Sunday, May 29, 2005

نور پور شاہاں بم دھماکہ اور قانون کے محافظ

جس لڑکے نے جمعہ کی دوپہر کو ہمیں دھماکہ کی خبر سنائی وہ ہمارے ملازم کا بھتیجھا ہے اور ان کا اور ان کے احباب کے گھر نورپور شاہاں میں ہیں۔ اس کے اور کئی موقع کے گواہوں کے مطابق وہاں ایجنسیوں والے تو کیا پولیس والے بھی مزار کے اندر یا گرد موجود نہ تھے اور دور کسی ہوٹل میں بیٹھے کھا پی رہے تھے جب کہ یہ مزار پریزیڈنٹ ہاؤس۔ پرائم منسٹر ہاؤس اور ڈپلو میٹک انکلیو کے قریب ہے۔ دوسرے فی زمانہ جہاں کہیں بھی لوگ اکٹھے ہوں وہاں سخت سیکیوریٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اس سلسہ میں ڈان کا ایڈیٹوریل یہاں کلک کر کے پڑھئے۔

Saturday, May 28, 2005

خود کش حملہ اور ہلاکو خان

پاکستان میں بری امام کے مزار پر ایک اور خود کش دھماکہ ہو گیا۔ ایک زیادہ تر شیعہ زائرین اکٹھے تھے۔ سنی لوگ بھی موجود ہوں گے۔ اب ان دانش فروشوں اور دین کے نام سیاست کی دکان چمکانے والوں کی یقینا باچھیں کھلی ہوں گی۔ پاکستان کے عوام اور مقتدر طبقے نے عشروں تک جہادیوں کو بہ صرف برداشت کیا بلکہ ان کی کاروائیوں کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ ہم لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ کبھی یہ لوگ ہم پر بھی حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ شاید ہمیں بھی ایسے ہلاکو خان کا انتظار کرنا پڑے جو ان فدائین کو ٹھکانے لگا دے۔
نورپور شاہاں میرے گھر سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ دیگرمیں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ بی بی سی نے یہ شوشہ صرف فساد کی آک بڑھکانے کے لئے چھوڑا ہے کہ زیادہ تر شیعہ زائرین اکٹھے تھے۔ وہاں لوگ بلا تمیز مسلک آتے ہیں اور اپنی بلحاظ فرقہ پہچان نہیں کرواتے۔ بی بی سی کا مسلم دشمن افواہیں پھیلانے کا کاروبار کوئی نیا نہیں ہے۔ آج کے کمپلیکس دور میں جہاں کسی بھی چیز کی اصل صورت نظر آنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔ بات کرنا اور بات کو سمجھنا اتنا آسان نہیں رہا کہ ایک عبارت یا خبر پڑھی اور بات سمجھ میں آ گئی۔ نیبیل صاحب اور باقی قارئین سے بھی گذارش ہے کہ آپ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کر کے بتائیں کہ اشخاص کے ایک گروہ پر ان کے گھر یا محلہ یا شہر میں آ کر ان پر ظلم و ستم شروع کر دیا جائے ان کے کمسن بچوں کو بھی بلا وجہ قتل کیا جائے۔ ان کی بہنوں بیویوں بیٹیوں کی عزتیں لوٹی جائیں۔ ان کے پاس اپنے دفاع کا مناسب بندوبست بھی نہ ہو اور ان میں آپ بھی شامل ہوں تو کیا آپ یہی کہیں گے " ایک اور ہلاکو خان آ جائے اور آپ کے مردوں کی گردنیں اڑا دے اور آپ کی جوان عورتوں کو داد عیش دینے کے لئے اٹھا کر لے جائے ؟ جموں کشمیر میں بھارتی فوج۔ چیچنیا میں روسی فوج۔ فلسطین میں امریکہ کی حمائت یافتہ اسرائیلی فوج اور افغانستان اور عراق میں امریکی اور حلیف فوجیں جو کچھ کر رہی ہیں کیا یہ سب ٹھیک ہے ؟ اور اگر آپ وہاں کے باشندے ہوتے اور آپ کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا تو آپ کیا کرتے ؟ میں نے صرف نو دس سال کی عمر میں جو کچھ دیکھا اس کی چھوٹی سی جھلک میرے اس بلاگ کی سائیڈ بار میں "مائی لائف ان جمّوں اینڈ کشمیر پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ وقت بچانے کے لئے صرف "دی وائلینس سٹارٹس سے ٹو پاکستان " تک پڑھ لیجئے۔ میں نے اس میں انتہائی قلب سوز واقعات کا ذکر اس لئے نہیں کیا تھا کہ کہیں میری اولاد کافروں سے اتنی نفرت نہ کرنے لگ جائے کہ جہاں کافر نظر آئے اس کا منہ نوچ لیں۔ عبدالقادر حسن نے جو کچھ لکھا وہ درست ہے۔ کل نور پور شاہاں میں جو دھماکہ ہوا وہ عبدالقادر حسن کا موضوع سخن نہیں تھا۔ جو طریقہ عبدالقادر حسن نے فتوی کا لکھا ہے وہ بھی صحیح ہے۔ فتوی دینے کے لئے سب سے اہم شرط یہ ہے کہ اگر فتوی نہ دیا گیا تو کسی مسلم (با عمل مسلم) فرد یا گروہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ متّقی اور زاہد مسلم عالم فتوی دینے سے بہت کتراتے تھے کیونکہ نہ صرف ان کے فتوی کے نتیجہ میں جو کچھ ہو گا وہ ان کے نامہء عمال میں لکھا جائے گا۔ بلکہ اللہ تعالی بھی روز قیامت اس سے اس فتوی کی صحت کے متعلق سوال کریں گے ۔ عراق کے گورنر یزید بن عمر نے بن امیّہ کے آخری خلیفہ کے دور میں امام نعمان بن ثابت المعروف امام ابو حنیفہ کو مفتی و قاضی بننے کی پیشکش کی مگر انہوں نے قبول نہ کیا کہ حکومت کی ماتحتی میں وہ انسانی حقوق کی حفاظت نہ کر سکیں گے۔ گورنر نے انہیں ایک سو کوڑے اور سر پر دس مکّے مروائے۔ امام صاحب کا سر چہرہ وغیرہ پھول گیا مگر وہ پھر بھی نہ مانے۔ یزید بن عمر کی اچانک موت سے ان کی خلاصی ہوئی۔ بعد میں عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے سپریم کورٹ آف اپیل کے چیف جسٹس بننے کی پیشکش کی۔ انکار پر قید کر دیا پھر دس مکّوں اور سو کوڑوں کی سزا دی۔ آخری کوڑا جان لیوا ثابت ہوا۔
آج کے دور میں ایسے ملا پائے جاتے ہیں کہ حکومت نے ان سے محض امریکہ کی ھدائت پر ایک غلط فتوی لے لیا ہے تاکہ اس دور کے ہلاکو جارج واکر بش کا زرخرید چیلا پرویز مشرف مسلمانوں کو صفحہء ہستی سے مٹانے میں دل کھولکر ہلاکو کی مدد کر سکے۔

Friday, May 27, 2005

آج کے مسلمان کی حالت

خودی کی موت سے مغرب کا اندرون بے نور ۔۔۔۔۔ خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذّام خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب ۔۔۔۔۔ بد ن عراق و عجم کا ہے بے عرق و عظّام خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر ۔۔۔۔۔ قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور ۔۔۔۔۔ کہ بیچ کھائے مسلمانون کا جامہء احرام

Thursday, May 26, 2005

انسانیت ؟ یا ہماری خارجہ پالیسی پر ایک کاری ضرب ؟

میں قدیر احمد رانا کا پیغام من و عن شائع کر رہا ہوں۔ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے میری 19 مئی کی گذارش پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے چنانچہ اس پر تبصرہ ہونا چاہیئے۔ مئی کے ڈان میں مستنصر حسین تارڑ صاحب کا جو کالم شائع ہوا ہے وہ 22 پاکستانی فلمو ں کے دفاع میں ہے ۔ مجھے ان فلموں سے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر اس کالم میں لکھا گیا ایک واقعہ قابلِ توجہ ہے ۔ تارڑ صاحب لکھتے ہیں استاد بڑے غلام علی خان اپنی تمام تر غربت اور کم مائیگی کے باوجود پاکستان کو دوسرے ممالک پر ترجیح دیتے تھے ۔ ایک واقعے نے ان کی سوچ کا دھارا بدل دیا ۔ ایک بار ان کے گھر میں چوری ہوگئی اور چور ان کی تمام جمع پونجی لے گئے ۔ استاد صاحب اپنے علاقے کے تھانے میں رپورٹ درج کروانے گئے ۔ تھانیدار نے ان سے کہا کہ میں مصروف ہوں ، آپ باہر انتظار کریں ۔ جب آپ کی باری آئے گی تو بلا لیں گے ۔ استاد صاحب باہر کڑکتی دھوپ میں دو گھنٹے بیٹھے پسینہ بہاتے رہے ۔ ان کا رنگ کچھ سیاہی مائل تھا جس کو پسینے نے دو آتشہ کر دیا تھا ۔ دو گھنٹے بعد وہ دوبارہ تھانیدار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شنوائی کی درخواست کی۔ تھانیدار نے پہلے انہیں دیکھا ، پھر ان کے رنگ کو ، اور پھر اپنے اسسٹنٹ کو آواز دی " اوئے پہلے اس بھینس کے کٹے کی رپورٹ لکھ ، اس کو بڑی جلدی ہے "
اس واقعے نے استاد صاحب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ اگلے ہی دن انہوں نے پاکستان کو خداحافظ کہ کر بھارت کے ایئرپورٹ پر لینڈ کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ متعلقہ صوبے کے گورنر نے ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کیا اور ان کے پیر چھوئے۔ افتخار اجمل صاحب نے فرمایا ہے کہ یہاں انسانیت سے متعلق واقعات درج کریں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اسے انسانیت میں گردانتے ہیں یا نہیں

Wednesday, May 25, 2005

ایک پہیلی

شعیب صفدر صاحب کی پہیلی کا جواب تو یہ ہے تلا نہ تھا
یعنی جوتے کا تلا نہ تھا اور سموسہ تلا ہوا نہ تھا
ایک اور ہو جائے۔ کیا خیال ہے ؟
برہمن نہایا کیوں نہیں ؟ دھوبن پٹی کیوں ؟ یعنی دھوبن کی پٹا ئی کیوں ہوئی

Tuesday, May 24, 2005

برا کون ؟ قانون یا قانون نافذ کرنے والے ؟

روشن خیال حکومت کے دور میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ابھی ایک گہرے زخم کا علاچ بھی صحیح طرح شروع نہیں ہوا ہوتا کہ ایک اور گہرا زخم لگا دیا جاتا ہے۔ ابھی چند دن کی بات ہے کہ سیالکوٹ شہر کے تھانہ میں قانون کے محافظوں نے ایک سترہ سالہ طالبہء علم کی عصمت لوٹی تھی۔ اور الٹا اس پر برے چال چلن کا مقدمہ بھی بنا دیا تھا۔ اب 17 مئی کو رات ساڑھے آٹھ بجے طاہر اور بلاّ اپنی رشتہ دار خواتین 32 سالہ صائمہ اور 15 سالہ سائرہ کو فیض آباد میں شیخوپورہ جانے والی بس کے اڈا پر چھوڑنے جا رہے تھے کہ فیض آباد فلائی اوور کے پاس پولیس نے روک کر ان کی شناخت یعنی ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ کا ثبوت مانگا۔ پھر ان کو قریبی تھانہ لے جا کر سب انسپکٹر اقبال شاہ کے حوالے کیا جس نے ان کے بیان لینے کے بعد انہیں کمرہ میں بند کرنے کا حکم دیا۔ پولیس والوں نے انہیں سیکس سکینڈل میں ملوّث کرنے کی دھمکی دی اور باعزت چھوڑنے کے عوض دو لاکھ روپے رشوت مانگی۔ نیز ان کے باس جو کچھ تھا (گھڑیاں۔ موبائل فون۔پیسے۔ اے ٹی ایم کارڈ) سب کچھ چھین لیا۔ پھر عورتوں سے ٹیلیفون کروا کر ان کے ایک رشتہ دار احمد ٹونی کو بلوایا اور اپنا دو لاکھ روپے کا مطالبہ دہرایا۔ ٹونی نے معذوری کا اظہار کیا تو دھمکیاں دیکر اے ٹی ایم پن کوڈ معلوم کیا اور ٹونی کو پولیس کے ساتھ بھیجا کہ اے ٹی ایم سے زیادہ سے زیادہ پیسے نکال کر لائیں۔ وہ الائیڈ بنک سے رسید نمبر 00298099 کے مطابق بیس ہزار روپے اور حبیب بنک سے رسید نمبر 00364248 کے مطابق پانچ ہزار روپے لے کر آئے۔ ان کی عدم موجودگی میں پولیس آفیسر نے ایک پولیس مین کے ذریعہ سائرہ کو اپنے کمرہ میں بلایا اور زبردستی اس کی عزت لوٹ لی۔ ٹونی نے واپس آ کر پچیس ہزار روپے دئیے تو طاہر اور بلّے کواگلی صبح 4 بجے کے قریب رہا کر دیا مگر خواتین کو صبح 6 بجے تک اپنے پاس رکھا۔ جب خواتین کو رہا کیا گیا تو سائرہ کی حالت بہت خراب تھی۔ ٹونی خواتین کو اپنے گھر لے گیا مگر پھر سائرہ کو ہسپتال لے جانا پڑا جہاں سائرہ 30 گھینٹے زیر علاج رہی۔ ٹونی نے پولیس کے ڈر سے ہسپتال والوں کو اصل صورت حال نہ بتائی۔

Monday, May 23, 2005

کچھ حدود آرڈیننس کے متعلق

۔کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ زہن قبول ہی نہیں کرتا۔۔ اسلام انسان کو جستجو اور کھوج کا سبق دیتا ہے۔ اسلام کے بہت سے اصول اس وقت بنائے گئے جب سائینس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ ایسے ہی "حدود " کا معاملہ ہے۔پنجاب ہائی کورٹ میں ایک حدود کا مقدمہ کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ اس مقدمہ کی کہانی یہ ہے کہ ایک شخص کافی عرصے سے امریکہ میں نوکری کررہا ہے بیوی پاکستان میں رہتی ہے۔ بیٹی کی ولادت کے بعد جب وہ پاکستان آیا تو اسے شک تھا کہ یہ بیٹی اس کی نہیں ہے اور یہ کہ اس کی بیوی کے تعلقات کسی اور مرد سے ہیں۔ شوہر کورٹ گیا حدود کا مقدمہ چلا۔ ڈی این اے ٹیسٹ ہوا اور معلوم ہوگیا کے وہ آدمی حق پر ہے ۔۔۔ یہ نقطہ اٹھایا گیا کہ کیا ڈی این اے ٹیسٹ کو حدود کے مقدمہ میں بطور شہادت پیش کیا جا سکتا ہے ؟ ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ جب معلوم ہو گیا کہ وہ بچی اسکی اولاد نہیں ہے تو پھر حدود کا مقدمہ کیوں نہیں چل سکتا اور کیا ایسے تعلقات جائز ہیں جو ایک بند کمرے میں ہوں جہاں چار آدمی ایسے تعلقات نہ دیکھ سکیں اور یہ کہ ایسے تعلقات اگر چھپ کر ہوں تو کیا جائز ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اقتباس ختم ہوا
ہمارے ملک کے قوانین ہماری آزادی سے پہلے قابض انگریز حکمرانوں نے اپنی حکومت کو مضبوط رکھنے کے لئے بنائے تھے۔ عوام کی بھلائی کے لئے نہیں۔ ہماری آزادی کے بعد جو ترامیم ہوئیں وہ زیادہ تر مطلق العنان حکمرانوں کے دور میں ہوئیں چنانچہ اول تو قوانین ہیں ہی جابر اور بارسوخ لوگوں کی حمائت میں۔ اور جو ایسے نہیں ہیں ان کی بھی تشریح اسی طرح سے کی جاتی ہے۔ حدود کے قوانین کا صحیح نفاز اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تعذیرات پاکستان اور قانون شہادت وغیرہ میں انسانیت دوست (یا منطقی) ترمیمات نہیں کی جاتیں۔ حدود آرڈیننس تو کیا۔ کسی بھی انسان دوست قانون کا صحیح نفاذ موجودہ قانون تعذیرات پاکستان اور قانون شہادت کی موجودگی میں ناممکن ہے۔ وکیل بھاری فیس کے عوض ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرتا ہے۔ اپنے ضمیر کو وہ دولت کی گولی کھلا کے سلا دیتا ہے۔ اس لئے کسی عام آدمی کو انصاف مل جانا محض ایک اتفاق ہوتا ہے۔
ضیاءالحق کے زمانہ میں گواہی دینے کے لئے ایک حلف ضروری قرار دیا گیا تھا جو کہ قرآن شریف میں غلط کاری کے سلسلہ میں درج ہے۔ یہ حلف کچھ اس طرح تھا " میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا اور اگر میں کوئی غلط بیانی کروں تو مجھ پر اللہ کا قہر نازل ہو" یہ حلف نامعلوم کیوں ختم کر دیا گیا۔ شائد اس لئے کہ جھوٹے گواہوں کوئی ذہنی کوفت نہ ہو۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اسلام کے نظام انصاف میں نہ آج جیسے وکیل کی گنجائش ہے اور نہ آج جیسے ججوں کی۔ اسلامی نظام انصاف میں سچ کی جستجو اور انصاف کا اطلاق (جس کو کوئی جھوٹ پر مبنی نہ کہہ سکے) جج کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جج صرف وہی بن سکتا ہے جس کے انصاف پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔
پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئي ۔ اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر ۔ چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ ۔ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق ۔ عقل بے ربطیء افکار سے مشرق میں غلام

Sunday, May 22, 2005

ہوشیار۔ پاکستان ترقی کی راہ پر دوڑرنے لگا

کل یعنی اکیس مئی کو ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان والوں اور دیگر این جی اوز والوں نے لاہور میں مخلوط واک کروائی جس میں نعرے لگائے گئے کہ عورتوں مردوں کی مخلوط دوڑوں کی اجازت دی جائے۔ کیا اسی وجہ سے امریکہ۔ یورپ اور جاپان ترقی کر گیا ہے ؟ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک میں جو اصلی جمہوریت نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کا پہلا اصول ہے کہ اپنے عوام کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے جسے چاہو جان سے مار دو جسے چاہو قید کر دو یا پکڑ کے امریکہ کے حوالے کر دو اور جسے چاہو پولیس سے ڈنڈے مرواؤ۔ اس لئے پچھلی دفعہ اگر عاصمہ جہانگیر کو ڈنڈے پڑے تو کوئی نئی بات نہیں۔ پہلے بھی بہت لوگوں کو پڑ چکے ہیں۔ جو بات سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ کیا مردوں عورتوں کی مخلوط دوڑ سے معاشرہ یا قوم ترقی کی راہ پر دوڑنے لگیں گے؟ آخر اس دوڑ کا بندوبست کرنے کے پیچھے کیا راز تھا؟ کیا مخلوط محفلوں اور ناچ گانے سے قوم ترقی کر جائے گی یا تعلیم یافتہ بن جائے گی؟ آخر ان ڈراموں کا سوائے اس کے کیا مقصد ہے کہ کچھ لوگ ذاتی سرفرازی یا اپنے نام کو میڈیا میں زندہ رکھنے کے لئے ایسی حرکتیں کرتے ہیں یا پھر ان غیر ملکی اداروں کی خوشنودی کے لئے ایسا کرتے ہیں جن کے فنڈ لاکھوں ڈالر انہوں نے ہڑپ کئے ہوتے ہیں۔ اگر ان ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان والوں اور دیگر این جی اوز والوں کو واقعی مظلوموں سے ہمدردی ہے تو جو فنڈز انہیں مختلف غیر ملکی اداروں سے ملتے ہیں ان کو فضول جلوسوں۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں پارٹیوں اور ناچ گانا کرنے کی بجائے۔ لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے لئے دو چار سکول اچھے معیار اور کم فیس والے کیوں نہیں کھول دیتے؟ اگر مال خرچ نہیں کر سکتے تو جن سکولوں کالجوں میں اساتذہ کی کمی ہے ان میں سے ہر ایک وہاں باقاعدگی سے کوئی مضمون پڑھا دیا کرے۔ جن مولویوں کے خلاف یہ نام نہاد آزاد خیال لوگ ہر وقت زہر اگلتے رہتے ہیں ان میں یہ وصف تو ہے کہ کچھ مفت اور کچھ معمولی مشاہرہ کے عوض مدرسوں میں یتیم اور نادار بچوں کو کم از کم قرآن شریف اور اردو کی تعلیم دیتے ہیں اور کئی مدرسوں میں حساب۔ سائنس اور انگریزی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے شاید ان آزاد خیالوں کے متعلق ہی کہا تھا
ہاتھوں سے اپنے دامن دنیا نکل گیا ۔۔۔ رخصت ہوا دلوں سے معاد بھی
قانون وقف کے لۓ لڑتے تھے شیخ جی ۔ پوچھو تو۔وقف کے لۓ ہے جائیداد بھی

Friday, May 20, 2005

سر منڈاتے ہی اولے پڑے

میرے والد (اللہ جنت عطا کرے) کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ میں دو بہنوں کے بعد پیدا ہوا اور بڑی قدر و قیمت پائی لیکن میں ابھی ایک سال کا بھی نہیں ہوا تھا کہ بخار میں مبتلا ہوا۔ سب سے سینئر ڈاکٹر کا علاج مگر بخار اترتا نہ تھا اور میں اتنا کمزور ہو گیا کہ ہڈیوں پر صرف کھال ہی رہ گئی۔ پھر کہیں واضح ہوا کہ ٹانگ جہاں دھڑ سے ملتی ہے وہاں کوئی ابھار ہے جو کہ زہرباد (ایبسیس) کہلاتا ہے۔ جان بچانے کے لئے اس کی جراحی ضروری تھی سو کی گئی مگر جسم پر گوشت نہ ہونے کی وجہ سے زخم بھر نہیں رہا تھا چنانچہ ڈاکٹروں کی کانفرنس ہوئی۔ انہوں نے میرے لواحقین کو تو اللہ سے دعا کرنے کو کہا اور مجھے آپریشن تھیئٹر میں لے گئے۔ وہاں لوہے کی ایک سلاخ گرم کر کے زخم پر لگائی۔ سمجھ لیں کیا ہوا ہو گا۔ آپریشن کی جگہ جل گئی۔ بات وہی ہے کہ جسے اللہ رکھے اسے کون مار سکتا ہے۔ میں آج آپ کے سامنے اس کا ثبوت ہوں۔ البتہ جس جگہ گرم سلاخ لگی تھی وہاں گوشت نہیں بن سکا اور ایک کھڈا موجود ہے مگر اس کی وجہ سے مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو ۔۔۔ میری تو کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ تو کرم ہے فقط میرے اللہ کا ۔۔۔ مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے

Thursday, May 19, 2005

یاد داشت

اسلام علیکم قارئین !جیسا کہ اوپر تحریر ہے اس بلاگ میں نام تعلیم پیشہ اور تجربہ کے علاوہ فرائض اور ذمہ داریاں (صرف میری نہیں آپ کی بھی) لکھی جائیں گی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ قارئین بھی اپنے تجربات تحریر کریں گے۔ یعنی کوئی واقع جس سے انسانیت ظاہر ہوتی ہو یا انسانیت کا سبق ملتا ہو۔ آپ تبصرہ کے طور پر لکھئے۔ میں ان واقعات کو مین پوسٹ میں لے آؤں گا۔

ایسا کرنا

اب کے سال تم ایسا کرنا اپنے پچھلے بارہ ماہ کے دکھ سکھ کا اندازہ کرنا سنہری یاد یں تازہ کرنا بھولے بسرے پل لکھ لینا پھر اس بیتے ہوئے اک اک پل کا اک اک موڑ کا احاطہ کرنا اور علاوہ ان کے د یکھو ساری محبتیں حاضر کرنا سارے دوست اکٹھے کرنا سارے موسم دھیان میں رکھنا پھر محتاط قیاس لگانا اگر خوشی بڑھ جاتی ہے تو پھر تم کو میری طرف سے آنے والا سال مبارک اور اگر غم بڑھ جائیں تو مت بے کار تکلیف کرنا دیکھو پھر تم ایسا کرنا میری خوشیاں تم لے لینا مجھ کو اپنے غم دے دینا

Tuesday, May 17, 2005

اسماء کی ای میل بابت بن مانس یا آدمی ۔ اور اس کا جواب

میرا ارادہ تھا کہ اس کھاتہ کو اردو ہی میں رکھوں گا مگر ایک تو اسماء نے انگریزی لکھ بھیجی دوسرے میرا جواب ذرا لمبا ہو گیا اور میری اردو لکھنے کی رفتار ابھی بہت سست ہے دیگر میں نے محسوس کیا ہے کہ بہت سے اردو بلاگ رکھنے والے اور پڑھنے والے صحیح طرح اردو نہیں جانتے۔ چنانچہ جواب بھی انگریزی میں لکھ دیا۔ اصول کی خلاف ورزی پر معذرت خواہ ہوں۔ Assalamo alaykum w.w.! Well, as far as comment to ur post about evolution is concerned, i would surely give a detailed answer as my papers would end on 27th :) Well, i was just wondering do u have any Ahmadi in ur social circle? If yes, then U can ask him for a book "Revelation, Rationality, Knowledge and Truth" By: Hadhrat Mirza Tahir Ahmad. If you can borrow this book, i'm sure u'll be greatly delighted to read the book. Wassalam & Take care Allah Hafiz ASMA My Reply Thank you for your e-mail and your nice guidance on recommending a book. By chance I have already read (not the recommended book but) many books that describe views of people who call themselves Ahmedia. The first discussion I had about it was in 1955 with a student who was Ahmedia. In my young age (including college life), I have been writing articles effectively refuting false claims of the so-called Ahmedia community. You must be knowing the name of Roshan Din Tanvir who remained editor of Al-Fazal the news paper of your community. I lived for a month with his one son and three daughters at 3-Maclagen Road, Lahore in 1953 or so. In those days Roshan Din Tanvir was at Rabwah. The adjoining apartment was office of Al-Fazal and library. I had access to the library. So I am one of the very few Muslims in Pakistan who were lucky to have that opportunity. There-after Allah was kind to provide me chance to know more about beliefs of followers of Mirza Ghulam Ahmed through my Ahmedia friends at Engineering College, Lahore. From that study: I know that your community does not believe that Hazrat Adam, AS, was the first human being but only the first Nabi saying that humans were already there. Also, your community does not believe that Hazrat Eisa, AS, was lifted to heavens but believes that he died and is buried some-where in Kashmir. I also know something that you may not be knowing that nearly all the followers of Mirza Ghulam Ahmed signed a memorandum and sent that to Ruler of Great Britain in early 1947 which stated that followers of Mirza Ghulam Ahmed were not of the same belief as followers of Muhammad Ali Jinnah, as such should be counted as separate community and Qadian (Gurdaspur) should be given to them like Vatican City. This effort resulted in changing of demarcation line of India and Pakistan, and Gurdaspur was given to India because subtracting the followers of Mirza Ghulam Ahmed from the Muslims and adding them to non-Muslims, Muslim majority of Gurdaspur became marginal and eased British Rulers hands to favour Jawahar Lal Nehru who was supported by wife of Viceroy, Lord Mount Batten. This clever action of followers of Mirza Ghulam Ahmed proved cancerous for Pakistan in the form of Jammu & Kashmir dispute. Quaid-i-Azam was fully confident that state Jammu & Kashmir will even geographically be part of Pakistan because it would be surrounded by Pakistan territory. It was a shock to every Muslim of India when a few days after 14th August, 1947, Redcliff award (of partition) was announced and that showed Gurdaspur (a Muslim Majority area) in India. The result was that India entered her armed forces in to Jammu & Kashmir through Gurdaspur. Having done all this, I fail to understand, why followers of Mirza Ghulam Ahmed came over to Pakistan and what their leaders Tahir and the next have been doing sitting in London, something like Altaf Hussain?

Sunday, May 15, 2005

بن مانس یا آدمی ؟

اسماء نے تبصرہ میں یہ نقطہ اٹھایا ہے But then becoming an aadmi is also not very easy!! We are homosapiens جیسا کہ میں نے شروع ہی میں اشارہ دیا تھا میں تخلیق آدم اور پھر تخلیق کائنات کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ بلکہ میں نے دس مئی کو اس کا آغاز کر دیا تھا۔ میرے خیال میں اس تقابل کا ابھی وقت نہیں آیا تھا مگر پانچ مئی کو اسماء کے مندرجہ بالا تبصرہ کی وجہ سے میں نے سوچا وقتی طور پر اس کے متعلق مختصر سا لکھ دیا جائے اور سب کو اس پر رائے دینے کا موقع فراہم کیا جائے۔ علم حیاتیات کے نظریات امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے تو ٹھیک ہیں مگر بنائے ہوئے آدمی کے ہی ہیں۔ انسان غلطی بھی کر سکتا ہے اور یہ نظریات کل کلاں تبدل بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ان کو آفاقی حقیت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اب ذرا غور کیجئے ہو مو سیپیئنز کے معنی پر
Homo sapiens is a Latin for “knowing man” : a bipedal primate belonging to the super family of Hominoidea, with all of the apes: chimpanzees, gorillas, orangutans, and gibbons. اگر وقتی طور پر اس نظریہ کو صحیح تصوّر کر بھی لیا جائے تو یہ سلسہ ڈارون کے نظریہ کے مطابق جاری رہنا چاہئے تھا اور پچھلے ایک ہزار سال میں لوگ کچھ بن مانسوں کو آدمیوں کی شکل اختیار کرتے ہوئے ضرور دیکھتے اور یہ انتہائی اہم خبر تحریر میں آ جاتی اور آج بطور عملی ثبوت موجود ہوتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس لئے یہ نظریہ محض مفروضہ ہے اور از خود ہی غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آدمی اگر پہلے بن مانس تھا تو بن مانس پہلے کیا تھا ؟ یہ لمبی بات ہے چنانچہ پھر کبھی سہی۔ علامہ اقبال نے آدمی کی خصلت کو خوب بیان کیا ہے۔ تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں ۔۔۔۔۔ انسان کی ہر قوّت سرگرم تقاضہ ہے اس ذرّے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم ۔۔۔۔۔ یہ ذرّہ نہیں ۔ شاید سمٹا ہوا صحرا ہے چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی ۔۔۔۔۔ یہ ہستی دانا ہے ۔ بینا ہے ۔ توانا ہے عجب بات یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ زندگی میں کسی چیز کے متعلق اس کے بنانے والے کی فراہم کردہ معلومات کو سب سے زیادہ معتبر سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق عمل کرتے ہیں تو پھر آدمی کے سلسہ میں ہم آدمیوں کے خالق کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب میں آپ لوگوں بالخصوص اسماء سے چاہتا ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے آدمی کی پیدائش کو واضح الفاظ میں قرآن الحکیم کے ذریعہ ہم تک پہنچا دیا ہوا ہے۔ اگر حوالے چاہیئں تو میں حاضر ہوں

کیا ہم زندہ ہیں۔۔۔۔۔؟ ؟ ؟

گذ شتہ جمعہ مسجد سے واپسی پر راستہ میں ایک خوش بوش نوجوان نے مجھے چار صفحوں کا ایک پرچہ تھما دیا جس کا عنوان تھا " کیا ہم زندہ ہیں ۔ ۔ ؟ " اس پرچہ کی 74 سطور میں سے چند یہاں نقل کر رہا ہوں۔ نائن الیون کا بدلہ لینے کے بہانے بے شمار معصوم مسلمانوں کے خون سے ہولی کھلنے اور دو مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے باوجود جب امریکہ کا غصہ ٹھنڈ ا نہ ہوا تو دہشت گردی کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولا گیا اور ہم نے اس میں تعاون کرتے ہوئے تن من دھن سبھی کچھ بیچ ڈالا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سینکڑوں جوانوں کو ہم نے چند ڈالروں کے عوض پنجروں میں بند کرنے کے لئے گوانتا ناموبے بھیج دیا اور اجازت دی کہ جاؤ امریکہ ان سے وہی سلوک کرو جو قریش مکہ نے بلال۔ یاسر یا عمّار بن یاسر ( رضی اللہ عنہم) سے کیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اکیسویں صدی کے شایان شان بننے کے لئے بے حیائی کو روشن خیالی کے نام پر ترویج دی۔ مذاکروں میں اسلام اور نظریہ پاکستان کی ہم نے دھجیاں بکھیریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمان اور اسلام کا لا متناہی سلسلہ ہائے بے حرمتی چلتے چلتے بات یہاں تک پہنچی کہ امریکہ نے قرآن پاک کے نسخے پھاڑنے۔ غشل خانوں کے فرش پر بچھا نے اور فلش میں بہانے کی جسارت کر لی۔ سوا ارب مسلمان ۔۔ ؟ خس و خاشاک کی مانند ۔۔ جھاگ کی مانند ۔۔ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حقیر اور بے وقعت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اپنی قوم سے بمشکل نیوز ویک چھپایا کہ کہیں انہیں قرآن مجید کی بے حرمتی کی خبر نہ لگ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرچہ کے آخر میں شعر ہیں۔ اٹھو کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں اس چمن کو سبق آئین نو کا دے کر قطرہء شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں شمع کی طرح جئیں ہر جگہ عالم میں خود جلیں۔ دیدہء اغیار کو بینا کر دیں

Saturday, May 14, 2005

تبصروں کے جوابات میں تاخیر کی معذرت

اسماء۔ نبیل۔ عبداقدیر۔ جہانزیب اور سائرہ عنبریں۔ ! دیر سے رجوع کرنے کی معذرت ۔ بہر حال دیر ہونا اندھیر ہونے سے بہت بہتر ہے۔ آپ سب کا شکریہ میری حوصلہ افزائی کرنے کا۔ دیر کا سبب یہ ہوا کہ یہ کھاتہ بناتے ہوئے میں نے ایک غلطی کر دی تھی جس کے باعث ایک تو آپ کے تبصرے تاخیر سے شائع ہوئے دوسرے مجھے ان کی اطلاع نہ ہوئی۔ آج میں کھاتہ دوہرا رہا تھا کہ میں نے آپ کے تبصرے دیکھے۔ الحمدللہ۔ غلطی مل گئی اور ٹھیک کر دی ہے۔ انشا اللہ آئندہ کوتاہی نہیں ہوگی۔ اس کو میں اصلی کھاتہ میں لکھ رہا ہوں تا کہ سب کو آسانی سے پتہ چل جائے۔ اب تبصروں کا مختصر جواب: اسماء: آپ نے اہم نقطہ اٹھایا ہے اس کے متعلق میں اصلی کھاتہ میں لکھو گا انشا اللہ جلدی۔ نبیل: آپ کے تبصرہ کا جواب زکریّا نے میرے پڑھنے سے بھی پہلے دے دیا۔ مزید کوئی مشورہ ہو تو ضرور تھوڑا وقت نکالیں۔ جہانزیب: والدین کا فرض ہے کہ اولاد کو انسان بنانے کی کوشش کریں۔ اس لئے اولاد کو چاہیئے کہ جلدی سے جلدی انسان بن جائے۔ ہا ہا ہا ! عبداقدیر: کھاتے کی پسندیدگی کا شکریہ۔ آپ نے پولینڈ کے بچے کی دلچسپ کہانی لکھی ہے۔ سائرہ عنبرین: میری والدہ کے لئے نیک دعا کا شکریہ۔ شیخ سعدی ایک مفکّر تھے۔ انہوں نے نہائت سادہ زندگی گذاری اور آدمیوں کو انسان بنانے کی کوشش کی۔

Friday, May 13, 2005

پاس نہیں ہوا۔ فرسٹ آیا ہوں

جموں توی ریاست جموں کشمیر کا ایک شہر ہے جو ریاست کا موسم سرما کا دارالخلافہ ہے اور دریائے توّی کے کنارے پر آباد ہے۔ نام کی مثال جرمنی کے شہر " ڈوسل ڈارف ام رائن " جیسی ہے جو دریائے رائن کے کنارے آباد ہے۔ ریاست جموں کشمیر میں تعلیم کا نظام اور معیار بہت عمدہ تھا اور سوائے دو مدرسوں کے تعلیم تقریبا مفت تھی ۔ ایک مدرسہ جموں توّی میں تھا " ماڈل اکیڈمی" اور ایک سرینگر میں " برن ہال" ۔ 1947 میں برن ہال کو ایبٹ آباد (پاکستان) منتقل کر دیا گیا اور ایو ب خان کے دور میں اس مدرسہ کو پاکستان آرمی نے فتح کر لیا۔ جی ہاں بالکل ایسے ہی جیسے چار مرتبہ پاکستان کو فتح کیا (ایوب خان۔ یحی خان۔ ضیا الحق اور پرویز مشرّف نے) جموں کا پرنس آف ویلز کالج (سرکاری) عمدہ تعلیمی معیار کے باعث پورے ہندوستان میں مشہور تھا۔ میں ماڈل اکیڈمی میں پڑھتا تھا۔ اس مدرسہ میں تین سال نرسری کے پھر سات سال جو سات سٹینڈرڈ کہلاتے تھے۔ سیونتھ سٹینڈرڈ کے آخر میں " او لیول" یا "میٹرک" کا امتحان دے سکتے تھے۔ 1946 میں میں نے فرسٹ سٹینڈرڈ کا امتحان دیا۔ میری پھو پھی کی بیٹی جو مجھ سے آٹھ سال بڑی ہیں نے مجھے بتایا کہ جب میں فرسٹ سٹینڈرڈ کا نتیجہ سن کر گھر لوٹا تھا تو میرے چہرے پر کو ئی خوشی نہ تھی۔ پوچھنے پر میں نے بتایا تھا " محلہ میں رہنے والے میرے تینوں ہم جماعت پاس ہو گئے ہیں" پوچھا گیا " لیکن تمہارا نتیجہ کیا رہا ؟" میں نے منہ بسورتے ہوے بتایا " میں فرسٹ آیا ہوں"۔ ہاں جی تو لگائیے قہقہہ میری بیوقوفی پر یا داد دیجئے میری معصومیت کی

Wednesday, May 11, 2005

ڈھونڈ نے والا ستاروں کی گذرگاہ کا

آپ جانتے ہی ہیں کہ خالق حقیقی نے ایک پتلا بنایا پھر اس مین روح پھونکی تو وہ متحرّک ہو گیا۔ آپ پوچھتے ہیں روح کیا ہے تو حناب یہ تو خالق ہی جانے۔ بڑے بڑے ناموں والے سائینسدان تھک ہار کے خاموش ہو گئے۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہون کہ اگر خود کو کچھ معلوم نہ ہو تو دوسرے کی بات مان لینا چاہیئے۔ آپ نے سنا ہو گا۔ " نکل جاتی ہے جب خوشبو ۔ تو گل بے کار ہوتا ہے " مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ روح نکل جائے تو جسم بے کار بلکہ بالکل بے کار ہوتا ہے۔ آپ نے تو مجھے پٹڑی سے اتار دیا۔ ہاں تو روح پھونکی اور ایک انسان معرض وجود میں آیا۔ یہ تھے حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان۔ (کچھ لوگ حضرت آدم علیہ السلام کو پہلا نبی مانتے ہیں پہلا انسان نہیں وہ اور بھی بہت کچھ نہیں مانتے۔ بہر کیف اس سے میری صحت پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا) پھر خالق نے اس نر میں سے ایک مادہ انسان کو پیدا کیا۔ سارے انسانوں یا آدمیوں کو انسانوں کے اس جوڑے کی اولاد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ فرشتوں نے بھی کہا تھا " ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا آپ ( اللہ ) نے ہم کو دے دیا ہے " ذرا غور کیجیئے کہ آدمی ہر دور میں بہت کچھ جاننے کے دعوے کرتا آۃیا ہے اور کے دور میں تو اتنے اونچے دعوے ! ! ! آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟ میے خیال میں علامہ اقبال نے کچھ صحیح کہا ہے ۔ ملاحظہ ہو
ڈھونڈ نے والا ستاروں کی گذ ر گاہ کا ۔۔۔۔۔ اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا ۔۔۔۔۔ آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا ۔۔۔۔۔ زندگی کی شب تاریک کو سحر کر نہ سکا

Tuesday, May 10, 2005

انسان اور کتا

شیخ سعدی نے گلستان سعدی لکھی یہ ذومعنی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتاب میں نے جب پہلی بار پڑھی تو میں آٹھویں جماعت میں تھا۔ اس وقت مجھے وہ بچوں کی کہانیاں لگیں مگر آدھی صدی گزرنے کے بعد آج میں سوچتا ہوں کہ یہ کہانیاں ہر عمر کے آدمیوں کے لۓ ہیں اور ان کو پڑھ کر آدمی انسان بن سکتا ہے۔ آپ فالحال مندرجہ دو کہانیاں پڑھئیے۔ ایک درویش کے پاس سے ایک بادشاہ کا گذر ہوا۔ درویش کے پاس اس کا کتا بیٹھا تھا۔ بادشاہ نے مذاق کے طور پر پوچھا " آپ اچھے ہیں یا آپ کا کتا ؟ "۔ درویش نے جواب دیا " یہ کتا میرا کہنا مانتا ہے اور میرا وفادار ہے۔ اگر میں اپنے مالک کا وفادار رہوں اور اس کا کہنا مانوں تو میں اچھا ورنہ یہ کتا مجھ سے اچھا ہے "۔ ایک آدمی کو کتے نے کاٹ لیا۔ درد سے اس کے آنسو نکل آۓ۔ اس کی کمسن بچی اسے کہنے لگی " بابا روتے کیوں ہو۔ کتا آپ سے بڑا تو نہیں ہے۔ آپ بھی اس کو کاٹ لیں"۔ آدمی نے کہا " بیٹی ٹھیک ہے کہ کتا مجھ سے بہت چھوٹا ہے مگر میں انسان ہوں اور انسان کتے کو نہیں کاٹتا "۔

Monday, May 09, 2005

ایک دوست نے ایک لطیفہ بھیجا ہے امید ہے آپ محظوظ ہوں گے

80 years old Arab American man, living close to New York City for more than 50 years, love potatoes and wants to plant potatoes in his garden, but he is alone, old and weak.His only son is working in Paris, so the old man sends him an e-mail. He explains the problem: "My beloved son, I am very sad because I can't plant potatoes in my garden. I am sure, if only you were here, you would have helped me and dug up the garden for me. I love you: Your father." The following day, the old man receives a response e-mail from his son: "My beloved father, please don't touch the garden. It's there that I have hidden 'THE THING'. I love you too-- Ahmed." At 4 pm same day the US Army, the Marines, the FBI and the CIA visit the house of the old man, take the whole garden apart, search every inch, but can't find anything. Disappointed, they apologize and leave the house. O the third day, the old man receives another e-mail from his son: "My beloved father, I hope the garden is dug up by now and you can plant your potatoes. That's all I could do for you from here on such short notice.I love you--Ahmed."

میری امی میری جنت

میں شاعر تو نہیں مگر کہتے ہیں جب دل پر چوٹ پڑتی ہے تو تار خود بجنے لگ جاتے ہیں ۔ میری والدہ محترمہ 2جون سن1980 کو اچانک انتقال کر گئیں میں ملک سے باہر تھا۔ اطلاع تاخیر سے ملنے کے باعث جنازہ میں شرکت سے محروم رہا۔ جون 1980 میں اک ننھا سا بچہ تھا ۔۔۔۔۔ میں کچھ بہی کر نہ سکتا تھا مگر میں تجھ کو پیارا تھا ۔۔۔۔۔۔ تیری آنکھوں کا تارہ تھا خود جاگتی مجھے سلاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ میری امّی میری امّی سوچا تھا
نہ ہو گی تجھ میں جب طاقت ۔۔۔۔۔۔ رکھوں گا تجھ سے میں الفت دوں گا تجھ کو بڑی راحت ۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹھاؤں گا میں تیری خدمت جو خدمت تو اٹھاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری امّی میری امّی مگر یک دم روٹھ کے تو چلی گئی ۔۔۔۔۔۔ اس فانی دنیا سے جاوداں دنیا نہ خدمت تو نے مجھ سے لی ۔۔۔۔۔۔۔ نہ میں کندھا دے سکا تجھ کو کہاں ڈھونڈوں تیری ممتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری امّی میری امّی مقام آخرت تیرا ہے جنت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دنیا میں تھی تو میری جنت جو نہ دے سکا میں تجھ کو ۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھول تیری لحد پہ برساتا ہوں اپنی بیچارگی پرآنسو بہاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ میری امّی میری امّی تیری قبر کے سرہانے تھا بیٹھا ..... تیری روح آ کے گذر گئی پھیلی چار سو مہک گلاب کی ۔۔۔۔۔۔۔ میری روح معطّر ہو گئی نہ تجھے دیکھ سکا نہ بول سکا ۔۔۔۔۔۔۔ میری امّی میری امّی تیری دعاؤں سے جیتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ تیری دعاؤں سے پھلتا تھا تیری دعاؤں کے بل بوتے ۔۔۔۔۔۔ میں کسی سے نہ ڈرتا تھا اب بز دل بن گیا ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری امّی میری امّی اب صبح سویرے کون جگائیگا ۔۔۔ آیات قرآنی مجھے کون سناۓ گا تحمل و سادگی کون سکھاۓ گا ۔۔۔۔۔ تجھ بن کچھ بھی نہ بھاۓ گا
وللہ مجھے اپنے پاس لے جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ میری امّی میری امّی

Saturday, May 07, 2005

کیا ہم انسان بننا چاہتے ہیں ؟

پچاس سال پہلے اگر کوئی دوست یا ساتھی تنگ کرتا تو "انسان بنو بھئی" کہنے سے وہ رک جاتا ۔ اگر کوئی بچہ تنگ کرتا تو
انسان بنو یا انسان کا بچہ بنو" کہنے سے وہ ٹھیک ہو جاتا ۔ آجکل کے زمانہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ " تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تو گفتار وہ کردار ۔ تو ثابت وہ سیّا رہ گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا علامہ اقبال
ملاحظہ ہو سنسرشپ کا نیا طریقہ ۔ کلک کیجئے
http://www.nawaiwaqt.com.pk/urdu/daily/may-2005/07/idarati1.php#1

Friday, May 06, 2005

انسان یا آدمی - Man / Woman or Human being

تو جناب آپ نے دیکھا میرا دیا گیا نام اور خاندانی نام ! مگر میرا ایک اور نام ہے جوآپ سب کا بھی ہے وہ ہے۔ ہیں کیا کہا ؟ "انسان ؟" ہاں۔ پیدا تو انسان ہی ہوتا ہے مگر پھر انسان بننا پڑتا ہے اور اس کے لۓ محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے "آدمی" کہا جاۓ تو صحیح رہے گا یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد. ۔کیا خیال ہے ؟ So, you have read my given name and family name ! But I have another name common with all of you and that is; what you said ? “Human being ?” Yes, human being is born but, latter, one has to become human being and for that effort in needed. So, better say descendant of Adam or just man or woman. What do you think ?

Thursday, May 05, 2005

بسم اللہ الرحمن الرحیم With the name of Allah The Beneficent The Merciful

میں نے یہ کھاتہ (انگریزی میں بلاگ) شروع کیا ہے۔ سب کو دعوت ہے کہ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں حدود کا تعین اوپر روزنامچہ کی تفصیل میں کر دیا گیا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آداب کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھئے۔ I have started this blog and invite all of you to give your views / comments within the parameters laid down in the description above. You are requested to ensure sanctity of the blog. ‌میرا نام افتخار اجمل کسی حساب دان نے تجویز کیا تھا۔ کہتے ہیں اگر عربی کے حروف ابجد جمع کۓ جائیں تو میری پیدائش کا سال بنتا ہے۔ رہا میرے خاندان کا نام بھوپال تو یہ ایک لمبی کہانی ہے مگر میں بالکل مختصر بتاتا ہوں۔شروع میں تو ہم نے سمجھا کہ اس کا تعلق ریاست بھوپال سے ہو گا اور اس سلسلہ میں کچھ مدبر لوگوں نے جن میں آخری نواب بھوپال کے بہنوئی بھی شامل تھے ہمیں باور کرایا کہ ہم ریاست بھوپال کے اصلی وارثوں میں سے ہیں اور راجہ بھوجپال کی اولاد میں سے ہیں جو کہ راجہ جے پال کا بھائی تھا (جے پال کو محمود غزنوی نے شکست دی تھی) مگر تاریخ میں کہیں نہیں کہ جے پال کا کوئی بھائی بنام بھوجپال تھا۔ بالآخر مجھے چالیس سال کی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ ہمارے آباؤ اجداد قطب الدین ایبک سے بھی پہلے ہندوستان آۓ۔ وہ اس وقت مسلمان تھےاور ہندوستان میں بے آباد زمینوں کو کاشت کے قابل بنایا جس سے خوب اناج پیدا ہوا۔ چنانچہ ہندوستان کے باسیوں نے انہیں بھیئوں پال یعنی زمین کو پالنے یا آباد کرنے والا کہنا شوع کر دیا۔ بعد میں یہ مختصر ہو کر بھوپال بن گیا۔