Thursday, September 29, 2005

کچھ سنا آپ نے ؟

اردو میں یہ الفاظ عام استعمال ہوتے ہیں ۔ چوہدری ۔ چمچہ جو کھانے والا اور سیاسی بھی ہوتا ہے ۔ چیلا جو کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ کھتری ۔ ماسی جو کراچی اور کئی دوسرے علاقوں میں نوکرانی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ پھڈا ۔ پنگا ۔ ووہٹی یعنی دلہن ۔ بہن ۔ لوٹا ایک طہارت کے لئے ہوتا ہے اور ایک سیاسی ۔ شیدا جو عام طور پر رشید یا ارشاد کا بگاڑا ہوا نام ہوتا ہے ۔ پاوے چارپائی کے اور بکرے یا گائے کے ہوتے ہیں مگر ایک خاص ہوتے ہیں جو کامیابی دلاتے ہیں بغیر محنت کے ۔ دھوتی جسے لاچہ یا تہہ بند بھی کہا جاتا ہے ۔ پینڈو یعنی دیہاتی ۔ ان کو اگر انگریزی میں پڑھا جائے تو ۔ ۔ ۔
C.H.O.W.D.H.A.R.Y. = Chief Hierarchical Officer With Designated Authority for Recurring Years C.H.A.M.C.H.A. = Chief's Appointed Managing Coordinator and Helping Associate C.H.A.I.L.A. = Chief's Appointed Information and Liaison Associate K.H.A.T.R.Y. = Key Holder And Treasury Retaining Yankee M.A.A.S.S.I. = Member Appointed At Social Service Institutions P.H.A.D.D.A. = Plans to Hold Actions to Deprive the Designated Associates P.A.N.G.A. = Proposals Attaining Negative Grounds for Actions W.O.H.T.I. = Women Officer Having Temporary Insanity B.E.H.N. = Board of Environment, Health and Nutrition L.O.T.A. = Local and Overseas Travel Agent S.H.E.E.D.A. = Shining and Honest Enthusiast Engineer Deprived of Ambitions P.A.W.A.Y. = Phenomenally Accented Weight Accruing Yule-logs D.H.O.T.Y. = Dress Handed Over To You P.A.Y.N.D.O.O. = Pakistani American Youth Not Disguising Our Origin A.B.C.D. = American Born Confused Daisi

Sunday, September 25, 2005

کیا کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان ہو جاتا ہے ؟

ہاں ۔ کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ۔ ۔ ۔ میں کوئی عالم فاضل نہیں اس لئے میں ہر چیز کو اپنے روزمرّہ کے اصولوں پر پرکھتا ہوں ۔ میں سکول میں داخل ہوا پڑھائی کی کئی مضامین یاد کئے سال میں ان گنت ٹیسٹ دیئے ۔ سہ ماہی ششماہی نوماہی سالانہ امتحانات دیئے اور سب محنت کر کے پاس کئے تب مجھے دوسری جماعت میں داخلہ کی اجازت ملی ۔ دس سال یہی کچھ دہرایا گیا ۔ اس فرق کے ساتھ کہ پڑھائی ہر سال بڑھتی اور مشکل ہوتی گئی ۔ دس سال یوں گذرنے کے بعد مجھے میٹرک پاس کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا۔ میٹرک کی بنیاد پر کوئی ایسی ملازمت ہی مل سکتی تھی جس سے بمشکل روزانہ ایک وقت کی سوکھی روٹی مل جاتی مگر شادی کر کے بیوی بچوں کا خرچ نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ چنانچہ پھر اسی رٹ میں جت گیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے گئے اور اتنے مشکل ہوۓ کہ رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہو گیا ۔ چھ سال بعد بی ایس انجنئرنگ کا سرٹیفیکیث مل گیا ۔ پھر نوکری کے لئے تگ و دو شروع ہوئی ۔ امتحان دیئے انٹرویو دیئے تو نوکری ملی اور اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوۓ ۔ یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کہ اکیس بائیس سال کے لئے کھانے پینے اور پڑھائی کا خرچ کسی اور یعنی والدین نے دیا اگر وہ نہ دیتے تو جو میرا حال ہوتا وہ میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔ سوچا تھا ملازمت مل جائے گی تو عیش کریں گے مگر خام خیالی نکلی ۔ سارا سار دن محنت کی پھر بھی باس کم ہی خوش ہوۓ ۔ متعدد بار تیز بخار ہوتے ہوۓ پورا دن نوکری کی ۔ جو لڑکے سکول یا کالج سے غیرحاضر رہتے رہے یا جنہوں نے امتحان نہ دیا یا محنت نہ کی یا امتحان میں فیل ہو گئے وہ پیچھے رہتے گئے اور کئی سکول یا کالج سے نکال دیئے گئے ۔ یہ لڑکے نالائق اور ناکام کہلائے ۔ جن لوگوں نے ملازمت کے دوران محنت نہ کی یا غیرحاضر ہوتے رہے وہ ملازمت سے نکال دیئے گئے ۔ عجیب بات ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوۓ میں والدین مسلمان ہونے یا صرف کلمہ طیّبہ پڑھ لینے کی بنیاد پر دعوی کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں چاہے نماز روزہ کی پابندی نہ کروں ۔ سچ نہ بولوں ۔ انصاف نہ کروں ۔ کسی کی مدد یا احترام نہ کروں ۔ دوسروں کا حق ماروں ۔ ظلم کروں ۔ کیا سب مجھے بیوقوف یا پاگل نہیں کہیں گے ؟ پاکستان کے سکولوں میں کئی عیسائی لڑکے اور لڑکیاں بائبل کی بجاۓ اسلامیات پڑھتے ہیں کیونکہ اسلامیات کا کورس بائبل کی نسبت بہت کم ہے ۔ یہ لوگ کلمہ طیّبہ کے علاوہ قرآن کی آیات اور احادیث پڑھتے اور یاد کرتے ہیں ۔ بائیس سال قبل بھرتی کے لئے انٹرویو لیتے ہوۓ مجھے چند عیسائی امیدواروں نے حیران کیا کیونکہ انہیں قرآن شریف کی سورتیں اور ترجمہ مسلمان امیدواروں سے زیادہ اچھی طرح یاد تھا ۔ لیکن اس سے وہ مسلمان تو نہیں بن جاتے ۔ شائد 1981 کی بات ہے ایک لبنانی عیسائی فلپ ہمام بیلجیم کی ایک بہت بڑی کمپنی پی آر بی میں ڈائریکٹر کمرشل افیئرز تھا ۔ میں نے اسے تسبیح پڑھتے دیکھ کر پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہیں ۔ اس نے کہا اشہد ان لا الہ الاللہ محمدالرسول اللہ ۔ میری حیرانی پر اس نے کہا میں دانتوں سے ناخن کاٹتے رہنے سے بہت تنگ تھا ۔ سائیکالوجسٹ نے مشورہ دیا کہ ہروقت ہاتھوں کو مصروف رکھو ۔ میں نے لبنان میں مسلمانوں کو فارغ وقت میں یہ تسبیح پڑھتے دیکھا تھا سو میں نے ان کی نقل کی مگر میں اس کے مطابق عمل نہیں کرتا بلکہ بائبل پر عمل کرتا ہوں اس لئے میں عیسائی ہوں ۔ کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں سواۓ اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور محمد صلّ اللہ علیہ و آلہ و سلّم اس کے پیامبر ہیں ۔ اگر کلمہ اس طرح پڑھا جائے جیسے فکشن سٹوری پڑھتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ ۔ علامہ اقبال نے سچ کہا ہے ۔ زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں اور عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

Wednesday, September 21, 2005

اگر ایم ایس ونڈوز اردو میں ہوتی

If MS Windows XP was in Urdu, The terms would be like this. Windows XP = کھڑکیاں کاٹا پیٹی File = مسل - - - Save As = اسطرح بچاؤ Save =بچاؤ - - - Mailer = ڈاکیہ Help = مدد - - - Select All = سب چنو Find = ڈھونڈو - - - Find Again = پھر ڈھونڈو Move = ہلاؤ - - - Mail = ڈاک Zoom in = پھیلاؤ - - - Zoom out = سکڑاؤ Open = کھولو - - - Close = بند کرو New = نیا - - - - Replace = بدلو Run = بھگاؤ - - - Print = چھاپو Cut = کاٹو - - - Print Preview =جائزہ چھپائی Delete = مٹاؤ - - - Copy = نقل مارو Paste = چپکاؤ - - - Insert = گھساؤ View = نظارہ - - - Database = معلومات بنیاد Tools = اوزار - - - Toolbar = اوزار ڈ نڈی Mouse = چوہا - - - Click = ٹک کرو Spreadsheet=بچھاؤ چادر - - - Tree = درخت Compress = دباؤ - - - Exit = نکلو Scrollbar = لپیٹن ڈ نڈی

Saturday, September 17, 2005

دل تھام کے بیٹھو اب میری باری آئی

وجہ تسمیہ ۔ ٹیگ کا مطلب وہ دھاتی چیز ہوتا ہے جو کسی چیز کے سرے کو محفوظ کرنے کے لئے یا لٹکانے یا کسی چیز میں سوراخ کرنے کے لئے لگائی گئی ہوتی ہے ۔ اسی حوالے سے دفتروں میں استعمال ہونے والی چھوٹی سی ڈوری کو ٹیگ کہا جاتا ہے ۔ ٹو ٹیگ کا مطلب نشان لگانا ہوتا ہے لیکن جو ڈوری یا دھاگہ عیسائی یا ہندو اپنی محبت کا نشان لگانے کے لئے ایک دوسرے کو باندھتے ہیں اسے بھی ٹیگ کا نام دے دیا گیا ۔ حارث بن خرم ۔ شعیب اور شبّیر صاحبان نے مجھے نشان لگا دیا ۔ میں نے سوچا اگر نہ لکھا تو نوجوان ناراض نہ ہو جائیں ۔ پچاس سال پہلے ۔ میں گارڈن کالج راولپنڈی میں ایف ایس سی کا طالب علم تھا ۔ اس سال اللہ کے فضل سے میں نے تقریری مقابلہ میں اپنی زندگی کی پہلی تقریر پر پہلا انعام جیتا تھا ۔ میں طلباء ۔ طالبات اور استادوں سب میں قابل اعتماد سمجھا جاتا تھا ۔ جو لڑکے لڑکیاں خود پریکٹیکل صحیح نہیں کر پاتے تھے وہ استاد سے کہلوا کر مجھ سے کرواتے تھے ۔ دس سال پہلے ۔ میں ترپن سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لینے کی وجہ سے فارغ تھا چنانچہ میں نے اپنی ذاتی تعلیم و تربیت اور ایک ویلفیئر سوسائٹی کے لئے بھرپور کام کیا ۔ ایک سال پہلے ۔ میں ماشاء اللہ ایک پیاری سی بچی کا دادا بن گیا ۔ پچھلے چھ ماہ میں ۔ اس کھاتہ یا روزنامچہ کی بدولت بہت سے نوجوانوں سے تعلقات بنے جن سے میں بہت کچھ سیکھ رہا ہوں ۔ البتہ قدیر احمد رانا ۔ جہانزیب اشرف اور حارث بن خرّم صاحبان تو مجھے سب کچھ سکھا کر ہی دم لیں گے ۔ محبوب مشاغل ۔ اچھے قاریوں کی آواز میں تلاوت اور صوت القرآن چینل سے ترجمہ سننا ۔ تلاوت زیادہ تر شیخ محمد عبدالباسط عبدالصمد ۔ شیخ عبدالرحمان السدیس ۔ شیخ محمود الحسری اور شیخ الشریم کی سنتا ہوں ۔ کتابوں ۔ رسائل ۔اخبارات اور انٹرنیٹ پر مضامین اور خبریں پڑھنا ۔ کمپیوٹر پر الٹے پلٹے تجربے کرنا ۔ جنہیں ملنا چاہتا ہوں ۔ ذاکر نائک ۔ اسرار احمد ۔ بل گیٹس ۔ نوم چومسکی اور قدیر احمد رانا ۔ حالیہ خوشی کے متحرک ۔ کسی کی مدد کرنا ۔ اپنی پوتی کے متعلق باتیں سننا ۔ اس کی وڈیوز دیکھنا ۔ اس کی تصویریں دیکھنا ۔اپنے بچوں کی کامیابی ۔ خواہشات ۔ تمنّا ہے کہ دنیا میں کچھ کام کر جاؤں ۔ اگر کچھ ہو سکے تو خدمت اسلام کر جاؤں ۔ خیال رہے اس میں انسانیت کی خدمت شامل ہے ۔ محبوب کھلونے ۔ پرسنل کمپیوٹر اور عمارتوں ہوائی جہازوں کاروں اور اسلحہ کے سکیلڈ ماڈل پسندیدہ خوراک ۔ ماشاء اللہ بیوی ۔ بیٹی اور دونوں بہو بیٹیوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی بریانی ۔ پلاؤ ۔ کوفتے ۔ پزّا ۔ لزانیا ۔ ششلک ۔ کشری ۔ محشی ۔ کیک ۔ بسیسا اور بسبوسا ۔ دونوں بیٹوں کی لائی ہوئی چاکلیٹ ۔ آئس کریم کیک ۔ موز (موس) کیک ۔ پسندیدہ ٹی وی شو ۔ میں ٹی وی کا شوقین نہیں مگر جب دیکھوں تو یہ دیکھتا ہوں ۔ ڈاکٹر اسرار ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک ۔ نیشنل جیوگرافک چینل اور ٹام اینڈ جیری یا اسی طرح کے کارٹون ۔ پسندیدہ فلمیں ۔ عرصہ دراز گذرا فلم بینی چھوڑے اس لئے نام یاد نہیں رہے ۔ صرف وہ فلمیں پسند تھیں جن میں اداکاری ۔ فلمنگ ۔ ہدائتکاری اور تھیم سب عمدہ ہوں ۔ پسندیدہ گلوکار جو تھے ۔ نورجہاں ۔ محمد رفیع ۔ لتا منگیشکر ۔ ثریّا ملتانیکر ۔ احمد رشدی ۔ پسندیدہ گانے ۔ گانے سننا چھوڑے شائد چالیس سال ہو گئے ۔ بچپن اور نوجوانی میں چند گانے پسند تھے جو احباب کے حکم پر گانے بھی پڑتے تھے ۔ سو برس کی زندگی میں ایک پل تو اگر کر لے کوئی اچھا عمل تجھ کو دنیا میں ملے گا اسکا پھل آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل دوسروں کے واسطے زندہ رہو جان بھی جائے تو ہنس کر جان دو معصیت کے واسطے شرمندہ نہ ہو چھوڑ خودغرضی خدا کی راہ چل ایک ہی آدم کی سب اولاد ہیں کچھ توخوش ہیں اورکچھ ناشادہیں جرم ان کا کیا ہے جو برباد ہیں تو زمانے کے اصولوں کو بدل لو دھن کا گھر لوٹنے والو لوٹ لو دل کا پیار پیار وہ دھن ہے جس کے آگے ہر دھن ہے بیکار انسان بنو کر لو بھلائی کا کوئی کام دنیا سے چلے جاؤ گے رہ جائے گا بس نام کیوں تم نے لگائے ہیں یہاں ظلم کے ڈیرے پیتے ہو غریبوں کا لہو شام سویرے دھن ساتھ نہ جائےگا بنے کیوں ہو لٹیرے خود پاپ کرو نام ہو شیطان کا بدنام لاکھرں یہاں شان اپنی دکھاتے ہوئے آئے دم بھر کے لئے ناچ گئے دھوپ میں سائے وہ بھول گئے تھے کہ یہ دنیا ہے سرائے آتا ہے کوئی صبح تو جاتا ہے کوئی شام جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہو گا دو گز کفن کا ٹکڑا تیرا لباس ہو گا یہ ٹھاٹھ باٹھ تیرا یہ آن بان تیری رہ جائے گی یہیں پر یہ ساری شان تیری اتنی ہی ہے مسافر بس داستان تیری کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے رہو ہمارا کیا ہے ہم تو مر کے جی لیں گے یہ زہر تم نے دیا ہے تو ہس کے پی لیں گے تمہاری راہ چمکتی رہے ستاروں میں دیار حسن میں حسن دیار بن کے رہو
When I kneel by the side of my mother As my evening prayer I recite There O LORD ! make me child again Just for tonight
اگر مجھے ایک سو ملین ڈالر مل جائیں تو میں ایک ایسا مدرسوں کا نظام بناؤں جس میں فیسیں طلباء و طالبات کے لواحقین کی مالی حیثیت کے مطابق ہوں ۔ ان میں سائنس اور دینی تعلیم دونوں کا بہت عمدہ بندوبست ہو اور ان کے لئے زبردست کمپیٹرائزڈ لائبریری ہو تا کہ طلباء اور طالبات کو زیادہ کتابیں نہ خریدنا پڑیں اور وہ سائنس میں ترقی کرنے کے ساتھ اچھے باعمل مسلمان بن سکیں ۔ میں پناہ کہاں لوں گا ۔ اللہ تعالی جہاں پناہ دے گا مجھے کچھ پتہ نہیں ۔ جو پوشاک پہننا پسند نہیں ۔ چمکیلے یا شوخ رنگ کے کپڑے ۔ کالی یا لال قمیض ۔ لال پتلون ۔ سبز جوتے اور بے ڈھنگے فیشنی ۔ میری بری عادتیں ۔ غیبت نہ کرنا ۔ کسی کا مذاق نہ اڑانا اور دوسروں کو ایسا کرنے سے منع کرنا ۔ شور سے گبھرانا ۔ بدی کو دور کرنے کی کوشش ۔ ناچ گانے والی محفلوں میں نہ جانا ۔ جنہیں میں نشان لگانا چاہتا ہوں ۔ تین درجن کے قریب نفوس نشان زدہ ہو چکے ۔ میں نے مشکل سے یہ چنے ہیں اے ڈبلیو کے ثاقب سعود ضیاء احمد فہیم شیخ بد تمیز

Tuesday, September 13, 2005

پرانی یادیں

اپنی نویں جماعت کے زمانہ کی ڈائری سے مجھے زمانے کی نظروں سے دیکھنے والو کبھی تو اپنی نگاہوں کے بند در کھولو سارے زمانے سے پیار جتانے والو مجھ سے بھی کبھی پیار سے بولو

Monday, September 12, 2005

کس سے کریں شکوہ اور کس سے مانگیں انصاف ؟

Clipping from today’s newspaper Meanwhile, a top official of the federal government confirmed that an official report received from the Punjab government reveals that SP Khalid Abdullah was related to a top "personality" of the Lahore High Court that was the major reason behind non-registration of an FIR against him on charges of abduction and rape of Sonia. Reportedly, the DIG had also told the inquiry committee that he was helpless to provide succour to Asim and Sonia as SP Abdullah had even sent ten applications to different government institutions on different trumpeted charges of corruption to launch inquiries against him to force him stay silent in this important case. The DIG had told the inquiry committee that he had also sent a report to the IG for Abdullah’s transfer that was never accommodated because of the power and influence he enjoyed for being related to one of the top "personality" of the Lahore High Court.

Friday, September 09, 2005

جو ہم چھوڑیں اور غیر اپنائیں

تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی جو مشرقی ثقافت تھی اس کو ہم فرسودہ جان کر چھوڑ رہے ہیں اور غیر جو نہ صرف اسلام بلکہ ہر باعمل مسلمان کے دشمن ہیں وہ ہماری ثقافت کے اجزاء پر یکے بعد دیگرے تحقیق کر کے اسے انسانی صحت کے لئے مفید ثابت کر رہے ہیں ۔ اس وقت ذکر صرف معانقہ یعنی بغل گیر ہونے کا ۔ صرف چند دہایاں پہلے جب دو مسلمان عزیز یا دوست ملتے تو بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے معانقہ کرتے یعنی بغلگیر ہوتے اور ان کے چہرے بشاش ہو جاتے ۔ ہماری نام نہاد ترقی کا یہ عالم ہے کہ اب دو عزیز یا دوست ملتے ہیں تو دور ہی سے صرف ایک ہاتھ ایک دوسرے کے کندھے کے پچھلی طرف لگا کر کے سمجھتے ہیں معانقہ ہو گیا ۔ اگر صحیح طرح معانقہ کیا جائے تو جسم میں ایک تازگی آ جاتی ہے ۔ ہم نمعلوم کس وجہ سے یہ چھوٹی چھوٹی صحتمند عادتیں چھوڑتے جارہے ہیں ۔ ایک تحقیق کے مطابق بغل گیر ہونے سے صحت زیادہ بہتر رہتی ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنامیں کی جانے والی تحقیق میں 38 جوڑوں پر بغل گیری کی عادت کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ تحقیق کے مطابق خوشی یا گرم جوشی سے بغل گیر ہونے سے جسم میں ایک ایسے ہارمون میں اضافہ ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے جس کی بدولت دل کی بیماریوں کے امکانات میں کمی واقع ہوتی ہے۔
اس تحقیق میں پہلے مرحلے میں جوڑوں کو الگ الگ کمروں میں رکھا گیا اور ان کا بلڈ پریشر اور ہارمون کا لیول نوٹ کیا گیا ۔ بعد میں انہیں بیس سیکنڈ تک ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہونے کے لئے کہا گیا۔ اس کے بعد ایسے ہارمون میں اضافہ دیکھا گیا جو دل کی بیماریوں میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ ایسے جوڑے جن کے درمیان ایک خوشگوار اور پیار کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایسے ہارمون کا لیول زیادہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر بغل گیری سے خواتین میں مردوں کی نسبت ان ہارمونز کا لیول زیادہ نوٹ کیا گیا ہے۔

Thursday, September 08, 2005

سونیا ناز کا خاوند عاصم زندہ ہے

Asim claims SP Abdullah forced him to go into hiding after taking bribe for his release and warning he and his family would pay dearly if he appeared before 2 years In a dramatic development, Asim Yousaf, husband of Sonia Naz, Wednesday emerged from hiding to reveal a shocking plethora of how, when, what, where and why related to the case. On the run for eight months, Yousaf told The News in an exclusive interview that he had, in fact, been in hiding following a warning of dire consequences from the prime accused in the scandal, SP Abdullah, as a price for his freedom. "I paid him Rs1.4million for my release (this is apart from the Rs2.2 million he ended up paying initially, to a notorious gang allegedly in cahoots with the Faisalabad Police and another Rs0.2 lakhs to Jamshed Chisti for the same reason). SP Abdullah had premised my freedom on the condition that I would excommunicate myself from my family members for two years," he said. تفصیلات پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے اور پڑھئے Sonia’s missing husband is back By Rauf Klasra

Monday, September 05, 2005

آؤ بچو سنو کہانی

ہم بہن بھائی جب چھوٹے چھوٹے تھے دادا جان سے کہتے کہانی سنائیں ۔ وہ کہتے آؤ سنو کہانی ایک تھا راجہ ایک تھی رانی دونوں کی ہوگئی شادی ختم ہوئی آج کی کہانی ۔ اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ۔ لیکن میں آج وہ کہانی کہنے لگا ہوں جو آپ نے پہلے کبھی سنی نہیں ہو گی ۔ ویسے کہانی شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے ۔ شادی سے پہلے تو صرف ہوائی قلعے ہوتے ہیں ۔ ایک درخت ہوتا ہے جو بہت جلد بڑا ہو جاتا ہے بہت بڑی جگہ گھیر لیتا ہے اور اس کی جڑیں بھی زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ۔ ایک علاقہ میں لوگ ٹھیک ٹھاک رہ رہے تھے ۔ ایک آدمی یہ کہہ کر ان کی زمین پر آیا کہ وہ ان کی زمین کی پیداوار بڑھا دے گا اور وہ اطمینان کی زندگی گذار سکیں گے ۔ اس نے متذکرہ درخت وہاں بو دیا اور ساتھ ہی اپنا مکان بنا کر رہنے لگا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت بہت بڑا ہو گیا اور بجائے پیداوار بڑھنے کے اس کے سائے اور جڑوں کی وجہ سے وہاں پیداوار کم ہو گئی ۔
۔
اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ اس شیطانی درخت کی ایک شاخ درخت لگانے والے کے گھر میں گھس گئی ۔ اس نے وہ شاخ کٹوا دی ۔ اس کی جگہ دو شاخیں اگ کر اس کے گھر میں گھس گئیں ۔ اس نے وہ کٹوا دیں تو تین چار شاخیں ان کی جگہ اگ کر اس کے مکان میں گھس گئیں اور ساتھ ہی درخت کی جڑوں نے اس کے مکان کی بنیادیں ہلا دیں جس سے درخت لگانے والا نیم پاگل ہو گیا ۔
۔
جناب اس درخت کا نام ہے دہشت گردی ۔ اگر زمین فلسطین ہے تو درخت لگانے والا اسرائیل اور اگر زمین عراق ہے تو درخت لگانے والا امریکہ ۔
۔
بچو کہانی پسند آئی ؟ اپنی رائے ضرور بھیجنا ۔

Saturday, September 03, 2005

سچا تے ستھرا پریزیڈنٹ جنرل

کل کے اخباروں میں پرویز مشرف کا بیان چھپا تھا کہ اس نے اسرائیل سے رابطہ کرنے سے پہلے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اور فلسطین کے سربراہ محمود عباس کو اعتماد میں لیا تھا ۔ آج کی خبر یہ ہے ۔ فلسطینی انتظامیہ کے اعلی اہلکاروں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اسرائیل سے وزیر خارجہ کی سطح پر ملاقات سے پہلے پاکستان کے صدر مشرف نے فلسطینی صدر محمود عباس کو اعتماد میں لیا تھا۔ اب شاہ عبداللہ کی طرف سے تردید باقی رہ گئي ۔
کراچی کے چار ہیں جن میں سے ایک جماعت اسلامی کے ہیں ۔ ان چاروں نے اسرائیل سے بات چیت کے خلاف بیان دیا ہے ۔
لاہور کے تین میں سے ایک نے اسرائیل سے بات چیت کے خلاف بیان دیا ہے اور دو نے اس کے حق میں بیان دیا ہے ۔
سرحد سے اے این پی کے نمائندہ نے اسرائیل سے بات چیت کے حق میں بیان دیا ہے زندہ باد کراچی ۔ Is it NAB or nab The National Accountability Bureau (NAB) on Friday said it would inquire into the incident of humiliation of a rape victim, Sonia Naz, at the hands of a top military officer of its Lahore bureau where she had reportedly gone to seek justice against SP Khalid Abdullah. However, NAB said before proceedings further, it needed to know the name of the military officer, who according to Sonia, had humiliated and thrown her out of his office, where she had gone to lodge a formal complaint against the alleged corruption of the police officer. Sonia in her interview with The News had alleged that after being hounded by SP Khalid Abdullah she had even gone to the office of NAB to seek justice as she had proof of corruption of the Faisalabad police and Excise department and that her husband was wrongly implicated in the case without any investigation and proper evidence. Sonia said a military officer who had met her there instead of taking her case seriously, humiliated her. Sonia alleged that the military officer had rather claimed that SP Abdullah was a very powerful police officer and she should go home instead of pursuing cases against him. Now NAB has said the available complaint and personal visit record of Lahore office for the last six months does not show any such entry, which could establish the aforesaid person’s visit. NAB said it is "a neutral and transparent organisation that believes in good governance". It urged the national press to verify facts before presenting "unsubstantiated" material before its valued readers. NAB said it would appreciate if the exact date and time of event were indicated, enabling the bureau to inquire into the incident. Rauf Klasra responds: In her written affidavit given to The News, Sonia Naz has not only given the name of the concerned NAB military officer, who allegedly humiliated her in Lahore office of the NAB, but also his description.

Friday, September 02, 2005

دانیال صاحب کا استفسار ۔ ساتویں اور آخری قسط

دانیال صاحب پوچھتے ہیں ۔ ایک اور اہم سوال پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اور جہاد میں کس طرح فرق کرنا چاہیئے؟ جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنا بہت آسان ہے مگر ہمارے لئے مشکل بن گیا ہے ۔ وجہ ۔ ہمارے دماغوں کی فریقوئنسی کچھ اس طرح سے سیٹ ہو گئی ہے کہ صرف مغربی دنیا سے آنے والی ویوز ہمارے دماغ میں سما سکتی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دین سے دور ہونے کے ساتھ ہم انسانی سوچ سے بھی محروم ہو گئے ہیں ۔اچھائی اور برائی کی پہچان ہی مفقود ہو گئی ہے اور ہمیں ظالم اور مظلوم کی پہچان نہیں رہی ۔ ہم نہیں جانتے سوائے اس کے جس کا علم ہمیں اللہ دے کیونکہ اللہ علیم الحکیم ہے ۔ اس لئے میں اللہ کے کلام سے صرف دو آیات نقل کرتا ہوں ۔
سورۃ 2 البقرہ آیت 85 ۔ اور کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں ۔
سورۃ 49 الحجرات آیت 14 ۔یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ۔ ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہو گئے ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا ۔ آج کل ہم لوگ نہ تو پورے قرآن پر عمل کرتے ہیں اور نہ ایمان ہمارے دلوں میں داخل ہوا ہے ۔ اس وجہ سے ہمیں اپنے دین کی بہت سی باتیں یا تو معلوم ہی نہیں یا سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اگر لاہور یا کراچی کا دولتمند اور طاقتور شخص کاہنا کاچھا یا لیاری کے غریب لوگوں کو اپنے آدمیوں کے ذریعہ قتل کروا دے اور ان کے اساسوں پر بھی قبضہ کر لے ۔ تو ہم کہیں گے کہ لاہور یا کراچی کا دولتمند ظالم ہے اور کاہنا کاچھا یا لیاری کے غریب لوگ مظلوم ہیں ۔ اگر یہ مظلوم لوگ یا ان کے عزیز و اقارب اپنے اساسے واپس لینے کی کوشش کریں اور اس سلسلہ میں اس ظالم کے خلاف بھی کاروائی کرنا پڑ جائے ۔ پھر ان کو اگر دہشت گرد کہا جائے تو یہ ظلم ہوگا انصاف نہیں ۔ تو پھر ہم فلسطینیوں ۔ کشمیریوں ۔ چیچنوں ۔ افغانوں اور عراقیوں کو دہشت گرد کس طرح کہہ سکتے ہیں ۔ اصل دہشت گرد تو ان کو دہشت گرد کہنے والے خود ہیں جنہوں نے ان کو مارا ۔گھروں سے نکالا اور ان کے اساسوں پر قبضہ کیا ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے انسانوں کو ہر بات بہت اچھے طریقے سے بتائی ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ البقرہ کی آیات 190 تا 193 کا کچھ حصہ ۔ اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور ان کو نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے اس لئے کہ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔ (ظلم ۔ بے انصافی ۔ فساد سب فتنہ کی قسمیں ہیں) یہاں کلک کر کے پڑھئے کہ جنرل مرزا اسلم بیگ اس بارے کیا کہتے ہیں ۔ محمد شاہد عالم صاحب امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ۔ ان کے ایک مضمون کا مختصر خلاصہ نیچے درج کر رہا ہوں ۔
دہشت گردی کی جو ڈیفینیشنز امریکہ نے دی ہیں اگر ہم ان کی روشنی میں امریکہ کی یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کے کردار کا جائزہ لیں تو مسئلہ مبہم و مشکوک ہو جاتا ہے ۔ امریکی حکومت نے اکثر اوقات امریکہ میں اور امریکہ سے باہر دوسرے ملکوں میں سویلین لوگوں کے خلاف تشدد کی کاروائیاں کی ہیں جو امریکہ کی اپنی پیش کردہ ڈیفینیشن کے مطابق دہشت گردی قرار پاتی ہیں ۔ اگر غیرجانبدار مفکّروں کی ایک ٹیم پچھلی دو صدیوں میں ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ امریکہ دہشت گردوں میں سر فہرست ہے ۔ بلا شبہ جرمنی برطانیہ فرانس ہسپانیہ بیلجیم اٹلی روسی یونین اور جاپان کا بھی فہرست میں اونچا مقام ہو گا اور اگر اس فہرست میں عراق میں صدام کی حکومت بھی ہوئی تو شائد فہرست کے آخری چند میں سے ہو ۔

Thursday, September 01, 2005

جل کے دل خاک ہوا آنکھ سے رویا نہ گیا

نگری میری کب تک یونہی برباد رہے گی دنیا ۔ دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی چاروں طرف چھایا ہے گھٹاٹوپ اندھیرا کوئی ہے جو بتائے کہ کب ہو گا سویرا کتنی بار روؤں اور کس کس کو روؤں ۔ دو چار ہوں تو نام پتہ لکھوں ۔ یہ تو روز کا معمول بن گیا ہے میرے سینے میں خنجر اور دماغ پر کچوکے لگانے کا ۔ مختاراں ۔ شازیہ ۔ نازش ۔ سونیا ۔ چند اور تو اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی بپتا کا حال لوگوں تک پہنچ گیا ۔ درجنوں ایسی ہوں گی جن کی کسی کو خبر ہی نہیں ۔ پھر وہ جن کو ایجنسیوں کے لوگ اٹھا کر لے گئے ڈاکٹر آسیہ ۔ نام نہاد خود کش بمبار بہنیں نجانے کتنی اور جن آج تک پتہ نہیں کہاں ہیں اور حکومت کے پالتو عدالتوں میں جھوٹ بولتے ہیں کہ حکومت کے جمعداروں کو ان کی کوئی خبر نہیں ۔ کون جانے ان کے ساتھ کیا بیت رہی ہے ۔ ہر صبح اخبار کھولتے ہوئے ہاتھ تھرتھرا رہے ہوتے ہیں جسم کانپ رہا ہوتا ہے اور دل مالک کائنات سے التجا کر رہا ہوتا ہے یا اللہ آج نہ ہو آج نہ ہو ۔ پھر وہی خبر ۔ ۔ ۔ حلق میں جیسے گولہ پھنس جاتا ہے ۔ سر پکڑ کر رہ جاتا ہوں ۔ میرے مولا یہ ظلم کب ختم ہو گا ۔ آزادی ملنے پر ہماری بہنوں بیٹیوں کی عزتیں دشمنوں نے لوٹیں ۔ ہم نے آزادی ملنے کی قیمت سمجھ کر برداشت کیا ۔ مقبوضہ کشمیر ۔ فلسطین ۔ افغانستان اور عراق میں ہماری بہنوں بیٹیوں کی عزت لوٹنے والے بھی ہمارے دشمن ہیں اور ہم اتنے کمزور ہیں کہ اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں اب آزادی انسان نما درندوں کو مل گئی ہے ۔ اپنے ملک ہی میں اپنے کہلانے والے اپنی ہی بہنوں بیٹیوں کی عزت لوٹ رہے ہیں ۔ ہمارے محافظ جن کی حفاظت پر مامور ہیں ان ہی کی بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لوٹ رہے ہیں اور ہمارے روشن خیال حکمران مدہوش پڑے ہیں ۔ بہت ہوا تو انکوئری کا حکم دیے دیا اور بس ۔ آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی ۔ ان روشن خیالوں کو بیرون ملک دوروں ۔ مساجد کے اماموں کو گرفتار کرنے ۔ دینی مدرسوں کو رجسٹر کرنے اور ناچ گانوں اور میلوں ٹھیلوں سے فرصت ہو تو شائد اپنے گرد نظر دوڑائیں ۔ رہی عدالتیں تو ان میں فیصلہ کرنے والوں کے نہ دل ہیں نہ آنکھیں ۔ اے خاصہء خاصان رسل وقت دعا ہے امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے