Monday, August 29, 2005

وضاحت

میری 23 اگست کی تحریر سے کچھ سوالات نے جنم لیا ہے ۔ میں نے سوچا کہ جواب پوسٹ میں دیا جائے تاکہ سب اپنی رائے کا اظہار کر سکیں ۔ متذکّرہ سوالنامہ آٹھویں نویں اور دسویں جماعت کے طلباء و طالبات کو ان سکولوں میں دیا گیا تھا جنہوں نے آغا خان بورڈ سے الحاق کیا تھا یا اس کے لئے درخواست دی تھی ۔ بیکن ہاؤس جس کی ایڈمنسٹریٹر یا مینجنگ ڈائریکٹر خورشید محمود قصوری کی بیگم ہیں پیش پیش تھا ۔ یہ اس سال کے شروع کا واقع ہے ۔ ایک صاحب نے مجھے سوالنامے کی جھلک دکھائی تھی ۔ میں ان دنوں کافی بیمار تھا اس لئے کچھ لکھنا ممکن نہ ہوا ۔ سب سوال مجھے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ دادا ہونے کے باوجود مجھے یہ سوال شرمناک محسوس ہوئے ۔ایک سادہ سوال جو یاد پڑتا ہے اس طرح تھا ۔ کیا آپ کا کسی سے جنسی تعلق قائم ہوا ہے ۔ کتنا عرصہ رہا اور اس کے بعد آپ نے کیا محسوس کیا ؟ سعادت حسن منٹو کی متذکّرہ کتاب کی وجہ سے منٹو پر مقدمہ چلا تھا اور قید ہوئی تھی ۔ سنا تھا کہ منٹو نے عدالت میں کہا تھا کہ میں حقیقت بیان کرتا ہوں ۔گندگی کے ڈھیر پر چادر پڑی ہوتی ہے میں صرف اسے اٹھا دیتا ہوں ۔ جج نے کہا تھا جو کچھ آپ اپنی بیوي کے ساتھ کرتے ہیں کیا اس پر سے بھی آپ چادر اٹھا دیتے ہیں تا کہ آپ کے بچوں کو اپنی پیدائش کی حقیقت معلوم ہو جائے ؟ اس کے بعد منٹو کچھ نہ بولا ۔ یہ کتاب ممنموع قرار دی گئی تھی ۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے زمانہ میں پابندی اٹھائی گئی تھی مگر ضیاء الحق کے زمانہ میں پھر پابندی لگ گئی تھی ۔ پرویز مشرف کے کمال سے کمسن بچوں کے کورس کا حصہ بن گئی تھی مگر نکالنی پڑی ۔ تیس سال قبل کسی نے اس کتاب کے چند صفحے بطور نمونہ مجھے پڑھائے تھے ۔ ان صفحوں میں ایک مفروضہ زنا کی پوری تفصیل تھی ۔ بریگیڈیئر قاضی نے لفظ پورنو استعمال کیا ہے ۔ میں تو نفسانی شہوت پیدا کرنے والی کہانیاں کہوں گا ۔ میرا خیال ہے کہ پورنوگرافی بھی اسی کا انگریزی ترجمہ ہے ۔ ایک پاکستانی ڈکشنری میں پورنوگرافی کا ترجمہ فحش نگاری ہے ۔ ملاحظہ ہو پورنوگرافی کا ترجمہ انگریزی ميں ۔ (1) The depiction of erotic behavior (as in pictures or writing) intended to cause sexual excitement. (2) Material (as books or a photograph) that depicts erotic behavior and is intended to cause sexual excitement اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ آٹھویں نویں اور دسویں جماعت کے طلباء و طالبات سے عریاں جنسی سوالات پوچھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ نویں دسویں کے طلباء و طالبات کو نفسانی شہوت پیدا کرنے والی کہانیاں پڑھا کر تعلیم کا معیار کیسے بلند ہو گا ؟ اور اس سب کے پیچھے اصل مقصد کیا ہے ؟ کیا امریکہ یا برطانیہ جہاں سیکس مادر پدر آزاد ہے میں دسویں یا بارہویں کے کورس میں نفسانی شہوت پیدا کرنے والی کہانیاں شامل ہیں ؟ ہم کسی ہوٹل میں صرف ایک وقت کا کھانا کھانے جائیں تو بھی پہلے پرکھ لیتے ہیں کہ وہاں کیسے لوگ ہوں گے اور ہمیں کیسا کھانا ملے گا مگر بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کا مستقبل صرف بڑا نام یا امارت دیکھ کر غلط لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں ۔ اپنے بچوں کو آغاخان بورڈ کے سپرد کرنے سے پہلے یہ تو معلوم کر لینا چاہیئے کہ آغاخان کیا تھے اور اتنے امیر اور ہزہائینس کیسے بنے اور اب ان کے کیا مشاغل ہیں ۔ کلک کیجئے پہلی قسط کے لئے یہاں اور دوسری قسط کے لئے یہاں ۔ مختصر یہ کہ اسماعیلیوں سے غدّاری اور انگریزوں کی خدمت کے عوض ایک دن میں امیر و کبیر بن گئے تھے اور ہزہائینس بھی ۔

Sunday, August 28, 2005

دانیال صاحب کا استفسار ۔ چھٹی قسط

دانیال صاحب مزید پوچھتے ہیں ۔ کیا مدارس کے نظام میں بہتری کی گنجائش ہے؟ اور اگر ہے تو وہ بہتری کس قسم کی ہونی چاہیئے؟
خوب سے خوب تر کی تلاش نہ کی جائے تو ترقی تو کیا انسان رو بہ تنزل ہو جاتا ہے ۔ سب سے پہلے سکولوں ۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دینی تعلیم کو فعال بنا کر کم از کم دوسرے مضامین کے ہم پلّہ بنانا چاہیئے ۔ ایک بات ذہن میں رہنا چاہیئے کہ دینی مدرسوں کا آزاد ہونا اشد ضروری ہے ورنہ جو حکومت آئے گی وہ اپنی پسند کا اسلام مدرسوں میں نافذ کر دے گی اور مدرسوں کا فائدہ ہونے کی بجائے مدرسے زحمت بن جائیں گے ۔ مزید مدرسوں کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ جگ ہنسائی اور اپنے آپ کو گالی دینے سے کم نہیں ہے اس لئے یہ بند ہونا چاہیئے ۔ دین اسلام کی اعلی تعلیم رکھنے والے باعمل سکالرز کی ایک کمیٹی بنانا چاہیئے جو مدرسوں کے سلیبس اور سہولتوں کا مطالع کر کے سفارشات تیار کرے ۔ ان سفارشات پر عمل کرنے کے لئے فنڈز مہیا کئے جائیں اور اسی کمیٹی کی نگرانی میں ان پر عمل کیا جائے ۔ فوری طور پر دینی مدرسوں کو مناسب تعداد میں کمپوٹر مہیا کئے جائیں اور مدرسوں کے اساتذہ کو کمپیوٹر کا استعمال سکھایا جائے ۔ ان کمپیوٹروں پر طلباء قرآن شریف ۔ حدیث اور فقہ کے علاوہ عام استعمال ہونے والی سافٹ ویئر میں بھی دسترس حاصل کریں ۔ ان طلباء کو دین کے مکمل کورس کے ساتھ ساتھ ان کی استداد اور خواہش کے مطابق دوسرے علوم بھی پڑھائے جائیں یعنی انگریزی ۔ فارسی ۔ ریاضی ۔ معاشیات ۔ معاشرتی علوم ۔ طبیعات ۔ کیمیات وغیرہ ۔
۔
مدرسوں کو اس قابل بنایا جائے کہ عام سکولوں اور کالجوں سے تعلم حاصل کرنے کے بعد جو لوگ چاہیں ان مدرسوں میں پڑھ کر مزید دینی تعلیم حاصل کر سکیں ۔ ان مدرسوں میں ہمہ وقتی اور جزوقتی کورس بھی ہونے چاہیئں تا کہ شام کے وقت وہ لوگ دینی تعلیم حاصل کر سکیں جو دن کے وقت ملازمت کرتے ہیں یا دوسرے سکولوں یا کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ دینی مدرسوں کی مجبوری وسائل کی کمی ہے ۔ نہ صرف مالی بلکہ افرادی بھی ۔اس لئے اس تبدیلی کے لئے اور تبدیلی کے بعد کافی مالی اور افرادی وسائل کی ضرورت ہوگی جس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ اگر حکومت غریبوں کی واقعی خیر خواہ ہے تو ہر مسجد کے امام اور مؤذن کے لئے مدرسہ کی ڈگری اور سرٹیفیکیٹ لازمی کر دے اور تمام سکولوں میں اسلامیات پڑھانے والوں کے لئے مدرسہ کی ڈگری لازمی کر دے اور ان کو باقی اساتذہ کے برابر تنخوا دی جائے ۔ اس طرح جاہل اماموں ۔ تعویز دھاگے اور قبروں کے پوجنے سے نجات حاصل ہو جائے گی اور ہماری اگلی نسل اسلام کو صحیح طرح سمجھ سکے گی ۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ ہم اپنے بچے کو قرآن شریف پڑھانے والے کو کیا مشاہرہ دیتے ہیں اور انگریزی یا سائنس یا حساب پڑھانے والے کو کیا مشاہرہ دیتے ہیں ۔ بیس سال قبل میں نے اپنے بیٹے کو قرآن شریف پڑھانے کے لئے ایک قاری صاحب سے بات کی ۔ مشاہرہ انہوں نے نہ مانگا مگر میں نے اپنی مرضی سے انہیں ایک سو روپیہ ماہوار دینا شروع کیا ۔ جن صاحب کی معرفت میں ان قاری صاحب تک پنہچا تھا پوچھنے لگے کہ آپ قاری صاحب کو کیا دیں گے ؟ میں نے بتایا تو کہنے لگے اتنے زیادہ کیوں دے رہے ہیں سائنس یا انگلش تو نہیں پڑھانی انہوں نے ۔
۔
مدرسوں میں سائنس وغیرہ پڑھانا حکومت کا محظ ایک ڈھکوسلہ ہے ۔ اس کے لئے کروڑوں نہیں اربوں روپیہ سالانہ درکار ہے ۔ ہماری حکومت جو منافع بخش ادارے بیچ کر اور قرضے لے کر اپنا خرچ پورا کر رہی ہے وہ مزید روپیہ کہاں سے لائے گی ۔ دیگر کیا پاکستان میں تمام طلباء و طالبات کو سائنس پڑھائی جاتی ہے ؟ کمال تو یہ ہے کہ سائنس کی تعلیم کا انتظام بہت سے سکولوں اور کئی کالجوں میں ابھی تک نہیں ہے اور جن میں ہے ان میں سے بھی آدھے ایسے ہیں جہاں مناسب بندوبست نہیں ہے ۔ ایک جملہ معترضہ ۔ اگر مدرسوں سے پڑھے ہوؤں کو نہ گنا جائے تو پاکستان میں لٹریسی کی کیا شرح رہ جائے گی ؟ 20 فیصد یا اس سے بھی کم ؟ ماضی کا تجربہ بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے تعلیم کا معیار بلند کرنے کے نام پر نجی شعبہ میں اچھے خاصے چلتے ہوئے تعلیمی ادارے یہ کہہ کر قومیا لئے تھے کہ ان کے اساتذہ کے پاس معلمین کی ڈگریاں نہیں ۔ اس طرح بہت سے سکول بند ہو گئے اور جو بچ گئے ان کا جو حشر ہوا وہ آج ہمارے سامنے ہے ۔ وہ تو پھر بھی آسان کام تھا جو حکومت نہ کر سکی ۔ دینی مدارس کو صرف دینی خدمت کی امنگ رکھنے والے ہی چلا سکتے ہیں اور ایسا شائد ہی کوئی ایوان حکومت میں ملے ۔
۔باقی انشاء اللہ آئیندہ

Wednesday, August 24, 2005

دانیال صاحب کا استفسار پانچویں قسط اور دنیا کا دوہرا معیار

دانیال صاحب پوچھتے ہیں ۔ کیا یہ بات بھی صحیح نہیں کہ چیچنیا، کشمیر اور افغانستان میں جاری جہاد کا پاکستانی مدارس سے کچھ تعلق ہے؟
مدرسہ کے پڑھے ہوئے لوگ ہی نہیں دوسرے لوگ جو مولوی نہیں انہوں نے بھی چیچنیا، کشمیر اور افغانستان میں جاری جہاد کے حق میں تقاریر کی ہیں اور ممکن ہے کچھ نے حصہ بھی لیا ہو مگر طلباء کو عسکری تربیت دینے کا نہ مدرسوں میں انتظام ہے اور نہ ایسے انتظام سے مدرسوں کا تعلق ہے ۔ بغیر تربیت کے جنگی کاروائیوں میں حصہ لینا بعید از قیاس ہے ۔ کشمیر ۔ چیچنیا اور افغانستان کے جہاد میں حصہ لینے والوں میں انگریزی میڈیم سکولوں اور یورپ اور امریکہ میں پڑھے ہوئے جوان بھی شامل تھے جو کبھی پاکستانی مدرسہ نہیں گئے تھے اور بہت سے ایسے بھی جو پہلے کبھی پاکستان آئے ہی نہ تھے ۔ اس لئے یہ کہنا کہ پاکستان کے دینی مدرسے جہادی یا دہشت گرد تیار کرتے ہیں بالکل غلط ہے ۔ دنیا کی واحد سپرپاور بننے کے لئے سانپ مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق مسلمانوں کو روس کے خلاف لڑانے کے لئے ان کی عسکری تربیت کا بندوبست امریکی حکومت نے کیا تھا جو دس سال چلتا رہا ۔ مقصد حاصل ہو جانے کے بعد امریکی حکومت نے انہیں آپس میں لڑنے کے لئے چھوڑ دیا ۔ وہی لوگ جن کو امریکی حکومت ہیرو کے طور پر اپنے ذرائع ابلاغ میں پیش کرتی تھی اب انہیں دہشت گرد قرار دے رہی ہے ۔ یہاں کلک کر کے پڑھئے کہ جنرل مرزا اسلم بیگ اس بارے کیا کہتے ہیں ۔ انتہاء پسندی کا لیبل بھی بغیر اس کی تشریح کئے لگایا جا رہا ہے ۔ کیا دین اسلام پر مکمل عمل کرنے والا انتہاء پسند ہے ؟ مدرسوں کے نصاب میں پچھلے پچاس سال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ماضی قریب تک کسی نے مدرسوں پر فرقہ واریت یا انتہاء پسندی یا دہشت گردی کا الزام لگایا تھا ۔ مدرسوں کا تعلق اتنا ضرور ہے کہ یہ مدرسے پاکستانی ہیں اور وہاں تعلیم پانے والے مسلمان ہیں ۔ پاکستان میں انسانیت کی دلدادہ کہلانے والی عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ اپنے نظریات کو دوسروں پر بزور نافذ کرنے والا انتہاء پسند ہوتا ہے ۔ تو کیا یہ نظریہ مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے ؟ ایسا ہر گز نہیں ہے اور مدرسوں میں پڑھنے والوں پر انتہاء پسندی کا لیبل لگانے والے اسلام دشمن ہیں اور ان کا ساتھ نام نہاد مسلمان ہیں جو ہر اخلاقی بندش سے آزادی کے خواہشمند ہیں ۔
۔ انسانیت کے علمبرداروں کا دوہرا معیار گرجا سے منسلک عورتیں جنہیں سسٹر اور نن کہا جاتا ہے اور کچھ کو مدر ۔ ہر وقت اپنے جسم کو اچھی طرح ڈھانپے رکھتی ہیں ۔ سر کے بال اور گردن ایک بڑے سے سکارف کے ساتھ ڈھانپے ہوئے ہوتے ہیں ۔ کلائیاں اور ٹخنے بھی نظر نہیں آتے ۔ کئی سسٹرز تو ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جرابیں بھی پہنے رکھتی ہیں ۔ جو سکول گرجوں کے زیر انتظام ہیں ان میں سسٹرز اسی لباس میں جاتی ہیں ۔ پوپ پال کی آخری رسومات ٹیلیویژن پر ساری دنیا میں دکھائی گئیں ۔ تمام عیسائی عورتوں نے اپنے سروں کو اچھی طرح ڈھانپ رکھا تھا ۔ میں نے دیکھا امریکہ کے صدر جارج واکر بش کی بیوی لورا بش نے دوپٹہ کی طرح کے کپڑے سے اپنے سر کو پوری تقریب میں اچھی طرح ڈھانپے رکھا ۔ مدرز ۔ سسٹرز اور ننز اپنے لباس میں مدبّر لگتی ہیں اور خواہ مخوا ان کی عزّت کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ مسلمان عورتیں اپنے جسموں اور سروں کو ڈھانپتی ہیں تو انہیں بنیاد پرست انتہاء پسند اور دہشت گرد تک کہا جاتا ہے ۔ امریکہ ۔ کینیڈا اور یورپ کے کئی ممالک میں طالبات اور معلّمات کے لئے سر کو ڈھانپنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور سر ڈھانپنے کی کھلم کھلا مخالفت بھی کی جا رہی ہے ۔ یہ دوہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے ؟ جو اپنے لئے میٹھا وہ دوسرے کے لئے کڑوا کیوں ؟
عورت کے ان نام نہاد حمائتیوں نے آج تک کسی عورت کو پوپ تو کیا معمولی پادری تک نہیں بنایا حالانکہ ایسی عورتیں گذری ہیں جو اس منصب کے لئے موذوں تھیں ۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی تاریخ سے ایسی با علم اور اونچے کردار کی خواتین کا پتہ چلتا ہے جن کو مفتی بھی مانا گیا ۔ اس کے باوجود پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو پسماندہ بناتا ہے اور پردے میں رہنے والی مسلمان عورتوں کو مردوں کا قیدی کہا جاتا ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ مسلمان جن میں نیلوفر بختیار ۔ جسٹس ماجدہ ۔ عاصمہ جہانگیر ۔ حنا جیلانی ۔ وغیرہ اور بہت سے مرد بھی شامل ہیں صیہونیوں کے اس معاندانہ پراپیگنڈہ کا شکار ہو چکے ہیں ۔
باقی انشاء اللہ آئیندہ

Tuesday, August 23, 2005

ہم خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا ؟ ؟ ؟

ملاحظہ ہو ہمارے روشن خیال حکمرانوں کے اقوال کی سچائی اور ان کا آنے والا روشن خیال تعلیمی نظام ۔ جب شور ہوا تھا کہ بیکن ہاؤس کے سکولوں میں عریاں جنسی سوالنامہ مڈل سکول کے بچوں اور بچیوں میں تقسیم کیا گیا ہے تو ہماری ہمیشہ صحیح اور سچی موجودہ حکومت نے قرار دیا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا یہ دشمن یعنی اپوزیشن کا جھوٹا پراپیگنڈہ ہے بالخصوص دقیانوس اور جاہل ملّاؤں کا ۔ حکومتی اہلکاروں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ آغاخان بورڈ صرف امتحان لےگا اور سلیبس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ۔
کسی نے سچ کہا ہے سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے ۔ آغا خان یونیورسٹی کی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز طلعت طیّب جی کے مطابق متذکّرہ بالا سوالنامہ سکولوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ مزید طلعت طیّب جی کے مطابق آغا خان بورڈ ایک ایسا نظام دینے کی کوشش کر رہا ہے جس سے طالب علموں کو سیکھنے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع حاصل ہوں ۔طلعت طیّب جی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اردو کے سلیبس کی 32 کہانیوں میں سے عریاں جنسی کہانیاں جیسے پچھم سے چلی پروا اور سعادت حسن منٹو کی کھول دو سمیت سات کہانیاں استانیوں اور استادوں کے احتجاج کے بعد نکال دی گئی ہیں ۔ صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے بڑے بڑے اہلکاروں نے سراسر جھوٹ پر جھوٹ بولے ۔ ثابت ہو گیا کہ عریاں جنسی سوالنامہ تقسیم کیا گیا تھا اور بارہویں جماعت تک سلیبس اور تعلیمی نظام بھی آغاخان بورڈ کے سپرد ہے ۔ والدین کے مطابق بقیہ 25 کہانیوں میں سے بھی زیادہ تر محظ عریاں جنسی یعنی پورنو ہیں ۔ کہانیاں صرف اردو کے سلیبس میں شامل کی گئی ہیں اور وہ زیادہ تر عریاں جنسی یعنی پورنو ہیں ۔ انگریزی کے سلیبس میں کوئی کہانی شامل نہیں ۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ سب کمسن طلباء اور طالبات کے دماغ کو پراگندہ کیا جائے کیونکہ آغا خان بورڈ کے خیال میں سب بچے شائد انگریزی نہ سمجھ سکیں اور جنسی عریانی سے بچ جائیں اسلئے کہانیاں صرف اردو میں رکھی گئی ہیں جو کہ عریاں جنسی یعنی پورنو ہیں ۔

Saturday, August 20, 2005

دانیال صاحب کا استفسار ۔ چوتھی قسط

دانیال صاحب کا سوال ۔ کیا یہ بات صحیح نہیں کہ ہمارے مدارس کے طلباء اسامہ بن لادن کو ہیرو سمجھتے ہیں؟
اوسامہ کے متعلق پچھلے پچیس سال میں جو کچھ میں نے مختلف اخباروں اور جرائد میں پڑھا ہے اسے عسکری تربیت امریکی حکومت نے دلوائی اور دو ہزار عرب جوانوں کو عسکری تربیت دے کر ان کا سپہ سالار بنایا ۔ اوسامہ کو مجاہد اعظم امریکی حکومت نے بنایا اور دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت نے امریکی پراپیگنڈا کے زیر اثر اسے مجاہد مان لیا ۔ دس سال بعد جب امریکی فوج نے سعودی عرب میں پکا ڈیرہ ڈال دیا تو جو تعلیم امریکہ نے روسیوں کے خلاف لڑنے کے لئے اوسامہ کو دی تھی اسی کے مطابق اس نے امریکیوں کو سعودی عرب سے نکلنے کا نوٹس دے دیا ۔ اس پر اسے دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور اس نے افغانستان میں پناہ لی ۔ اوسامہ کے متعلق ساری خبریں یک طرفہ ہیں یعنی مغربی ذرائع ابلاغ سے ملتی ہیں ۔ الجزیرہ اور العربیہ ٹیلیویژن جو اوسامہ کی وڈیو اور آڈیو ٹیپ نشر کرتے ہیں وہ قطر کے حکمرانوں کے ہیں جو امریکہ کے غلام ہیں اور اب تو ظاہرہ طور پر بھی الجزیرہ ایک امریکن ٹیلیویژن نے خرید لیا ہوا ہے ۔ مسلمانوں کی اکثریت اوسامہ کو دہشت گرد ماننے کے لئے تیار نہیں ۔
مزید امریکی حکومت کے کئی دہائیوں پر پھیلے ہوئے ایشیا اور افریقہ کے لوگوں پر جبروتشدد کی وجہ سے بے شمار لوگ بالخصوص مسلمان امریکی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور اس کا اظہار وہ امریکی حکومت کے مخالف کی تعریف کر کے کرتے ہیں ۔ مدرسوں کے طلباء کی تخصیص ٹھیک نہیں زیادہ تر پاکستانی ۔ دوسرے ملکوں کے مسلمان بلکہ کئی غیرمسلم بھی اوسامہ کو بے قصور سمجھتے ہیں ۔ اوسامہ بن لادن کو دہشت گرد ثابت کرنا ابھی باقی ہے لیکن اسے دہشت گرد بنانے والے لازمی طور پر دہشت گرد ہیں ۔ مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اوسامہ بن لادن یا تو اس وڈیو کے بننے سے پہلے مر چکا تھا جس میں اسے گیارہ ستمبر کے حملہ کا اقرار نما ذکر کرتے دکھایا گیا تھا یا امریکہ کے پاس محفوظ ہے اور امریکی حکومت ساری دنیا کو بیوقوف بنا رہی ہے ۔ اگر صدّام حسین کی گرفتاری کی وڈیو اور گرفتاری کے وقت کے اعلان پر غور کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدّام حسین کی گرفتاری کا ڈرامہ رچایا گیا تھا وہ پہلے ہی امریکی حکومت کے پاس تھا ۔ تو ایسا اوسامہ کے لئے کیوں نہیں ہو سکتا ۔ البتہ ملّا عمر امریکی حکومت کے لئے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ افغانیوں کی اکثریت ملّا عمر کی دشمن ہونے کی بجائے امریکی قبضہ کے خلاف ہے ۔ دانیال صاحب کا سوال ہے ۔ اور ایسا کیوں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہونے والی تحقیقات کی تان پاکستان پر آ کر ٹوٹتی ہے؟
دہشت گردی کے خلاف تحقیقات کی تان پاکستان پر آ کر ٹوٹتی نہیں بلکہ یہ مذموم پراپیگینڈہ کے تحت توڑی جاتی ہے ۔ یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ آج تک جتنے لوگ دہشت گردی کے مجرم یا ملزم قرار دیئے گئے ہیں ان کا کسی بھی دینی مدرسہ کے ساتھ تعلق تو کجا ان کا تعلق پاکستان سے بھی ثابت نہیں ہوا مگر اندھی طاقت کے زور پر مدرسوں اور مدرسوں میں پڑھے ہوئے بے قصور لوگوں اور پاکستانیوں پر انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا لیبل لگایا جارہا ہے اور ان کے ساتھ زیادتی بھی کی جا رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے سب سے بڑے دشمن روسی یونین کو توڑنے کے بعد اب مغربی طاقتیں اسلام کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو ختم کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں اور پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ان کی آنکھ میں بہت زیادہ کھٹکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومت کے بادشاہ سے بڑھ کر بادشاہ کا خیرخواہ قسم کے رویّے کے باوجود پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے ۔ گیارہ ستمبر اور اس کے بعد ہونے والے دھماکوں میں جو طریقہ استعمال کیا گیا اس کے لئے مندرجہ ذیل میں مہارت لازمی تھی ۔ علاقائی زبان پر عبور علاقائی رسوم سے واقفیت ذرائع رسل و رسائل کا علم دستیاب کیمیائی مواد سے طاقتور دھماکہ خیز مواد تیار کرنے کا عملی تجربہ بم تیار کرنے اور دھماکہ کرنے کے سلسلہ میں مہارت
پاکستان میں قائم دینی مدارس کا تعلق دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے سے پہلے کم از کم پڑھے لکھے لوگوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ مدرسوں میں اس قسم کی تعلیم و تربیت کا انتطام ہے یا نہیں ۔ لندن دھماکوں میں ایسیٹون پرآکسائیڈ استعمال کیا گیا جو بہت حسّاس دھماکہ خیز مواد ہے ۔ معمولی سی بے احتیاطی دھماکہ کا باعث بن سکتی ہے ۔اس کے استعمال کے لئے اعلی درجے کی مہارت کی بھی ضرورت ہے ۔ دوسرے اس کام کے لئے سائنس اور الیکٹرونکس کی سمجھ بھی ہونی چاہیئے ۔ دینی مدرسوں میں کوئی بھی ایسا استاد نہیں ہے جو یہ علم رکھتا ہو اور نہ ان مدرسوں کے پاس کوئی ایسا انتظام ہے ۔ ایسی تعلیم و تربیت کا انتظام صرف خفیہ اداروں میں ہوتا ہے جیسے امریکہ کا سی آئی اے ۔ بھارت کا را یا پاکستان کا آئی ایس آئی ۔

Friday, August 19, 2005

میں پاگل ہوں بیوقوف نہیں

دماغی امراض کے ہسپتال کے سب سے بڑے ڈاکٹر صاحب شام کو فارغ ہو کر گھر جانے کے لئے اپنی کار کے پاس پہنچے تو سر پکڑ کر رہ گئے ۔ ایک مریض اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا بولا ۔ مریض ۔ ڈاکٹر صاحب کیا پریشانی ہے ؟ ڈاکٹر ۔ کوئی شریر میری کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھبریاں اتار کر لے گیا ہے ۔ ڈھبری کو انگریزی میں نٹ کہتے ہیں ۔ مریض ۔ ڈاکٹر صاحب اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔ باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھبری اتار کر اس میں لگا لیں اور کار آہستہ چلاتے ہوئے سپیئر پارٹس کی دکان تک چلے جائیں ۔ وہاں سے چار ڈھبریاں خرید کر لگا لیں پھر گھر چلے جائیں ۔ ڈاکٹر ۔ تم نے پاگل ہوتے ہوئے وہ بات کہہ دی جو میری عقل میں نہیں آئی تھی ۔ مریض ۔ میں پاگل ہوں مگر بیوقوف نہیں ۔

Thursday, August 18, 2005

کراچی کی حکومت پھر نمبر لے گئی

کراچی کے ایک پولنگ سٹیشن پر پولنگ سے قبل ہی بیلٹ باکس بھرے ہوئے پائے گئے۔ شہر کے مصروف علاقے برنس روڈ کے وومن کالج پولنگ سٹیشن پر صبح سوا آٹھ بجے جب بیلٹ باکس دیکھے گئے تو ان میں سے بعض پہلے سے بھرے ہوئے تھے جب کہ بعض کی سیلیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔
پریذائیڈنگ افسر احمد سلیمان نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں جب سرکاری طور پر یہ بیلٹ بکس ملے تو ایسے ہی ملے ہیں، اور ہم ان پر ہی کام کر رہے ہیں۔
اس علاقے میں متحدہ مجلس عمل کے الخدمت گروپ اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے حامی امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔ الخدمت پینل کے پولنگ ایجنٹوں کا کہنا ہے کہ قواعد کے مطابق پولنگ شروع ہونے سے پہلے خالی بیلٹ بکس امیدواروں یا ان کے پولنگ ایجنٹوں کو دکھائے جاتے ہیں۔ الخدمت پینل نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے مخالف پینل نے پہلے سے بیلٹ بکس بھر کر رکھ دیے ہیں۔
سنی تحریک نے الزام عائد کیا ہے کہ پولنگ کے مقامات پر بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ تحریک کے ترجمان کا کہنا ہے امیدواروں کے پولنگ کیمپ پولنگ اسٹیشن سے کم از کم دو سو گز کے فاصلے پر قائم ہوتے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے حامی امیدواروں نے شہر کے چاروں اضلاع میں بیشتر مقامات پر پولنگ کیمپ پولنگ اسٹیشن کی دیواروں کے ساتھ قائم کیے ہوئے ہیں اور پولنگ اسٹیشنوں کے ساتھ دیواروں پر بیلٹ پیپر کے رنگ کی سیاہی سے ایم کیو ایم کے امیدواروں کے بارے میں چاکنگ کی گئی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ کئی پولنگ اسٹیشنوں پر بوتھ نمبر بھی لکھے ہوئے نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ لیاقت آباد میں ان کے انسان دوست پینل کے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ پر جاتے ہوئے مخالف پینل نے روکا، ہراساں کیا اور تلاشی لینے کے بعد دھمکیاں دی۔

Tuesday, August 16, 2005

دانیال صاحب کا استفسار ۔ تیسری قسط

جاہل ملّا ۔ کہتے ہیں نیم حکیم خطرہء جان نیم ملّا خطرہء ایمان ۔ صرف دو واقعات درج کروں گا ۔ آٹھویں جماعت میں میرے سکول کی اسلامیات کا حال دیکھ کر والد صاحب نے راولپنڈی شہر میں محلے کی مسجد کے امام صاحب کی ٹیوشن مقرر کی کہ میں قرآن شریف دوہرا لوں ۔ میں تلاوت شروع کرتا تو مولوی صاحب سو جاتے ۔ پارہ ختم ہو جاتا تو وہ جاگ جاتے ۔ اسی طرح دو ماہ میں پورا قرآن شریف پڑھا ۔ یہ صاحب بغیر مدرسہ گئے مولوی بن گئے تھے ۔ میری تلاوت کی تصحیح پھر میری والہ صاحبہ نے کی ۔ حکومت نے 1984 میں سکولوں میں مدرسوں سے سند یافتہ اسلامیات کے استاد رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ کام ایک سیکشن آفیسر کے سپرد ہوا جو ہمارے سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی والے گھر کے قریب مسجد کے خطیب بھی تھے ۔ ایک شام میں کسی کام سے ان کے پاس گیا تو پریشان پایا ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے پہلی قسط میں پانچ سو استاد بھرتی کرنا ہیں ۔ ایک سالہ کورس کی سند ہونی چاہیئے میں نے چھ اور تین ماہ والوں کے نام بھی لکھ لئے ہیں اس کے باوجود 247 ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا جناب اتنے سارے امام مسجد خیراتی روٹیوں پر پل رہے ہیں ان کو لے لیں ۔ فرمانے لگے محلہ میں جو بقیہ چار مساجد ہیں ان کے امام ایک دن کے لئے مدرسہ نہیں گئے ۔ میں نے حیرت سے کہا تو یہ امام کیسے بن گئے ۔ فرمایا لوگوں نے اپنی مقصد براری کے لئے بنا دیئے یا خود زورآوری سے بن گئے ہوں گے ۔ جاہل ملّا کہاں سے آئے ۔ ملّا اور جاہل اس حقیقت نے مجھے لڑکپن ہی میں پریشان کر دیا تھا ۔ میں اس کا منبہ تلاش کرنے میں لگ گیا ۔ حالات کی سختیاں جھیلتے سال گذرتے گئے مگر میری جستجو جاری رہی ۔ آخر عقدہ کھلا ۔ ہندوستان ميں انگریزوں کی حکومت بننے سے پہلے بڑی مساجد علم کا گھر ہوا کرتی تھیں اور انہیں جامع یعنی یونیورسٹی کہا جاتا تھا ۔ وہاں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علموم بھی پڑھائے جاتے تھے ۔ طلباء دور دراز سے آکر سالہا سال قیام کرتے اور علم حاصل کرتے ۔ اساتذہ اور تعلیم کا خرچ چلانے کے لئے ان مساجد کے ساتھ بڑی بڑی جاگیریں تھی ۔ اس کے علاوہ مسلمان بادشاہ اور امیر طلباء نذرانے بھی دیتے تھے ۔ 1857 میں جب ہندوستان پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہو گیا تو انہوں نے ہنرمندوں کے ساتھ علماء بھی قتل کروا دیئے اور مساجد کی جاگیریں ضبط کر لیں ۔ پھر پسماندہ علاقوں سے لوگ چنے جو دینی علم نہ رکھتے تھے ۔ ان لوگوں کو برطانیہ بھیج کر چند ماہ کا امام مسجد کا کورس کرایا گیا اور واپسی پر مساجد کا بغیر تنخواہ کے امام مقرر کر دیا ۔ ان اماموں کا نان و نفقہ علاقہ کے لوگوں کے ذمہ کر دیا اور نگرانی علاقہ کے نمبردار یا چوہدری یا وڈیرے یا سردار وغیرہ جو خود انگریزوں نے مقرر کئے تھے کے ذمہ کر دی ۔ آجکل کے جاہل ملّا زیادہ تر اسی عمل کا نتیجہ ہیں ۔ فرقہ وارانہ تشدد ۔ موجودہ حالات میں سمجھ میں نہیں آتا کہ فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ متحدہ مجلس عمل دیوبندی ۔ بریلوی ۔ شیعہ یا اثناعشری اور اہل حدیث سب کا اتحاد ہے اور حکومت کی اسے توڑنے کی کوششوں کے باوجود یہ اتحاد قائم ہے ۔ کوئی ایسی قوت ہے جو ایم ایم اے کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے کبھی ایک فرقہ کے اور کبھی دوسرے فرقہ کے لوگوں کو قتل کر یا کروا رہی ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام صرف دین کے دشمن ہی کر سکتے ہیں ۔
جاہل اور فرقہ واریت پھیلانے والے ملّا حکومت کی لگائی ہوئی پنیری اور حکومت کے باغ کے درخت ہیں ۔ حکمران ان لوگوں کو علماء و مشائخ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ان میں مساجد کے امام بھی ہیں اور شیخ بے مسجد بھی ۔ کنونشن سنٹر اسلام آباد میں حکومت کے خرچ پر ایک علماء و مشائخ کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس سے صدر جنرل پرویز مشرف نے خطاب کیا اور ان سے اپنے حق میں قرارداد منظور کروائی ۔ اس کانفرنس کا ایم ایم اے ۔ بے نظیر کی پی پی پی اور نواز شریف کی مسلم لیگ نے بائیکاٹ کیا تھا ۔ اس کے باوجود صرف راولپنڈی سے 260 علماء و مشائخ شامل ہوئے جبکہ راولپنڈی میں 150 مساجد بھی نہیں اور بہت سے مولوی ایم ایم اے ۔ بےنظیر اور نواز شریف کے حامی ہیں ۔ ہر حکومت کو ایسے داڑھی والوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت کے حق میں فتوی دیں ۔ باقی وقت اپنا ٹیکا رکھنے کے لئے یہ نام نہاد علماء و مشائخ فرقہ پرستی کرواتے ہیں ۔ ان کے خلاف اگر حکومت کوئی قدم اٹھائے گی تو پھر حکومت کے حق میں فتوے کون دے گا ۔

Sunday, August 14, 2005

جشن آزادی مبارک

ان ہم وطنوں کو آزادی کی سالگرہ مبارک جو اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتے ہیں ۔ اللہ ہمیں آزادی کے صحیح معنی سمجھنے اور اپنے ملک کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ یہ وطن ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا تھا کہ مسلمان اسلام کے اصولوں پر چلتے ہوئے مل جل کر اپنی حالت بہتر بنائیں ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں البتہ پاکستانی نہیں بنے ۔ کوئی سندھی ہے کوئی پنجابی کوئی بلوچ کوئی پختون کوئی سرائیکی کوئی پاکستان میں پیدا ہو کر مہاجر ۔ کوئی سردار کرئی ملک کوئی خان کوئی وڈیرہ کوئی پیر ۔ اس کے علاوہ ہم ان گنت ذاتوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ۔ بڑے بڑے روشن خیال بھی پیدا ہو گئے ہیں جو قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر کا صرف ایک فقرہ سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو ایک اسلامی نہیں سیکولر ریاست بنایا تھا ۔ ان روشن خیالوں سے کوئی پوچھے کہ کیا قائد اعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کی باقی ساری تقریریں اور اقوال بھول جائیں ؟ ایک نعرہ جو تحریک پاکستان کا لازمی جزو تھا وہ بھی ان روشن خیالوں نے کہیں نہیں پڑھا ؟ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ قائداعظم 1942 میں الہ آباد میں تھے تو وکلاء کے ایک وفد کی ملاقات کے دوران ایک وکیل نے پوچھا کہ پاکستان کا دستور کیسا ہوگا اور کیا آپ پاکستان کا دستور بنائیں گے ؟ قائداعظم نے جواب میں فرمایا کہ پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو برس پہلے بن گیا تھا ۔ قائداعظم کی 11 اگست 1947 کا خطاب رسول اکرم صل اللہ علیہ و سلم کے خطبہ الوداع کے ان الفاظ کی غمازی کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ تمام انسان آدم اور حوا سے ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ سوائے اس کے کہ کوئی پرہیزگاری اور اچھے عمل کی وجہ سے بہتر ہو ۔ گیارہ اگست 1947 کی تقریر سے متعلقہ اقتباس ۔ Now, if we want to make this great State of Pakistan happy and prosperous we should wholly and solely concentrate on the well being of the people, and especially of the masses and the poor. If you will work in co-operation, forgetting the past, burying the hatchet, you are bound to succeed. If you change your past and work together in a spirit that everyone of you, no matter to what community he belongs, no matter what relations he had with you in the past, no matter what is his color, caste or creed, is first, second and last a citizen of this State with equal rights, privileges and obligations, there will be no end to the progress you will make. I cannot emphasize it too much. We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community – because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalees, Madrasis, and so on – will vanish. Indeed if you ask me this has been the biggest hindrance in the way of India to attain the freedom and independence and but for this we would have been free peoples long long ago. No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed – that has nothing to do with the business of the State. As you know, history shows that in England conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some State in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days when there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State.

قائداعظم کی دو مزید تقریروں سے اقتباس ۔ Eid-ul-Fitr Message to the Nation on 18th August, 1947 This is our first Eid immediately following in the heralding of free independent Sovereign Pakistan having been established. This day of rejoicing throughout the Muslim world so aptly comes immediately in the wake of our national state being established, and therefore, it is a matter of special significance and happiness to us all. I wish on this auspicious day a very happy Eid to all Muslims wherever they may be throughout the world --an Eid that will usher in, I hope, a new era of prosperity and will mark the onward march of renaissance of Islamic culture and ideals. I fervently pray that God Almighty make us all worthy of our past and hoary history and give us strength-to make Pakistan truly a great nation amongst all the nations of the world. Eid-ul-Azha Message to the Nation, on 24th October, 1947
God often tests and tries those whom he loves. He called upon Prophet Ibrahim to sacrifice the object he loved most. Ibrahim answered the call and offered to sacrifice his son. Today too, God is testing and trying the Muslims of Pakistan and India. He has demanded great sacrifices from us. Our new-born State is bleeding from wounds inflicted by our enemies. Our Muslim brethren in India are being victimized and oppressed as Muslims for their help and sympathy for the establishment of Pakistan. Dark clouds surround us on all sides for the moment but we are not daunted, for I am sure, if we show the same spirit of sacrifice as was shown by Ibrahim, God would rend the clouds and shower on us His blessing as He did on Ibrahim. Let us, therefore, on the day of Eid-ul-Azha which symbolizes the spirit of sacrifice enjoined by Islam, resolve that we shall not be deterred from our objective of creating a State of our own concept by any amount of sacrifice, trials or tribulations which may lie ahead of us and that we shall bend all our energies and resources to achieve our goal. I am confident that in spite of its magnitude, we shall overcome this grave crisis as we have in our long history surmounted many others and notwithstanding the efforts of our enemies, we shall emerge triumphant and strong from the dark night of suffering and show the world that the State exists not for life but for good life.

Friday, August 12, 2005

آج میں بلاگنگ نہیں کروں گا ۔

آج کا دن صرف اور صرف پیاری پیاری مشل کے لئے مخصوص و محفوظ ہے ۔ Our Dear Dear Michelle We long for you so much مشل ہماری پیاری پیاری ننھی سی پوتی جو طبعی طور پر ہم سے بارہ ہزار کلو میٹر سے زیادہ دور اٹلانٹا میں ہے مگر ہر دم ہمارے پاس ہمارے دلوں میں دماغوں میں آنکھوں میں موجود ہے ۔ ہمارے تخیّل میں ہمارے ساتھ کھیلتی اور اپنی کوڈڈ زبان میں باتیں کرتی ہے ۔ کبھی مسکراتی کبھی کھلکھلا کر ہنستی کبھی ہمیں چھیڑتی ہے ۔ آج ہماری پیاری پیاری مشل ماشاءاللہ ایک سال کی ہو گئی ہے ۔ مشل ۔ دادی کا دل دادا کی جان ۔ جیو ہز ا ر و ں سال سال کے دن ہوں پچاس ہزار آج ہم بہت خوش بھی ہیں اور اداس بھی ۔ آج اپنی پیاری پوتی کے لئے لاکھوں اچھی اچھی دعائیں دل کی گہرائیوں سے نکل رہی ہیں اور امریکی ویزہ آفیسر عورت کے لئے کچھ بددعائیں بھی وہ عورت جس کا ہر فقرہ حقارت آمیز اور بدتمیزی سے بھرپور تھا ۔ اور جس نے ہم دونوں کو فیس وصول کر کے ویزا دینے سے انکار کر دیا اور ہم اپنی پہلی پوتی کو آج تک سینے سے نہیں لگا سکے ۔ یہاں کلک کر کے دیکھئے میرے بیٹے زکریا کی تحریر اور میرا تبصرہ ۔
مشل کے دادی اور دادا

Thursday, August 11, 2005

دانیال صاحب کا استفسار ۔ دوسری قسط

دانیال صاحب کا مدرسوں کے بارے سوال ۔ ۔ لیکن وہاں کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے؟ دانیال صاحب کا ہر سوال ایک طویل جواب مانگتا ہے ۔ میں صرف اپنے چشم دید کچھ واقعات اور ان سے مرتب ہونے والے خیالات بیان کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ سبحانہ و تعالی مجھے توفیق عطا فرمائے ۔ پہلے اپنے سائنسدانی سکولوں میں دینیات کا حال ۔ ہمارے سکول ۔ چھٹی اور ساتویں جماعت میں ہمارے جو استاد تھے وہ دینی مدرسہ سے پڑھے ہوئے نہیں تھے ۔ ایک لڑکے کو کہتے پڑھو ۔ وہ کھڑا ہو کر دوسرے پارہ کی بلند آواز سے تلاوت شروع کر دیتا ۔ تھوڑی دیر بعد استاد کہیں چلے جاتے اور طلباء اپنی مرضی سے پڑھتے رہتے ۔ دو سال ہم صرف دوسرا پارہ پڑھتے رہے ۔ آٹھویں جماعت میں میں دوسرے سکول چلا گیا ۔ وہاں کے استاد بھی کسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے نہیں تھے ۔ وہ کسی لڑکے کو پڑھنے کا کہہ کر خود کرسی پر دونوں پاؤں رکھ کر اکڑوں سو جاتے ۔ لڑکوں کے شور سے جاگ جاتے تو جو سامنے ہوتا اس کی پٹائی ہو جاتی ۔ ایک دن ایک لڑکا نیکر پہن کر آگیا ۔ استاد اسے شیطان کا بچہ شیطان کا بچہ کہتے گئے اور چھڑی سے پٹائی کرتے گئے ۔ اس کی ٹانگوں پر نیل پڑ گئے ۔ وہ کمشنر کا بیٹا تھا اس لئے استاد کی چھٹی ہو گئی ۔ پھر مولوی عبدالحکیم صاحب کو کنٹریکٹ پر رکھا گیا ۔ وہ مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فارغ التحصیل تھے اور راولپنڈی کی تین بڑی مساجد میں سے ایک کے خطیب تھے ۔ انہوں نے نویں جماعت میں سلیبس کے علاوہ ہمیں اچھا انسان بننے کے اصول بھی قرآن اور سنّت کی روشنی میں بڑی اچھی طرح سمجھائے ۔ ایک دن پڑھانے کے دوران ایک لڑکا شرارتیں کر رہا تھا ۔ دو بار منع کرنے پر بھی منع نہ ہوا تو مولوی صاحب نے اس کی پٹائی کر دی ۔ اگلے دن کلاس میں مولوی صاحب نے اس لڑکے کے پاس جا کر کہا بیٹا غصہ انسان کو پاگل کر دیتا ہے اسی لئے حرام ہے ۔ مجھے غصہ آگیا تھا اور میں نے آپ کی پٹائی کر دی مجھے معاف کر دو ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب 1970 کے الیکشن میں راولپنڈی سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب نے سکول کے ایک خلاف اسلام فنکشن میں شامل ہونے سے انکار کر دیا چنانچہ ایک سال بعد ان کی چھٹی ہو گئی ۔ دسویں جماعت میں جو صاحب اسلامیات کے استاد مقرر ہوئے انہوں نے ہمیں اسلامیات بالکل نہیں پڑھائی صرف شعر سناتے رہے اور کبھی کبھی افسانے ۔ موصوف مولوی نہیں شاعر تھے ۔ چھوٹی سی داڑھی رکھی تھی شائد اسی لئے اسلامیات کے استاد بنا دیئے گئے ۔ ارباب اختیار سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو بتایا گیا ۔ فکر کی ضرورت نہیں اسلامیات کا امتحان نہیں ہو گا ۔ میں نے 1983 میں بوائے آرٹیزن کے لئے 1200 فرسٹ ڈویژن میٹرک پاس امیدواروں کا انٹر ویو لیا ۔ ہر امیدوار سے انگریزی ۔ حساب اور اسلامیات کے سوال پوچھے ۔ سوائے دو تین کے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ خلفائے راشدین کیا ہوتا ہے ۔ اکثر لڑکوں کو نماز کا صحیح طریقہ معلوم نہ تھا ۔ ایک امیدوار نے اسلامیات کے سوالوں کے فرفر جواب دیئے ۔ میں نے مزید سوال پوچھے اس نے صحیح جواب دیئے ۔ ایڈمن آفیسر نے بتایا کہ یہ لڑکا عیسائی ہے تو میں نے پوچھا کہ آپ عیسائی ہوتے ہوئے اسلامیات پڑھتے ہیں ؟ کہنے لگا بائبل کا کورس بہت زیادہ ہے ۔ اسلامیات کی چھوٹی سی کتاب ہے اس لئے میں نے اسلامیات لی ۔ بارہ دن میں انٹرویو ختم ہوئے تو لیبر یونین کے صدر جو سیّد ۔۔۔ شاہ تھے میرے پاس آئے اور کہا سر آپ ظلم کر رہے ہیں اسلامیات نہ کوئی پڑھتا ہے نہ کوئی پڑھاتا ہے ۔ میٹرک میں اسلامیات میں فیل ہونے کے باوجود لڑکے پاس کئے جاتے ہیں ۔ کوئی سائنس وائنس کی بات کریں ۔ مدرسے ۔ میں پچھلے چالیس سالوں میں لاہور ۔ کراچی ۔ اکوڑہ خٹک ۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں کئی مدرسوں میں معلومات کی خاطر گیا ۔ سب مدرسوں میں زیادہ تر طلباء ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس اپنا پیٹ پالنے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہوتا اور ان کی تعلیم کے علاوہ کھانے اور کپڑوں کا خرچ بھی مدرسہ کے ذمہ ہوتا ہے ۔سب مدرسے لوگوں کی مالی امداد سے چلتے ہیں ۔ میں مدرسوں کو دو قسموں میں تقسیم کرتا ہوں ۔ اول ۔ رجسٹرڈ مدرسے جن میں سے کئی عرصہ دراز سے قائم ہیں ۔ ان مدرسوں میں تعلیم اور امتحانی نظام ہمارے سرکاری سکولوں اور بورڈوں سے بہتر ہے ۔ وہاں کوئی نقل نہیں ہوتی اور نہ کوئی سفارش یا رشوت سے پاس ہوتا ہے ۔ جو پاس ہوتے ہیں وہ اس کے اہل ہوتے ہیں ۔ میں کم از کم دو ایسے اشخاص کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے اپنے باپوں کے مدرسوں سے گریجوایشن کی بنیاد پر برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ ان مدرسوں میں ہمیشہ سے غیر ملکی طلباء دینی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ۔ مدرسوں میں دین کے علاوہ کچھ اسلامی تاریخ بھی پڑھائی جاتی ہے ۔ کچھ مدرسے ایسے ہیں جہاں دوسرے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔ یعنی حساب سائنس تاریخ جغرافیہ وغیرہ ۔ زیادہ تر رجسٹرڈ مدرسوں کے منتظم چندہ مانگنے نہیں جاتے لوگ از خود امداد کرتے رہتے ہیں ۔ دوم ۔ غیر رجسٹرڈ مدرسے ۔ یہ چھوٹے چھوٹے مدرسے ہیں اور عام طور پر مساجد کے اندر یا ان کے ساتھ ہیں ۔ یہ زیادہ تر صرف قرآن شریف پڑھاتے ہیں اور کچھ مدرسے حفظ بھی کراتے ہیں ۔ ان مدرسوں میں گرد و نواح کے بچوں کے علاوہ یتیم اور غریب بچے بھی ہوتے ہیں ۔ ان مدرسوں میں کچھ ایسے ہیں جن کے ارباب اختیار تنگ نظر ہیں ۔ ان مدرسون کی اصلاح کی فوری ضرورت ہے مگر امریکی ایجنڈا کی بجائے پاکستانی ایجنڈا کے مطابق ۔

Monday, August 08, 2005

دانیال صاحب کا استفسار ۔ پہلی قسط

دانیال صاحب نے لکھا ہے ۔ میں دینی مدارس پر پابندیوں کے خلاف ہوں۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی تعلیم کی کمی ہے اور مدارس اس ضمن میں بڑے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ میں اس بات کے بھی خلاف ہوں کہ مساجد حکومت کنٹرول کرے اور اپنی مرضی کے خطبات نشر کروائے۔ پاکستان کے مدارس میں یقینا دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ لیکن وہاں کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے؟ کیا یہ بات صحیح نہیں کہ ہمارے مدارس کے طلباء اسامہ بن لادن کو ہیرو سمجھتے ہیں؟ اور ایسا کیوں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہونے والی تحقیقات کی تان پاکستان پر آکر ٹوٹتی ہے؟ کیا یہ بات بھی صحیح نہیں کہ چیچنیا، کشمیر اور افغانستان میں جاری جہاد کا پاکستانی مدارس سے کچھ تعلق ہے؟ کیا مدارس کے نظام میں بہتری کی گنجائش ہے؟ اور اگر ہے تو وہ بہتری کس قسم کی ہونی چاہئیے؟ اور ایک اور اہم سوال پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اور جہاد میں کس طرح فرق کرنا چاہئیے؟ دانیال صاحب بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ مدرسوں اور مسجدوں پر پابندی نہیں ہونا چاہیئے اور نہ یہ حکومت کے کنٹرول میں ہونا چاہئیں ۔ ورنہ وہی ہو گا جو ترکی میں ہوا ۔ جن کا اب یہ حال ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ۔ مارچ 1924 میں مصطفے کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کو ختم کر کے سیکولر حکومت قائم کی ۔ کسی کا عربی لباس پہننا ۔ عورتوں کا سر کو ڈھانپنا ۔ عربی زبان میں قرآن اور نماز پڑھنا اور اسلام یا اسلامی معاشرہ کا نام لینا ممنوع قرار دیا اور یورپین لباس کو قومی لباس قرار دیا گیا ۔ مسجدیں حکومت نے اپنے کنٹرول میں لے لیں اور سرکاری امام مقرر کئے جو نماز ترکی زبان میں پڑھاتے اور نماز کے وقت کے علاوہ مسجدوں پر تالے رہتے ۔ ان اقدامات کو مصطفے کمال پاشا نے ترقی کی نشانی کہا اور یورپین بننے کا دعوی کیا ۔ آج 80 سال بعد بھی ترکی یورپینوں کا باجگذار تو ہے مگر یورپی یونین میں شامل نہیں ہو سکا جبکہ ماضی قریب میں روس سے آزاد ہونے والی مشرقی یورپ کی کئی ریاستیں یورپین یونین کا حصہ بن چکی ہیں ۔ پاکستانی مدرسوں کا غریب بچوں کو پڑھانے میں بہت بڑا کردار ہے بلکہ ہم لوگ جو اسلام کے متعلق تھوڑا بہت علم رکھتے ہیں وہ ان مدرسوں کے پڑھے ہوئے علماء کی وجہ سے ہے ۔ دانیال صاحب نے تو اپنے عمدہ دماغ کی سوچ تحریر کی ہے ۔ ميں اس کا آئینی پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کروں گا ۔ تمام دینی اور مذہبی مدرسوں یا سکولوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے چاہے وہ رجسٹرڈ ہوں یا نہ ہوں ۔ ان مدرسوں کے تعلیمی کام یا نظام میں حکومت کی طرف سے مداخلت پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے چند دن قبل آئین کی جن شقوں کی بنیاد پر حسبہ ایکٹ کی پانچ شقوں کی انیس ذیلی شقوں کو آئین کے خلاف قرار دیا ہے ۔ حکومت مدرسوں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے اور مدرسوں کی انتظامیہ کو مختلف حکم دے کر آئین کی ان ہی شقوں کی مکمل خلاف ورزی کر رہی ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔ ۔ ۔ Chapter 1. FUNDAMENTAL RIGHTS 20. Subject to law, public order and morality:- (a) every citizen shall have the right to profess, practice and propagate his religion; and (b) every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institutions. 22. (1) No person attending any educational institution shall be required to receive religious instruction, or take part in any religious ceremony, or attend religious worship, if such instruction, ceremony or worship relates to a religion other than his own. (2) In respect of any religious institution, there shall be no discrimination against any community in the granting of exemption or concession in relation to taxation. (3) Subject to law: (a) no religious community or denomination shall be prevented from providing religious instruction for pupils of that community or denomination in any educational institution maintained wholly by that community or denomination; and (b) no citizen shall be denied admission to any educational institution receiving aid from public revenues on the ground only of race, religion, caste or place of birth. مندرجہ بالا شقیں 1956 کے آئین اور 1962 کے آئین میں بھی موجود تھیں ۔

Sunday, August 07, 2005

انّا للہ و انّا الیہ راجعون

السلام علیکم
میں بڑے دکھ کے ساتھ سب ساتھیوں کو مطلع کرتا ہوں کہ ہمارے ایک ساتھی جہانزیب اشرف صاحب کے جوان انکل آج صبح پاکستان میں تقریبا ساڑھے دس بجے اچانک وفات پا گئے ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون ۔ آئیے سب مل کر دعا کريں کہ اللہ ان کی مغفرت کرے اور جنت میں مقام عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر اور یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔

Saturday, August 06, 2005

آج کے دن

آج کے دن کم از کم مندرجہ ذیل اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے ۔ انسانیت سے دوستی کا ڈنڈورہ پیٹنے والے امریکہ نے ہروشیما کی شہری آبادی پر ایٹم بم گرایا جس سے دو لاکھ پچپن ہزار کی آبادی میں سے چھیاسٹھ ہزار انسان ہلاک اور انہتر ہزار زخمی ہوئے ۔ یعنی 26 فیصد مر گئے اور مزید 27 فیصد زخمی ہوئے ۔ صرف 47 فیصد بچے ۔ زخمیوں میں سے بہت سے اپاہج ہو گئے ۔ پی آئی اے کی قاہرہ مصر کے لئے پہلی آزمائشی پرواز نمعلوم وجوہات کی بناء پر قاہرہ کے قریب صحرا میں گر کر تباہ ہو گئی اور دو سو کے قریب لوگ ہلاک ہو گئے ۔ پی آئی اے کا فوکر فرینڈشپ طیارہ راولپنڈی سے لاہور جاتے ہوئے روات کے قریب گر کر تباہ ہو گیا اور پچیس لوگ ہلاک ہو گئے ۔ ہر سال ایڈنبرا فیسٹیول کے نام پر پرنس نائٹ منائی جاتی ہے ۔ میں زوڈیاک سائینز میں یقین نہیں رکھتا لیکن جو اس کا شوق رکھتے ہیں ان کے لئے لکھ دیتا ہوں کہ چھ اگست کے لئے زوڈیآک سائین اسد یا لیو ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے ۔ Warm, generous, open spirit; strong leaders, readily noticed whenever they enter a room; enjoy being center stage; regal appearance and often a dramatic personality; strong pride and occasionally arrogant; susceptible to flattery and easily embarrassed; good follow-through, will see a project to its conclusion; often artistic and creative; natural understanding of children; loyal and ardent lovers; may make fun of themselves, but won't appreciate others doing so. آج کے دن جموں شہر میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام کسی حساب دان نے اس کی پیدائش کے سال کی بنیاد پر افتخار اجمل رکھا ۔

Friday, August 05, 2005

وہ کون ہے ؟

وہ میری بیوی ہے پچھلے اڑتیس سال سے ۔ کون کہتا ہے کہ ارینجڈ میریج اچھی چیز نہیں ہے ۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ ارینجڈ میریج یورپی سٹائل کی لو میریج سے زیادہ کامیاب ازدواجی زندگی مہیا کرتی ہے ۔ میں زبردستی کی شادی کی بات نہیں کر رہا ۔ اریجڈ میرج وہ ہوتی ہے جس میں والدین اپنے بچوں کی عادات پر نظر رکھتے ہوئے ان کے ساتھی کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ تبادلہء خیال بھی کرتے ہیں ۔

Thursday, August 04, 2005

آج کا دن اس کے نام جو چار اگست کو پیدا ہوئی

اس کے والد صاحب کا کاروبار قاہرہ میں تھا ۔ وہ عرصہ دراز سے وہیں رہتے تھے ۔ وہ مصر کے شہر قاہرہ میں پیدا ہوئی ۔ اس کے والد صاحب کے آباؤ اجداد اس علاقہ میں رہتے تھے جو چھ سال پہلے پاکستان بن چکا تھا ۔ اچانک اس کے والد صاحب کے دل میں پاکستان کی محبت جاگی اور وہ سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ گئے ۔ وہ پاکستان کی کوئی زبان نہ بول سکتی تھی اور نہ سمجھ سکتی تھی ۔ پھر بھی اسے سکول میں داخل کرا دیا گیا چوتھی جماعت میں ۔ اس نے بہت محنت کی اور چند ماہ میں تھوڑی بہت اردو لکھنے لگی ۔ ہر سال وہ پاس ہوتی چلی گئی اور پنجاب یونیورسٹی سے فزکس کیمسٹری میں بی ایس سی پاس کی ۔ مگر اردو بولتے ہوئے وہ ٹ چ ڈ ڑ صحیح طرح نہیں بول سکتی تھی ۔ اڑتیس سال قبل وہ میرے گھر آئی تو اسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ میرے دل میں اس کے لئے قدر اور محبت جاگی اور بڑھتی چلی گئی ۔ خیال رہے پہلی نظر میں عشق صرف افسانوں میں ہوتا ہے حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ اسی لئے کسی نے کہا ہے ۔ کہتے ہیں جسے عشق ۔ خلل ہے دماغ کا ۔ اس کے ہاتھ سے پکے کھانے کھائے ۔ پاکستانی ہی نہیں چین ۔ مصر ۔ اٹلی اور ترکی کی ڈشز بھی بہت اچھی اور مزے دار بناتی ہے ۔ میں نے اس کے بنائے ہوئے گلاب جامن اور رس ملائی بھی کھائی ہوئی ہے ۔ مٹھائی کی دکان والے کیا مقابلہ کریں گے ۔ وہ میری خوشیوں میں شامل ہوئی اور میرے غم میں میری ڈھارس بندھائی ۔ میرے ساتھ اس نے افریقہ اور یورپ کی سیر بھی کی اور حج اور عمرے بھی ۔ ہمیشہ اس نے میرے آرام کا اپنے آرام سے زیادہ خیال رکھا ۔ اب وہ میرے دل و دماغ پر چھا چکی ہے ۔ وہ کون ہے ؟ جاننے کے لئے کل اسی بلاگ پر تشریف لا ئیے ۔

Tuesday, August 02, 2005

Thousand visits - ایک ہزار دورے مکمل

پچھلے دو دنوں میں اتنا مشغول رہا کہ میں اپنے بلاگ پر توجہ نہ دے سکا ۔میں نے یہ بلاگ 7 اور 8 مئی کی درمیانی رات کو بنایا تھا ۔ 31 جولائی تک یعنی 85 دنوں میں زائرین نے اس کے ایک ہزار دورے کئے ۔
I remained so involved during past two days that could not pay attention to my blog. I had designed and launched this blog on the night between 7th and 8th May, 2005. On 31st July, it had registered 1000 visits.

Monday, August 01, 2005

جسے اللہ رکھے

کچھ ہفتے قبل میں نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ لکھا تھا اور عنوان رکھا تھا سر منڈاتے ہی اولے پڑے ۔ ایک قاری نے ۔ملّا نہ سمجھ لیں قاری پڑھنے والے کو کہتے ہیں۔ ہاں تو ایک قاری نے بالکل صحیح تجویز کیا تھا کہ عنوان جسے اللہ رکھے ہونا چاہیئے تھا ۔ مگر میں نے عنوان اپنے والدین کی پریشانی کے لحاظ سے رکھا تھا ۔ خیر ۔ آج پھر میں گڑبڑ کرنے لگا تھا کہ مجھے اپنے قاری کی تجویز یاد آ گئي ۔ آج کل روشن خیال اسلام کی تعمیر زور شور سے جاری ہے جس کے نتیجہ میں جہاد سے متعلق آیات کورس کی کتابوں سے نکالنے کا حکم ہے اور اسی سال کے اندر سارے دینی مدرسوں کو بند کرنا ہے ۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا ۔ نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھرنکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ایک دوست کی یاد آئی جو ایک سال قبل اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے تھے ۔ اختر صاحب سے میری ملا قات بیالیس سال قبل ہوئی جو آہستہ آہستہ دوستی میں ڈھل گئی ۔ انہوں نے ترپن سال قبل انجنیئرنگ کالج لاہور سے الیکٹریکل انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی ۔ وہ مجھ سے تیرہ سال بڑے تھے اس لئے بے تکلف دوستی ہوتے ہوئے بھی احترام قائم رہا ۔ اختر صاحب صاف گو انسان اور باعمل مسلمان تھے ۔ اکتیس سال قبل وہ کسی ٹریننگ پروگرام کے تحت چیکوسلواکیہ گئے ۔ وہ ملک جو اب دو یا تین ملکوں میں بٹ چکا ہے ۔ اس زمانہ میں یہ کٹر کیمیونسٹ ملک تھا اور مسلمانوں والا نام رکھنا بھی واجب القتل جرم تھا ۔ واپس آ کر انہوں نے اس وقت کے لحاظ سے عجیب واقعہ مجھے سنایا جو اختر صاحب کی زبانی مختصر درج کرتا ہوں ۔ میں جس فیکٹری میں تھا وہاں کوئی دو سو مقامی نوجوان تربیت لے رہے تھے ۔ ان کے بال بہت لمبے تھے اور جینز ۔ بنیان اور جیکٹ پہنتے تھے ۔ بظاہر بالکل لا پرواہ تھے اور اپنی زبان کے علاوہ اور کوئی زبان نہیں بولتے تھے ۔ ایک دن میرا پاکستانی ساتھی بیمار ہونے کی وجہ سے فیکٹری نہ گیا ۔ دوپہر کی بریک کے دوران کیفیٹیریا میں ایک میز کے ساتھ اکیلا بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان احتیاط سے ادھر ادھر دیکھ کر جلدی سے میرے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔ چند منٹ بعد اس نے میری طرف اشارہ کر کے میرے کان میں کہا ۔ لا الہ ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے میرے کان میں کہا الحمدللہ ۔ پھر اس نے اشاروں سے پوچھا کہ تمہارا ساتھی کیا ہے ؟ میں نے کہا لا الہ تو اس نے نفی میں سر ہلایا اور اشاروں سے مجھے سمجھایا کہ وہ مسلمان نہیں وہ شراب پیتا ہے ۔ اس دن کے بعد جب بھی کیفیٹیریا میں کوئی آفیسر موجود نہ ہوتا وہ میرے پاس آ کر بیٹھ جاتا اور اشاروں میں پاکستان کے متعلق پوچھتا رہتا ۔ کبھی قرآن شریف کی کوئی سورۃ مجھے سنا دیتا ۔ ایک دن وقفہ لمبا تھا تو اس نے مجھے پوری سورۃ بقرہ سنا دی ۔ میں نے ہمت کر کے اسے پوچھا کہ قرآن تم نے کہاں سے سیکھا تو اس نے بتایا کہ ایک استاد ہے جو ان کی طرح کسی اور فیکٹری میں کام کرتا ہے لیکن سب کچھ خفیہ ہے اگر کسی کو پتہ چل جائے تو سب کو ہلاک کر دیا جائے گا ۔ پھر ایک دن میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ان کے گروہ میں بارہ ہزار مسلمان ہیں اور آہستہ آہستہ تعداد بڑھ رہی ہے ۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن شریف کی حفاظت اپنے ذمّہ لے رکھی ہے ۔ یہ واقعہ اس کی ایک ادنی مثال ہے ۔ مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے وہی ہوتاہے جو منظورخدا ہوتا ہے اپنے مکروہ ارادوں کو جتنا چاہیں خوشنما بنا لیں صیہونی ۔ نیو کان ۔ان کے باج گذار اور خوشامدی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے مسلمانوں کو گبھرانا نہیں چاہیئے اور علّامہ اقبال کا یہ شعر یاد رکھنا چاہیئے تندیء باد مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے شعیب صفدر صاحب کی ہدائت پر آج بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر مندرجہ ذیل تبصرہ کیا ۔
ذی شعور شخص فیصلہ کرنے سے پہلے متعلقہ علم رکھنے والے لوگوں سے ایک مطالعاتی سروے کراتا ہے اور اس سروے کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران ایسا نہیں کرتے بالخصوص ملٹری ڈکٹیٹر اپنے آپ کو عقل کل اور ہرفن مولا سمجھتے ہیں اور جنرل پرویز مشرف تو تمام حدود پھلانگ چکے ہیں ۔ جو وعدے انہوں نے نواز شریف کی جمہوری حکومت کو ختم کر نے کے بعد کئے تھے چھ سال گذرنے کے بعد بھی ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا ۔ البتہ جو ادارے پہلے ٹھیک کام کر رہے تھے ان کو بھی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ جہاں تک دینی مدرسوں کا تعلق ہے میں پچھلے تیس سالوں میں معلومات کی خاطر اسلام آباد ۔ راولپنڈی ۔ لاہور اور اکوڑہ خٹک میں کچھ مدرسوں میں جا چکا ہوں ۔ وہاں صرف اور صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے ۔ دہشت گردی کی تعلیم تو بہت دور کی بات ہے وہاں فرقہ واریت کی بھی تعلیم نہیں دی جاتی ۔ فرقہ واریت ان نام نہاد مشائخ میں سے کچھ پھیلاتے ہیں جو حکومت کے خرچ پر عیش کر رہے ہیں ۔
افغانستان میں روسیوں کے خلاف جنگ کیلئے امریکی حکومت نے مدرسوں کے باہر خاص مراکز میں عسکری تربیت کا انتظام کیا تھا جس پر ہر سال امریکہ کئی سو ملین ڈالر خرچ کرتا رہا ۔ ان مراکز میں تربیت پانے والے زیادہ تر لوگ پاکستانی نہیں تھے ۔ ان کے لیڈروں کو امریکی حکومت کے مہمانوں کے طور پر امریکہ لیجایا جاتا تھا اور ان سے وہاں تقریریں بھی کروائی جاتی تھیں ۔ اس سارے کھیل میں پاکستانی مدرسوں کا کوئی رول نہ تھا ۔ اب بھی کسی جنگ یا دھماکے میں پاکستانی مدرسوں کا کوئی کردار نہیں ۔ پرویزمشرف اپنی ڈکٹیٹرشپ کو قائم رکھنے کے لئے اسلام کے خلاف امریکی اور برطانوی حکومتوں کے اشاروں پر ناچ رہا ہے ۔ اگر امریکی اور برطانوی عوام کو حقیقت کا علم ہو جائے تو مجھے یقین ہے وہ اس کی حمائت نہیں کریں گے ۔