یا ان پڑھوں کی زبان سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ معاندانہ سلوک کیا جاتا رہا ہے ۔ اردو میں تبدیلیاں کیں تو جو ٹوٹی پھوٹی اردو رہ گئی ہے وہ بھی دفن ہو جائے گی ۔ ترقّی چاہیئے تو ترقّی تبدیلی سے نہیں ہوتی بلکہ ترقّی از خود تبدیلی لاتی ہے ۔ اگر کچھ کرنا ہی ہے ترقّی کی کوشش کیجئے ۔ تبدیلیاں خود بخود آئیں گی ۔ اور ترقّی کے نتیجہ میں آنے والی تبدیلیاں صحت مند اور خوشگوار ہوں گی ۔ مگر ترقّی کے لئے بے غرض محنت کی ضرورت ہے ۔

Tuesday, June 14, 2005

ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ دوسری قسط

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے
مزید کارو کاری کے متعلق ڈاکٹر شاہد مسعود ایک آرتھو پیڈک سرجن ہیں اور اے آر وائی ٹی وی سے مختلف پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ ان کا ایک پروگرام ہے ویووز آن نیوز ۔ انہوں نے کارو کاری کے متعلق حقائق جمع کر کے اس پروگرام میں 22 ۔ 23 اور 24 جولائی 2004 کو حقائق پیش کئے تھے ۔ میں نے ان پروگراموں کی سکرپٹ کی آفیشل کاپی حاصل کی ہے اور اس میں سے چند اقتباس پیش کر رہا ہوں۔ بلوچستان کے مشہور سیاستدان اور قبائلی سردار اکبر بگٹی سے بات چیت۔ کارو کاری کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ۔ یہ ہمارے لئے اچھے رسم و رواج ہیں ۔ ہم اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔ ۔ ۔ ان رسموں سے تمام قبیلوں کی عزت برقرار رہتی ہے اور تمام قبیلے مل کر اس کی حمایت کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہاں عورت کو پتا ہے کہ کارو کاری کی سزا کیا ہے ۔ وہ خود اپنے آپ کو پھانسی کے پھندے پر لٹکاتی ہے ۔ یہ بھی اک باعزت طریقہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو ختم کر لیتی ہے بجائے اس کے کہ خاوند اس کو مارے یا بھائی اس کو مارے ۔ ڈی پی او سکھر غلام شبیر شاہ کہتے ہیں ۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم تو سیدھا سیدھا قتل کا کیس دائر کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ آگے چل کر عدالت میں کیس چلتا ہے تو جس قانون کے مطابق کیس چلتا ہے وہ قانون انگریز کا بنایا ہوا ہے جس سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ قبیلہ والے کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا یا کوئی بھی مرد جذ بات میں آ گیا تھا اسلئے اس نے یہ کام کیا کیونکہ اس نے اپنی عورت اور دوسرے مرد کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا جس کی وجہ سے وہ رہ نہ سکا اس نے یہ کام کر دیا۔ اندرون سندھ سے لالہ اسد پٹھان لکھتے ہیں ۔ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقہ کھچو کے گرد و نواح میں ایک قبرستان ہے جسے کاریوں کا قبرستان کہتے ہیں جو کہ دو ڈھائی سو سال پرانہ ہے اور اس میں سینکڑوں خواتیں بغیر کفن اور نماز جنازہ کے دفن کی گئی ہیں ۔ ۔ ۔ جس کی بیوی کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جائے تو اس کی بیوی کے گھر والے اس کو 75000 روپیہ بطور جرمانہ عطا کرتے ہیں اور اگر وہ ادا نہ کریں تو اس کی بیوی کے تمام گھر والے کارو کاری کے زمرے میں آتے ہیں اور لڑکے والے جس کو چاہیں مار سکتے ہیں ۔ اس رسم کے ذریعہ جو قتل کئے گئے ہیں ان میں خواتیں کی تعداد نوّے اور سو کے درمیان اور مردوں کی پندرہ اور بیس کے درمیان ہے۔ میری عمر اس وقت 35 سال ہے ۔ ۔ ۔ یہاں کے سردار بہت اچھے ہیں ۔ ایک دو وقت کی روٹی دے دیتے ہیں بس ہم اس پر خوش ہیں کیونکہ ہم ان کی رعایا ہیں اور کارو کاری کا فیصلہ سردار کرتے ہیں اور جب سزا دینی ہوتی ہے تو لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ اس قبیلے کے اتنے روپے اس قبیلے نے دینے ہیں اگر رقم ادا نہ کرے تو مرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ جنوبی بلوچستان میں ایک مقدمے کی تفتیش کرنے والے تحصیلدار نے بتایا کہ ایک شخص کو دوسری شادی کی خواہش تھی لیکن اس کی پہلی بیوی اجازت نہیں دے رہی تھی ۔ چنانچہ بیوی سے چھٹکارہ پانے کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا اور نزدیکی فیکٹری میں کام کرنے والے اپنے ایک جان پہچان والے شخص کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی ۔ مہمان جیسے ہی گھر میں داخل ہوا۔ اس نے مہمان اور اپنی بیوی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔ تحصیلدار کے مطابق قاتل اس لئے بچ جاتے ہیں کہ موقع کی کوئی شہادت عموما نہیں ہوتی اور یہ کام انتہائی اشتعال کی حالت میں ہوا ظاہر کیا جاتا ہے ۔ دریائے سندھ کےقریب رہنے والے لوگ کاری قرار دی گئی عورت کو قتل کر کے اس کی ناک کاٹ کر نعش دریا میں بہا دیتے ہیں تا کہ آگے چل کر کوئی اس کی کٹی ناک دیکھ کر سمجھ جائے کہ کاری ہے اور نعش دریا سے باہر نکال کر دفن نہ کرے ۔کاری کے قتل ہونے کے بعد کارو قرار دیئے گے مرد سے اچھی خاصی رقم لی جاتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بےگناہ شادی شدہ عورت قتل ہونے پر اس کے والدین خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیٹی کا نصیب ہی یہی تھا ۔ باقی انشااللہ آئندہ

Saturday, June 11, 2005

ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین

ہمارا رویّہ اول ۔ ہم نے بہت سے رسم و رواج کو اسلام کا نام دے دیا ہوا ہے اور ان رسم رواج کو ہم اللہ اور اس کے آخری نبی سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں جبکہ اسلام رسم و رواج کی مخالفت کرتا ہے اور انسان کو صرف اللہ اور اس کے آخری نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔
دوم ۔ اگر ہم نے کسی دنیاوی موضوع پر لکھنا ہوتا ہے یا کسی دنیاوی معاملہ پر تنقید کرنا ہوتی ہے تو پہلے اس موضوع یا معاملہ پر تحقیق کر کے مصدقہ مواد اکٹھا کرتے ہیں۔ اگر اس موضوع یا معاملہ پر کتاب یا کوئی تحریر موجود ہو تو اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں اور سب کچھ اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے بعد اس موضوع یا معاملہ پر لکھتے یا تنقید کرتے ہیں۔ لیکن اگر موضوع یا معاملہ دین اسلام کا ہو تو ہم پورے دین کو سمجھنے کی کوشش تو کجا۔ قرآن الحکیم کا ترجمہ اور تفسیر کو ایک دفعہ بھی پڑھے بغیر اسلام کے اصولوں پر تقریر اور دل کھول کر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارا یہ رویّہ کہاں تک منطقی اور جائز ہے۔ کبھی ہم نے سوچا اس کے متعلق ؟ رسم و رواج ہم نے بہت سے رسم و رواج غیر مسلموں یا اسلام کے دشمنوں سے اپنائے ہوئے ہیں۔ سب پر تھوڑا تھوڑا بھی لکھا جائے تو ایک کتاب بن جائے ۔میں اس وقت صرف کارو کاری کا مختصر ذکر کروں گا۔ کارو کے معنی کالا اور کاری کے معنی کالی ہے یعنی جس مرد یا عورت نے اپنا منہ کالا کیا۔ مطلب ہے بدکاری کی۔ یہ رواج زمانہ قدیم سے بلوچوں میں چلا آ رہا ہے اور جہاں جہاں بلوچ گئے اسے ساتھ لے گئے ۔ چنانچہ آجکل یہ رواج بلوچستان کے علاوہ سندھ۔ جنوبی پنجاب اور سرحد میں بھی پایا جاتا ہے۔انگریزوں نے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئےاس سرداری نظام کو قانونی تحفظ دیا۔ انگریز گورنر البرٹ سینڈیگن نے 1873 میں قبائل کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرتے ہوئے جن قبائلی رسم و رواج کو قانونی تحفظ دیا ان میں ایک کارو کاری بھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے باقی قوانین کی طرح یہ قانون بھی ابھی قائم ہو گا۔ ان قبیلوں میں قبیلہ کے سردار مطلق العنان حاکم ہوتے ہیں اور باقی لوگ محکوم غلامی کی حد تک ۔ سردار کے خاندان کا مرد جس عورت کو چاہے اپنی ناجائز خواہشات کا شکار بنائے اس پر کوئی قدغن نہیں مگر عام لوگوں میں کوئی سردار کی مرضی کے بغیر شادی بھی نہیں کر سکتا۔ سردار چاہے کسی کی بیٹی کو کسی اوباش یا بدمعاش سے بیاہ دے یا کسی بڈھے سے جس کے پوتے پوتیاں بھی ہوں۔ انکار کی صورت میں لڑکی کو کاری قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ سردار سے باقاعدہ اجازت کے بغیر کسی سے رشتہ کی بات کرنے پر کارو کاری قرار دے کر لڑکا لڑکی دونوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ سردار کا یہ حکم کسی حد تک سردار کے خاندان کی لڑکیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر سردار کے گھرانے کی لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے تو اسے کسی بہانہ سے قتل کر دیا جاتا۔ اگر وہ لڑکی کسی ماتحت لیکن شریف لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے جبکہ سردار مال یا زمیں کی خاطر اسے کسی بوڑھے یا بچے یا شرابی کبابی سے بیاہنا چاہتا ہے تو اس بےگناہ لڑکے کو کسی غریب بےگناہ لڑکی کے ساتھ کارو کاری قرار دے کر دونوں بے قصوروں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جن کو کارو یا کاری قرارن دیا جائے نہ ان کو غسل دیا جاتا ہے نہ کفن پہنایا جاتا ہے اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے ۔ یہی کھیل ہمارے پیارے ملک کے دوسرے علاقوں میں غیرت کے نام پر کھیلا جاتا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس ظلم کی بھینٹ چڑھنے والوں میں 70 لگ بھگ فیصد عورتیں یا لڑکیاں اور 30 فیصد مرد ہوتے ہیں۔ اب آج کے ایک ہی دن میں مختاراں مائی کے متعلق تین انکشافات پڑھئے۔
قانون بے بس یا حکومت اور اسلامی قوانین انشاء اللہ اگلی پوسث میں

Wednesday, June 08, 2005

آج کے دن ایک اعتراف

آج آٹھ جون ہے یعنی میری بیٹی کا یوم پیدائش ہے۔ میری ایک بیٹی ہے۔ ویسے تو سب ہی ایک ہیں یعنی میری ایک بیوی ہے۔ ایک بڑا بیٹا ہے زکریا اور ایک چھوٹا بیٹا ہے فوزی ۔ ٹھیک ہے نا ۔ ایک ایک ہی ہوئے نا ؟ (ہا ہا ہا) میری بیٹی کا نام ہے منیرہ ۔ یہ نام میری امی (اللہ غریق رحمت کرے) نے تجویز کیا تھا۔ میری بیٹی مجھے بہت ہی پیاری ہے۔ اور بیٹی بھی مجھے بہت پیار کرتی ہے۔ ایک مسئلہ ہے جو کئی سالوں سے حل نہیں ہو سکا وہ یہ کہ میں کہتا ہوں کہ میں زیادہ پیار کرتا ہوں اور بیٹی کہتی ہے میں زیادہ پیار کرتی ہوں۔ بعض اوقات اس معاملہ پر ہم میں تکرار ہو جاتی ہے مگر جلد ہی ہم دونوں ہنسنے لگ جاتے ہیں اور صلح ہو جاتی ہے۔ پرانی بات ہے ایک دفعہ بیٹی کا کوئی مطالبہ مجھے معقول نہ لگا میں نے کوئی رد عمل نہ دکھایا اور خاموش ہو گیا۔ بیٹی نے سمجھا کہ میں ناراض ہو گیا ہوں اور رو رو کے اپنا برا حال کر لیا۔ میں جب اس کے کمرہ میں گیا تو اسے دیکھ کر حقّا بقّا رہ گیا۔ اس کی ہچکی بندھ چکی تھی۔ میں نے بیٹی کو پچکارا اور بڑی مشکل سے باور کرایا کہ میں اس سے ناراض نہیں۔ جنوری میں اور میری بیگم ۔ بیٹی کو کراچی میں سیٹ کرنے گئے۔ چار دن بعد میں سخت بیمار ہو گیا۔ کچھ وقت ہسپتال میں بھی گذارنا پڑا۔ ایک ماہ تک کافی تکلیف رہی۔ ذرا طبیعت سنبھلی تو میں بیٹی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ تو آدھی بھی نہ رہی تھی۔ اب میں سوچتا ہوں کہ والدین تو اولاد سے پیار کرتے ہی ہیں مگر ایسی بیٹیاں بہت کم ہوں گی جو اپنے والدین سے اتنا والہانہ پیار کریں۔ چنانچہ میں ہار گیا اور بیٹی جیت گئی۔ ارے ارررررے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ یہ بھی میری ہی جیت ہے کیونکہ بچوں کی جیت والدین کی ہی جیت ہوتی ہے۔

Sunday, June 05, 2005

مکّر کٹّیاں نیں چھاواں ۔۔۔۔۔

ہوسٹن (امریکہ) میں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر امان اللہ خان کی کتاب سے کچھ پنجابی شعر نقل کر رہا ہوں۔ یہ افغانستان اور عراق کی صورت حال کی غمازی کرتے ہیں۔ میں شاعری کے اسلوب سے واقف نہیں ہوں پھر بھی نیچے اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

پیا لگدا حشر دیہاڑا سی ۔ ہر پاسے چیک چہاڑا سی ایج لگدا سی بغداد نئیں ۔۔۔ فیر ہویا کی سی۔ یاد نئیں اج چار دوالے کیہڑے نیں ۔ میرا فوٹو لیندے کیہڑے نیں اے لتاں کس نے کٹیاں نیں ۔ جتھے ہتھ سن اوتھے پٹیاں نیں او ویلے یاد پئے آوندے نیں ۔ میرے اتھرو وگدے رہندے نیں جیڑے گھرسن سارے ڈھے گۓ نیں ۔ ہن کھنڈرای باقی رہ گۓ نیں کوئی جا کے اج لیا دیوے ۔۔۔ مینوں پورا کوئی بنا دیوے اردو ترجمہ حاضر ہے۔ میں شاعر نہیں ہوں۔ غلطیاں درگذر کیجئےگا۔

پر فریب ہیں سائے

وہ لگتی حشر کی گھڑی تھی ۔ ہر سو چیخ پکار۔ وہاں پڑی تھی یوں لگتا تھا کہ بغداد نہیں ۔۔۔ پھر ہوا کیا تھا۔ کچھ یاد نہیں آج چاروں طرف میرے کون ہیں ۔ یہ فوٹو میرا لیتے کون ہیں یہ ٹانگیں کس نے کاٹی ہیں ۔ ہاتھ جہاں تھے وہاں بھی پٹیاں ہیں وہ واقعات ہیں اب یاد آنے لگے۔ میرے آنسو بھی ہیں بہنے لگے جو گھر تھے سارے گرچکے ۔ اب کھنڈر ہی باقی رہ گۓ ہیں

کوئی جا کے مجھےلادیوے ۔ مجھے پورا تو کوئی بنا دیوے

Friday, June 03, 2005

کاش ۔ ۔ ۔ مجھے بتا ئے کوئی ۔ ۔ ۔ ؟

کیا ہم حکمرانوں کے زر خرید غلام ہیں ؟ ہماری روشن خیال اعتدال پسند حکومت۔ جو سوائے سانس لینے کے ہر چیز اور ہر کام پر ہم سے بھاری بھر کم ٹیکس وصول کرتی ہے۔ کے دور میں حکمران خود تو عالی شان عمارتوں میں رہتے اور سات سات کروڑ روپے کی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور ٹیکس دینے والے مسکینوں کو پولیس۔ رینجرز اور دیگر ایجنسیوں کے آگے ڈال دیا ہے تا کہ جب وہ حکمرانوں کی ناز برداریاں کرتے کرتے تنگ آ جائیں تو اپنا غصہ ان مسکینوں پر نکالیں۔ چاہے دن ہو یا رات کے دو بجے ان گھروں میں گھس جائیں اور جس سے جو جی میں آئے کریں اور جسے چاہیں اٹھا کر لے جائیں اور ان کو نامعلوم جگہ پر بند کر کے نا کردہ گناہ قبول کرانے کے لئے ان کا حلیہ بگاڑ دیں۔ پھر اگر ان کے لواحقین عدالت سے انصاف کی بھیک مانگیں تو کمال ڈھیٹائی سے کہہ دیں کہ ہم ان بندوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ کیا یہی ہے وہ روشن خیال اسلام جس کا ذکر ہمارے صدر صاحب آئے دن کرتے رہتے ہیں ؟ یہ قانون کے نام نہاد محافظ اس وقت کہاں تھے جب پٹرول پمپوں اور کے ایف سی کو آگ لگائی جا رہی تھی اور لوگوں کو گاڑیوں میں سے زبردستی نکال کر گاڑیوں کو آگ لگائی گئی ؟
اب ملاحظہ ہو آج کا ڈان کا اداریہ۔ BRUTAL POLICE HANDLING IMAGES of the police and Rangers brutally handling civilians in Karachi’s strike-ridden suburbs on Wednesday were flashed across the world on TV screens, and shamed the nation. The footage showed the Rangers beating up unarmed youth, forcibly entering people’s homes by knocking down their front doors with kicks and the rifle. Thursday’s national newspapers, too, carried pictures showing law enforcement personnel posing with their ‘catch’. A Rangers man in military boots stood on the legs and buttocks of a youth, surrounded by several other young people who were blindfolded, handcuffed and forced to lie flat on the ground with faces down. The camera caught other gun-wielding officers looking unashamedly proud of their accomplishment. This was not Iraq or Palestine under occupation, but a street in Malir.No one can condone hooliganism, stone throwing or burning of petrol stations and vehicles by protesters, as seen in Karachi on Monday and Tuesday; but excessive highhandedness with which the law enforcement personnel brutalized unarmed civilians on Wednesday must also be viewed with a sense of shame. Such a gung-ho style of law enforcement can only strengthen elements harbouring ulterior motives, or those wishing to extract political mileage out of anti-establishment feelings fostered by the growing number of educated, unemployed youth. As it is, many in our urban sprawl are condemned to live without basic amenities, social services or security of life and property. They cannot be blamed for venting their anger at a situation that leaves them with little hope or dignity. The Sindh government must rethink its handling of the law and order situation obtaining in the province, especially when local elections are just round the corner.

Thursday, June 02, 2005

نیکی کر دریا میں ڈال

آج 2 جون ہے۔ آج سے ٹھیک آدھی صدی قبل میرے دادا جان (اللہ جنت عطا کرے) اس دار فانی سے رخصت ہوے۔ میرے دادا اور دادی نے حج اس زمانہ میں کیا جب مکہ مکرمہ سے منی۔ عرفات اور واپسی پیدل اور مکہ مکرمہ سے مدینہ اور واپسی اونٹ پر ہوتی تھی۔ بعد دوپہر اور رات کو میں دادا جان کے بازو اور ٹانگیں سہلایا کرتا تھا۔ (عام زبان میں دبانا کہتے ہیں) اس دوران دادا جان مجھے اچھی اچھی باتیں اور اپنی تاریخ سنایا کرتے۔ ایک فقرہ وہ عموما کہتے " نیکی کر اور دریا میں ڈال؛ ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟ دادا جان نے بتایا۔" یعنی نیکی کرو اور بھول جاؤ۔ اپنی نیکی نہ یاد رکھو نہ جتاؤ۔" پھر بھی بات مجھےپوری طرح واضح نہ ہوئی۔ بعد میں ‍قرآن شریف کے تفسر کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالی کا حکم ہے کہ کسی پر احسان کر کے جتاؤ نہیں۔ بڑی عمر کو پہنچنے پر دوسرے بزرگوں سے معلوم ہوا کہ دادا جان اس کی عملی مثال تھے۔ وہ ہر کسی سے حتہ کہ بغیر جان پہچان کے بھی بھلائی کرتے تھے احسان سمجھ کر نہیں بلکہ فرض سمجھ کر۔ اس لئے برادری کے تمام بزرگ اور شہر کے لوگ ان کی بہت عزّت کرتے تھے اور اہم کاموں میں ان سے مشورہ لیتے تھے۔ نیکی کر دریا میں ڈال انسانیت کا ایک عمدہ پہلو ہے۔
ایک طرف تو وہ پچھلے وقتوں کے لوگ اور ایک آجکل کے ہم لوگ کہ بھلائی تو کرنے کا سوچتے بھی نہیں اور دوسروں کو دکھ دینے۔ ان سے ان کے بیٹے ۔ بھائی ۔ خاوند ۔ باپ چھیننے کے لئے ہر وقت تیار۔ آپ سب نے سنا یا پڑھا ہو گا گہ کراچی کی عبادت گاہ میں دھماکہ اور اس کے بعد نہ صرف دو پٹرول پمپ اور کے ایف سی جلائے گئے بلکہ شریف لوگوں کو گاڑیوں میں سے نکال کر ان کی گاڑیاں جلائی گئیں۔ کیا ہم لوگ بھڑیوں سے بھی بد تر ہو گئے ہیں ؟

Wednesday, June 01, 2005

پھول کی فریاد

ہماری شائد ساتويں جماعت کی اردو کی کتاب تھی مرقعء ادب۔ اس میں اچھی اچھی اور سبق آموز نظمیں تھیں۔ ایک تھی "پھول کی فریاد" مجھے پوری تو یاد نہیں جتنی یاد ہے لکھ دیتا ہوں۔ کوئی صاحب پوری جانتے ہوں تو میرے بلاگ پر لکھ دیں۔ ممنون ہوں گا۔
کیا خطا میری تھی ظالم تو نے کیوں توڑا مجھے کیوں نہ میری عمر ہی تک شاخ پہ چھوڑا مجھے خورشید کہتا ہے کہ میری کرنوں کی سب محنت گئی مہ کو غم ہے کہ میری دی ہوئی سب رنگت گئی جانتا اگر اس ہنسی کے دردناک انجام کو میں ہوا کے گدگدانے سے نہ ہنستا نام کو