Tuesday, October 31, 2006

ظُلم کی انتہاء اور کيا ہوتی ہے ؟

باجوڑ ايجنسی ميں مدرسہ ضياءالعلوم تعليم القرآن پر پير 30 اکتوبر کی صبح 5 بجے کے لگ بھگ مزائل مار کر مدرسہ کے مہتمم مولانا فقير محمد ۔ تين اساتذہ اور 78 طلباء کو ہلاک کر ديا گيا جن ميں 30 حافظِ قرآن اور درجن سے زائد نابالغ بچے باقی اٹھارہ سے پچيس سال تک کے تھے ۔ مقامی لوگوں کے مطابق امريکہ کے بغير پائلٹ طيّارے [ڈرون] کچھ دنوں سے اس علاقہ پر پرواز کرتے رہے ۔ آخر پير کی صبح دو امريکی ڈرون آئے ان ميں سے ايک نے دو ميزائل چلائے ۔ ايک مدرسہ ميں گرا اور دوسرا قريبی نالہ ميں پھر تيسرا ميزائل دوسرے ڈرون نے چلايا ۔ اس کے تقريباً 15 منٹ بعد پاک فوج کے گن شِپ ہيلی کاپٹر آئے اور انہوں نے ملحقہ پہاڑی پر راکٹ چلائے جن کا دھماکہ پہلے تين دھماکوں سے بہت کم تھا ۔
.
خيال رہے کہ اس سال جنوری ميں بھی امريکہ نے مولانا فقير محمد کو مارنے کيلئے ميزائل داغے تھے جس سے 18 بيگناہ شہری جن ميں زيادہ تر عورتيں اور بچے تھے ہلاک ہو گئے تھے ۔ اُس وقت بھی امريکہ نے يہی کہا تھا کہ وہاں ايمن الظواہری نے ڈنر پر آنا تھا ۔ اس قتل پر اتنا شديد ردِعمل ہوا تھا کہ پاکستان کی حکومت امريکہ سے احتجاج کرے پر مجبور ہو گئی تھی ۔
.
امريکی ٹی وی چينل اے بی سی نے بتايا کہ حملہ ان اطلاعات پر کيا گيا کہ مدرسے ميں ايمن الظواہری ٹھہرے ہوئے ہيں ۔ لہٰذا چھوٹے امريکی جاسوس طيّارے [ڈرون] سے اسے نشانہ بنايا گيا تاہم تصديق نہيں ہو سکی کہ ايمن الظواہری وہاں تھے اور ان کا کيا انجام ہوا ۔ اے بی سی ٹی وی کے مطابق حملہ ميں دو سے پانچ تک عسکريت پسند ہلاک ہوئے جن ميں برطانوی طيّارہ کيس کا ماسٹر مائينڈ بھی شامل ہے ۔
.
پاک فوج کے ترجمان ميجر جنرل شوکت سلطان نے کہا کہ کچھ دنوں سے خفيہ اطلاعات مل رہی تھيں کہ اس مدرسہ ميں دہشتگردی کی تربيت دی جاتی ہے اور يہ کہ حملہ پاکستان کی سيکيورٹی فورسز نے کيا ۔ امريکی ٹی وی کی خبر کی انہوں نے واضح ترديد نہ کی ۔ ايمن الظواہری کی مدرسہ ميں موجودگی اور برطانوی طيّارہ سازش کے ماسٹر مائينڈ کی ہلاکت کی تصديق نہيں کی اور کہا کہ يہ محض مفروضہ ہے ۔
.
جن اخبارات کے مندرجات کو اختصار کے ساتھ پيش کيا گيا
.
اب تو يوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جن کو ہم حکمران سمجھتے رہے وہ دراصل غيرملکی طاقت کے غلام ہيں ۔ اس لئے ہموطنوں کے قتلِ عام پر مجبور ہيں ۔ اور اپنے آقاؤں کی تابعداری ميں دينی تعليم [صرف اسلام کی] کو دہشتگردی کا نام ديتے ہيں ۔

Saturday, October 28, 2006

عجوبہءِ روزگار ہوٹل

Tuesday, October 24, 2006

آزادی آزادی آزادی

ہم کيا چاہتے ہيں ؟ آزادی آزادی آزادی
۔
انشاء اللہ العزيز
۔
ستم شعار سے تجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن ۔ ۔ ۔ ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
۔
ميں مسلم ہائی سکول راولپنڈی ميں دسويں جماعت ميں تھا ۔ 24 اکتوبر 1952 کو صبح سويرے سارے سکول کے طلباء کے سامنے ہمارے ايک اُستاذ نے اقوامِ متحدہ کی خوبياں بيان کرنا شروع ہی کی تھيں کہ سکول کے باہر سے آواز آئی ۔ ہم منائيں گے يومِ کشمير ۔ اُن کی آواز ميں ہماری جماعت کے طلباء نے آواز ملائی پھر کيا تھا پورا سکول نعروں سے گونج اُٹھا ۔ کرائيں گے آزاد ۔ جموں کشمير ۔ اقوامِ متحدہ مردہ باد ۔ سکول کے باہر گورنمنٹ کالج کے طلباء جلوس کی شکل ميں آئے تھے ۔
۔
جمعہ 24 اکتوبر 1947 کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے انسانوں سے مايوس ہو کر اپنے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی ایک جنگ کی صورت اختیار کر گئی ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں مظفرآباد ۔ میرپور ۔ کوٹلی اور بھمبر آزاد کرا کے صوبہ جموں میں کٹھوعہ اور صوبہ کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ ان آزادی کے متوالوں کا مقابلہ شروع تو مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے ہوا ليکن ايک ہفتہ بعد بڑی تعداد میں بھارتی فوج بھی محاذ پر پہنچ گئی اور ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کوہ مری کے قريب پاکستان کو کشمير سے ملانے والا کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن اللہ سُبْحَانہُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا ۔
۔
اس جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مسلمانوں کے پاس زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں تھیں يا دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ جبکہ بھارتی فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی اور برطانوی فضائیہ نے بھی اس کی بھرپور مدد کی ۔ بے سروسامانی کی حالت میں صرف اللہ پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے اللہ کی نُصرت سے آگے بڑھتے رہے ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں پسپا ہوتے گئے یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے ۔
۔
بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا جو ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے گورداسپور کو بھارت میں شامل کر کے بھارت کو مہیا کیا تھا ۔ بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ۔ پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی پھر جو فیصلہ عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔
۔
اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہ تھے مگر وزیرِ خارجہ ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948 میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی ۔
۔
آجکل پاکستان کی حکومت بھی پاکستان دُشمن قوتوں کے نِرغے ميں ہے اورجموں کشمير کے مسلمانوں کے قاتلوں کے ساتھ محبت کی پينگيں بڑھا رہی ہے ۔ يوں محسوس ہوتا ہے کہ اندر کھاتے امريکہ کے دباؤ کے تحت بھارت کی ہر بات ماننے بلکہ ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ ہمارے روشن خيال حکمران امريکہ کو دے کر اُن کی زبانی شاباشوں پر پھولے نہيں سماتے ۔ ليکن تاريخ پڑھنے والے جانتے ہيں کہ نيک مقصد کيلئے ديا ہوا خون کبھی رائيگاں نہيں جاتا اور غاصب و ظالم حکمران کے خلاف آزادی کی جدوجہد سے بڑھ کر نيک مقصد اور کيا ہو سکتا ہے ؟ جموں کشمير کے مسلمان پچھلے 60 برس ميں پونے پانچ لاکھ جانيں ظُلم کی بھينٹ چڑھا چکے ہيں ۔ انشاء اللہ يہ بيش بہا قربانياں ضائع نہيں جائيں گی اور رياست جموں کشمير آزاد ہو کر رہے گی ۔

Monday, October 23, 2006

کيا آج چاند نظر آئے گا ؟

ميں نے 3 اکتوبر کو روئتِ ہلال کے متعلق لکھا تھا ۔ آج ميں اجرامِ فلکی کے علم کے مطابق حاصل کی گئی اشکال پيش کر رہا ہوں ۔ فيصلہ قارئين خود کريں کہ چاند کب نظر آئے گا ۔
۔
اُوپر والی تصوھر 23 اکتوپر کی صورتِ حال دکھاتی ہے ۔ دعویٰ يہ ہے کہ ايک فيصد چاند نظر آتا ہے
۔
۔
درميان والی 24 اکتوبر کی صورتِ حال دکھاتی ہے اور دعویٰ ہے کہ 4 فيصد چاند نظر آتا ہے
۔
۔
نيچے والی تصوير 25 اکتوبر کی صورتِ حال دکھاتی ہے اور دعویٰ ہے کہ 9 فيصد چاند نظر آتا ہے

Sunday, October 22, 2006

عيدالفطر مبارک

تمام مسلم بہنوں اور بھائيوں بالخصوص پاکستانی بہنوں اور بھائيوں کی خدمت ميں عيدالفطر کا ہديۂِ تبريک پيش کرتا ہوں اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے ۔
۔
اللہ سبحانُہُ و تعالٰی آپ کے روزے اور عبادتيں قبول فرمائے اور آپ سب کو دائمی عمدہ صحت ۔ مُسرتيں اور خوشحالی سے نوازے ۔ آمين ثم آمين ۔
.
ميری مؤدبانہ گذارش ہے کہ ايک سال پہلے کی عيد نہ بھولئے ۔ لاکھوں بزرگ ۔ بہنيں ۔ بھائی اور بچے آزاد جموں کشمير اور پاکستان کے شمالی علاقوں ميں آپ سے اُميديں وابستہ کئے بيٹھے ہيں

Thursday, October 19, 2006

وطن سے دور بسنے والوں کے احساسات

ميں 1967 ميں وطن سے دور جرمنی کے شہر ڈوسل ڈَورف ميں تھا ۔ عيد کا دن تھا ۔ ڈوسل ڈَورف کی گہما گہمی کے باوجود محسوس کر رہا تھاکے ميں کسی بياباں يا صحرا ميں بالکل اکيلا ہوں جہاں کوئی چرِند پرِند بھی نہيں ۔ کچھ دير گُم سُم رہا پھر وطن کی ہر چيز ذہن ميں متحرک ہو گئی ۔ اُس دن جو شعر ميں دہراتا رہا يہاں درج کر رہا ہوں ۔
۔
چمن چھُٹا تو گُل و ياسمن کی ياد آئی
پہنچ کے دشت ميں صبحِ چمن کی ياد آئی
-----------------
وطن وہ مرکزِ صِدق و صَفا حرِيمِ جمال
وطن وہ کعبہءِ عِلم و ہُنر عرُوجِ کمال
وطن کہ سُرمہءِ چشم طلب ہے خاک اس کی
وطن کہ شہرِنغمہءِ نکہت ۔ ديارِ حُسن و جمال
وطن جہاں ميری اُمنگوں کا حُسنِ تاباں ہے
وطن کہ جہاں ميری شمعءِ وفا فروزاں ہے
وطن جہاں ميری يادوں کے دِيپ جلتے ہيں
وطن جو يوسفِ بے کارواں کا کنعاں ہے
--------------------
ديارِ شوق سے تيرا اگر گذر ہو صباء
گُلوں سے کہنا کہ پيغمبرِ بہار ہوں ميں
ميرے نفس سے ہيں روشن چراغِ لالہ و گُل
چمن کا روپ ہوں ميں ۔ حُسنِ لالہ زار ہوں ميں
--------------------
ميرے خلوصِ سُخن پہ جو اعتبار آئے
روِش روِش پہ چمن ميں کوئی پُکار آئے
ہميں بھی باغِ وطن سے کوئی پيامِ يار آئے
ہميں بھی ياد کرے کوئی جب بہار آئے

Wednesday, October 18, 2006

رِيڈل نے مشرف کا بھانڈا پھوڑ ديا

صدر جنرل پرويز مشرف کی کتاب کی رونمائی کے ساتھ ساتھ امريکہ کے سابق صدر بِل کلِنٹن کے مشيرِ خاص بروُس رِيڈل کی کتاب چھپی ہے جس ميں اُس نے جولائی 1999 ميں اس وقت کے وزيرِ اعظم نواز شريف اور صدر بِل کلِنٹن کے مابين ہونے والے ايک اہم اجلاس کی مختصر کاروائی لکھتے ہوئے معرکہ کرگل اور حکومت پر فوج کے متوقع قبضہ کے متعلق حقائق بيان کئے ہيں جس سے جنرل پرويز مشرف کے دعوے غلط ہو جاتے ہيں ۔
۔
مندرجہ ذيل رابطے پر کلِک کر کے يا اسے براؤزر ميں لکھ کر تفصيل پڑھيئے ۔

Monday, October 16, 2006

جے اخبار کہندا اے تے ٹھيک ای ہوسی

کئی سال قبل پشاور ٹی وی پر ايک پروگرام ہوتا تھا جس کا عنوان تھا ۔ جے اخبار کہندا اے تے ٹھيک ای ہوسی ۔ يعنی اگر اخبار يہ کہتا ہے تو ٹھيک ہی ہو گا ۔ اس پروگرام ميں بتايا جاتا تھا کہ اخبار حقيقت کے برعکس کوئی خبر يا مضمون چھپے تو لوگ اسے حقيقت مانتے ہيں ۔ آج کے زمانہ ميں پروپيگنڈا بہت کامياب ہتھيار ہے جو حقيقت کو غَلَط کا اور اِختراع کو حقيقت کا رُوپ ديتا ہے ۔
۔
آج کی تاريخ 1951 ميں سہ پہر کے وقت راولپنڈی کے کمپنی باغ ميں پاکستان کے پہلے مُنتخب وزيرِاعظم نوابزادہ لياقت علی خان کو ہلاک کر ديا گيا ۔ متوقع ردِ عمل کی شدّت کو کم رکھنے کيلئے بہت پہلے سے ناعاقبت انديش پاکستانيوں نے غير ملکی دشمنوں کے ہاتھوں ميں کھيلتے ہوئے اُن کے دامن کو پروپيگنڈا کے زور سے داغدار بنانے کی کوشش کی ۔ نوابزادہ لياقت علی خان امريکہ گئے تو ان کی بيوی بھی ان کے ہمراہ تھيں ۔ ايک طوفان بپا ہوا کہ شرم نہيں آتی بيوی کو ساتھ لے گيا ۔ واپسی پر پھيلايا کہ امريکہ کا زيرِ نگوں بن کے آگئے ہيں ۔ پھر اُن کی بيوی کے متعلق کہا گيا کہ مسلمان نہيں ہے ۔ اخباروں ميں اور ہر کس و ناکس کی زبان پر يہی تذکرے آگئے ۔
۔
ميری بچپن سے عادت ہے کہ اگر کسی کی اچھائی بيان کی جائے تو جلدی مان ليتا ہوں ليکن بُرائی بيان کی جائے تو بغير تحقيق کے نہيں مانتا ۔ سو ميں نے تحقيق جاری رکھی ۔ بيگم لياقت علی خان کا مُسلم ہونا تو لياقت علی خان صاحب کے قتل کے بعد ثابت ہوگيا جب سب نے اُنہيں باقاعدہ تلاوت کرتے ديکھا ۔ کئی دہائياں بعد ايک ريٹائرڈ سينيئر سرکاری ملازم سے معلوم ہوا کہ نوابزادہ لياقت علی خان صاحب کو مع بيوی کے امريکہ آنے کی دعوت دی گئی تھی اور وہاں اُن پر امريکہ کا حواری بننے کيلئے بہت دباؤ ڈالا گيا مگر وہ نہ مانے ۔ آخر اُن کو قتل کروا ديا گيا تاکہ امريکہ نواز لوگ حکومت ميں آ سکيں ۔ قتل کی سازش کو کامياب بنانے کيلئے کرائے کا قاتل سَيد اکبر [سيّد نہيں] حاصل کيا گيا اور قتل کے فوراً بعد ايک تھانيدار نے سَيد اکير کو گولی مار کر ہلاک کر ديا ۔
۔
ان سوالوں کا خاطر خواہ جواب کسی نے آج تک نہيں ديا
سرکاری احکامات کے خلاف اس دن بُلٹ پروف روسٹرم سٹيج پر کيوں نہ تھا ؟ بلکہ روسٹرم تھا ہی نہيں
سَيد اکبر ايک عام آدمی اور غيرملکی ہوتے ہوئے پستول ليکر سب سے اگلی صف ميں کس طرح بيٹھ گيا اور کسی سکيورٹی والے کو وہ نظر بھی نہ آيا جب کہ اگلی صف سکيورٹی والوں کی تھی ؟
ايک تھانيدار نے سَيد اکبر کو گولی مار کر ہلاک کيوں کيا جبکہ دوسری صف ميں بيٹھے ايک سيکيورٹی اہلکار نے سَيد اکبر کو قابو کر ليا تھا ؟
تھانيدار پر سَيد اکبر کو قتل کرنے اور اس قتل سے ملک کے وزيراعظم کے قتل کی تفتيش ميں رخنہ ڈالنے کا مقدمہ کيوں نہ چلايا گيا ؟
۔
پاکستان کے دوسرے وزيراعظم خواجہ ناظم الدين کے متعلق مشہور کيا گيا کہ بہت زيادہ کھاتے ہيں اور صرف روسٹ مُرغياں کھاتے ہيں ۔ بہت لالچی آدمی ہيں ۔ جب اُن کی نظريں سير نہيں ہوتيں تو کھايا ہوا قے کر کے اور کھاتے ہيں ۔ کسی نے يہ بات بھی پھيلانے کی کوشش کی کہ وہ امريکہ کے منظورِ نظر ہيں اسلئے مسند پر بيٹے ہيں ورنہ بالکل نا اہل ہيں ۔
۔
حقيقت يہ تھی وہ کم خور تھے اور اُن کے جسم کو پانی قابو کرنے [Water Retention] کی بيماری تھی جس کا اُس زمانہ ميں خاطرخواہ علاج معلوم نہ تھا ۔ وہ موروثی زميندار تھے اگر وہ لالچی ہوتے تو سارا زميندارا چھوڑ کر قوم اور ملک کی خدمت ميں نہ لگ جاتے ۔ وہ انتہائی شريف منش آدمی تھے اس لئے پاکستان دشمن لوگوں کا خيال تھا کہ مغرب کے پٹھو غلام محمد کے گورنرجنرل بن جانے پر وہ کوئی مزاہمت نہيں کريں گے ليکن سياسی وابستگی کے تحت امريکی گندم کی اُنہوں نے مخالفت کی جس کے نتيجہ ميں غلام محمد نے خواجہ ناظم الدين کی منتخب حکومت برطرف کردی اور غلام محمد کے ہم نوالا و ہم پيالہ جسٹس منير نے اس غلط اقدام کو جائز قرار دے کر نظريہ ضرورت کا پھندہ ہميشہ کيلئے پاکستانی قوم کے گلے پر کَس ديا ۔ بعد ميں يہی سياسی گندم کا تحفہ پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹيٹر جنرل ايوب خان نے قبول کيا اور پاکستانی قوم محکوم ہونا شروع ہوگئی ۔

Sunday, October 15, 2006

ايک نظر ادھر بھی

پنجاب يونيوسٹی ميں ناچ گانے کي باقاعدہ کلاسز کی مخالفت کرنے پر سٹوڈنٹس کو يونورسٹی سے نکالنے کی تيارياں ۔ نيچے ديئے رابطہ پر کلک کر کے يا اسے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے http://nawaiwaqt.com.pk/urdu/daily/oct-2006/15/columns3.php

Thursday, October 12, 2006

جھگڑے اور شرمندگی سے نجات

پاکستان ميں مندرجہ ذيل رابطہ اپنے چرند [Browser] ميں لکھ کر کھولئے
۔
ہماری ہر بات اور عمل اپنا اثر رکھتے ہيں جس طرح پانی ميں پتھر پھينکا جائے تو لہريں پيدا ہوتی ہيں جو دور تک جاتی ہيں ۔ ہميں اپنی مرضی کے مطابق بولنے اور عمل کرنے کا حق ضرور ہے ليکن ہمارے بولے ہوئے الفاظ اور ہمارے عمل کے نتيجہ کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ جلدی ميں بولے ہوئے الفاظ نے متعدد بار پيار کرنے والے مياں بيوی يا دوستوں کے درميان ديوار کھڑی کی ہے ۔
۔
بعض اوقات ہم کسی کے متعلق غلط سوچ قائم کرتے ہيں اور پھر غُصّے يا جذبات ميں آ کر جو منہ ميں آتا ہے کہہ ڈالتے ہيں ۔ ايسے ميں اگر ہم توقّف کريں تو جلد ہی غصہ يا جذبات دھيمے پڑ جاتے ہيں اور اس کی جگہ رحمدلی يا تدبّر لے ليتا ہے ۔ اسلئے غصے يا جذبات سے مغلوب ہو کر کچھ بولنا يا کوئی قدم اُٹھانا بڑی غلطی ہے ۔ بہتر يہ ہے کہ غصہ يا جذبات کے زيرِ اثر نہ کوئی بات کی جائے اور نہ کوئی عملی کام ۔ عين ممکن ہے ايک آدھ دن ميں يا تو غصے کا سبب ہی ختم ہو جائے يا کوئی بہتر صورت نکل آئے ۔ بالفرضِ محال اگر صورتِ حال جوں کی توں رہتی ہے تو کم از کم بہتر اقدام کے بارے ميں سوچنے کا وقت تو مل گيا ہو گا ۔ زيادہ قياس يہی ہے کہ غصہ کھانے کی وجہ ہی نہيں رہی ہو گی ۔
۔
سُورة 41 فُصِّلَت / حٰم السَّجْدَة آيت 34 ۔
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا
*
ميری يہ مواصلاتی بياض [Blog] مندرجہ ذیل رابطہ پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر بھی پڑھ سکتے ہيں
میری انگريزی کی مواصلاتی بياض حقائق عموماً تلخ ہوتے ہيں ۔ ۔ Reality is Often Bitter مندرجہ ذیل روابط ميں سے کسی ايک پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر پڑھيئے ۔ http://hypocrisythyname.blogspot.com

Sunday, October 08, 2006

زمين ميرے پاؤں کے نيچے سے نکل گئی

پاکستان ميں مندرجہ ذيل رابطہ اپنے چرند [Browser] ميں لکھ کر کھولئےhttp://www.pkblogs.com/iftikharajmal
۔
پچھلے سال آج کے دن ميں کسی کام سے راولپنڈی کچہری گيا ہوا تھا ۔ وہاںگہری سوچ ميں گُم ايک دفتر سے دوسرے دفتر جا رہا تھا کہ ميرے پاؤں کے نيچے سے زمين زوردار جھٹکے کے ساتھ ايک طرف کو گئی ۔ ابھی سنبھل نہ پايا تھا کہ زمين دوسری طرف کو گئی ۔ جھٹکے ختم ہوئے تو بيٹے کا ٹيلفون خيريت پوچھنے کيلئے آيا ۔ تھوڑی دير بعد گھر کو روانہ ہوا ۔ راستہ ميں پھر بيٹے کا ٹيليفون آيا اور اُس نے بتايا کہ مرگلہ ٹاور گِر گيا تھا ۔ اسلام آباد گھر پہنچنے پر بيٹے نے بتايا کہ ہمارے گھر کے چار کمروں کی ديواروں ميں دراڑيں پڑ گئی تھيں ۔ ميرے وہم و گمان ميں بھی نہ تھا کہ ميرے مُلک کے شمالی علاقوں ميں قيامتِ صغرٰی بپا ہو چُکی ہے ۔
۔
رات گئے معلوم ہوا کہ مظفرآباد اور باغ وغيرہ سے بالکل رابطہ نہيں ہو رہا ۔ کچھ رضاکار صورتِ حال معلوم کرنے چل پڑے ۔ آدھی رات کے بعد اُنہوں نے اپنے موبائل سے اطلاع دی کہ مظفرآباد کو جانے والی سڑک تباہ ہو گئی ہے ذرا سی روشنی ہو جانے پر وہ گاڑی وہيں چھوڑ کر پيدل آگے جائيں گے ۔ اگلے دن اُن کے ٹيليفون کا انتظار کرتے رہے ۔ اِسی دوران اطلاع ملی کہ صوبہ سرحد ميں بالا کوٹ تباہ ہو چکا ہے اور اس سے آگے شمالی علاقوں کی کچھ خبر نہيں ۔ عشاء کے بعد ٹيليفون آيا کہ ميں اکيلا ٹيليفون کرنے واپس آيا ہوں کيونکہ ٹيليفون کا نظام تباہ ہو چکا ہے مظفرآباد پہنچنے ميں تو وقت لگے گا جہاں تک ميں گيا ہوں سب گاؤں تباہ ہو چکے ہيں ۔ اس کے بعد مقامی فلاحی جماعتوں نے تيزی سے امدادی کاروائياں شروع کر ديں اور پہلی کھيپ 10 اکتوبر 2005 کو صبح سويرے روانہ کر دی گئی جو جہاں سڑک تباہ ہو گئی تھی اس سے آگے کندھوں پر ليجائی گئ اور مظفرآباد کے راستہ ميں رہائشی متاءثرين ميں بانٹ دی گئی ۔ اسی طرح پہلی کھيپ جو بالاکوٹ بھيجی گئی وہ ٹرک مانسرہ سے کچھ آگے رک گيا اور آگے پيدل کندھوں پر سامان پہنچايا گيا ۔
۔
اب ايک سال بعد صورتِ حال يہ ہے کہ متاءثرين کی غالب اکثريت ابھی تک خيموں ميں رہ رہی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ايسے واقعات سے لوگ عبرت پکڑتے ہيں مگر ہماری قوم شائد سب حدود پار کر چُکی ہے ان پر کوئی اثر ہوا نظر نہيں آتا ۔ امدادی رضاکار ادارے شکائت کرتے ہيں کہ حکومت کے ذريعہ تقسيم ہونے والی امداد کا بيشتر حصہ متاءثرين کو نہيں مِل رہا ۔ حکومت نے بحالی کا ايک خصوصی ادارہ بنايا ہوا ہے جس کا سربراہ حاضرسروس جرنيل ہے ۔ ناجانے اُن کی کيا ذمہ داری ہے جو امداد خُردبُرد ہو رہی ہے ۔ امداد خُردبُرد کرنے والوں ميں حکومت کے اہلکاروں کے علاوہ مقامی لوگ بھی شامل ہيں اور متاءثرين بے سہارا لوگ ہيں ۔
۔
مسلم رضاکار اداريے امدادی کاروائياں جاری رکھے ہوئے ہيں ۔ اِنفرادی اِمداد بھی جاری ہے ۔ غير مُلکی امدادی ادارے صرف چند رہ گئے ہيں اور انہوں نے ايک اور مسئلہ کھڑا کيا ہوا ہے ۔ پاکستانی اور بين الاقوامی مسلم رضاکاروں نے بچوں اور بالغوں سب کيلئے تعليم کا بندوبست کيا ہوا ہے جس ميں وہ قرآن کی تعليم بھی ديتے ہيں ۔ ان کو قرآن کی تعليم اعتراض ہے کہ يہ لوگ متاءثرين کو دہشت گرد بنا رہے ہيں ۔ اس کے بر عکس کچھ غيرمُلکی ادارے متاثرين کو عيسائيت کی ترغيب ديتے رہے ہيں جس پر اجتمائی احتجاج بھی ہوا تھا ۔
۔
*
ميری يہ مواصلاتی بياض [Blog] مندرجہ ذیل رابطہ پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر بھی پڑھ سکتے ہيں
میری انگريزی کی مواصلاتی بياض حقائق عموماً تلخ ہوتے ہيں ۔ ۔ Reality is Often Bitter مندرجہ ذیل روابط ميں سے کسی ايک پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

Saturday, October 07, 2006

ماں باپ ايسے ہوتے ہيں ؟؟؟

پاکستان ميں مندرجہ ذيل رابطہ اپنے چرند [Browser] ميں لکھ کر کھولئے
۔
ہم نے سنا اور ديکھا بھی کہ اولاد اگر بدچلن ہو تو والدين ان کی سرزنش کريں گے پٹائی بھی کريں گے ليکن اُن کی برائيوں يا عيوب کی تشہير نہيں کريں گے بلکہ جہاں غيروں کا معاملہ ہو تو اپنے بچوں کا دفاع کريں گے ۔ يہ بھی سنا تھا کہ کسی قوم کے سردار يا حاکم قوم کے ماں باپ ہوتے ہيں ۔
۔
قائدِاعظم نے مسلمانانِ ہند کو اپنے پيارے بچوں کا سلوک ديا تو آج تک قوم اُن کو ياد کرتی ہے اور دوائيں ديتی ہے ۔
۔
اُن کے بعد جو بھی ملک کا سربراہ بنا اُس نے خواہ اپنی قوم کے ساتھ خود کيسا ہی سلوک کيا ہو ليکن غيروں کے سامنے اپنی قوم کی برائياں نہيں کيں بلکہ اپنی قوم کی تعريفيں ہی کيں ۔
۔
ہمارے موجودہ بادشاہ سلامت نے تو وہ کر دکھايا جو کبھی خواب ميں بھی نہ ديکھا تھا
اپنی ہی قوم کے سينکڑوں افراد کو بغير کسی جُرم کے ثبوت کے دشمنوں کے حوالے کيا
قوم کے ہيرو کو دشمنوں کی خوشنودی کی خاطر بلاثبوت نہ صرف قيد ميں ڈالا بلکہ اُس کی تضحيک اور بدنامی کی
قوم کے دين کا مذاق اُڑاتا رہا
اپنے ہی ملک کے مردوں ۔ عورتوں اور بچوں کو غيروں کی طفننِ طبع کی خاطر دہشت گرد قرار دے کر اُن پر بم برسائے
پھرکتاب کی صورت ميں ناکردہ گناہ بھی اپنی قوم کے سر تھوپ کر قوم کے خلاف ايف آئی آر کاٹ دی
خود تعريفی سے بھری جھوٹ کا پلندہ اِس کتاب کی نقاب کُشائی مُلک و قوم کے دشمن کے مُلک ميں کر کے دُشمنوں سے دادِ تحسين وصول کی
رہی سہی کسرآئی ايس آئی کو مشکوک بنا کر پوری کر دی گويا پوری فوج کو بھی مشکوک بنا ديا
۔
کيا بادشاہ سلامت خود اس قوم کا اور اس فوج کا حصہ نہيں ہيں ؟
کيا ان کو تھپکياں دينے والے غيرلوگ دل ميں ان کے بيانات پر ہنستے نہيں ہوں گے ؟
۔
سکول کے زمانہ ميں ضرب المثل پڑھی تھی کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے ۔ اس کا مطلب اُس وقت تو سمجھ نہ آيا تھا مگر اب اچھی طرح سمجھ آ گيا ہے ۔ گنجے کو ناخن مل گئے سو اس نے اپنے سر کو خارش کر کر کے لہو لہان کر ليا ہے ۔
۔
ايک تاريخی واقعہ ياد آيا ۔ جنوبی ہندوستان کے صادق نامی شخص نے اپنے لوگوں کے ساتھ غداری کر کے انگريزوں کی مدد کی جس سے وہ جيت گئے ۔ اس کے نتيجہ ميں جب اسے جان سے مارا جانے لگا تو اس نے احتجاج کيا ۔ جواب ملا کہ جو شخص اپنی قوم کا وفادار نہيں وہ کسی غير کا کيسے وفادار ہو سکتا ہے ۔ يہ کہہ کر اسے موت کے گھاٹ اتار ديا گيا ۔
*
ميری يہ مواصلاتی بياض [Blog] مندرجہ ذیل رابطہ پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر بھی پڑھ سکتے ہيں
۔
میری انگريزی کی مواصلاتی بياض حقائق عموماً تلخ ہوتے ہيں ۔ ۔ Reality is Often Bitter مندرجہ ذیل روابط ميں سے کسی ايک پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

Tuesday, October 03, 2006

شور ہر سال اُٹھتا ہے مگر ۔ ۔ ۔

پاکستان ميں مندرجہ ذيل رابطہ اپنے چرند [Browser] ميں لکھ کر کھولئےhttp://www.pkblogs.com/iftikharajmal
.
سالہا سال سے ہر سال يہ شور شعبان کے آخری ہفتہ ميں نمودار ہوتا ہے ۔ عيد الفطر تک گرما گرم بحث ہوتی ہے اور عيد الفطر کے بعد ايسا ہوتا ہے کہ جسے کچھ ہوا ہی نہيں ۔ موضوع ہوتا ہے چونکہ سائنس اب بہت ترقّی کر گئی ہے اسلئے علمِ سائنس کے ذريعہ چاند کی پہلی تاريخ کا حساب لگا کر روزہ رکھا جائے اور روئتِ ہلال کی کوئی ضرورت نہيں ۔
۔
اس ميں کوئی شک نہيں کہ اجرامِ فلکی کی حرکات ديکھنا اب آسان ہوگيا ہے ليکن جب يہ جديد طريقے معلوم نہيں ہوئے تھے يعنی چھ سات صدياں قبل تو بھی چاند ستاروں کی حرکت کا صحيح حساب لگايا جاتا تھا ۔ اگر ايسا نہ ہوتا تو بادبانی جہاز ميں دنيا کے ايک سرے سے دوسرے سرے تک تاجر کيسے سفر کرتے تھے جن کا رہبر اجرامِ فلکی ہی ہوتے تھے ؟ صرف کولمبس کو مثال بنانا غَلَط ہے جو کہ ہندوستان جانے کيلئے نکلا اور امريکہ پہنچ گيا ۔
۔
کہا جاتا ہے سو ڈيڑھ سو سال پہلے تک مسلمان سائنسدانوں کی بنائی ہوئی جنتری موجود تھی جس ميں چاند کی صحيح تاريخيں ہوتی تھيں اور اس ميں شاذ و نادر ہی تبديلی کی ضرورت پڑتی تھی ۔ مسئلہ دراصل يہ نہيں ہے کہ روئتِ ہلال ايک بوسيدہ يا غير سائنسی خيال ہے يا اسلام سائنسی تحقيق اور اس کے استعمال کی اجازت نہيں ديتا ۔ مسئلہ مسلمانوں کی دينی اور دنياوی علم سے دُوری ہے جس کے نتيجہ ميں لوگ گروہوں ميں بٹ کر ضدی بن گئے ہيں اور ہر گروہ اللہ اور اس کے رسول کی ہدائت کے خلاف دوسرے گروہ کی اچھائياں ديکھنے اور سيکھنے کی بجائے اس کی بُرائياں اُجاگر کرنے ميں لگا رہتا ہے جس کے نتيجہ ميں اتحاد کا فُقدان ہے ۔ ديگر اپنی گروہ بندی کی خاطر ان گروہوں نے مُختلف بدعتيں بھی اپنا لی ہيں ۔
۔
اس کُرّہءِ ارض کا ہر علاقہ سورج اور چاند کے ساتھ مُختلف زاويئے بناتا ہے ۔ يہ زاويئے سورج کے گرد ايک چکّر کے دوران بدلتے رہتے ہيں اور زمين کے محور کی زمين کی مُجسّم حرکت کی سطح کے ساتھ جھُکاؤ کا بھی ان زاويئوں پر زمين کے مُختلِف مقامات پر مُختلِف اوقات ميں مُختلِف اثر پڑتا ہے جو روئتِ ہلال کا قياس بذريعہ رياضی مُشکِل بنا ديتا ہے ۔
۔
دنيا ميں اس وقت کوئی مستند جنتری نہيں جو نظامِ شمسی کی سو فيصد صحيح عکاسی کرتی ہو ۔ گريگوريئن جنتری جو عام استعمال ميں ہے اس کے مطابق 12 مہينے ہيں 11 مہينوں ميں 30 يا 31 دن ہوتے ہيں ايک ميں تين بار 28 دن اور چوتھی بار 29 دن ہوتے ہيں ۔ جغرافيہ دان جانتے ہيں کہ اس کے باوجود مزيد تصحيح کی ضرورت ہے جو آج تک نہيں کی گئی ۔ مزيد يہ مہينے بھی نظامِ شمسی کی صحيح ترجمانی نہيں کرتے ۔
۔
اللہ سُبحانُہُ نے فرمايا ہے ۔
۔
آيت 189 سورت 2 الْبَقَرَة
لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج (کے تعیّن) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں
۔
سورت 6 الْأَنْعَام آيت 96
وہی صبح [کی روشنی] کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والاہے، اور اسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کوحساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے [ربّ] کا مقررہ اندازہ ہے
۔
سورت 9 التَّوْبَة آيت 36
بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا
۔
سُنّت نيا چاند ديکھنے کی تلقين کرتی ہے ۔ ترکِ سُنّت نہيں کيا جا سکتا کيونکہ اللہ تعالٰی نے رسول کی اطاعت کا حُکم ديا ہے [ميں اُن عقيدوں کی حمائت نہيں کرتا جو قرآن اور سنّت سے ماورا مختلف فرقوں نے اپنے اُوپر مسلّط کر لئے ہوئے ہيں] ۔ اجرامِ فلکی کے علم کے ماہرين بھی يہ رائے رکھتے ہيں کہ کبھی ايسا ہوتا ہے کہ رياضی کے قاعدے سے تو نيا چاند طلوع ہونا چاہيئے ليکن عملی طور پر ايسا نہيں ہوتا ۔ اس کی معروف وجہ يہ ہے کہ ہلال اتنا باريک ہوتا ہے کہ وہ کسی طريقہ سے نظر نہيں آ سکتا دوسرے ايسی صورتِ حال انتہائی قليل وقت کيلئے ہوتی ہے اور ايسا سراب کے اثر سے بھی ہو سکتا ہے چنانچہ يہ روئت مشکوک ہوتی ہے ۔ ايسی صورت ميں چاند نظر نہيں آيا ہی کہا جانا چاہيئے ۔ ايسا تو کيا جا سکتا ہے کہ اجرامِ فلکی کے علم کے ذريعہ کم از کم دس سالوں کی ايک جنتری بنا لی جائے پھر اس جنتری کا جائزہ ليا جاتا رہے اور جب حقيقی صورتِ حال کی بناء پر ضرورت پڑے اس ميں ترميم کی جاتی رہے ۔
۔
ميں اپنی حاصل کردھ تعليم اور تجربہ کی بنياد پر وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ عملی رياضی کے استعمال سے بنائے ہوئے پرزہ ميں بھی حقيقی عملی صورتِ حال کی بنياد پر ترميم کرنا پڑتی ہے ۔ دوسرے انسان کے بنائے ہوئے وقت کے پيمانے يعنی سيکنڈ ۔ منٹ ۔ گھينٹہ ۔ دن ۔ مہينہ اور سال نظامِ شمسی کے قدرتی پيمانے سے مماثلت نہيں رکھتے ۔ چنانچہ سُنّت کے علاوہ اس بنياد پر بھی صرف رمضان يا عيدين کيلئے نہيں بلکہ ہر ماہ روئتِ ہلال کا مناسب بندوبست ہونا چاہيئے اور اس کيلئے تعليم يافتہ اور تجربہ کار عُلماء اور ماہرينِ علمِ اجرامِ فلکی کی ايک مستقل کميٹی بنانا چاہيئے ۔ پہلی تاريخ اُسی دن ہو جس سے پچھلی شام چاند نظر آ جائے يا نظر آ جانا چاہيئے تھا مگر بادل دھند يا گرد کی وجہ سے نظر نہ آيا ۔
۔
واللہ علم بالصواب
*
ميری يہ مواصلاتی بياض [Blog] مندرجہ ذیل رابطہ پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر بھی پڑھ سکتے ہيں
۔
میری انگريزی کی مواصلاتی بياض حقائق عموماً تلخ ہوتے ہيں ۔ ۔ Reality is Often Bitter مندرجہ ذیل روابط ميں سے کسی ايک پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر پڑھيئے ۔